موجودہ معاشرہ بڑی تیزی سے ایک بکھراؤ اور انتشار کی جانب گام زن ہے۔ سماج میں یقینا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور ان تبدیلیوں کو روکنا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن اگر تبدیلیاں اچھی اور مثبت ہوں تو وہ معاشرے کے حسن کو دو بالا کرتی ہیں۔ لیکن اگر اس کے برعکس تبدیلیوں کا عمل ہماری اچھی اور خوب صورت روایات، تہذیب، شائستگی اور خاندانی نظام سمیت ہماری اخلاقی اقدار کو متاثر کر ے تو یہ تبدیلیوں کا عمل عملی طور پر ایک بڑے بوجھ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
ہم سب یہ اعتراف کرتے ہیں، پڑھتے ہیں، پڑھاتے ہیں، بولتے ہیں اور سنتے ہیں کہ انسانی رشتوں میں سب سے اہم اور بڑا رشتہ ماں اور باپ کا ہوتا ہے۔ وہ ماں اور باپ جو اچھے اور برے حالات میں اپنے بچوں اور بچیوں کو محبت کے ساتھ پال پوس کر بڑا کرتے ہیں، جان نچھاور کرتے ہیں، ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے ہیں، اپنی زندگیوں کو ان پر قربان کردیتے ہیں، لیکن ایک خاص مرحلے میں آکر وہ اپنی اولاد کے طرز عمل کے باعث تنہا ہو جاتے ہیں۔
مشرقی روایات میں خاندان کے نظام کو بنیادی کنجی سمجھا جاتا ہے۔ یہ نظام انفرادی زندگی کے مقابلے میں اجتماعی زندگی کی یا سب کے ساتھ مل جل کر رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ لیکن اب یہ نظام دنیا کی پھیلتی ہوئی نئی قدروں اور کلو بلائزیشن کی دوڑ میں کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ہم سب مجموعی طور پر اپنی اچھی روایات کو محفوظ کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ اس نئے بگڑے ہوئے نظام میں ہمیں اپنے والدین، ان سے بے پناہ محبت کے دعووں کے باوجود، بوجھ نظر آتے ہیں۔ اس نئے نظام میں اخلاقی تربیت کا عمل بہت پیچھے چلا گیا ہے جو ہماری اعلیٰ قدروں کو ختم کر رہا ہے۔ والدین جو ایک خاص حد یا عمر میں پہنچ کر عمومی طور پر زیادہ حساس طبیعت ہوجاتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بزرگی میں ان کی اولادیں ان کے ساتھ وہی برتاؤ کریں جو وہ ان کے بچپن میں ان کے ساتھ کیا کرتے تھے۔
پچھلے دنوں مجھے ایک ویڈیو کلپ دیکھنے کا موقع ملا۔ جس میں اولڈ ایج ہوم یعنی بزرگوں کا گھر دکھایا گیا تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں خوش حال طبقہ کی اولادیں اپنے والدین کو ان گھروں میں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک عورت تواتر سے کہتی ہے کہ وہ محض چند دن کے لیے یہاں آئی ہے۔ اس کا بڑا بیٹا وعدے کے مطابق اسے جلدی گھر لے جائے گا۔ اس کے سامنے بیٹھا ایک اور بزرگ اسے کہتا ہے کہ بہن جی یہاں لوگ آتے ضرور ہیں، لیکن جانے کے لیے نہیں۔ لیکن وہ عورت بضد ہے کہ اس کا بیٹا اسے لینے آئے گا لیکن اس کے رابطہ کرنے پر بیٹا ٹالتا رہا، بالآخر وہ عورت اسی اولڈ ایج ہوم میں دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے۔
کچھ دن قبل جب مجھے عملاً ایک بزرگوں کے اولڈ ایج ہوم میں جانے کا اتفاق ہوا، تو ان بزرگ عورتوں اور مردوں کی کہانیاں سن کر کئی دن تک ذہنی خلفشار کا شکار رہا۔ ان بزرگوں کی باتوں میں دکھ اور کرب سن کر سوچتا رہا کیا اولادیں ایسی بھی ہوسکتی ہیں۔ ان بزرگوں کی اولادیں خوش حال ہیں اور ان میں کئی اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ لیکن ان کے بڑے بڑے گھروں میں اپنے ہی ماں اور باپ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ہمارے والدین ہمارے گھر کے ماحول کو خراب کرتے ہیں، بات بات پر ٹوکتے ہیں، پابندیاں لگاتے ہیں اور ان کے چڑ چرے پن سے ہمارا گھر متاثر ہوتا ہے۔ مجھے اولڈ ایج ہوم کے سربراہ نے بتایا کہ ان والدین سے ملنے کے لیے ان کی اولادوں کے پاس کوئی وقت نہں ہوتا اور نہ وہ آنا پسند کرتے ہیں۔ کچھ سال قبل ایک بزرگ سے ملا جس کا ایک بیٹا تھا۔ وہ باہر چلا گیا اور اپنے باپ کو اولڈ ایج ہوم میں داخل کرایا گیا، وہ باقاعدگی سے چیک بھیجتا تھا، لیکن باپ نے کوئی چیک کبھی کیش نہیں کرایا۔ اس کے بقول اسے پیسہ نہیں بیٹے کا سہارا چاہیے، لیکن بیٹا یہ بات نہیں سمجھ پایا۔
آج کل جب لڑکیاں گھر میں بیاہ کر آتی ہیں تو ان کا پہلا مطالبہ علیحدہ گھر کا ہوتا ہے۔ یہ ہی وہ نقطہ ہوتا ہے جہاں سے والدین اور اولاد کے درمیان دوریاں اور تلخیاں پیدا ہوتی ہیں۔ لڑکی یہ بھول جاتی ہے کہ وہ اپنے خاوند کو علیحدہ کر کے اس کو اپنے والدین سے جدا کر رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ علیحدہ گھر لڑکی کا حق ہے۔ کیا والدین کی ذمہ داری او ران کو ساتھ رکھنا والدین کا حق اور اولاد کی ذمہ داری نہیں۔ یہ حق بچوں سے کون چھینتا ہے اور کس برے انداز سے والدین کی تضحیک کی جاتی ہے، وہ ناقابل بیان ہے۔
اولادوں میں ایک طبقہ وہ ہے جو اپنے والدین کو اپنے گھروں میں تو رکھتے ہیں، لیکن ان کے پاس ماں باپ کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ ماں اور باپ اولاد کی موجودگی میں تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔ اولاد اپنی بیوی اور بچوں میں اس حد تک مگن ہو جاتی ہے کہ وہ بھول جاتے ہیں کہ ان پر والدین کا بھی حق ہے۔ میں ایسے بے شمار غریب والدین کو جانتا ہوں جو اپنی اولاد کی موجودگی میں محلے داروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی جواں اولادیں ان کو کھانے اور علاج کی سہولتیں بھی نہیں دیتے۔ بعض والدین اپنے بچوں کے گھروں میں بیٹے، بہوؤں، پوتوں، پوتیوں کے گھر کے اندر اور باہرکے کاموں تک محدود ہوجاتے ہیں، لیکن اس صلہ میں بھی ان کو پیار کم اور تلخیاں زیادہ ملتی ہیں۔
نوجوان طبقہ جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں وہ شادی سے قبل اپنے آپ کو باہر یا گھر کے کاموں میں محدود کرلیتے ہیں کہ اپنے والدین کے لیے بھی ان کے پاس وقت نہیں۔ ٹی وی، کمپیوٹر اور شوشل میڈیا کی بھرمار نے گھر میں والدین کی دیکھ بھال سے دور کر دیا ہے۔ بہت سی اولادیں سمجھتی ہیں کہ جب ہم اپنے والدین کا خرچہ پورا کر رہے ہیں تو مسئلہ کیا ہے۔ وہ یہ مسئلہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مسئلہ سہولتوں کا نہیں بلکہ خلوص، محبت، شائستگی، اخوت اور اخلاص کا ہوتا ہے۔ یہ یہی وہ دولت ہے جو والدین اپنے بچوں سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
میں نے ایک طبقہ ایسا بھی دیکھا ہے جو مرنے والے والدین کو بہت یاد کرتے ہیں۔ ان کی یاد میں مجلسیں سجاتے ہیں، فاتحہ خوانی کرواتے ہیں اور ان کو یاد کر کے بڑے قصیدے گاتے ہیں۔ لیکن جب وہ زندہ ہوتے ہیں تو ان کو سوائے دکھ کے اور کچھ نہیں دے پاتے یا ان سے لاتعلق ہی رہتے ہیں۔ کتنی اولادیں ہیں جو اپنے والدین کو اپنی تفریح کے ساتھ جوڑتے ہیں یا باہر لے جاتے ہیں یا اپنے بچوں کے سامنے اپنے والدین کو رول ماڈل بناتے ہیں، تاکہ کل ان کی اولاد بھی ان کے ساتھ محبت بھرا سلوک کرے۔
ممکن ہے کہ بعض والدین ایسا رویہ اختیار کرتے ہوں جو آج کی اولاد کے لیے مشکل ہو، لیکن اس کا علاج وہ نہیں جو ہم بطور اولاد کے کر رہے ہیں۔ اصل میں معاشرے میں اخلاقی زوال اس حد تک آگیا ہے کہ اصلاح کرنے والے تمام ادارے ہی خود بدحالی کا شکار ہیں۔ میڈیا کے بگاڑ نے معاشرے کو اجتماعی طاقت سے نکال کر انفرادی زندگی میں ڈال دیا ہے۔ میں ایسے والدین کو جانتا ہوں کہ وہ اپنی اولادوں کی بے رخی اور بدترین سلوک کے باوجود ان کو دعا ہی دیتے نظر آتے ہیں۔ کاش ہم اپنے والدین کو بوجھ نہ سمجھیں، یہ احساس ان لوگوں کو زیادہ ہے، جن کے والدین دنیا میں نہیں رہے، اس لیے جن کے والدین زندہ ہیں ان کو زندگی میں ہی ہلاک نہ کریں، ان کے ساتھ محبت کریں، جیسے والدین اپنے بچوں سے محبت کرتے رہے ہیں جب وہ چھوٹے تھے۔ lll