لازمی تعلیم کا قانون ایک مختصر جائزہ

ہاشمی سید شعیب

حصول تعلیم کو ہر ہندوستانی کا بنیادی اورآئینی حق قرار دینا یقینا ایک انقلابی قدم ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میںیہ اپنی نوعیت کا دوسرا واقعہ ہے جس کی بدولت ملک کی سماجی اور تعلیمی صورتحال بدلنے کی امید ہے۔پہلا واقعہ حصول معلومات کے حق کے نفاذ کا تھا جس نے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی کارکردگی میں شفافیت لانے کا کام انتہائی تیزی سے کیا۔معلومات حق کے قانون کی کامیابی کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی سماجی، معاشی، تعلیمی اور اقتصادی تصویر کو بدلنے میںتعلیم کا حق بھی ٹھیک اسی طرح کامیاب ہوگا۔

۶ سے ۱۴ سال کے بچوں کیلئے مفت اور لازمی تعلیم کے حق (آر ٹی ای) سے متعلق قانون کا نفاذ ہندوستان کے بچوں کیلئے ایک تاریخی فیصلہ ہے۔اس قانون کے ذریعے ملک کے تمام امیر اور غریب بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کی ضمانت دی گئی ہے۔ رائٹ ٹو ایجوکیشن کا مطلب محض مفت اور لازمی تعلیم ہی نہیں ہے ، بلکہ سبھی کیلئے معیاری تعلیم کا پہلو بھی اس میںشامل ہے۔اس ایکٹ کے تحت بچو ں کے اسکول میں مفت اور لازمی داخلے، حاضری ، اور ابتدائی تعلیم کی تکمیل کی مکمل گنجائش رکھی گئی ہے۔اس قانون میں اس بات کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے کہ نصاب تعلیم ایسا ہوجس میں بچوں کوغیر نصابی سرگرمیوں، گہرے مطالعے اور دریافت و انکشافات کا موقع مل سکے۔ ممکنہ حد تک اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ بچوں کو ڈر اور خوف سے محفوظ رکھنے کیلئے فکر سے آزاد کلاس روم اور جسمانی سزا پر پابندی لگا کر نیز مادری زبان کی تعلیم فراہم کرکے مساوات کے ساتھ معیار ی تعلیم دی جائے۔

قانون کی عمل آوری میںحکومت کے فرائض:

۱۔ ۶ تا ۱۴ سال کے ہر بچے کی لازمی تعلیم، حاضری اور پرائمری تعلیم مکمل ہونے کی تصدیق کرے گی۔

۲۔ پسماندہ طبقات کے کسی بھی طالب علم کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کیا جائگا۔

۳۔ بنیادی سہولیات جیسے اسکولی عمارت، اساتذہ، ملازمین اور درس و تدریس کے تمام وسائل مہیا کرائے جائیں گے۔

۴۔ دفعہ ۴ کے مطابق بہترین کو الٹی کی پرائمری تعلیم کیلئے نصاب اور مشقی مواد کی فراہمی کی جائے گی اور اساتذہ کیلئے تربیتی کیمپ منعقد کیے جائیں گے۔

۵۔نقل مکانی کرنے والے بچوں کے داخلوں کی تصدیق کی جائے گی۔

۶۔ اپنے حدود کے اسکول کی نگرانی ہوگی۔

۷۔ اسکول کا تعلیمی کیلنڈر طے کرنابھی حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔

۸۔ حکومت یا مقامی اکائیوں نے اپنے ما تحت اسکولوں میں خالی اسامیوں کی تعداد ۱۰ فیصد سے ذیادہ نہ رکھے۔

اساتذہ کی ذمہ داریاں

l دفعہ کی شق۲۳ کے مطابق تقرر کیا گیا معلم اسکول میں متواتر اور وقت پر حاضر رہے گا۔

l سیکشن ۲۹ کے سب سیکشن ۲ کے پرویژن کے مطابق نصاب کو مقررہ مدت میں مکمل کرے۔

l درسی صلاحیتوں کی قدر پیمائی کرے اور ضرورت پڑنے پر زائد تدریس کرے۔

l سرپرستوں کی میٹنگ لینا ، سرپرستوں سے ملاقات کرکے بچوں کی حاضری،درسی ترقی اور دیگر معلومات دیتے رہنا۔

l اساتذہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں لاپرواہی کرنے پرملازمت کے قوانین کے تحت تادیبی کارروائی کے مستحق سمجھے جائیں گے۔

l اساتذہ کی کوئی بھی شکایت ملنے پر انہیں Redressed کیا جائے گا۔

l کوئی بھی معلم پرائیو یٹ ٹیوشن یا پرائیویٹ تدریس کے کاموں میں حصہ نہیں لے سکتا۔

والدین اور سرپرستوں کے فرائض

تعلیمی قانون میں جہاں اساتذہ اور حکومت کو مختلف ذمہ داریاں دی گئی ہیں، وہیں والدین اور سر پرستوں کو بھی اس قانون کوکامیاب بنانے کیلئے مختلف ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔

۱- دفعہ ۱۰ کے مطابق ہر ماں باپ اپنے بچوں کو نزدیکی اسکول میں داخل کریں گے۔

۲- تین سال سے ذائد عمر کے بچے کو پرائمری تعلیم کیلئے تیار کرنے کے نقطہ نظر سے انہیں ۶ سال مکمل ہونے تک نگہداشت اور ان کے لیے تعلیم کے انتظام کے مقصد سے مناسب انتظام کرنا ہوگا۔

تعلیمی حق قانون میں طلبہ و طالبات کیلئے سہولیات

۱- تعلیمی قانون کی دفعہ ۲ کے تحت ہر بچے کو پہلی سے آٹھویں جماعت تک قریبی اسکول میں مفت تعلیم کا حق حاصل ہے۔

۲- کسی بھی بچے کو جسمانی سزا یا ذہنی اذیت نہیں دی جاسکتی۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والا قانون کے مطابق تادیبی کارروائی کا مستحق ہوگا۔

۳- عمر کا سرٹیفیکیٹ نہ ہونے کے باوجود بھی کسی بھی بچے کو اسکول میں داخلہ دیا جاسکتا ہے۔

۴- اسکول میں تعلیم حاصل کررہے کسی بھی طالب علم کو کسی بھی جماعت میں پیچھے نہیں رکھا جاسکتایا پرائمری تعلیم کے مکمل ہونے تک اس کو اسکول سے نہیں نکالا جا سکتا۔

اعداد و شمار

اعداد و شمار پر اگر ہم نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی شرح تقریبا ۱۰۰ فیصد ہے۔ ۹۸ فیصد بستیوں میں ایک کلو میٹر کے اندر اندر پرائمری اسکول کی تعلیمی سہولتیں مہیا کرائی جاچکی ہیںاور ۹۲ فیصد بستیاں ایسی ہیں جہاں ۳ کلو میٹر کے اندر اندرUpperپرائمری اسکول موجودہیں۔ پرائمری تا Upperپرائمری سطحوں کی عبوری شرح میں بھی کافی بہتری واقع ہوئی ہے۔ اس کے باوجود بھی کچھ بچے ایسے ہیں جو ابھی تک اسکولی تعلیم سے محروم ہیں۔ اور یہ بچے مختلف فیکٹریوں اور کارخانوں میں بندھوا مزدوروں کے طور پر کام کرتے ہیں،ساتھ ہی کچھ بچے ایسے بھی ہیں جو مویشی چراتے ہیںیا ڈھابوں پر کام کرتے ہیں۔اس کے علاوہ کچھ بچیاں ایسی بھی ہیںجو کھیتوں اور گھروں میںرہ کر یا توگھریلو ملازماؤں کے طور پر کام کرتی ہیں یا پھراپنے چھوٹے بھائی بہنوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، کچھ بچیاں ایسی بھی ہیں جنہیں بچپن ہی میں شادی کے بندھنوں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ان میں کافی بڑی تعداد ایسے بچوں کی بھی ہوتی ہے جن کا اسکولوں میں باقاعدہ اندراج ہوچکا ہوتا ہے تاہم یا تو وہ بیچ میں ہی پڑھائی چھوڑ بیٹھتے ہیںیا ایک بار اندراج ہونے کے بعد دوبارہ اسکول کا رخ ہی نہیں کرتے ۔اس کے علاوہ بہت سے ایسے بچے بھی ہیں مثلا نقل مکانی کرنے والے یا اسٹریٹ چلڈرن، جو بے حد غیر محفوظ اور انتہائی غربت کے حالات کا شکار ہیں۔ایسے بچوں کو تعلیم کی سہولتوں سے محروم کیا جانا انسانی حقوق کی ہمہ گیر نوعیت کی نفی کرنے کیے ہی مترادف ہے ۔اور ہمارے لیے اب یہ ناکافی ہے کہ ہم ان بچوں کے لئے تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کا محض ذکر ہی کرتے رہیں۔ جب کہ انہیں تعلیم سے آراستہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔محض سہولیات کی فراہمی انہیں کافی نہیں ہے، کیونکہ ضروری نہیں کہ یہ بچے وہاں جاکر تعلیمی سہولتوں کا فائدہ بھی اٹھا سکیں۔اسکول اور سماجی جائزے کے ذریعے ہمیں ان سبھی سماجی، ثقافتی، معاشی، لسانی اور دیگر وجوہ کا پتہ لگانا ہوگا۔ جن کی وجہ سے پچھڑے اور کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے یہ بچے اور بچیاں کبھی باقاعدگی کے ساتھ اسکول میںحاضر نہیں ہو پاتے اور اپنی ابتدائی تعلیم بھی مکمل نہیں کر پاتے۔اس سلسلے میں تمام تر توجہ غریب ترین اور سب سے ذیادہ پچھڑے ہوئے طبقات پر ہی دینی ہوگی۔کیونکہ یہی وہ گروپ ہیں جو سب سے ذیادہ وسائل کی کمی کا شکار رہتے ہیںاور جن کو تعلیم کے حق سے محروم کیے جانے اور اس حق کی ان کے تئیں خلاف ورزی کے امکانات عام طور پر ایادہ رہتے ہیں۔

گذشتہ کچھ دہوں میں ہندوستان کی تعلیمی کوششوں کے نتائج زبردست رہے ہیں۔ سب کیلئے تعلیم (سرو شکشا ابھیان) کے سلسلے میں ہندوستان کے وسط دہے کے جائزے کے مطابق سال ۲۰۰۰ تا ۲۰۰۵ کے درمیان محض ۵ برسوں میںملک کے پرائمری اسکولوں کے داخلوں میںمجموعی طور سے ۷ء۱۳ فیصد لڑکوں کی تعداد میںاضافہ ہوا ہے جبکہ ۸،۱۹ فیصد لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔لیکن ان قابل ستائش کوششوں کے باوجود بھی ہر چار بچوں میں سے ایک بچے نے پانچویں میں پہنچنے سے پہلے اور نصف تعداد نے آٹھویں میں پہنچنے سے پہلے ہی اسکولی تعلیم کو ترک کردیا ہے۔

ملی تنظیموں کے رد عمل کا مثبت نتیجہ: مرکزی حکومت نے لازمی اور مفت تعلیم کا قانون صرف حکومت سے منظور شدہ مدارس کیلئے مختص کیا تھا جس کی وجہ سے دینی مدارس کے خطرے میں پڑنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہاتھا ۔کیونکہ لازمی تعلیم کے قانون کے نفاذ کے بعد ۶ سے ۱۴ سال کے بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے جائیں گے تو دینی مدارس میںتعلیم حاصل کرنے کیلئے بچے کہاںسے آئیں گے۔ دینی مدارس میں بھی حفظ اور ناظرہ ۶ سے ۱۴ سال کی ہی عمر میں کیا جاتا ہے۔ لازمی تعلیم کے قانون کے نفاذ کے بعد ملک کی سرکردہ مذہبی تنظیم جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا تھا کہ ملک کے دستور نے ہمیں دینی تعلیم کا حق دیا ہے اور اگر اس پر کو ئی زک آتی ہے تو ہم احتجاج کریں گے۔ جماعت اسلامی کے امیر مولانا جلال الدین عمری نے کہا کہ اس میں جو قائدے اور ضابطے بتائے گئے ہیں، وہ صرف اس تعلیم کو تعلیم تسلیم کرتے ہیں جو حکومت کے نصاب کے مطابق ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہزاروں مدارس اور مکاتب کی تعلیم کو تعلیم نہیں سمجھا جائے گا۔اسی مقصدکے تحت ملک کی ملی تنظیموں آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ، جمعیۃ علما ہند، جماعت اسلامی ہنداور دیگر ملی تنظیموں نے دینی مدارس کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار دینے کے لئے ملک بھر میں ’آئینی حقوق بچاؤ مہم‘ کے تحت اس قانون میں ترمیم کا مطالبہ کیا۔ ملی تنظیموں کی مسلسل جدوجہد اور نئے قانون میں ترمیم کروانے کی کوششیں دو سال بعد رنگ لایئں اور مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل کپل سبل نے اس قانون کی پہلی دفعہ میں ایک ذیلی دفعہ کے اضافے کے ذریعے واضح کردیاکہ اس قانون کا اطلاق مدرسوں، ویدک پاٹھ شالاوں اور ان تعلیمی اداروں پر نہیں ہوگا جہاں دراصل مذہبی تعلیم کا نظم ہو۔ lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں