[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

ماسی

ڈاکٹر سلیس سلطانہ

۱۸؍جولائی کی بارش نے اس کو چار دن کی چھٹی پر مجبور کردیا۔ اس کے پڑوس میں رہنے والی ماسی میرے برابر کے فلیٹ میں برابرکام پر آتی رہی۔ میں نے اس سے اپنی ماسی کے بارے میں پوچھا تو وہ جھجکتے ہوئے بولی: ’’باجی آپ خود ہی پوچھ لیجیے گا اس سے۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا: ’’تمہارے ہاں بارش کا کیا ہوا؟‘‘ میرا مطلب ان تمام نقصانات سے تھا جو غریب گھروں کے مکین اٹھاتے ہیں۔ وہ سادگی سے بولی: ’’بس باجی اللہ کا کرم ہے، گھر میں پانی بھر گیا تھا، بچوں کے ساتھ مل کر نکال دیا۔‘‘

میں صبر کا گھونٹ پی کر رہ گئی۔ مجھے معلوم تھا کہ میری ماسی آتے ہی اس علاقے کو تشویش ناک اور آفت زدہ قرار دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑے گی۔ وہ جب بھی میرے پاس آتی کوئی نہ کوئی داستان اور ایک نہ ایک کہانی اس کے ساتھ ہوتی۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو رکھنے پر اس لیے مجبور تھی کہ ایک تو وہ پھرتیلی بہت تھی، منٹوں میں سارا کام کرکے رکھ دیتی، دوسرے میں بھی دن بھر کی خاموشی اور سناٹے سے اکتائی ہوئی تھی۔ میرے کوئی اولاد نہ تھی۔ شوہر اپنی دفتری مصروفیات میں مگن اور مشغول۔ میں محلے میں ذرا کم آتی جاتی تھی۔ اس لیے ماسی کے ذریعے ہی سب کی خیر خبر ملتی رہتی تھی اور میں اس رابطے کو غنیمت سمجھتے ہوئے اسے توڑنا نہیں چاہتی تھی۔ میں بارش کے بعد تین دن اس کے انتظار میں رہی۔ چوتھے دن خود ہی اٹھ کر صفائی کی، برتن اور کپڑوں کی دھلائی سے فارغ ہوئی تو وہ اچانک اٹھلاتی بل کھاتی، لہراتی آگئی۔

میرے شوہر دفتر جانے کی تیاری میں تھے۔ سیدھے ان کے کمرے میں جاکر بولی: ’’میری خبر بھی نہ لی کہ مری کہ بچی۔‘‘ وہ اس افتاد پر اچانک بوکھلا گئے۔ انہیں ماسی سے اس رویے کی توقع نہ تھی۔ گھبرا کر بولے: ’’کیا ہوا… تم کہاں تھیں تین دن سے؟‘‘

’’ارے صاحب! کیا نہیں ہوا…‘‘ وہ دہلیز پر بیٹھ گئی۔ ’’میں اور بچے مرتے مرتے بچے… بہن کا پورا جہیز بہہ گیا۔ پڑوسیوں کا فرج اور ڈیپ فریزر پانی کے ریلے میں بہہ گئے۔ ماموں کی سمدھن کا بیٹا پل ٹوٹنے سے پانی میں بہہ گیا۔‘‘

’’مگر تمہارا ان سب سے کیا تعلق؟ بہن کا جہیز اس کے گھر میں بہا، ماموں کی سمدھن کے بیٹے سے تمہارا کیا رشتہ؟ پڑوسیوں کے فریج اور ڈیپ فریزر کو تم نے تو نہیں بہایا… پر تم کام پر کیوں نہیں آئیں؟‘‘ ان کی سوئی اب بھی اس کی غیر حاضری پر اٹکی ہوئی تھی۔

وہ بوکھلا کر کھڑی ہوگئی۔ میں نے مسکرا کر اسے بچالیا۔ ’’چھوڑ دیں اب اس سے باز پرس۔ اس کی بہن کا نقصان بھی تو اس کا اپنا ذاتی نقصان ہے۔ آخر اسی نے تو مانگ مانگ کر اس کا جہیز بنایا تھا… بہن کے لیے اب پھر سے سب کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے گا۔‘‘ اس نے حیران ہوکر مجھے دیکھا اور تیزی سے کچن میں گھس گئی۔

یوں تو میرے شوہر ہمیشہ اس کی حمایت میں پیش پیش رہتے تھے مگر اس دفعہ انھوں نے مجھے ماسی کے نہ آنے کی وجہ سے خود کام کرتے دیکھا تو ان کو نہ جانے کیوں بہت برا لگا۔ مجھے ڈسٹنگ کرتے دیکھ کر بولے: ’’جب سارا کام تمہیں ہی کرنا ہے تو ماسی کس کام کے لیے رکھی ہے!‘‘ میں نے چڑ کر کہا: ’’کیا مطلب ہے آپ کا… میں گھر کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دوں؟‘‘ میں نے تلخی سے کہا: ’’پھر آپ کے لاڈنے اسے بگاڑا ہے۔‘‘ میں نے ان کو ٹٹولا۔

’’کیا مطلب ہے تمہارا…‘‘

’’مطلب یہ ہے کہ اگر ابھی وہ آکر اپنی جھوٹی سچی کہانی سنائے گی تو آپ ہی سب سے پہلے متاثرین کی مدد میں پیش پیش ہوں گے اور جیب میں جو کچھ بھی ہوگا اس کی نذر کردیں گے۔‘‘

’’اب ایسا بھی بے وقوف نہیں ہوں میں۔‘‘ وہ چوری پکڑے جانے پر بوکھلا کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔

چوتھے دن جب وہ آئی تو دروازے پر بیل دیتے ہوئے ’’پردیسیوں سے نہ انکھیاں ملانا‘‘ گارہی تھی۔ میں دروازہ کھولتے کھولتے رک کر گانا سننے لگی۔ آواز سریلی اور تال اور لَے سب درست تھا۔ میں دروازہ کھولتے کھولتے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ دروازے پر جب زور سے دستک ہوئی تو میرے شوہر نے دروازہ کھولا۔ اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے، وہ اٹھلا کر بولی ’’ہماری خبر بھی نہ لی۔‘‘ میرے شوہر جو تیزی سے اپنے کمرے میں چلے گئے تھے، اس جملے پر بوکھلا گئے۔ ’’کہاں تھیں تم چار دن سے۔‘‘ اور اس پر جو اس نے اپنی اور محلے کی غمناک داستان شروع کی، وہ میرے شوہر کو غصہ دلانے کے لیے کافی تھی۔

شعبان کے مہینے میں، میں نے گھر کی تفصیلی صفائی کی۔ رمضان سے پہلے میں نے ماسی کو ہزار روپے زکوٰۃ فنڈ میں سے دیے کہ اپنے اور بچوں کے کپڑے بنا لینا۔ ہزار کا نوٹ ہاتھ میں لے کر وہ بے نیازی سے بولی ’’باجی ڈھنگ کا جوڑا تو اب اتنے پیسوں میں آتا نہیں۔ یہ تو آپ ہی رکھ لیں۔‘‘ اس نے میرے اوپر چوٹ کی، کیوں کہ میں ہمیشہ کم قیمت مگر آرام دہ کپڑوں کو ترجیح دیتی ہوں۔ درزیوں کے چکر سے بچنے کے لیے خود ہی اپنے کپڑے سینا پسند کرتی ہوں۔ یوں بھی آج کل درزی کپڑے کی قیمت سے زیادہ اس کی سلائی وصول کرتے ہیں۔ مجھے اس کا یہ طنز انتہائی ناگوار گزرا۔ ایک لمحے کے لیے سوچا کہ اس سے پیسے واپس لے کر کسی مستحق دے دوں۔ وہ آہستہ سے بولی: ’’انسان کھائے من بھاتا پر پہنے جگ بھاتا۔‘‘ یہ جملہ سن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ’’کیا مطلب ہے تمہارا۔‘‘

