لازوال خوشبو

قاضی ذو الفقار احمد

پہلی ہی نظر میں، میں نے اسے ناپسند کر دیا تھا۔ ایک تو وہ ضرورت سے زیادہ مسکرا رہی تھی۔ دوسرے اس نے بڑا بھڑکیلا لباس پہن رکھا تھا۔ تیز قسم کے میک اب میں وہ عجیب سی لگ رہی تھی۔ اوپر سے باتیں بھی بڑے نرالے سے لہجے میں الفاظ کو چبا چبا کے کر رہی تھی۔ اس کی گھومتی ہوئی آنکھیں ہر شے کو ٹٹولتی اور ہر فرد کو تولتی محسوس ہوتی تھیں۔ لگتا تھا اسے اپنی ذات پر بڑا اعتماد ہے۔ جب اس کے ساتھ آئے ہوئے مزدور اس کا سامان اٹھا اٹھا کر اندر رکھ رہے تھے تو اس نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا اور لمبی سی ہیلو کرتے ہوئے اندر ہی گھستی چلی آئی۔ رسمی جملے بھی اس نے بڑی انسانیت اور اپنائیت سے کہے جو مجھے مصنوعی لگے تھے۔ اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا:

’’میرا نام قرۃ العین ہے، آپ کی نئی ہمسائی ہوں۔ دوسروں کی طرح آپ بھی مجھے عینی کہہ سکتی ہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ میرے گلے لگ گئی اور مجھے زور سے اپنے ساتھ بھینچ لیا۔ جیسے وہ میری مدتوں سے جاننے والی ہو۔ اس کے کندھوں کے اوپر ہی سے میں نے اس کے تین گورے چٹے بچوں کو دیکھا جو ماں کو میرے ساتھ گلے ملتے دیکھ کر پورے دانت نکالے کھڑے تھے۔

راہ داری میں پڑے مونڈھے پر بیٹھتے ہوئے اس نے مسکرا کر کہا: ’’یہ جگہ اچھی رہے گی۔ یہاں سے میں مزدوروں کو سامان رکھتے دیکھتی بھی رہوں گی۔‘‘ پھر اس نے گھڑی پر نظر ڈالی اور کہا: ’’تکلف برطرف، مجھے چائے کی ایک پیالی کی طلب ہو رہی ہے۔‘‘

میں نے بادل نخواستہ اسے چائے کی پیالی پیش کی۔ گو میں مسکرا رہی تھی لیکن حقیقتاً میں اس کی بے تکلفی کو کوس رہی تھی۔ میں اس کے بچوں کے لیے بسکٹ بھی لائی تھی، لیکن وہ ماں کو بیٹھا چھوڑ کر سامان رکھنے والے لوگوں کے پاس جاچکے تھے۔ چائے کی پیالی پینے کے بعد وہ اٹھی اور یہ کہہ کر چلی گئی کہ اب اس کی میرے ساتھ ملاقات ہوتی ہی رہے گی۔ جاتے جاتے اس نے کہا کہ ہمسائے ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوتے ہیں۔

’’ہاں جی! ہمسائیوں کا ایک دوسرے پر بڑا حق ہوتا ہے۔‘‘ باوجود ناپسندیدگی کے میں نے اس محاورے کی تصدیق کی۔ جب وہ جاچکی تو دروازے کو بند کرتے ہوئے میں نے اظہارِ نفرت کے طور پر ناک بھوں چڑھائی تاہم خود بخود ہی مجھے اپنی اس حرکت پر افسوس ہوا کہ میں ناک بھوں جانے والی پر نہیں بلکہ اپنے آپ ہی پر چڑھا رہی ہوں۔

عینی کی آمد سے پہلے میں صحن میں کپڑے دھونے کی مشین لگا کر کپڑے دھونے کا ارادہ کر رہی تھی۔ میں اس کے جانے کے بعد صحن میں پہنچی تو میری نئی ہمسائی کی آواز اس کے گھر کے برآمدے سے آرہی تھی۔ وہ مزدوروں کو سامان رکھنے کے متعلق ہدایات دے رہی تھی۔

٭٭

میری دونوں بچیوں نے چند دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر نئے ہمسایوں کے گھر کے چکر لگائے تھے اور دو دن سے مجھے کہہ رہی تھیں کہ میں اپنی نئی ہمسائی کا گھر تو جاکر دیکھوں جسے اس نے بڑے اچھوتے انداز میں سجایا ہے۔ تیسرے دن میں نے عینی کو صبح کے وقت بچوں کے ساتھ اسکول جاتے دیکھا تو میں نے اسے آواز دے کر پوچھنا چاہا کہ اس کے بچے کون سے اسکول میں پڑھتے ہیں، لیکن مجھے جھجک سی آگئی۔ میں نے حق ہمسائیگی ادا کرنے کی خاطر اسے کوئی گھاس نہیں ڈالی تھی۔ اس نے بھی ازخود یا بچوں کے ذریعے مجھ سے کوئی چیز طلب نہیں کی تھی۔ اس پر بھی میں جھنجھلائی کہ وہ اگر اتنی اکڑ فوں والی یا بڑی خود دار ہے تو مجھے کیا؟ میں جالی سے اسے جاتا دیکھتی رہی۔ اس نے کوئی میک اپ نہیں کر رکھا تھا۔ سادگی میں وہ بڑی پروقار لگ رہی تھی۔ اگلے روز جمعہ تھا، چھٹی کا دن تھا، ہم دیر تک سونے کے عادی تھے، لیکن اس کے بچے صبح ہی اٹھ کر گھر کے صحن میں کرکٹ کھیلنے اور شور مچانے لگے تھے۔بچے تو سوئے رہے لیکن میں جاگ گئی۔ بچوں کے ابو نے بھی بڑبڑا کر کہا: ’’کیا مصیبت ہے؟ ہمسائے کے بچے شور مچا رہے ہیں۔‘‘

میں نے دل کی بھڑاس نکالی اور میاں کو بتایا کہ بڑی نک چڑھی ہمسائی ہے، پہلے دن کے بعد دکھائی ہی نہیںدی وغیرہ وغیرہ۔ بعد میں چائے بنانے کے دوران مجھے احساس ہوا کہ میں اپنی نئی ہمسائی سے خدا واسطے کا بیر پال رہی ہوں۔ مجھے اس نے کیا کہا ہے بلکہ اس نے الٹا مجھ پر اعتماد کر کے میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور صرف چائے کی ایک پیالی طلب کی۔ اس دوران اس نے اپنائیت کا اظہار ہی کیا تھا۔ وہ دوسرے ہمسایوں کا دروازہ بھی تو کھٹکھٹا سکتی تھی۔

سارا دن اس کے گھر سے ٹھک ٹھک کی آواز آتی رہی۔ میں نے صحنوں کی سانجھی دیوار میں ایک سوراخ سے آنکھ لگا کر دیکھا تو وہ مرغیوں کے ڈربے کی مرمت کروا رہی تھی۔ کچھ اکھڑی ہوئی چار پائیاں بھی پڑی تھیں، شاید اس نے بڑھئی کو بلا رکھا تھا۔ اس کے بچے بھی اچھل کود کر رہے تھے۔

سہ پہر کے قریب میں نزدیکی مارکیٹ سے کچھ سودا سلف خرید کر آرہی تھی۔ میری بچیاں بھی میرے ساتھ تھیں کہ عینی نے مجھے آتے ہوئے دروازے کی جالی سے دیکھا اور جھٹ دروزہ کھول کر مجھے آواز دی: ’’مسز ملک، میں تو بڑی مصروف رہی۔ آپ بھی نہیں آئیں۔‘‘ میں اس کے دروازے پر رک گئی تو اس نے مجھے اندر بلا لیا۔ مجھے کمروں کی زیبائش دکھانے لگی، مجھے احساس ہوا کہ وہ خاصا ذوق جمال رکھتی ہے۔ پھر وہ مجھے صحن میں لے گئی اور مرغیوں کے ڈربے کے علاوہ صحن میں لگائے گئے موتیے اور گلاب کے پودے دکھائے۔ میں جو اس سے متاثر ہو رہی تھی فورا اپنے اکھڑ پن کی طرف لوٹی۔ میں نے کہا: ’’یہ پودے! ان پر کی گئی محنت بیکار جائے گی۔ یہاں کی زمین بڑی سخت ہے، میں نے بھی کوشش کی تھی مگر تمام پودے مرجھا گئے۔‘‘

’’چلو اب تو لگادیے ہیں، میں دعا کروں گی کہ اللہ ان کو سرسبز و شاداب رکھے۔ ان کی خوشبو سارے گھر میں پھیل جائے۔‘‘ ذرا رک کر وہ پھر بولی: ’’دراصل میرے شوہر کو پھول بہت پسند ہیں۔ وہ منصوبہ بندی کمیشن میں افسر ہیں اور جس دن میں ادھر آئی تھی اسی دن وہ ایک تربیتی کورس پر تین ماہ کے لیے امریکہ گئے ہیں۔ جانے سے پہلے جلدی میں انھوں نے بہن کی شادی کی۔ اس دن میں شادی گھر سے سیدھی ادھر آئی تھی۔ میں چاہتی ہوں کہ ان کی آمد سے پہلے یہ پھول کھل اٹھیں۔‘‘

مجھ پر اس کے میک اپ اور بھڑکیلے لباس کا راز کھل رہا تھا۔ اس کا بے سلیقہ نظر آنا اس بات کی دلیل تھی کہ وہ سادگی پسند خاتون ہے اور تکلفات نہیں جانتی مگر شادی بیاہ پر تو مجبوری ہو جاتی ہے، خاص کر جب شادی بھی نند کی ہو۔ اس نے میری بچیوں کو اپنے ساتھ لپٹا کر پیار کیا۔ ایک بچی نے گہری سانس لی اور کہا: ’’آنٹی، آپ کیا پکا رہی ہیں، بڑی خوشبو آرہی ہے۔‘‘

’’اوہو! یہ تو میری ہنڈیا جل رہی ہے۔ میں ابھی آئی۔‘‘ اور تیزی سے باورچی خانے کی سمت چل دی۔ جب وہ واپس آئی تو میں نے کہا:

’’یہ میری بیٹی اگرچہ تیسری جماعت میں پڑھتی ہے لیکن اس کی سونگھنے کی حس بہت تیز ہے۔ مجھے گھر میں بھی بتاتی رہتی ہے کہ ماما آپ کو ہنڈیا کے جلنے کی خوشبو نہیں آرہی۔‘‘ دراصل مجھے بیٹی کی عینی سے بے تکلفی پسند نہیں آئی تھی۔

’’یہ جلنے کی خوشبو نہیں تھی بلکہ پکنے کی خوشبو تھی۔ میں وقت ہی پر پہنچ گئی۔ شکریہ بیٹی۔‘‘ اس نے زارا کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ پھر اس نے دوسری بیٹی سے پوچھا: ’’تم کون سی جماعت میں پڑھتی ہو۔‘‘

’’چوتھی میں، میں نے آپ کو پہلے بھی تو بتایا تھا۔‘‘ نصرت نے ذرا تیز لہجے میں کہا تو عینی نے فورا اپنی بھول پر معذرت کرلی اور بتایا:

’’میرے بیٹے بھی بالترتیب چوتھی، تیسری اور دوسری میں پڑھتے ہیں۔ صبح سے کھیل رہے ہیں اس لیے میں نے ان کے لیے مرغی بھونی ہے۔‘‘

اس نے بچوں کو آواز دی اور کہا کہ آؤ دیکھو، کون آیا ہے۔ وہ اندر آگئے تو انھوں نے میری بیٹیوں کو اپنے بہت سے کھلونے دکھائے۔ لڑکیاں بڑی خوش ہوئیں۔ سب نے مل کر خوب شور غل کیا، لیکن عینی نے اس کا برا نہیں منایا۔ میں اپنے گھر میں بچوں کا شور بھی پسند نہیں کرتی۔ جب میرا بس شور ختم کرنے پر نہ چلے تو سٹپٹا کر رہ جاتی ہوں۔ عینی اس شور کو بچوں کی خوشی اور اصل زندگی قرار دے رہے تھی۔’’احمق عورت۔‘‘ میں نے سوچا۔ ’’لیکن خوش قسمت عورت۔ تین بیٹوں کی ماں ہے اور شوہر افسر ہے۔ خود بھی کتنی مطمئن اور پرسکون ہے۔‘‘ میرے اندر سے آواز سی آئی۔

پھر وہ ’’ابھی آئی کہہ کر اٹھی اور اندر چلی گئی۔ اب اس نے عجیب و غریب حرکت کی وہ بھنی ہوئی مرغی کے ٹکڑے کر کے انہیں طشتری میں سجا کر لے آئی۔ خوشبو سے کمرہ مہک اٹھا۔ میری بچیاں شرما رہی تھیں۔ انہیں اس نے تکلف برطرف کرنے کو کہا۔ مجھے بھی زور دیا کیوں کہ میں ’’انکار‘‘ کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ یہ وقت کچھ کھانے پینے کا نہیں۔ ابھی تھوڑی دیر ہی تو پہلے دوپہر کا کھانا کھایا تھا، لیکن جلد ہی طشتری میں مرغی کی ہڈیاں ہی رہ گئیں۔ بعد ازاںعینی نے ہمیں کوک پلایا۔ اس تواضع سے میری بچیاں اس قدر خوش ہوئیں کہ واپسی کے وقت انھوں نے عینی سے باقاعدہ معانقہ کیا۔

٭٭

اگلے روز میری بچیاں اس کے لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے چلی گئیں۔ محلے کے کچھ اور بچے بھی وہاں آئے ہوئے تھے۔ عینی نے صحن میں دھلے ہوئے کپڑے ڈالے تھے۔ اس نے لڑکیوں سے کہا کہ وہ کھیلنے سے پہلے رسیوں سے کپڑے اتارنے اور تہہ کرنے میں اس کی مدد کریں۔ تب تک لڑکے صحن میں بکھرے ہوئے کاغذ اور پتے چن لیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد کھیل شروع ہوگیا۔ عینی برآمدے میں بیٹھی بچوں کو داد دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرتی رہی۔ پھر اس نے ’’بریک‘‘ کرائی اور بچوں کو بسکٹ اور کیک وغیرہ تقسیم کیے۔ دوبارہ کھیل شروع ہوا اور جب میری بچیاں واپس آئیں تو وہ نہ صرف خوش تھیں بلکہ عینی کے گن گا رہی تھیں کیوں کہ وہ جانتی تھیں کہ ان کی ماں نے کبھی کھیل کود اور شور مچانے والے بچوں کو پسند نہیں کیا تھا، ان کو گھر بلا کر کھلانا پلانا تو دور کی بات تھی۔

٭٭

ایک روز عینی نے مجھے کہا کہ کیا محلے میں کوئی ایسی عورت ہے جو میرے اور بچوں کے کپڑے استری کر دیا کرے کیوں کہ اسے کمر درد نے ادھ موا کر رکھا ہے۔ میں نے نفی میں سرہلایا تو اس نے مسکراتے ہوئے یوں میری طرف دیکھا جیسے میں نے بہت سی عورتوں کے پتے بتا دیے ہوں جو نہ صرف اس کے کپڑے استری کر دیں گی بلکہ اس کے کمر درد کا علاج بھی کردیں گی۔

’’کوئی بات نہیں۔ اللہ مہربانی کرے گا۔ کسی نہ کسی معقول عورت کو میری مدد کے لیے بھیج ہی دے گا۔‘‘ وہ سنبھل کر کرسی پر بیٹھ گئی۔

بچوں کے ذریعے ہی ارد گرد کے گھروں میں عینی کے بیمار ہونے کی خبر پھیل گئی اور میں نے کئی ایسی خواتین کو دیکھا جن کے چہروں سے میں ابھی تک ناآشنا تھی، حالاں کہ محلے میں رہتے ہوئے مجھے کئی سال ہوگئے تھے اور مکان بھی ہمارا اپنا تھا۔ ایک کرایہ دار عورت کی اتنی پذیرائی میرے خواب و خیال میںبھی نہ تھی۔ کپڑے استری کرنا تو ایک طرف وہاں اس کی ہانڈی روٹی کرنے اور گھر کی صفائی کے لیے بھی عورتیں موجود تھیں۔ خود میری بچیاں عینی کے منع کرنے کے باوجود اس کے پودوں کو پانی اور مرغیوں کو دانہ وغیرہ ڈال آتی تھیں اور مجھے یہ کہہ دیتی تھیں کہ ہم آنٹی کو دیکھنے گئے تھے۔

بچیوں کے اسکول میں یوم والدین منایا گیا تو تقریب میں، میں اور میرے میاں نے بھی شرکت کی۔ وہاں ہم عینی کو بھی بچوں سمیت دیکھ کر حیران رہ گئے کیوں کہ اس کے بچے تو لڑکوں کے کسی اور اسکول میں پڑھتے تھے۔ محلے میں رہنے والی ایک معلمہ نے عینی اور اس کے بیٹوں کو اس تقریب میں مدعو کیا تھا۔ وہ ہمیں دیکھ کر کئی قطاریں پیچھے ہمارے پاس آگئی۔ میری میاں کو دیکھ کر اس نے خود ہی کہا: ’’اچھا تو یہ ہیں آپ کے میاں صاحب ملک…‘‘

’’ملک عبد العزیز…‘‘ میرے میاں نے جملہ مکمل کیا اور پھر تقریب کے پروگراموں کے حوالے سے کئی باتیں ہوئیں۔ وہ ایسے گفتگو کرتی رہی جیسے وہ موسیقی، ورزشوں، ترانوں، تقریروں اور ڈراموں کے ہر پہلو سے واقف ہو۔ میرے میاں کو اس کی گفتگو اور تنقید بہت پسند آئی۔ اس کی تعریف پر میں دل میں برا منائے بغیر نہ رہ سکی۔ میرا ظرف ہی اتنا تھا۔

میں حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکی، جب اگلے دن وہ اپنے صحن میں چھوٹے چھوٹے لڑکوں ار لڑکیوں کو اقبال کی بچوں کے لیے لکھی گئی نظم ’’ماں کا خواب‘‘ ٹیبلوں کی صورت میں پیش کرنے کا ابتدائی سبق دے رہی تھی۔ ساتھ ہی اس نے بچوں کو چند ترانے بھی سکھائے۔ کھیل کود کے ساتھ اس نے گویا اپنے گھر میں ایک بزم ادب اور ڈراما کلب کی بنیاد ڈال رکھی تھی۔ میں نے اپنی عادت کے مطابق جب عینی سے کہا کہ وہ کیوں بچوں سے مغز کھپائی کرتی رہتی ہے تو اس نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کی رفاقت سے استفادہ کر رہی ہے۔ اس کے بچوں کے ساتھ ساتھ محلے کے بچوں کا بھی شاید کچھ بھلا ہوجائے۔ بچے خود ہی تو چلے آرہے ہیں اور سیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں اور پھر بچے ہی تو مستقبل کی امید اور نوید ہیں۔

٭٭

میں نے دیکھا کہ اس کے لگائے ہوئے پودوں میں کلیاں بن رہی ہیں اور عینی ان کو گھنٹوں بیٹھی تکتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی ان سے باتیں بھی کرتی ہے۔ کچھ پڑھ کر پانی پر پھونکیں مارتی ہے اور پانی پودوں پر چھڑکتی ہے۔ اب اس کا کمر درد بھی ختم ہوچکا تھا، لیکن ہر ہفتے کے دن ایک عورت اس کے گھر بھر کے کپڑے استری کرنے آرہی تھی اور عینی اس کو کسی نہ کسی بہانے اس کی خدمت کا معاوضہ بھی دے رہی تھی کیوں کہ وہ عورت ضرورت مند تھی۔ دونوں کے درمیان ایک خاموش معاہدہ طے پاگیا تھا جسے وہ دونوں ہی نبھا رہی تھیں۔ وہ جتنا کام کرتی عینی اسے اس سے زیادہ دیتی۔ وہ جو لیتی اس سے بڑھ کر کام کرنے کی کوشش کرتی۔ وہ عورت اس قدر صابر، شاکر اور دھیمی تھی کہ جیسے اسے واقعی خدا نے عینی کے پاس بھیجا ہو۔ عینی نے میرے نفی میں سر ہلانے پر خدا سے مانگنے کے متعلق جو کہا تھا وہ سچ ثابت ہوا تھا۔

اس کے شوہر کی امریکہ سے واپسی ایک ماہ کے لیے ملتوی ہوگئی تو اس نے پھولوں کی پہلی کھیپ ٹوکری بھر کر مجھے بھیجی۔ میں پھولوں کو دیکھ کر اندر ہی اندر اخلاق اور محبت سے بھر گئی۔ ظاہر ہے شوہر کے بعد اس نے مجھے عزیز جانا تھا۔ جب وہ پھول دیکھنے نہیں آ سکا تھا تو اس نے پھول پیش کرنے کے لیے میرا انتخاب کیا تھا۔ میں اسی وقت اسے پھولوں کی مبارک باد دینے اس کے گھر گئی تو اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا: ’’دیکھا… مسز ملک! دعا میں کتنی طاقت ہے۔ اللہ خلوص سے مانگی ہوئی دعا قبول کرتا ہے۔ جب میں نے اس مکان کو کرائے پر لینے کے لیے پراپرٹی ڈیلر سے بات کی تھی تو اس وقت میں نے دعا مانگی تھی۔ یا اللہ! مجھے نیک ہمسائے دینا اور مجھے اللہ نے تم جیسے ہمسائے دیے۔‘‘

میں اپنی جگہ سوچ رہی تھی کہ میں نے عینی سے کون سی نیکی کی تھی؟

اس وقت مجھے احساس ہوا کہ عینی کو ابتدا میں ناپسند کرنے کی وجہ اس کا بھڑکیلا لباس، اس کا تیز میک اپ اور اس کی بے تکلفی نہ تھی بلکہ میری اپنی ذات کا ناکافی پن سا تھا۔ میرا اپنا احساس کمتری تھا، وہ تو مجھے کبھی اپنے آپ سے الجھی ہوئی نظر نہ آئی تھی۔ وہ ہر حال میں خوش رہنے والی ایک ہنس مکھ خاتون تھی۔ میرے دل میں ایک ہوک سی اٹھی کہ کاش میں بھی عینی جیسی ہوتی۔ پچھلے تین ماہ کے دوران میں نے اس جیسا بننے کی لاشعوری کوششیں کی تھیں لیکن شعوری طور پر مجھے اب بھی یہ سمجھ نہیں آرہ تھا کہ میں عینی بننے کے لیے ابتدا کہاں سے اور کیسے کروں؟

٭٭

انہی دنوں مجھے میری ڈاکٹر نے بتایا کہ میں پھر سے ماں بننے والی ہوں اور وہ بھی جڑواںبچوں کی۔ یہ خبر سن کر میں حیرت اور خوف کے گہرے پانیوں میں ڈوب گئی۔ ڈاکٹر نے مجھے پوری تسلی دی کہ سب کچھ ٹھیک ہوگا، میری صحت اور حالات ہر لحاظ سے موافق ہیں، لیکن ڈاکٹر کے علاوہ میں یہ بات کسی اور سے کرنا چاہتی تھی۔ دو بچیوں کے بعد میرے میاں کو بھی بیٹے کی تمنا تھی، لہٰذا ہم مدت سے چاہ رہے تھے کہ اللہ اپنا فضل و کرم کرے۔ فضل و کرم تو ہوا تھا، لیکن فی الحال تو بادل گھر آنے کی بات تھی۔ میں ڈاکٹر سے سیدھی اپنے گھر کے بجائے عینی کے پاس پہنچی۔ میرا دل بلیوں اچھل رہا تھا، جب میں نے ساری بات عینی کو بتائی تو وہ اپنے مخصوص انداز سے منہ کھول کر ہنسی، واہ واہ کیا قہقہہ لگایا اور اس نے مجھے اپنے ساتھ لگا کر خوب بھینچا۔ پھر وہ مجھے قریب کی دو چار ہمسائیوں کے گھر لے گئی اور مناسب الفاظ میں خواتین خانہ کو میرے منع کرنے کے باوجود بتاتی چلی گئی کہ میں جڑواں بچوں کی ماں بننے والی ہوں اور وہ سب اللہ سے دعا کریں کہ وہ جڑواں بھائی ہوں۔ اگلے روز کئی خواتین میرے گھر آئیں۔ عینی بھی موجود رہی اور خوب ہنگامہ رہا۔ عینی نے سبز چائے اور گھر بنائے گئے کیکوں سے سب کی تواضع کی اور میرے لیے ڈھیروں دعائیں اکٹھی کیں۔

بطور ایک پیشہ ور نرس اس نے میری مناسب نگرانی اور دیکھ بھال بھی شروع کردی۔ اپنی استری کرنے والی خاتون کو اس نے میرے گھر بھی بھیجنا شروع کردیا۔ کئی حاجت مندوں اور غرض مندوں سے اس نے وعدے کرلیے کہ اگر ’’دو چھوٹے ملک‘‘ پیدا ہوئے تو وہ ان کو یہ دے گی، وہ دے گی۔ یہ کرے گی، وہ کرے گی۔ الغرض جب میں آخری ایام میں ملک صاحب کے ساتھ اسپتال گئی تو میرے شوہر کی عدم موجودگی میں عینی نے میرے گھر کا پورا نظام سنبھالے رکھا۔ نصرت اور شوکت کو اپنے گھر اپنے پاس سلاتی رہی۔ جب میں گھر آئی تو چھوٹے جڑواں بیٹوں سلمان و ثوبان نے عینی کے ہاتھ سے سلے ہوئے کپڑے ہی پہن رکھے تھے۔ وہ بچوں کے لیے ڈھیر سارے تحفے بھی لائی۔ میں نے جب اسے سرزنش کی تو اس نے کہا کہ یہ تحائف وہ نہیں بلکہ اس کے میاں لے کر آئے ہیں۔ میں نے اس کے میاں کے واپس آنے کی مبارک باد دی اور پوچھا کہ یہ تحائف تو وہ اکرم، اسلم اور اختر کے لیے لائے ہوں گے؟

اس نے جواب دیا کہ نہیں۔ اس نے جڑواں بھائیوں کی متوقع آمد کی خبر ایک ماہ پہلے اپنے میاں کو بھی فیکس کی تھی لہٰذا وہ یہ تحائف خصوصی طور پر نئے مہمانوں کے لیے لائے ہیں۔

وہ ایسی چھوٹی بڑی خوشیوں کی خبروں کو پھیلانے پر یقین رکھتی تھی، لہٰذا پورا محلہ جڑواں بھائیوں کو دیکھنے آرہا تھا۔

٭٭

سال کے اندر اندر عینی اور ہمارے گھر کے صحن کی دیوار میں ایک ’’غیر منظور شدہ‘‘ دوازہ بھی کھڑا ہوگیا، جس کے راستے ہم ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے رہتے تھے جب کہ موتیے اور گلاب کی خوشبو تو دیواریںپھلانگ کر بھی آجاتی تھی۔ پھر اچانک ایک صبح عینی اسی دروازے سے ہمارے گھر آئی اور اس نے سہانے خوابوں کا تسلسل توڑتے ہوئے بتایا کہ اس کے میاں کی پوسٹنگ ہوگئی ہے اور وہ دوسرے شہر جا رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ عینی نے مسکراہٹ بکھیری اور نہ ہی مجھے گلے لگایا۔ بس وہ اپنے جانے کا اعلان کر کے چپ سی بیٹھ گئی۔

دو دن فضا اداس اداس رہی۔ عینی کے گھر کا سامان سمیٹا جا رہا تھا۔ غیرمنظور شدہ دروازہ اکھاڑ دیا گیا تھا۔ آنا جانا تھا، لیکن وہ پہلی سی بات نہیں تھی۔ پورا محلہ امڈ آرہا تھا جیسے خدانخواستہ کوئی انہونی ہوگئی ہو۔ پھر ایک ٹرالہ نما ٹرک آیا جو سامان اور عینی کے کنبے کے جملہ افراد کو لے گیا۔ میں اس ٹرک کو کھڑکی کی جالیوں کے ساتھ لگے آہستہ آہستہ نظروں سے اوجھل ہوتے دیکھتی رہی۔ میری بچیاں اپنے بھائیوں کو گود میں اٹھائے ان کے ننھے منے ہاتھ اپنے ہاتھوں سے الوداعی انداز میں جھلا رہی تھیں۔

٭٭

کئی ماہ گزر گئے۔ عصر کا وقت ہوگا کہ میں ایک کیک کچھ متوقع مہمانوں کے لیے فرج میں سنبھال کر رکھ رہی تھی کہ میری چھوٹی بچی نے بڑی سے کہا: ’’کیا ہی اچھا ہوتا کہ ماما اس کیک کو سنبھالنے کے بجائے اس کے ٹکڑے کرتیں اور ہمیں کھانے کو دیتیں۔‘‘

’’پاگل یہ بھی کوئی کھانے کا وقت ہے؟‘‘ بڑی نے جواب دیا۔

’’آنٹی عینی بھی اسی وقت ہمیں بلکہ سب بچوں کو ایسی ہی چیزیں کھانے کو دیا کرتی تھی۔‘‘ چھوٹی نے عینی کو یاد کرتے ہوئے کہا۔

’’وہ آنٹی عینی تھی ہماری ماما نہیں۔ ماما بچوں کے لیے نہیں، بڑوں کے لیے اور مہمانوں کے لیے اشیاء سنبھال کر رکھتی ہیں۔‘‘

میں نے بچوں کی باتیں سن لی تھیں۔

میں باورچی خانے میں گئی۔ کیک کو کاٹ کر ایک ٹرے میں رکھا اور شیشے کے ڈھکنے سے اس کو ڈھانپ دیا۔ مجھے وہ دعا یاد آئی جو میں نے کبھی مانگی تھی کہ ’’اے اللہ! مجھے عینی جیسا بنا دے۔‘‘ پھر میں نے دودھ کے چار گلاس بھرے اور سب بچوں کو باورچی خانے میں بلایا۔

ہم پانچوں باورچی خانے میں رکھے کھانے کی میز پر بیٹھ گئے۔ ہم نے کیک کا بہت سا حصہ کھایا۔ چھوٹے بچوں نے کیک کے چھوٹے چھوٹے بہت سے ٹکڑے چپس کے فرش پر بکھیر دیے۔ فرش کو میں نے آج صاف کروا کر پالش لگوائی تھی۔ کیک کی کریم اور جیلی نے فرش کا ستیا ناس کر دیا تھا۔ بیٹوں کو تو میں کچھ کہہ نہیں سکتی تھی کیوں کہ وہ تو ابھی بہت چھوٹے تھے۔ لڑکیوں پر ایک لمحے کے لیے مجھے غصہ آیا کہ وہ کیک کھانے کی تمنا نہ کرتیں تو مجھے بھی عینی عینی کھیلنے کی نہ سوجھتی۔ میں نے ان کی طرف دیکھا تو وہ بچاریاں چھوٹے بھائیوں کو سمجھا رہی تھیں کہ اس طرح نہیں کھاتے، دیکھو تو سب کچھ نیچے گر گیا ہے۔ فرش گندہ ہوگیا ہے۔ شاید وہ جان گئی تھیں کہ ماما، عینی بن کر پچھتا رہی ہے اور کچھ ہونے والا ہے۔

’’اگر عینی میری جگہ ہوتی تو کیا کرتی؟‘‘ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا۔

’’یقینا اس کا انداز میرے جیسا نہ ہوتا۔ وہ ایسے موقع پر مسکراہٹ سے کام لیتی۔ میں بھی تو عینی بننا چاہتی تھی۔‘‘ میں نے پریشان بچیوں سے کہا: ’’کوئی بات نہیں۔ ان کو اپنے انداز میں کھانے دو۔‘‘

چھوٹی بچی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’ماما، کیا ہم جشن منا رہے ہیں۔‘‘

’’ہاں! ہم تمہاری آنٹی عینی کی طرح کا جشن کر رہے ہیں۔ کل تم اپنی سہیلیوں کو بلانا۔ ہم اسی وقت پھر اسی طرح جشن منائیں گے۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا تو چھوٹی نے بڑی بہن کو راز داری سے بتایا:

’’ماما تو بالکل آنٹی عینی لگ رہی ہیں۔‘‘

میں مسکرا اٹھی اور میں نے باورچی خانے کی بیرونی کھڑکی کھول دی۔ عینی بھی اسی انداز سے باورچی خانے کی کھڑکی کھولا کرتی تھی۔ ہمسائے میں نئے لوگ آچکے تھے۔ بھلے لوگ تھے، انھوں نے صحن میں عینی کے اگائے ہوئے موتئے اور گلاب کے پھولوں کی حفاظت کی تھی۔ ادھر سے خوشبو کے جھونکے آرہے تھے۔

’’عینی کہیں کسی بنگلے میں بیٹھی ہوگی۔‘‘ میں نے سوچا: ’’لیکن اس کی لازوال خوشبو ہمارے پورے محلے اسلام پورہ میں موجود تھی۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں