ماہ ذی الحجہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے۔ رمضان المبارک کے بعد سب سے زیادہ اہمیت اس مہینے کو حاصل ہے۔ اس ماہ کا پہلا عشرہ اجر و ثواب کے اعتبار سے عام دنوں کے مقابلے میں بہت اہم ہے۔ سورہ فجر میں اللہ تعالیٰ نے ولیال عشر کہہ کر دس راتوں کی قسم کھائی ہے اور ان دس راتوں سے مراد ذو الحجہ کے ابتدائی دس ایام ہیں۔ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص ذکر کرنے کا حکم دیا ہے ان دنوں میں کیے جانے والے نیک اعمال اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ محبوب ہیں حتی کہ جہاد فی سبیل اللہ جیسا افضل عمل بھی ان دنوں میں کیے گئے اعمال سے بڑھ کر نہیں ہے۔
سنن ابو داؤد میں حدیث مبارک ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کسی بھی دن کیا ہوا عمل اللہ تعالیٰ کو ان دنوں (کے عمل) سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، مگر وہ شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے۔‘‘
اسی طرح مسند احمد میں ایک حدیث موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کوئی دن اللہ تعالیٰ کے ہاں ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل اللہ تعالیٰ کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے پس تم ان دس دنوں میں کثرت سے تہلیل، تکبیر اور تحمید کیا کرو۔‘‘
صحیح ابن حبان میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ فضیلت والے دن یوم النحر(قربانی کا دن) اور یوم القر (گیارہویں ذی الحجہ قیام منی) ہیں۔ یہ اہل ایمان کے لیے نیکیاں کر کے اجر و ثواب حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ ان دنوں میں کثرت کے ساتھ تہلیل (لا الٰہ الا اللہ) تکبیر (اللہ اکبر) تحمید (الحمد للہ) پڑھنا بہت اجر کا باعث ہے۔
علاوہ ازیں فرض عبادت کے ساتھ نفلی نمازوں خصوصاً تہجد، اشراق اور چاشت کی نماز کا اہتمام پورے خشوع و خجوع کے ساتھ کرنا چاہیے۔ عید کی نماز ادا کرنا، اخلاص نیت کے ساتھ قربانی کرنا اور اس کا گوشت خود بھی کھانا اور عزیز و اقارب اور غربا تک پہنچانا ان ایام سے مکمل طور پر مستفید ہونا ہے۔
۱۰ ذی الحجہ کو یوم النحر (قربانی کا دن) کہتے ہیں۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رضا و خوش نودی حاصل کرنے کے لیے بہ قدر استطاعت قربانی کرنا اور ریاکاری فخر و تکبر سے بچنے کا اہتمام کرنے کی بہت قدر و منزلت ہے۔
سورہ حج میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ کو قربانی کا گوشت اور لہو نہیں پہنچتا بلکہ کہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ۔‘‘
سورہ انعام میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’کہہ دیجیے کہ میری نماز اور قربانی اور میری زندگی اور موت سب کی سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘
تمام نیکیوں کی طرح عید قربان کا بھی ایک مقصد خاص ہے او روہ ہے اللہ کی راہ میں مخلص ہوکر جانور کا ذبح کرنا۔ رسول اللہﷺ نے اس حوالے سے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کو تمہارے جانور کا نہ تو لہو پہنچتا ہے اور نہ ہی گوشت پہنچتا ہے، بل کہ صرف اور صرف تمہار ااخلاص اللہ تعالیٰ کو پہنچتا ہے۔‘‘
قربانی کرنا فرض قرار دیا گیا ہے۔ حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں:
’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ۱۰ سال قیام کے دوران ایک مرتبہ بھی قربانی ترک نہیں کی۔ باوجود اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بہ وجہ قلت طعام کئی کئی مہینے چولھا نہیں جلتا تھا۔‘‘
قربانی کی اہمیت کا اندازہ حضرت ابو ہریرہ سے مروی اس حدیث پاک سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو آدمی قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں داخل نہ ہو۔‘‘lll