’’کچھ نہیں باجی! میں تو اپنے آپ سے بات کررہی تھی۔‘‘ میں نے چاہا کہ اس کی اس بدتمیزی پر اسے اسی لمحے کام سے فارغ کردوں مگر آج کل ’’ماسی‘‘ کاڈھونڈنا بہت مشکل کام ہے۔ مگر ان ماسیوں کا دماغ بھی تو ہم جیسے ناکارہ اور گھر میں بیٹھنے والے بگاڑتے ہیں۔ گھر میں کوئی مصروفیت نہ ہوتے ہوئے ماسی لگا رکھی ہے۔ حالانکہ میرے گھر میں صرف دو ہی افراد ہیں۔ فلیٹ میں جہاں ہماری رہائش ہے صرف تین کمرے ہیں۔ ان کمروں کی صفائی کوئی مشکل کام ہے کیا؟ مگر اپنے مزاج کی سستی، کام کی نااہلی اور دوسروں کو مرعوب کرنے کے لیے ’’ماسیوں‘‘ کا روگ پال رکھا ہے۔ اگر ماسی کام نہ کرے تو ٹی وی کا ہر پروگرام دیکھنے، لمبی فون کال کرنے اور رسالے پڑھنے کا وقت کہاں سے ملے! یہ تفریح بھی تو لازمۂ حیات ہے۔ نماز پڑھنے اور تلاوت قرآن کے لیے وقت ملے نہ ملے، ٹی وی دیکھنے اور رسالے پڑھنے کے لیے وقت نکالنا بہت ضروری ہے۔ میں بھی اسی جھوٹی شان اور ٹی وی دیکھنے کے عارضے میں مبتلا اس کی ناز برداری کرلیتی تھی۔ اس وقت بھی میں نے پانچ سو روپے کا ایک نوٹ اس کی طرف بڑھادیا۔ ’’ہاں اب ڈھنگ کا جوڑا آجائے گا۔‘‘ اس نے احسان جتاتے ہوئے پیسے نیفے میں اڑس لیے۔

ابھی دو دن پہلے خوب بارش برسی لیکن پچھلی دفعہ کی سرزنش کی وجہ سے ماسی نے چھٹی نہیں کی اور اپنے کسی ’’بڑے نقصان‘‘ کا ذکر بھی زور و شور سے نہیں کیا۔ میں کام سے فارغ ہوکر لیٹنے کا ارادہ کررہی تھی، میرے شوہر آفس کے کام سے دو دن کے لیے باہر گئے ہوئے تھے۔ رات کے تقریباً بارہ بج چکے تھے۔ رمضان کا آخری عشرہ تھا۔ دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔ میں نے پیپنگ ہول سے جھانکا، ماسی کھڑی تھی۔ میں نے دروازہ کھولا: ’’خیریت! اس وقت کیا کررہی ہو؟‘‘ میں نے دیکھا اس کے دائیں بائیں اس کی دونوں بیٹیاں کھڑی تھیں۔ ’’باجی میری بچیوں کو دو گھنٹے کے لیے رکھ لیں، میں ابھی ضروری کام سے جارہی ہوں۔‘‘ وہ تیزی سے بچیوں کو اندر دھکیلتے ہوئے بولی۔ میں اس وقت صرف تھوڑی دیر کے لیے آرام کرنا چاہ رہی تھی تاکہ تہجد اور عبادت کے لیے تازہ دم ہوسکوں۔ میں نے روکھے پن سے کہا : ’’بھئی اس وقت تو میں سونے جارہی ہوں، تم بچیوں کو اپنے ساتھ لے جاؤ… جہاں بھی جانا ہے۔‘‘

’’آپ اگر سونے جارہی ہیں تو ان کو بھی یہیں لٹالیں، میں صبح لے جاؤں گی۔‘‘ اس نے میری بات ان سنی کرتے ہوئے بچیوں کو میرے کمرے میں قالین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’باجی کو تنگ نہیں کرنا، میں صبح لے جاؤں گی۔‘‘

’’ارے واہ… اچھی زبردستی ہے۔‘‘ میں دل ہی دل میں اس کی ہٹ دھرمی پر کھول کر رہ گئی۔ بچیاں قالین پر سکڑ کر لیٹ گئیں۔ وہ جس تیزی سے آئی تھی اسی تیزی سے واپس چلی گئی۔ میں نے آرام کا ارادہ ملتوی کردیا۔ بیڈ سوئچ آن کیا اور بچیوں سے پوچھا: ’’تمہارا باپ کیا کرتا ہے؟‘‘ بڑی نے برجستہ کہا: ’’نشہ کرتا ہے۔‘‘ میں چونک پڑی ’’نشہ کرتا ہے… کس چیز کا نشہ؟‘‘ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ’’باجی وہ شراب پیتا ہے، ہیروئین پیتا ہے۔‘‘

’’تم جانتی ہو شراب اور ہیروئین کیا ہوتی ہے؟‘‘ میں اس کی معلومات پر حیران ہوکر بولی۔

’’ہاں باجی! ہمارا باپ ہر روز شراب پیتا ہے، جس دن اس کے پاس بوتل نہیں ہوتی اس دن ماں کو لکڑیوں سے مارتا ہے۔‘‘ وہ معصومیت سے اپنے گھر کے ان رازوں پر سے پردہ اٹھا رہی تھی جنھیں اس کی ماں نے اپنے دکھاوے، اپنی سج دھج سے چھپا رکھا تھا۔ میری نیند اچاٹ ہوچکی تھی۔ ’’جس دن بارش ہوئی تھی ناں اس دن ماں نے ابا کو شراب پینے کے لیے پیسے نہیں دیے۔ ابا نے وائپر سے ماں کو اتنا مارا کہ ان کا جسم نیلا ہوگیا تھا۔ پھر وہ چار دن تک کام پر نہیں گئی۔‘‘ میں چونک پڑی ’’اُف تو اس نے اپنے زخم چھپانے کے لیے چار دن چھٹی کی تھی۔ ‘‘ میںان دونوں بچیوں کو حیرت سے دیکھ رہی تھی جو اپنی معصومیت کی عمر کو نہ جانے کب پھلانگ کر ہر دکھ سکھ سہنے کی عادی ہوگئی تھیں۔

میں نے انہیں غور سے دیکھا تو مجھے ان پر بے پناہ ترس آیا۔ میں نے اپنی تسلی کے لیے ان سے پوچھا: ’’تمہارا باپ کوئی کام نہیں کرتا؟‘‘

’’نہیںباجی وہ توگھر سے نہیں نکلتا… بہت سے گندے گندے لوگ اس کے پاس آتے رہتے ہیں۔‘‘ بڑی بولی۔ مجھے نہ جانے کیوں اچانک ان بچیوں کی طرف سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ ’’تم دونوں دن بھر باپ کے پاس رہتی ہو؟‘‘ میں نے ان دونوں کو اپنے بیڈ پر بٹھا لیا۔

’’نہیں جی، اماں اس کے پاس ہمیں نہیں چھوڑتی۔‘‘ اب چھوٹی کی باری تھی۔

’’کیوں؟‘‘ میں نے دل میں پہلی بار ماسی کی سمجھ داری پر اس کو سراہا۔ ’’وہ کہتی ہے یہ نشہ باز تم کو نشہ کے چکر میں کسی کے ہاتھ بیچ دے گا، اس لیے ہمیں اپنے ساتھ ہی لاتی ہے۔‘‘

تو میرا اندیشہ صحیح ثابت ہوا۔ مجھے بھی نہ جانے کیوں اندیشہ ہورہا تھا کہ اگر یہ بچیاں ہیرونچی باپ کے پاس رہیں تو یہ ان کا سودا کردے گا۔ میں نے اس سے سوال کیا: ’’مگر تم میرے گھر تو کبھی نہیں آئیں، کہاں رہتی ہو سارا دن۔‘‘

’’وہ نیچے والی بیمار باجی کے کام کرنے کے لیے ہم دونوں کو چھوڑی دیتی ہے۔‘‘ بڑی نے سمجھ داری سے جواب دیا۔

’’کون سی بیمار باجی‘‘ میں اپنی بے خبری پر نادم تھی۔ ’’کیا بیمار ہیں وہ؟‘‘

’’باجی ان کو فالج ہوگیا ہے۔ پہلے تو ان کی بہو ساتھ رہتی تھی۔ اب اس نے الگ گھر لے لیا ہے۔ یہ باجی بالکل اکیلی ہیں۔ ہل جل بھی نہیں سکتیں۔ اماں نے کہا تھا ایسے انسان کا کام کرنے سے اللہ خوش ہوتا ہے۔ میری اماں جب گھروں میں کام کرنے کے لیے نکلتی ہے تو سب سے پہلے یہیں نیچے والی باجی کے گھر آتی ہے۔ ان کے گھر کی چابی میری ماں کے پاس ہے۔ وہ پہلے ان کا منہ دھلاتی ہے، صفائی کرتی ہے، ان کا بستر صاف کرتی ہے، چائے پلاتی ہے، کپڑے بدلتی ہے۔ پھر ہم دونوں کو اس کے پاس چھوڑ کر آپ لوگوں کے کام کرتی ہے۔ شام کو واپسی پر ہمیں اپنے ساتھ لے لیتی ہے۔‘‘

’’مگر تم دن بھر کیا کرتی ہو؟‘‘

’’ہم دونوں ان باجی کے ہاتھ پاؤں کی مالش کرتے ہیں۔ ان کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے ہیں۔‘‘

’’کھانا کون پکاتا ہے؟‘‘ میں ماسی اور اس کی بچیوں کی ان خوبیوں کی دل سے معترف ہوتی جارہی تھی۔

’’آپ لوگ جو کھانا دیتے ہیں ناں، وہ اماں بیمار باجی کو کھلا دیتی ہے۔ کبھی کبھی جب اس کو کام سے جلدی فراغت ہوتی ہے تو تازہ بھی پکا کر باجی کے فریج میں رکھ دیتی ہے۔‘‘ مجھے یاد آیا کہ میں نے جب بھی ماسی کو کوئی اچھی چیز کھانے کے لیے دی وہ ہمیشہ شاپنگ بیگ میں رکھ لیتی۔ میں اصرار کرتی تو ٹال دیتی۔ ’’بچیوں کے ساتھ کھاؤں گی باجی، ان کے بغیر حلق سے نہیں اترتا۔‘‘ میں اپنی بدگمانیوں، بدظنی اور اعترافِ ندامت میں غرق ہورہی تھی۔ اس غریب اور ناتواں عورت کا قد کتنا بڑا ہے، جو ہم جیسے جھوٹے عزت داروں کے آگے سب سے اونچا ہے۔ ’’تمہاری ماں کو ان کاموں کے پیسے کون دیتا ہے؟‘‘ میرا بے ایمان دل اب بھی اس کے خلوص کو دل سے قبول کرنے پر آمادہ نہ تھا۔

’’میری ماں ان کاموں کے کسی سے کوئی پیسے نہیں لیتی۔ کہتی ہے ہم سارے کام صرف اپنے ہی لیے کرتے ہیں، کچھ کام اللہ کے لیے بھی کرنا چاہیے، جس کے پاس ہمیں ہر چیز کا حساب دینا ہے۔‘‘

میں اچھل پڑی… یہ فہم، یہ ادراک تو بڑے بڑے ولیوں کو نہیں ہوتا جو اس غریب و نادار عورت کو تھا۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی ’’باجی ان بیمار باجی کے پیسے کون دے گا۔؟ ان کا بیٹا تو ایک حادثے میں مرگیا۔ اسی خبر نے تو باجی کو بیمار کردیا تھا۔ بہو نے دوسرا گھر لے لیا۔‘‘

میں اندر ہی اندر نادم تھی، ان تمام حالات سے بے خبری پر۔ محلے پڑوس کا حق صلۂ رحمی میں شامل ہے، میں نے تو قطع رحمی کی انتہا کردی۔ ماسی کی نیکیوں او رخوبیوں کی پرتیں کھلتی جارہی تھیں اور میں ندامت کی پاتال میں گرتی جارہی تھی۔ یہ چھوٹے چھوٹے لوگ جن کو عام حالات میں ہم اپنے برابر بیٹھانا پسند نہیں کرتے، یہ قطب اور ولیوں سے بڑھ کر نیک، سچے، ہمدرد اور سیدھے راستے پر چلنے والے لوگ ہیں۔ ہم اپنی عزت صرف دکھاوا، تصنع، مادیت پسندی اور حرص و ہوس میں تلاش کرتے ہیں۔ یہ غریب کتنے وسیع القلب اور سچے کھرے لوگ ہیں جو دکھاوے کی نمازیں بھی نہیں پڑھتے۔ بظاہر روزہ ،نماز اس طرح نہیں کرتے جس طرح ہم اہتمام کرتے ہیں، مگر ہر وہ اچھائی جو اسلام کی خوبی ہے وہ ان میں موجود ہے۔اعلیٰ ظرف اور اچھے مسلمان کی علامت۔ ہم اپنی عبادتوں کے زعم میں دوسرے کو ذلیل وخوار کرکے رکھ دیتے ہیں۔ بدگمانی، غیبت، بدظنی، بددیانتی… یہی تو ہماری خوبیاں ہیں۔ میں نے اپنی ہر عادت پر ملامت کی۔ بچی سے پوچھا : ’’تمہاری اماں اس وقت کہاں گئی ہے۔‘‘مجھے لگا جیسے اصل بات کچھ اور ہے۔ ’’ابا نے آج ہم دونوں بہنوں کا کسی آدمی سے سودا کرلیا ہے… اماں نے سن لیا، وہ ہم دونوں کو اسی وقت لے کر نکل پڑی اور سیدھا یہیں آپ کے گھر لے آئی۔‘‘

’’اہ میرے خدا!‘‘ میں لرزگئی۔ وہی ہوا جس کا مجھے اندیشہ تھا۔ میں نے ان دونوں بچیوں کو اپنے بازوؤں میں بھر لیا۔ نہ جانے اس وقت کہاں سے مجھ میں ممتا کی آگ بھر گئی۔ میں ان دونوں کے لیے اسی طرح پریشان ہوگئی جیسے ایک ماں اپنے بچوں کو دکھ میں دیکھ کر بے چین ہوجاتی ہے۔ ’’تمہاری ماں اس وقت کہاں گئی ہے؟‘‘ مجھے ماسی کے خیال نے بے کل سا کردیا۔ میرے سوال پر دونوں بہنوں نے ایک دوسرے کو دیکھا جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہوں کہ ان کو بتانا چاہیے یا نہیں کہ اس وقت اماں کہاں ہے اور کیا کررہی ہے؟ میں نے چمکار کر تسلی دی ’’ہاں ہاں بتاؤ‘‘

’’وہ ابا کو قتل کرنے گئی ہے۔‘‘ دونوں نے یک زبان ہوکر کہا۔ میں اچھل پڑی ’’یا اللہ رحم‘‘۔ وہ دونوں بولتی چلی گئیں۔ ’’اماں نے کہا تھا میں اس شرکے دروازے کو ہمیشہ کے لیے بند کردوں گی۔ تم دونوں انہی باجی کے پاس رہنا … اگر میں زندہ بچ گئی تو آکر تمہیں لے جاؤں گی ورنہ تم دونوں انہی باجی کا کام کرنا اور انہی کے پاس رہ لینا۔ ان باجی کے اولاد نہیں ہے وہ تمہیں بہت پیار دیں گی۔‘‘

’’یا اللہ یہ کیسی خوش گمان عورت ہے، جو مجھ جیسی بانجھ سے ایسی اچھی اچھی امیدیں وابستہ کیے بیٹھی ہے۔ میں بنجر زمین جہاں پیار کا کوئی بیج نہیں اگتا، جہاں ممتا کے سوتے نہیں پھوٹتے، وہاں اتنا یقین، اتنا وثوق…!‘‘ میں تڑپ کر رو دی اُس کی اس خوش فہمی پر کہ میں بھی ماؤں کی طرح بن سکتی ہوں۔ مجھے احساس محرومی ہونے لگا، میں نے اس احساس کو مٹانے کے لیے ان دونوں کو سینے سے لگا کر بھینچ لیا۔ مجھے اچانک روتا دیکھ کر وہ دونوں بھی رونے لگیں۔

ننھی ننھی سی معصوم سسکیوں نے مجھے تڑپا دیا۔ میں نے آنسو پونچھ کر ان سے پوچھا ’’تم دونوں نے کھانا کھایا؟‘‘ انھوں نے میرے سینے سے لگے ہوئے سر انکار میں ہلادیا۔

’’امی کے سارے پیسے ابا چھین لیتا ہے۔ ہم لوگوں کے پاس کھانے کو کئی کئی دن کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ وہ خشک ہونٹ، زرد چہرے اور بہتی آنکھوں کے ساتھ اپنا دکھ بیان کررہی تھیں۔

’’یا اللہ ہمارے اطراف کیسے کیسے مسکین اور مجبور لوگ ہیں جن سے بے خبر ہم اپنی دنیا میں مگن ہیں۔‘‘ میں نے آہستہ سے ان کو بازوؤں سے الگ کیا۔ فریج میں رکھی ہوئی کئی ڈشیں تھیں جنھیں میں سحری کے لیے بنا کر رکھتی تھی۔ میں نے قیمہ اوون میں گرم کیا، پراٹھے نکالے اور دونوں کے سامنے ٹرے میں لاکر رکھ دیا۔ میں منہ سے کچھ نہ بولی۔ شاید مجھ میں اتنا حوصلہ ہی نہیں تھا کہ میں تین دن کے بھوکے بچوں سے کچھ کہہ سکوں۔ وہ کھانا دیکھ کر آہستہ سے بولیں: ’’باجی میری ماں بھی بھوکی ہے۔ ہم اس کے بغیر کھانا نہیں کھاتے، نہ وہ ہمارے بغیر کھاتی ہے۔‘‘ میرے آنسو ایک بار پھر دل میں سوراخ کرنے لگے۔ میرا پورا وجود آنسوؤں میں ڈوب رہا تھا۔ مجبوری، مفلسی اور بے چارگی کے کتنے رنگ ہوتے ہیں جو یہ صابر اور شاکر اللہ کے بندے اپنے اوپر ڈال لیتے ہیں۔ میں نے بھیگے لہجے میں کہا: ’’تم دونوں تو کھانا کھالو، اماں آئے گی تو اس کو بھی کھلا دوں گی۔‘‘ میں نے پراٹھے کا لقمہ توڑ کر قیمہ سے لگایا اور چھوٹی کے منہ میں دینا چاہا۔ اس نے آہستہ سے میرا ہاتھ پیچھے ہٹادیا۔ ’’مجھے بھوک نہیں۔‘‘ میں نے وہی لقمہ بڑی کی طرف بڑھایا ’’باجی ہم اماں کے ساتھ ہی کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا اور میں کھسیا گئی۔ کیسی صابر، شاکر بچیاں ہیں جو فاقے میں بھی ماں کے بغیر کھانے کا تصور نہیں کرتیں، نہ نوالے توڑنے پر آمادہ ہیں۔ ’’تم نے کب سے کھانا نہیں کھایا؟‘‘ میں نے خواہ مخواہ سوال کیا۔

’’کئی دن پہلے ساگ روٹی کھایا تھا۔‘‘

میں لرز گئی۔ وہ باسی کڑوا، زیادہ نمک کی وجہ سے بدمزا ساگ میں نے ہی اسے دیا تھا۔ اور اس نے خاموشی سے شاپنگ بیگ میں ڈال لیا تھا۔ وہی کڑوا ساگ تین دن پہلے ان کی آخری خوراک تھا۔ جس کو میں نے احسان سمجھ کر دیا تھا۔

اب میرا آرام، میری نیند، میری عبادت صرف اسی صورت میں اللہ کے حضور قبول ہوسکتے ہیں جب یہ معصوم مجھے قبول کرلیں۔ میں نے ان کی دلداری کرتے ہوئے توس پر جام لگا کر ان کے سامنے پلیٹ میں رکھ دیا۔ اچھا یہ کھالو، یہ تو کھانا نہیں ہے ناں… کھانا تم دونوں اماں کے ساتھ کھا لینا… ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے انتہائی لجاجت اور خوشامد سے کہا۔ اس لمحے مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ اگر ان بچیوں نے آج پیٹ بھر کرکھانا کھالیا تو شاید اللہ کے گھر میری بخشش ہوجائے۔

اس بخشش کی طلب نے مجھے انتہائی خود غرض بنادیا تھا، میں ان کی خوشامد کرکے ان کی رضا کی خاطر کچھ بھی کرنے کے لیے تیار تھی۔ انھوں نے جھجکتے ہوئے ایک توس اٹھایا، میں نے انہیں کھاتا دیکھ کر جلدی سے فریج سے دودھ کا ڈبا نکالا، دودھ گلاسوں میں ڈالا اور بغیر کچھ کہے ان کے ہاتھ میں دودھ کے گلاس پکڑا دیے۔ انھوں نے بغیر کچھ کہے خاموشی سے دودھ پی لیا۔ انھیں دیکھ کر مجھے عجیب سی طمانیت کااحساس ہونے لگا جیسے ان کی خدمت اور دلداری ہی میرا مقصدِ حیات اور بخشش کا ذریعہ ہے۔ گلاس خالی ہوئے تو میں نے ان کے ہاتھ سے لے کر دونوں کو اپنی مسہری پر لٹا دیا۔ آہستہ آہستہ دونوں کی کنپٹیوں کو سہلایا۔ وہ دونوں تھوڑی ہی دیر میں خراٹے لینے لگیں۔ میری نیند غائب ہوچکی تھی۔ ان کو لٹا کر میں دوسرے کمرے میں آگئی۔ شب قدر تھی اس لیے وضو کرکے نماز کے لیے کھڑی ہوگئی۔ بچیاں اب بے خبر سو رہی تھیں۔ میں نے ہلکی سی چادر ان پر ڈال کر پنکھا تیز کردیا۔ دوسرے دن کا اخبار میری توقعات کے عین مطابق تھا۔ ماسی کی خبر شہر کی خبروں کے صفحے میں موجود تھی۔ ’’ایک عورت نے اپنے نشہ باز شوہر کو قتل کرکے خود کشی کرلی۔‘‘ خبر کی تفصیل بالکل اسی طرح تھی جیسا کہ بچیوں نے بیان کیا تھا۔ میں نے بہتے ہوئے آنسوؤں کو اچھی طرح بہنے دیا۔ کیوں کہ اب مجھے بچیوں کے سامنے ایک بہادر ماں بن کر رہنا تھا جو زمانے کے سرد و گرم سے اپنے بچوں کو محفوظ رکھ سکے۔ یہ آنسو اب دوبارہ ان آنکھوں میں نہیں آنے چاہئیں۔ میں نے بہت دیر بعد انہیں صاف کیا۔ بچیاں ابھی تک سو رہی تھیں۔ میں نے اے سی آن کرکے کمبل ان کو اوڑھا دیا اور خود دروازہ بند کرکے دوسرے کمرے میں گئی تاکہ وہ اپنی نیند پوری کرلیں۔

اگلے روز کے اخبار میں اسی واقعہ سے متعلق کچھ اور تفصیلات تھیں جن میں یہ انکشاف بھی تھا کہ قاتل عورت نے خود کشی نہیں کی بلکہ شرابی شوہر کے ساتھیوں نے مل کر اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کیا تھا۔ یہ خبر سن کر مجھے ایک اطمینان ہوا کہ وہ خود کشی کے گناہ سے تو محفوظ رہی باقی معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں