پچھلے مضمون میں ہم نے نمازوں کے اہتمام اور تلاوت قر آن کے تحت اک چھوٹا سا عملی لائحہ عمل بتایا تھا اس امید اور یقین کامل کے ساتھ کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ اس پر عمل کرنے کی اور اپنے تقویٰ کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔چلئے تو اپنے دائرے کو بڑھاتے ہیں۔۔
پڑوسیوں ورشتہ داروں کے حقوق
رمضان وہ مہینہ ہوتا ہے جس میں رحمت و برکت صرف آسمانوں سے ہی نا زل نہیں ہوتی بلکہ ہمارے گھروں سے نکل کر پڑوسیوں و رشتہ داروں کے گھروں تک بھی جاتی ہے۔افطار کی تقسیمــ،ضرورت مند رشتہ داروں کی مدد،اور انکا احساس رمضان کا خاصہ ہے۔۔
بعد رمضان: ہم خود اپنا احتساب کریں کہ بعد رمضان پڑوسیوں کے ساتھ ہمارا کیا برتائو ہوتا ہے۔!رشتہ داروں کا حال احوال جاننے کی،انکی مد د کرنے کی کوشیش کی ہے۔؟کیا صلہ رحمی صرف رمضان تک کے لئے مخصوص ہے؟اور بہت نہیں تو کیا گھر میںپکے پکوان میں سے پڑوسیوں کے لئے حصہ نکالنا بھی ہم پر بھاری ہے!!
کیا کریں اب ہم؟۔۔حضرت محمد ؐاپنے گھر میں کھانا پکانے کے دوران شوربے کی مقدار میں اضافے کی تاکید کیا کرتے تھے تا کہ پڑوسیوں کے گھر بھیجا جا سکے۔۔تو بات یہ ہے کہ بات صرف نیت کی ہوتی ہے۔۔اگر نیت ہو اور چاہ ہو تو پھر بہانے نہیں بلکہ آئیڈیاز آتے ہیں کام کو احسن طریقے سے کرنے کے اور حقوق ادا کرنے کے۔۔
ہفتہ میں صرف دو مرتبہ کھانہ بناتے وقت ذرا کھانے کی مقدارتھوڑی بڑھادیا کریں۔۔۔اور یقینا یہ تھوڑی مقدار کسی پر بار نہیں ہوگی ۔ہر بار کسی ایک پڑوسی کے یہاں بھیج دیجیے یوں ہر ماہ آپ آسانی سے ۵پڑوسیوں اور ۳ رشتہ داروں کو بآسانی کھانا بھیج سکتی ہے[ہر ہفتہ ۲ مرتبہ یعنی ۱ ماہ میں ۸ بار]شاید یہ آپ کو عجیب لگے لیکن آپ خود فرق محسوس کرے گے صلہ رحمی انسان کے اندر بھی تبدیلی لاتی ہے۔خیر لاتی ہے۔۔
زبان کی حفاظت
رمضان۔رمضان کی بہت سی خوبصورت باتوں میں سے مجھے جو سب سے زیادہ پسند ہے وہ یہ کہ ہر کوئی زبان کو قابو میں رکھنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔۔تقریبا سب ہی اپنی قوت و برداشت کے اعتبار سے زبان کی حفاظت کرتے ہیں ۔۔جھوٹ،غیبت،بدگمانی،بد زبانی،گالی گلوچ سے خود کو بچاتے ہیں کیونکہ وہ حدیث ذہن میں رہتی ہے کہ اللہ کو ایسے روزے دار کے روزے کی کوئی ضرورت نہیں جو روزہ رکھ کر جھوٹ بھی بولے ،غیبت بھی کرے،بد زبانی بھی کرے۔۔ایسے شخص کو سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں!
بعد رمضان:۔۔۔کیا اب یہ بھی لکھنے کی ضرورت ہے مجھے!!ہم اپنے آپ کو اچھی طرح جانتے ہیں چاہے کتنی ہی معذرتیں پیش کر لیں۔۔رمضان کے بعد شیطان قید سے آزاد اور زبان بھی ہر قید سے آزاد ۔۔!!ہم جھوٹ بولنا نہیں چھوڑتے یہ جانتے ہوے بھی کہ منافقت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے!۔ہم غیبت سے دامن نہیں چھڑاتے یہ جانتے ہوے بھی کی یہ غیبت ہم سے ہماری نیکیاں چھین کر دوسروں کے نا کردہ گناہوں کا وبال ہمارے کھاتے میں ڈال دیتی ہے۔۔ہم تو بس ان لفظوں کے وقتی تاثر میں پھنسے ہوتے ہیں،اور انجام سے با خبر ہوتے ہوئے بھی آنکھ بند کر لیتے ہیں۔۔
کیا کریں اب ہم؟۔یہ سب سے مشکل taskہے ۔۔۔ہم نمازوں ،نوافل،تلاوت قرآن کا اہتمام و پابندی زیادہ آسانی سے کر سکتے ہیں زیادہ مستقل مزاجی سے ان پر جمے رہ سکتے ہیں ۔۔۔لیکن زبان کی حفاظت کرنا ایک بہت ہی مشکل،صبر آزما،اور مسلسل کام ہے۔۔اسمیں وقت بھی زیادہ لگتا ہے،محنت بھی زیادہ لگتی ہے،اور صبر بھی زیادہ لگتا ہے۔یہاں رحمٰن کے بندوں سے سابقہ ہوتا ہے جنکی قوت برداشت بھی کم ،قوت معافی بھی کم ،خامیوں کا پتلا ہے اور دوسروں پر دھڑلے سے انگلیاں اٹھاتا ہے۔۔! تو یہاں صرف ہمیں زبان پر قابو ہی نہیں رکھنا ہے بلکہ دل بھی بڑا کرنا ہے،ظرف بھی بڑا کرنا ہے،صبر بھی کرنا ہے،اور اپنے حسن عمل کو برقرار بھی رکھنا ہے جتائے بغیر۔۔۔ یقینا اور یقینا مشکل کام ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہم ایمان والے لوگ ہیں جو صرف اتنا کہنے پر نہیں چھوڑے جائینگے کہ ہم ایمان لائے اور ہمیں آزمایا نہ جائیگا!!آخر اللہ کو دیکھنا ہے کہ ہم اپنے دعوے میں کتنے سچے ہے۔۔
زبان سے جڑے گناہ اتنے عام ہوچکے ہے کہ اب احساس گناہ ہی نہیں ۔۔۔!!تو سب سے پہلے اس احساس کو بیدار کریں۔۔اُن احادیث اور قرآنی آیات کا بار بار مطالعہ کریں جن میں ان کی ممانعت ہے۔مثلا حدیث میں آتا ہے کہ منافق کی چار علامتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔۔اسطرح غیبت کے متعلق سورہ حجرات کی آیات۔۔ایک لمحہ کے لیے رُک کر سوچیے تو صحیح کہ یہ چند لمحوں کی enjoyment سے ہمارے ہاتھ کیا آرہا ہے۔۔؟یہی کہ ہماری اتنی محنتوں سے کی گئی نیکیاں صرف ہمارے ایک زبان کو ہلانے کی وجہ سے کسی اور کے حصہ میں چلی جا رہی ہے اور کسی اور کی نہ جانے کونسی بُرائیاں ہمارے حصہ میں آرہی ہے۔۔؟!!
کہیں ایسا تو نہیں کہ ماہ رمضان میں کی گئی ساری نیکیاں ہم اپنے ہی ہاتھوں سے لوگوں کو بانٹ رہے ہیں؟۔۔لوگوں کو اگر اس کی شدت کا اندازہ ہو جائے تو مجھے یقین ہے کہ غیبت کے وہ قریب بھی نہ پھٹکیں گے،پھر چاہے وہ کتنی ہی دل لبھاتی اور چٹخارے بھری کیوں نہ لگے۔۔انھیں اپنی نیکیاں زیادہ عزیز ہوگی۔۔
دیکھئے میں یہ نہیں کہ رہی کہ ان برائیوں کو ایک ساتھ نکال باہر پھینکیں گے۔۔ہرگز نہیں یہ تو بڑی غیر عملی بات ہوگی اور ممکن بھی نہیں۔۔تو دھیرے دھیرے انھیں اپنی زندگی سے نکال پھینکیں گے۔۔۔جھوٹ پر کسی چیز کی بنیاد نہ رکھیں۔۔۔چھوٹے چھوٹے ٹارگٹ بنالیں ۔۔۔شروعات غیبت سے کریں کہ اس گناہ کو ہم نے اپنی زندگیوں سے نکال پھنکنا ہے۔۔وقت کتنا لگے گا یہ قوت ارادی اور چاہ پر منحصر ہے۔۔کم از کم ایک ماہ کا وقت مقرر کر لیں کہ اب نہ آپ خود کسی کی غیبت کریں گے اور نہ کسی ایسی جگہ یاکسی ایسی محفل میں بیٹھیں گے جہاں غیبت ہو رہی ہو۔ اگر غیبت شروع ہو جائے تو معذرت کر کہ اُس جگہ سے اُٹھ جائیں۔ اگر آپ اس بات پر قادر ہیں اور یہ ہنر رکھتے ہیں تو اُٹھتے وقت حکمت کے ساتھ کوئی ایسی بات کہیں کہ لوگ سوچنے پر مجبور ہوجائیں ۔۔۔خود بھی کسی کی غیبت نہ کریں،دوسروں کے گناہوں پر پردہ ڈالیں اس اُمید کے ساتھ کہ اللہ حشر کے دن ہمارے گناہوں پر پردہ ڈالے گا۔۔جب کسی حد تک (100%نہیں مگر 80%تک تو ہو)اس کو عمل میں لاچکے ہوں تو پھر جھوٹ کو ٹارگٹ کریں اور اسطرح قدم بہ قدم رب کی طرف بڑھیں۔۔۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ بندہ بہت محنت سے قدم قدم کر کے اپنے رب کی جانب بڑھتا ہے اور پھر وہ زبان سے کوئی ایسی بات کہہ دیتا ہے کہ اُسکے اور اللہ کے درمیان مشرق سے مغرب تک کا فاصلہ ہوجاتا ہے۔
نوافل کا اہتمام
رمضان:الحمدللہ دوران رمضان نوافل کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔۔طاق راتوں میں مختلف نیتوں کے ساتھ نفل نمازوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔۔
رمضان کے بعد فرض نمازوں کی ادائیگی بھی مشکل ہوجاتی ہے تو نوافل کون ادا کرے۔۔یہ نفل نماز تو بوقت ضرورت ہی یاد آتی ہے۔کوئی پریشانی ہوجایے،مصیبت آجائے،امتحان ہو،رزلٹ آنے والا ہو،اُس وقت۔۔سچ ہے نا۔۔!!
اب ہم کیا کریں۔۔؟ کچھ بھی نہیں۔۔یقین ما نئے کچھ بھی نہیں کرنا ہے آپ کو بس چھوٹا سا ایک ٹارگٹ بنانا ہے۔۔۔۔ آپ اسے اپنے حساب سے بھی ارینج کر سکتے ہیں۔ مثال بتا رہی ہوں۔۔۔
مثلا پیر کے دن مغرب کی نماز کے بعد ۲ رکعت نفل صلوٰۃ شکرانہ پڑھ لی جائے اور اللہ کا شکر ادا کیا جائے اُسکی ہر نعمت کے لیئے۔۔اور بہت بہت شکر ادا کریں اللہ کی حمد و تسبیح بیان کریں۔۔
اب بُدھ کے دن کسی وقت صلوٰۃ توبہ پڑھیں اور پھر اللہ سے بہت بہت معافی مانگیں۔۔۔ہر ہر گناہ کی جو ظاہر ہے اور جو چھپے ہوئے ہیں۔۔اُسکی بے پایاں رحمت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔
اس طرح اب جمعہ کے دن جب دعائوں کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے نماز جمعہ کے بعد ۲ رکعت نماز صلٰوۃ حاجت پڑھ لیں اور پھر اللہ سے مدد مانگیں ۔۔اپنے کاموں میں آسانی،رحمت، و برکت کی اور وہ سب کچھ جو آپ اللہ سے مانگنا چاہتے ہیں مانگیں خیر کے ساتھ۔۔۔
کیا یہ مشکل کام ہے۔۔؟؟اور کتنا وقت لگے گا ان دو رکعت نماز کی ادائیگی کے لیے۔۔؟؟ بالکل بھی مشکل نہیں ہے بس ہمارا نفس اسے مشکل بنا کر پیش کرتا ہے۔۔ان نوافل کو اپنے معمولات میں لے کر آئیے اور پھر دیکھے کہ کسطرح اللہ کی رحمت ہم پر سایہ فگن ہوتی ہے۔۔اور دراصل بات یہ ہے کہ نماز چاہے فرض ہو یا نفل ایک مشکل کام ہے، بڑا کام ہے مگر ان لوگوں کے لئے ہرگز نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ایک دن انھیں اپنے رب سے ان اعمال کے ساتھ ملنا ہے۔۔
اور نوافل میں سب سے اہم تہجد کی نماز ہے۔ تو کوشش کرے کہ ہفتہ میں کم از کم ایک مرتبہ ہی صحیح تہجد کی نماز کا اہتمام کریں یہ تبدیلی کا آغاز ہے اور تبدیلی کی انتہاء ہے۔۔
دیگر اعضاء،آنکھ ،کان کی حفاظت
آنکھ اور کان کی حفاظت میں یوں تو بہت چیزیں آتی ہے لیکن یہاں میں بالخصوص جسکا ذکر کرنا چاہ رہی ہوں وہ ہے انٹرنیٹ اور ٹی وی جو بہت عام ہے۔۔فلمیں،ڈرامے جن میں بمشکل ہی کوئی مثبت پیغام ہوتا ہے۔ باقی سارا کا سارا فحش وگھٹیا اور اخلاق و اقدار سے پرے مناظر کے ساتھ ہوتا ہے۔۔جو نہ صرف وقت کی بربادی ہے بلکہ ذہن کو بھی برباد کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتی ۔۔۔ اور انسان جو کچھ دیکھتا ہے، سُنتا ہے اسکا دماغ اُسکی سوچیں اُسی راہ پر سفر کرتی ہے تو ذرا بتائیے کہ کسطرح ہم اپنی سوچوں کو ان سب کے ساتھ تعمیری رُخ دے سکتے ہے؟؟؟
کیا دیکھنا ہے اور کیا نہیں یہ ہمیں طے کرنا ہے۔ تفریح کے نام پر ہر غلط کام کو اپنانے سے خود کو روکنا ہے۔رمضان میں ہر گھر میں ٹی وی بند ہو جاتا ہے،گانو ںکی جگہ حمد، نعت اور ترانے سُنے جاتے ہیں۔۔کیوں؟؟اسی لیے نہ کہ ہمارے دلوں میں کہیں نہ کہیں یہ احساس ضرور ہے کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں جو گانے ہم سُنتے ہیں وہ غلط ہیں اور اللہ کو پسند نہیں۔۔۔
تو کیا وہ کام جو رمضان میں اللہ کو پسند نہیں وہ بعد میں اللہ کو پسند ہوتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟ ہرگز نہیں۔۔۔
تو اس جانب بھی توجہ دیجیے۔۔
صالح سوچ کے لیے صالح ماحول کی ضرورت ہوتی ہے جو ان چیزوں کے ساتھ پروان نہیں چڑھتا۔۔۔
دُعائوں کا اہتمام
رمضان یوں بھی دعائوں کی قبولیت کا مہینہ ہوتا ہے۔۔۔ بالخصوص دُعائوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔۔افطار سے پہلے،طاق راتوں میں،سحر کے اوقات میں۔۔مال،دولت،فیملی،صحت،مغفرت جہنم سے نجات، عذاب سے نجات،مشکلات میں آسانی، اولاد، والدین، امتحان،رزلٹ غرض ہر چیز کے لئے دعا کی جاتی ہے۔۔لیکن۔۔۔!!
بعد رمضان معاملہ حسب ضرورت ہو جاتا ہے ۔۔۔ دعائوں کاخاص اہتمام کرنا تو دور کی بات ہے فرض نمازوں کے بعد بھی صرف چند ایک عربی دُعائوں کے علاوہ ہم خاص دعا نہیں کرتے۔ ہاں اگر رزلٹ آنے والا ہو،امتحان ہو، کوئی مشکل وقت چل رہا ہو،درد یا تکلیف کا عالم ہو تو پھر ہم خاص دعا کرتے ہیں ۔۔۔ہو سکتا ہے کہ سب ایسا نہ کرتے ہوں لیکن اکثریت تو شاید یوں ہی کرتی ہے۔۔!!
کیا کریں اب ہم۔کچھ نہیں۔۔۔بس دُعا مانگیں ۔۔۔ زیادہ سے زیادہ۔۔دُعا ہی تو مومن کا ہتھیار ہے۔۔زمین و آسمان کا نور ہے۔۔اُمید ہے۔۔عبادت کا مغز ہے۔۔۔
ہر نماز کے بعد کم از کم ہم ۵ منٹ دعا کر ہی سکتے ہیں۔۔۔ایک جگہ کہیں دُعائوں کی فہرست بنا لیجیے۔۔مثلا:
فجر۔اپنے لیے اپنی ذات کے لئے،خود کو جو پریشانیاں درپیش ہیں اُن کے لئے۔۔۔
ظہر۔اپنی فیملی،اولاد،والدین،بھائی،بہن،رشتہ داروں کے لیے۔۔
عصر۔گناہوں سے معافی،استغفار،قبر کے عذاب سے پناہ،زیادہ سے زیادہ استغفار کریں۔۔
مغرب۔قیامت کی سختی سے بچنے کی دعا،جہنم کے عذاب سے بچنے کی دعا،جنت کی دعا،دجال کے فتنے سے بچنے کی دُعا
عشاء۔اُمت کے لیئے دعائیں،استغفار،قرآنی دعائیں۔۔
جمعہ کے دن دعا کا خاص اہتمام
یہ تو بس میں نے اپنے حساب سے ایک اندازہ بتایا ہے آپ اپنے حساب سے اسے کسی اور طرح بھی کر سکتے ہیں۔۔بات صرف اتنی ہو کہ دعا کا ساتھ نہ چھوٹنے پائے۔۔اللہ سے مانگے،اللہ ہی سے مانگیں، اور اس سے مانگتے ہی رہیں۔۔۔وہ عطاء کرنے کے لیے بیٹھا ہے۔۔۔وہ عطاء کرتے کرتے نہیں تھکتا ۔۔جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اُس سے ناراض ہوتا ہے۔۔۔دعا کے بنا انسان کے ہاتھ بہت خالی ہوتے ہیں۔۔اللہ سے ہدایت کی دعا مانگتے رہیں۔۔۔وہ ہر پکارنے والے کی پکار سُنتا ہے اور جواب دیتا ہے بس آپ پکارنا نہ چھوڑیں۔۔۔۔
عزیز قارئین۔۔یہ تو بس ایک پیغام تھا جسے الفظ کی زنجیروں میں ڈال کر آپ تک پہنچا دیا۔۔
رمضان کو رخصت ہوئے ۲ ماہ گزر چکے ہیں تو سوچئے کہ کہیں رمضان کے ساتھ ھمارا خیر کا جذبہ بھی تو نہیں رخصت ہوگیا؟؟!!
رمضان میں ایک ماحول فراہم کر کے ھمارے اندر تقوی کے جذبے کو اُبھارنے کی کوشش کی گئی تھی،
ایک بیج تھا جو بویا تھا اب ہمیں اسکی آبیاری کرنی ہے اسے پروان چڑھانا ہے،
چھوٹے چھوٹے عمل ہی ہیں جو ہمیں اپنے رب کے سامنے سرخرو کریں گے کہ بوند بوند دریا بنتا ہے۔۔
تو چلیے ایک practicalلائحہ عمل بنا کر دھیرے دھیرے خود کو اتنا مضبوط بنا لیں،اور اپنے گرد تقوی کے حصار کو اتنا پُر زور کر لیں کہ پھر ھمارے لئیے شیطان صرف رمضان میں ہی نہیں بلکہ باقی گیارہ ماہ بھی قید کی سزا کاٹے۔۔۔lll