ماں کا دودھ اور بچے کی صحت

حکیم نیاز احمد

موجودہ دور میں بچوں کے بیمار ہونے کی بنیادی اور سب سے بڑی وجہ ماں کا بچے کو اپنا دودھ نہ پلانا بن رہا ہے۔ بچے کو فیڈر سے پلایا جانے والا دودھ بچے کے لیے اکثر صحت مندی کی بجائے بیماری کا سبب بن رہا ہے۔ دوسری بڑی وجہ ہمارے ہاں صاف و شفاف پانی کا نہ ہونا ہے۔ صاف و شفاف پانی انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، بچوں کے لیے اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ گھروں میں بچوں کی مناسب صفائی و ستھرائی کا نہ ہونا بھی بچوں میں بیماریاں بڑھنے کا سبب بن رہا ہے۔

بچے کی بنیادی اور ضروری غذا ماں کا دودھ ہے۔ ماں کا دودھ ایک مکمل غذا اور بیماریوں سے حفاظت اور بحالی صحت کا بہترین ذریعہ اور ہتھیار ہے۔ کیوں کہ ایسے تمام تر غذائی اجزا جن کی انسانی جسم کو ضرورت ہوسکتی ہے ماں کے دودھ میں وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ انسانی بدن کے لیے ماں کے دودھ سے اچھی خوراک کوئی دوسری ہو ہی نہیں سکتی۔ بھینس، گائے اور بکری کے دودھ میں مطلوبہ غذائی اجزا تو پائے جاتے ہیں لیکن تناسب اور توازن کے لحاظ سے ماں کا دودھ ہی بہترین ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین کے مطابق ایسے افراد جو بچپن میں شیر خواری کی پوری مدت میں ماں کا دودھ پیتے ہیں ان کے جسم میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت زیادہ کارگر ہوتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نومولود بچے کو ماں اپنا دودھ پلائے۔ کم از کم چھ مہینے متواتر بچے کو لازمی دودھ پلانا چاہیے یہ بچے کا اللہ کی طرف سے متعین کردہ حق بھی ہے۔ اسی طرح اگر فیڈر سے دودھ پلانا مجبوری ہو تو ہر بار فیڈر کو پانی میں پکا کر دھونے کے بعد بچے کو دودھ پلایا جائے۔ دھیان رہے کہ ماں کے دودھ کے علاوہ بچے کو بکری، گائے یا بھینس کا دودھ ہی پلایا جانا چاہیے۔ خشک اور ڈبوں والا دودھ بھی بچے کے میٹابولزم کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

جدید طبی تحقیقات کی روشنی میں جو حقائق سامنے آئے ہیں ان میں اہم ترین یہ ہے کہ ماں کے دودھ میں نہ صرف مطلوبہ غذائی اجزا پائے جاتے ہیں بلکہ ایسے مفید اینٹی باڈیز بھی پائے جاتے ہیں جو بچے کو بیکٹیریا، وائرس اور جراثیم سے پھیلنے والی بیماریوں جیسے تشنج، کالی کھانسی، نمونیہ، خناق، ٹائیفائڈ، پیچش، فلو، پولیو اور معدہ و آنتوں کی سوزش کے خطرات سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ مندرجہ بالا امراض کے عام ہونے کی آج کل ایک بڑی وجہ ماؤں کا اپنے بچوں کودودھ نہ پلانا بھی ہے۔ آج کل کی مائیں اسمارٹ نس کے چکر میں بچوں کو دودھ پلانے سے کتراتی ہیں۔ اس طرح وہ مامتا کے حقیقی تقاضوں اور ذمے داریوں سے پہلو تہی کرتے ہوئے اپنے جگر گوشوں کو بیماریوں کے سپرد کر رہی ہیں۔ دودھ میں پائے جانے والے غذائی اجزا میں نشاستہ، چکنائی، پروٹین، کیلشیم، پوٹاشیم، میگنیشیم، جست، فاسفورس، سوڈیم، آیوڈین، ریبو فلاوین، وٹامن بی 12، وٹامن سی اور وٹامن ڈی وغیرہ شامل ہیں چونکہ نومولود نرم و نازک ہوتے ہیں، ان کا نظام ہضم کمزور ہوتا ہے۔ یوں قدرت نے بچوں کے لیے جلد ہضم ہونے والی غذا یعنی ماں کے دودھ کا اہتمام کر کے نسل انسانی کی افزائش اور نشو و نما کا بندوبست بھی فرما دیا۔

بطورِ متوازن غذا ماں کے دودھ کا روزانہ استعمال بچے کو ضروری غذائی اجزا فراہم کرتا ہے۔ بچے کو جسم کی نشو و نما کے لیے روزانہ کیلشیم کی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے اور ماں کا دودھ اس ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ یاد رہے کہ کیلشیم ہڈیوں کی بناوٹ اور مضبوطی میں مدد کرتا ہے۔ یہ اعصابی افعال، پٹھوں کی تعمیر اور خون کے انجماد میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اسی طرح نومولود کے بدن کو آیوڈین کی مقدار بھی درکار ہوتی ہے، جسے دودھ فراہم کرتا ہے۔ دودھ کی مصنوعات گلہڑ سے بچانے والے ذرائع خوردنی آیوڈین مہیا کرتی ہیں۔ تاہم مختلف مطالعاتی رپورٹس کے مطابق دودھ میں موسم اور علاقے کے لحاظ سے آیوڈین کی مقدار مختلف ہوتی ہے۔ ایک اوسط درجے کی مقدار پچاس ملی گرام تک پائی جاتی ہے۔ وٹامن ڈی کی خاص مقدار بھی انسانی جسم کی روز مرہ ضرورت میں شامل ہوتی ہے۔ وٹامن ڈی کیلشیم کے ساتھ مل کر ہڈیوں کی ساخت بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بدن کی یہ ضرورت دودھ کا استعمال بہ آسانی پورا کرتا ہے۔ ریبو فلاوین کی مطلوبہ مقدار بھی ہمیں دودھ سے مہیا ہوسکتی ہے۔ ریبو فلاوین توانائی کشید کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ عام جسم کو روز مرہ فاسفورس کی مخصوص مقدار بھی درکار ہوتی ہے۔ یہ ہڈیوں کی مضبوطی اور توانائی مہیا کرنے کے لیے لازمی سمجھی جاتی ہے۔ دودھ کے مناسب استعمال سے فاسفورس کی مطلوبہ مقدار حاصل کی جاسکتی ہے۔

ایک تندرست بچے کو وٹامن بی بھی درکار ہوتی ہے، یہ خون کے سرخ ذرات کے لیے لازمی عنصر سمجھا جاتا ہے۔ ماں کا دودھ بچے کی اس ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے، اسی طرح پروٹین بھی ہمارے انسانی بدن کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ اس کی خاص مقدار بچے کو روزانہ درکار ہوتی ہے۔ پروٹین جسم کے عضلات اور بافتوں کی بہتری کے لیے ایک ضروری جز ہے لہٰذا دودھ اعلیٰ اور معیاری پروٹین کا سب سے عمدہ ذریعہ ہے جو تمام قسم کے ضروری امینو ایسڈز یا پروٹینی تیزابی مادوں سے لبریز ہوتا ہے۔ پوٹاشیم بھی انسانی جسم کی لازمی ضرورت ہے۔ یہ محلولاتی توازن، بلند فشار الدم اور پٹھوں کی حرکات و تعمیر کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی مطلوبہ مقدار ہم دودھ سے حاصل کرسکتے ہیں۔ خالص دودھ نہ استعمال کرنے سے انسانی جسم کئی ایک امراض کے نرغے میں پھنس سکتا ہے۔ دودھ سے حاصل ہونے والے معدنی اجزا (کیلشیم، پوٹاشیم، فارسفورس، جست، آیوڈین، ریبو فلاوین وغیرہ) کی کمی سے ہڈیوں، پٹھوں، آنتوں اور گلہڑ جیسے مضر مسائل پیدا ہوکر بچوں کو ذہنی اور بدنی الجھنوں سے دوچار کرسکتے ہیں۔

دودھ میں معیاری چکنائی کی مقدار 3.5 فیصد تک مانی جاتی ہے لیکن دنیا کے مختلف ممالک میں دودھ میں چکنائی کی مقدار مختلف استعمال کی جاتی ہے۔ عام طور پر ترقی یافتہ ممالک میں ایک فیصد چکنائی سے بالکل صاف دودھ پینے کا رواج زور پکڑ رہا ہے۔ دودھ میں دس سے زیادہ غذائی اجزاء، معدنیات، حیاتین، پروٹینز، نشاستہ اور چکنائیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ اجزا ایک صحت مند جسم کے لیے لازمی خیال کیے جاتے ہیں اور مختلف بیماریوں سے ہماری حفاظت کرتے ہیں۔

انسانی اور حیوانی دودھ میں پائے جانے والے فرق کے بارے میں جاننا بڑا ضروری ہے تاکہ دودھ کی افادیت کے حوالے سے معلومات سے واقفیت ہوسکے۔ انسانی اور حیوانی دودھ میں پائے جانے والے غذائی اجزا کا فرق کچھ یوں ہے:

غذائی اجزا فی سو گرام

اجزاء انسانی دودھ حیوانی دودھ

پروٹین 1.2 گرام 4 گرام

چکنائی 4 گرام 3.5 گرام

کاربوہائیڈریٹس 9 گرام 4.9گرام

کیلشیم 33گرام 118گرام

فاسفورس 18 گرام 97 گرام

سوڈیم 16 گرام 50گرام

انسانی اور حیوانی دودھ کے مابین پائے جانے والے فرق سے واقف ہوکر ہم اپنے بچوں کے لیے بہتر غذا کا انتخاب کرسکتے ہیں۔

بچوں کو پانی ہمیشہ ابلا ہوا اور صاف پلایا جائے۔ بچے کو چھٹے ماہ سے ٹھوس غذا کا استعمال شروع کروا دیا جائے۔ تمام موسمی پھل، خاص طور پر کیلا، ابلے ہوئے آلو اور دوسرے نرم غذائی اجزا کا استعمال شروع کر دیا جائے۔ بچوںکی حفاظت کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ حفاظتی ٹیکے بروقت اور ضرور لگوائے جائیں۔ بچے کے ماحول کو صاف ستھرا اور ہوادار رکھا جائے۔ماحول او رموسم بچے چھوڑ بڑوں کو بھی لازمی متاثر کرتے ہیں۔ بچے کا ماحول ماں کی گود سے شروع ہوتا ہے اور موسمی اثرات بھی ماں کی طرز نگہداشت سے ہی مرتب ہوجاتے ہیں۔ بچے کی بہتر صحت کے لیے گھر کا کھلا اور ہوادار ہونا لازمی ہے۔ بچوں کی صحت کو خاندانی اشتراک بہت زیادہ متاثر کرتا ہے۔ ایک ہی گھر اور ایک کمرے میں کئی کئی افراد کا رہنا نومولود کی صحت پر بہت برے اثرات ڈالتا ہے۔ چوں کہ بچے کی قوت مدافعت کمزو رہونے کی وجہ سے بچہ سانس سے بہت اثر لیتا ہے جو بعد میں کسی بیماری کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ یاد رکھیں خاندانی پیار محبت اپنی جگہ لیکن مختلف خاندانوں کو الگ الگ کھلے اور ہوادار گھروں میں رہنا چاہیے۔

بچے کے لیے موسم کی مناسبت سے لباس، خوراک اور آب و ہوا کا بندوبست کرنا گویا بچے کو بیماریوں سے محفوظ رکھنا ہے۔ سردی کے موسم میں گرم پانی سے مناسب وقت نہلانا، گرم لباس پہنانا، توانائی سے لبریز غذا کھلانا اور سردی کی شدت سے بچانا والدین کی پہلے ذمے داری ہے۔ معالجین کے پاس آنے والے اکثر بچے والدین کی عدم توجہ کی وجہ سے موسمی اثرات کی لپیٹ میں آکر بیمار پڑتے ہیں۔ حالاں کہ اگرتھوڑی سی توجہ دی جائے تو بچے اور والدین پریشانی سے بچ سکتے ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بچے کوماں کا دودھ روزانہ مناسب مقدار میں پلاکر نہ صرف اسے تن درست و توانا رکھ سکتے ہیں بلکہ لاتعداد بیماریوں کے حملوں سے محفوظ بنا سکتے ہیں۔ لیکن دھیان رہے کہ اگر بچے کو کسی وجہ سے ماں کا دودھ میسر نہیں آرہا ہو یا ہضم نہیں ہو پا رہا ہو تو حیوانی خالص دودھ بچے کو پلاکر ہی ہم اس کی بہتر نگہ داشت کرسکتے ہیں۔

ہمارے ہاں دودھ فروش کمپنیوں نے اپنی مضبوط مارکیٹنگ کے بل بوتے عام صارف کو وائرس، بیکٹیریا اور جراثیم کی آلودگی کا ڈراوا دے کر حیوانی دودھ (بکری، گائے، بھینس) سے خوف زدہ کر دیا ہے۔ مارکیٹ میں مصنوعی دودھ کی اس قدر بھرمار ہے اور ٹی وی و اخبارات پر اشتہارات کے ذریعے عوام الناس کو دودھ کے نام پر مبینہ طور پر اراروٹ پاؤڈر، سنگھاڑوں کا آٹا، کاغذ کا گودا، جھاگ بنانے والے کیمیکل، سرف، میٹھا سوڈا، یوریا کھاد اور نہ معلوم کیا کیا پلایا جا رہا ہے۔ یہی نہیں تازہ دودھ بیچنے والے گوالے بھی اس سلسلے میں اپنی اخلاقی ذمے داریاں بہ خوبہ نبھاتے ہوئے مبینہ طور پر گندے جوہڑوں کا پانی، چاولوں کا آٹا، گاچی (مٹی کی خاص قسم جو دودھ گاڑھا کرنے کے لیے دودھ میں ملاتے ہیں) دودھ میں ملا کر انسانی نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں۔ معدے اور انتڑیوں کی امراض میں اضافے کی ایک بڑی وجہ دودھ میں ملاوٹ شدہ اشیا بھی ہیں۔ کیوں کہ دودھ میں شامل کیے جانے والے مبینہ مذکورہ اجزا انتڑیوں کو متاثر کرتے ہیں۔

مصنوعی اور غیر فطری دودھ نہ تو جسمانی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے اور نہ ہی امراض سے بچوں کو تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور ان کی صحت دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے، ایک ایسی نعمت جس کا ایک پل بھی کسی قیمت پر خریدا نہیں جاسکتا لہٰذا اس کی قدر کرتے ہوئے خالص اور ملاوٹ سے پاک دودھ کا استعمال کر کے اپنے بچوں اور اپنی صحت مندی کا لطف اٹھائیں۔ماؤں کو چاہیے کہ وہ بچوں کو اپنا دودھ پلائیں اور آنے والی نسلوں کی مضبوطی کی بنیاد رکھنے کا سہرا اپنے سر سجائیں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں