لڑکیوں کی پیدائش کا تناسب

شمشاد حسین فلاحی

مردم شماری کے اعداد و شمار نے ملک کی کئی ریاستوں میں لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان بگڑتے تناسب سے آگاہ کیا تھا۔ چناں چہ اس بگڑتے تناسب کو سامنے رکھتے ہوئے گزشتہ کئی سالوں میں حکومت نے کوشش کی تھی کہ اسے فطری نظام کے قریب لایا جائے۔ لڑکے اور لڑکیوں کا فطری تناسب یہ تصور کیا جاتا ہے کہ لڑکوں کی پیدائش ایک سو ہے تو لڑکیوں کی پیائش کا تناسب پانچ سے سات زیادہ ہوتا ہے یعنی لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہونی چاہیے۔ لیکن ہندوستانی سماج کی سوچ لڑکیوں کی پیدائش کو خوشی کی باعث تصور نہیں کرتی یہی وجہ ہے کہ لڑکیوں کے رحم مادر میں قتل کیے جانے کے واقعات تمام کوششوں کے باوجود ہوتے ہیں اور اس سوچ نے ہمارے ملک میں لڑکیوں کی پیدائش کے تناسب کو کم کر دیا ہے ایک تشویش ناک بات ہے۔

۲۰۰۱ میں ملک کی مردم شماری کے مطابق ملک میں مردوں کی تعداد 532.2 ملین یعنی 51.74 فیصد تھی اور عورتوںکی تعداد 495.5 ملین یعنی 48.26 فیصد تھی جب کہ اگلے دس سال بعد ہونے والی مردم شماری میں اس تناسب میں کچھ بہتری ہوئی اور نتیجہ یہ سامنے آیا کہ 2011 کی مردم شماری میں مردوں کی تعداد 623.7 ملین جو کہ 51.54 فیصد ہوتی ہے، ہوگئی جب کہ عورتوں کی تعداد 586.5 ملین کے ساتھ 48.45 فیصد ہوگئی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ۲۰۰۱ میں ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد ۹۳۳ تھی جو سات پوائنٹ بڑھ کر ۲۰۱۱ میں ۹۴۰ہوگئی۔

تین سال قبل نئی حکومت نے اس جہت میں کافی نعرے بازی کی۔ خواتین کے تحفظ اور ان کو بااختیار بنانے کا خصوصی سمت میں خاص طور پر منصوبہ بنایا اور نئی حکومت نے ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ کا نعرہ دے کر ایک مہم شروع کی جب کہ ہریانہ حکومت نے اس سمت میں خاص طور پر کوشش کا عندیہ دیا۔ واضح رہے کہ ہریانہ ملک کی وہ ریاست ہے جہاں مردوں اور عورتوں کا تناسب سب سے کم تھا اور آج بھی وہاں لڑکیوں کی پیدائش کو برا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘ کی جو مہم چلائی جا رہی تھی اس کے نتائج نہ صرف غیر اطمینان بخش ہیں بلکہ مایوس کن ہیں۔ حالیہ دنوں میں ملک کی وزارت وومن اینڈ چائلڈ ویلفیئر کی جانب سے جاری کردہ معلومات یہ بتاتی ہے کہ ملکی خزانہ کی خاطر خواہ رقم اس مہم پر خرچ کرنے کے باوجود کوئی خاص تبدیلی ہندوستان کے معاشرے میں نظر نہیں آتی۔ وزارت کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار اور معلومات 2015-16 کے مقابلے میں 2016-17 کی کارکردگی بیان کرتے ہیں۔

مذکورہ وزارت کے سکریٹری کا کہنا ہے کہ ہریانہ، پنجاب، جموں و کشمیر، دہلی، گجرات، راجستھان اور اتراکھنڈ پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے جہاں اس مہم کا کوئی خاص اثر نظر نہیں آتا۔ یہ بات بھی یقینا حیرت انگیز اور افسوسناک ہے کہ ملک کی راجدھانی دہلی جہاں دوسرے خطوں کے مقابلے زیادہ تعلیم یافتہ اور خوش حال لوگ رہتے ہیں اس سلسلے میں اپنے خراب ریکارڈ کے لیے جانی جا رہی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ راجدھانی میں نہ صرف یہ کہ صورتِ حال میں کوئی بہتری نہیں ہوئی بلکہ ریاست کے سات میں سے پانچ اضلاع میں لڑکیوں کی پیدائش کا تناسب مزید کم ہوا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مغربی دہلی میں 34، جنوبی دہلی میں 17، مشرقی دہلی میں 18، شمال مغربی دہلی میں 12 اور جنوب مغربی دہلی میں 12 پوائنٹ کی کمی واقع ہوئی ہے۔

دہلی اس حیثیت سے ممتاز ہے کہ یہاں طبی سہولیات ملک کے کسی بھی حصہ کے مقابلے زیادہ بہتر اور بڑی تعداد میں میسرہیں اور آئے دن یہاں ایسے میڈیکل سنٹرس کے پکڑے جانے کی خبریں آتی رہتی ہیں جو اس طرح کے غلط کام میں مصروف ہیں۔ ان میں ایسے طبی جانچ کے مراکز بھی ہیںجو آج بھی لڑکے لڑکی کی موجودگی کا پتہ بتاتے اور ایسے بھی ہیں جو اسقاط حمل کے ناجائز کاروبار میں ملوث ملتے ہیں۔

جن اضلاع میں بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مہم چلائی جا رہی تھی ان میں سب سے خراب ریکارڈ دہلی سے ملحق غازی آباد ضلع کا ہے جو اترپردیش کا حصہ ہے یہاں لڑکیوں کی پیدائش کے تناسب ۶۹ پوائنٹ کی کمی ریکارڈ کی گئی جو جو اپنے آپ میں شرم ناک ہے جب کہ یوپی ہی کے پانچ اضلاع میں سدھار کے بجائے مزید گراوٹ درج ہوئی ہے۔ ان پانچ اضلاع میں باغپت جو پہلے غازی آباد کا حصہ ہوا کرتا تھا، میں ۲۱، بجنور میں ۲۱، ایٹہ میں ۱۹ اور متھرا میں ۳۷ پوائنٹ کی گراوٹ درج ہوئی جب کہ پانچویں ضلع غازی آباد کا معاملہ تو ہے ہی افسوس ناک۔

اس پوری صورت حال کے بارے میں مذکورہ وزارت کے سکریٹری کا کہنا ہے کہ جن ضلع کلکٹروں نے اس مہم پر توجہ نہیں دی وہاں بہتری نہیں آئی، انھوں نے مزید کہا کہ جن ریاستوں میں منفی رجحان سامنے آیا ہے ان ریاستوں کے چیف سکریٹریوں کو خط لکھ کر صورت حال میں بہتری کے لیے کہا گیا ہے۔

یہاں یہ سوال ضرور ذہن میں اٹھتا ہے کہ اس مہم کے لیے جن اصلاح کا انتخاب کیا گیا تھا وہاں کے کلکٹر آخر مہم پر توجہ کیوں نہ دے سکے کہ حالات بہتر ہوں۔ اسی طرح کیا کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ حالات بہتر نہیں ہوئے ٹھیک ہے لیکن مہم کے ہدف میں شامل اصلاح میں مزید خرابی کیسے اور کیوں پیدا ہوئی۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146