متاعِ حیات

کوکب علی

تیز اور تیز…ہنسی، قہقہے، شور، ہنگامہ، برگد کے درخت کے نیچے ایک میلے کا سماں تھا… سب بچے اپنی اپنی باری کے منتظر ایک دوسرے کو جھولا جھلا رہے تھے…

چٹاخ… چٹاخ…اچانک خاموشی چھا گئی۔ میں نے ارحم کو کان سے پکڑا… اور گھر کی جانب روانہ ہوگیا…اس کا چہرہ شدت ضبط سے تمتما رہا تھا…

آنکھوں میں آنسو تھے اور لبوں پر سسکیاں، درد کی ٹھیس شدید تھیں… میں اٹھنے کی کوشش میں لڑکھڑا گیا…کسی نے بڑھ کر مجھے تھام لیا تھا، کچھ سسکیاں تھیں، کچھ آنسو… منظر دھنلا چکا تھا…

میرے چار بچے ہیں، تین بیٹے اور ایک بیٹی… پیشے کے اعتبار سے میں ایک جج ہوں… اصولوں کا پابند… اور زندگی کو ایک مخصوص طریقے پر چلانے والا … یہی وجہ ہے کہ میں گھر میں ایک سخت گیر باپ ہوں، اور میرے بچے میری آمد پر ادھر ادھر کسک جاتے اور اپنی باتیں اپنی ماں کے ذریعے مجھ تک پہنچاتے۔ میں نے ان کو اچھا کھلایا، پلایا ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت پر خرچ کیا ہے اور ان کو ایک بہتر زندگی دی ہے… میرا خواب ہے کہ وہ اعلی مقام حاصل کریں اور اسی بھاگ دوڑ میں، میں اتنا مصروف رہا کہ کبھی پتہ ہی نہ چل سکا کہ زندگی کب اپنا رخ بدل گئی۔

میرا تعلق گاؤں کے ایک سادہ لوح گھرانے سے تھا۔ مگر میرے خواب بہت اونچے تھے۔ مجھے یادہی نہیں تھا کہ میں کب اور کیسے گاؤں کے سرکاری اسکول سے شہر کی بلند و بانگ عمارتوں کا حصہ بن گیا۔ اور بالآخر کامیابی کی منزلیں طے کرتے کرتے ایک کامیاب جج کی حیثیت اختیار کرگیا اور میرا پیشہ ہی میرا اوڑھنا بچھونا تھا۔

احسن اور محسن میری خواہش کے مطابق بیرونِ ملک مقیم تھے… اور فاطمہ کی ذمہ داریوں سے میں بخیر و خوبی فارغ تھا… مگر ارحم ان سب سے مختلف تھا… وہ پڑھائی میں بہت قابل تھا… مگر میرے نظریات سے اسے اختلاف تھا، وہ ہر وقت ہم سب کی طرح اپنے مرتبے کی فکر میں نہیں رہتا تھا۔ اس کو اپنے ملک سے محبت تھی… اور وہ عام لوگوں کی طرح عام زندگی گزارتا تھا اور ہم دونوں کے درمیان ہمیشہ شکوے شکایتوں کی دیواریں حائل رہتی تھیں…

میں نے ارحم کو میڈیکل میں داخلے کے بعد ہاسٹل بھیج دیا تھا تاکہ وہ بہتر طریقے سے پڑھائی کرسکے… آمنہ بیگم کچھ ناراض دکھائی دیتی تھیں۔ مگر مجھے جذبات سے زیادہ اس کا مستقبل عزیز تھا، ارحم کبھی کبھار گھر آتا، اپنی ماں سے باتیں کرتا، اپنے پرانے دوستوں سے ملتا… اور مجھ سے سلام دعا کے علاوہ شاید ہی کوئی بات کرتا اور اس کی وجہ باقی بچوں کے مقابلے میں میرا اس کے ساتھ سخت برتاؤ تھا۔

وقت گزرتا گیا، میں ریٹائر ہوگیا اور بیمار رہنے لگا۔ ارحم ڈاکٹر بن گیا۔ احسن اور محسن اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف تھے اور آمنہ بیگم اس دنیا سے کوچ کر گئیں۔ کبھی کبھار فاطمہ اپنے بچوں کے ساتھ آجاتی تو گھر میں رونق لگ جاتی۔ کبھی موبائل کی گھنٹی بجتی تو احسن اور محسن کی آوازیں سننے کو مل جاتیں تو دل بہل جاتا۔ بس شب و روز کا یہی معمول تھا۔

آج صبح ہی سے میری طبیعت میں کچھ گھبراہٹ تھی۔ دل کا ہلکا ہلکا درد شدت اختیار کر رہا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے محسن اور احسن سے بات ہوئی تھی۔ وہ بتا رہے تھے مصروفیت کے باعث اس سال تو گھر کا چکر لگانا مشکل ہے۔ میں نے نیک تمناؤں کے ساتھ فون رکھ دیا کہ یہی زندگی کا پھیر ہے، اور سارے منظر نامے میں مجھے ارحم یاد ہی نہ رہا۔ اسی دوران مجھے لگا کہ چلنا دو بھر گیا ہے۔ میں نے فون اٹھا کر نمبر ملانا چاہا۔ پتہ نہیں کہاں کا۔ پتہ نہیں کس کا مگرمیری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ سب منظر دھندلا گئے۔ کسی نے بڑھ کر مجھے تھام لیا تھا۔

مجھے ہوش آیا تو میں ہسپتال کے ایک کمرے میں موجود تھا۔ ڈاکٹر ارحم اور اس کی ٹیم زندگی بچانے کی اس کوشش میں کامیاب رہی تھی۔ مجھے اپنی جانب دیکھتا پاکر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ اس کے لبوں پر دعائیں تھیں، اور وہ سجدۂ شکر بجا لایا، یہ منظر دیکھ کر میرا دل شرمندگی سے بھر گیا۔ مجھ سے قریب رہنے والے مجھ سے بہت دور تھے اور جس کو میں نے کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی وہ میرے لیے مسیحا بن کر آیا تھا۔ میں نے ڈاکٹر ارحم کو گلے لگا لیا، اس کا ماتھا چوما، یہی وہ وقت تھا جب فاصلوں کی دیواریں گر گئیں اور یہی ایک لمحہ تھا جو ہم دونوں کے لیے متاعِ حیات بن گیا…lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں