ایک مسلمان کے لیے یہ بڑے اعزاز اور تکریم کا مقام ہے کہ جب اسے قرب الٰہی حاصل ہو جائے۔ مگر قرب الٰہی کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت و اطاعت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں بار بار فرماتے ہیں: ’’اطیعوا اللّٰہ واطیعوا الرسول‘‘، ’’اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔‘‘ کسی بڑی ہستی کی اطاعت کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں اس کے بارے میں کچھ بنیادی باتوں کا علم ہو۔ کیونکہ ہم دنیا میں بھی کچھ وجوہ کی بنا پرہی کسی ہستی کی عزت و تکریم کرتے ہیں۔
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جب ہم کسی کے نام کے ساتھ بہت سی ڈگریاں لگی دیکھتے ہیں تو اس سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کسی نام کے ساتھ وزیر یا جنرل کا لاحقہ ہو تو ہم قوت رکھنے کی وجہ سے اسے عزت دیتے ہیں۔ پھر جو ہم پر احسان کرے، اس کے شکر گزار ہوتے ہیں اور جس پر احسان کریں، اس کو بھی عزت دینے کا یہ انداز ہے۔ اسی طرح پْر کشش اور جاذب نظر انسان سے بھی لوگ عموماً مرعوب ہو جاتے ہیں۔
علم
’’علم سب سے افضل عبادت ہے، اگر وہ رب تعالیٰ کی معرفت کا علم ہو اور اس کے اور مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کا علم ہو۔‘‘ (الزمر: ۹، مجادلہ: ۱۱) ’’علم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حیثیت کا ذریعہ بنایا ہے۔‘‘ (فاطر،۸۲) ’’ اور اس نے سکھا دئیے وہ سب نام (جو چاہے) پھر پیش کیا ان کو فرشتوں پر اور فرمایا (اللہ نے) مجھے ان چیزوں کے نام بتائو، اگر تم سچے ہو۔ (فرشتے) کہنے لگے، تْو پاک ہے، ہمیں علم نہیں ہے، بے شک تْو ہی خوب جاننے والا، حکمت والا ہے تب اللہ نے فرمایا اے آدم! انھیں ان کے نام بتائو۔
(جو انھوں نے بتا دئیے تب اللہ نے) فرمایا، کیا میں نہیں کہا تھا کہ بے شک میں ہی جانتا ہوں غیب کی (باتیں)، آسمانوں اور زمین کی اور میں جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔ اور جب ہم نے کہا فرشتوں سے سجدہ کرو آدم کو، تو سب نے سجدہ کیا۔‘‘
(سورہ بقرہ،۳۳، ۲۳، ۱۳) یہ ساری آیات قرآن ہمیں علم کی اہمیت سے آگاہ کرتی ہیں۔ حضرت آدمؑ کو جو تکریم ملی یعنی انھیں فرشتوں نے بھی سجدہ کیا، اس کا باعث علم ہی تھا۔ فرشتے ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تعریف، تقدیس اور تسبیح میں لگے رہتے ہیں، مگر انھیں کئی چیزوں کا علم نہیں ہوتا۔ انھیں صرف انہی چیزوں کا علم ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ ان پر منکشف کر دیں۔
دوسری طرف انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا۔ اسے سارے علوم سکھائے گئے۔ پھر اْس میں تجسس کا مادہ رکھا گیا کہ وہ ان کے علاوہ بھی غور و فکر کرے۔ اس کے باوجود خدا ہی کی ذات ہے جو عالم غیب ہے۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اگلے لمحے کیا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ آیت الکرسی میں فرماتے ہیں کہ اللہ کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا، وہی رب جو ذرہ سے کمال تک پہنچاتا ہے۔قطرہ سے علقہ اور پھر ایک مکمل انسان کا روپ بناتا ہے۔
وہی رب جانتا ہے کہ ہمارے آگے پیچھے، دائیں بائیں اور مستقبل میں کیا ہو گا؟ اگر ہمیں مستقبل کا علم ہو جائے تو ہم اسی پریشانی میں رہیں گے کہ کل میں بیمار ہو جائوں گا یا میرے ساتھ کوئی حادثہ ہونے والا ہے۔ اسی لیے یہ ساری آگہی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہمارے دلوں کے حال جانتا ہے۔ وہ سورۂ ملک میں فرماتا ہے کہ میں ذات الصدور یعنی دلوں کے اندر تک کا حال جاننے والا ہوں۔ گویا خدا تعالیٰ ہی پوری کائنات میں سب سے زیادہ جاننے والی ہستی اور زمین و آسمان کے خالق ہیں۔ چنانچہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی عزت و تکریم اس لیے کرنی چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ علم والے ہیں۔
قوت
دنیا میں کوئی طاقت و اقتدار کا مالک ہو، تو اسے بھی خاص و عام سے عزت ملتی ہے۔ مثلاً کوئی وزیر، سرکاری افسر یا بڑا کاروباری ہمارے گھر یا دفتر آئے تو ہم اس کی خدمت میں کوئی کمی نہیں آنے دیتے۔لیکن اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ عزت کے قابل ہے… وہ خدا جو ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہے۔ وہی رب جو ایک معمولی بیج سے دیوہیکل درخت اْگا دیتا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اللہ کی رضا کے بغیرپتّہ بھی ہل نہیں سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے کہ کسی درخت کے پتے کب پیدا کرنے ہیں اور کس پر خزاں آئے گی۔ اسی رب کے ایک لفظ ’’کْن‘‘ سے سبھی اشیا وجود میں آئی ہیں۔
وہی بڑا پیدا کرتا اور سب کچھ جانتا ہے۔ اس کا کام تو یہی ہے کہ جب کسی چیز کو چاہے اور فرمائے ہو جا، تو فوراً ہو جاتی ہے۔ ‘‘(سورۂ یٰسین:۸۲) وہ خدا جو زندگی اور موت دینے والا ہے تا کہ آزمائش کر سکے کہ کس کے اعمال اچھے ہیں۔ وہ جو ایک بے معنی قطرے سے کیسے ایک انسان کی تخلیق کرتا ہے… تو کیا ہمیں اس کی قوت میں کوئی شک ہے؟ اگر کوئی شک نہیں تو ہمیں چاہیے کہ جب بھی اس رب کے سامنے جھکیں، تو شکر گزاری کی دولت سے مالا مال ہوں۔ نیز اللہ تعالیٰ کی عبادت ’’ڈیوٹی‘‘ سمجھ کر نہیں بلکہ محبت سے ادا کریں تا کہ آپ اس میں لذت اور حلاوت محسوس کریں۔
احسان
احسان کے لغوی معنی اپنی استطاعت سے بڑھ کر دینا ہے۔ دنیاوی زندگی میں جب کوئی مشکل میں یا ویسے ہی ہماری مدد کرے تو ہم اس کے شکر گزار ہوتے اور اپنے ظرف کے مطابق اس احسان کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ ذرا سوچیے، رب کائنات کے ہم پر کس قدر احسانات ہیں۔ شاید ہم انھیں شمار ہی نہیں کر سکتے۔ سورۂ رحمن میں اللہ جلِ شانہ فرماتے ہیں:
’’تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے تو انسان کو تخلیق کر کے احسان فرمایا۔ پھر اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا۔ بعدازاں اسے علم سکھایا اور فرشتوں سے سجدہ کرایا۔ اس انسان کو بولنا اور اپنے جذبات عیاں کرنا سکھایا۔
اللہ تعالیٰ نے آدم و حوا کو جنت بھی دکھائی اور کہا کہ یہاں ہر چیز کھا پی سکتے ہو مگر اس درخت کے قریب نہ جانا۔ لیکن شیطان کو آدم کی عزت افزائی پسند نہ آئی اور اس نے آدم کو بہکا دیا۔ شیطان نے سب سے پہلے حیا کو ختم کیا اور اسی لیے آدم و حوا کا ستر کھول دیا۔ مگر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ہر گرم و سرد سے بچانے کے لیے کپڑا اتارا۔
اسی رب نے ہمارے شعور کے بغیر سانس جاری کیا۔ ہمارا دل بھی اسی طرح غیر شعوری طور پر دھڑکتا ہے۔ ہمیں آنکھوں کی نعمت دی تا کہ ہم دنیا کی خوب صورتی سے لطف اندوز ہوسکیں۔کسی اندھے سے پوچھئے کہ آنکھیںکتنی بڑی نعمت ہیں۔ چہرے میں ناک، کان بھی بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ دنیا کی فیشن انڈسٹری کسی چہرہ کو سنوارنے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ ہمیں ۵ وقت کے وضو کرنے سے ایسا نور عطا فرماتا ہے کہ کوئی دیکھے تو دنگ رہ جائے۔ یہ سارے اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں جو بغیر قیمت کے اللہ نے ہمیں مفت عطا کیے۔ اسی لیے نہایت عاجزی سے ہمیں اللہ تعالیٰ کا احسان مند ہونا چاہیے۔
شکر گزاری
جو لوگ خوشی، غمی میں ہمارے کام آئیں اور دامے درمے سْخنے ہماری مدد کریں، ہم قدرتاً ان کے شکر گزار ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ہمیں سب سے زیادہ اللہ پاک کا شکر گزار بننا چاہیے۔ وہ ہم پر احسان در احسان کرتا رہتا ہے۔ مثلاً ہمیں ہر طرح کا رزق عطا کرتا ہے۔ مال، علم، عمر، صحت، بولنے کی قوت، چلنا پھرنا غرض کس کس احسان کا ذکر کریں؟ اگر آپ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا بدلہ دینا چاہتے ہیں تو اسی نے خود فرمایا ہے: ’’خدا نے انس و جن کو اپنی عبادت کے لیے تخلیق کیا۔‘‘
اگر ہمیں کسی سے محبت ہو تو اسی کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر صحابہ کرام کو نبی کریمؐ سے محبت تھی۔ چنانچہ رسول کریمؐ کی محبت اور اتباع میںصحابہ کرامؓ نے خود پر ظلم و ستم تک برداشت کیا۔ حضرت بلالؓ کی مثال واضح ہے کہ انھوں نے اللہ کی محبت میں شدید ظلم برداشت کیے۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ان کی پشت دیکھی تو اس پر گوشت ہی نہ تھا۔ انھوں نے پوچھا ’’یاسیدی! آپ نے اس ظلم کا کبھی ذکر نہیں کیا؟‘‘ حضرت بلالؓ نے فرمایا ’’جب برتن خریدا جاتا ہے، تو اسے بجا کر دیکھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی میری محبت آزما رہا تھا۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے جب محبت ہو جائے تو پھر اس کا ذکر کثرت سے ہوتا ہے۔ ہم اس سے ڈرتے اور رحمت کے طلب گار بھی ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ محبت ہے لہٰذا شرک کا شائبہ نہیں ہوتا اور عبادت خوب حلاوت دیتی ہے۔
جمال
جمال خوبصورتی کو کہتے ہیں۔ ہر انسان کو حسن اور خوبصورتی پسند ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی جمال پسندکرتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ رب تعالیٰ نور السمٰوت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا جمال کائنات کی ہر شے میں دکھائی دیتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک پودے کو دیکھیے کہ اسے کس طرح نہایت توازن سے تخلیق کیا۔ انسان کو دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بھی توازن سے بنایا ہے۔ اگر ہمارے کان ہاتھی کی طرح لمبے ہوتے تو ہم مضحکہ خیز مخلوق بن جاتے۔
پہاڑ دیکھئے کہ کس طرح زمین میں ٹھونکے گئے۔ کرۂ ارض پر نہریں نکالیں، دریا بنائے اور انھیں سمندروں میں ڈالا۔ اس کے بعد ہوائوں کو موافق کیا تا کہ جہاز چل سکیں۔ پھر بخارات پیدا کیے جن سے بادل بن کر بارش برساتے ہیں۔ان سبھی اشیا کا پیدا کرنے والا رب تعریف کے قابل ہے۔ سائنس کتنی ہی ترقی کرلے، بلندی پہ پہنچ جائے، وہ فطرت میں موجود جمال اور توازن کبھی حاصل نہیں کر سکتی۔
سورۂ کہف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’دنیا کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر سیاہی بن جائے تو بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنے علم، قوت، احسان اور جمال کی اتنی مثالیں دی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ مقصد یہی ہے کہ انسان اپنے رب کی عبادت ڈیوٹی سمجھ کر نہ کرے بلکہ اس میں حلاوت کا تڑکا بھی لگا لے۔