مثالیں عظیم مائیں کی!

تنویر آفاقی

مثل مشہور ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہے۔ عام طور پر اس کردار کو ایک بیوی کی شکل میں دیکھا جاتا ہے اور اس میں شک نہیں کہ اگر بیوی شوہر کی ہم خیال اور مددگارہو تو مرد یقینا کامیابی کی منزلیں طے کرلے گا۔ لیکن ایک بیوی سے پہلے یہ کردار ماں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ایک کامیاب شخص کے پیچھے جتنا ہاتھ ایک ماں کا ہوتا ہے اتنا کسی کا نہیں ہوتا، ایک بیوی کا بھی نہیں۔
ماں کی شخصیت نسل انسانی کے لیے صرف اسی لیے اہم نہیں کہ وہ بچے کو جنم دیتی ہے۔بچے کو جنم دینے کے بعد تو اس کے فرض اور اس کے مشن کا آغاز ہوتا ہے۔ ماں ایک درسگاہ ہے، اس کی گود ایک تربیت گاہ ہے، لیکن مادہ پرستی کے اس دور میں ماں کے اس مقام اور مشن کو فراموش کردیا گیا ہے۔ زمانے کی ترقیوں نے عورت کو گھر سے باہر نکال کر اس کے فرض اور اس کے مشن سے غافل کردیا، اسے ان صفات سے محروم کردیا ہے جو اس کا امتیاز ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ماں کا حقیقی روپ یہی ہے کہ وہ شفقت و محبت اور مامتا کی پتلی ہوتی ہے۔اس کی گود انسانیت کی ٹکسال ہے جہاں انسان مختلف خوبیوں، صلاحیتوں اور قابلیتوں سے آراستہ ہوکر اور ڈھل ڈھل کر نکلتے ہیں۔ حقیقی ماں وہی ہوتی ہے جو اپنے بچے کو زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔
دنیا میں جتنی بھی عظیم شخصیات گزری ہیں، ان کی تربیت میں اور انھیں اخلاق و کردار کے اعلیٰ مقام تک پہنچانے میں کہیں نہ کہیں ما ں کا کردار ضرور ہوتا ہے اور اسی لیے ماں کو باپ کے مقابلے تین گنا اونچا مقام ملا ہے، اس کے پیروں تلے جنت رکھ دی گئی ہے۔ وہ لوگ انتہائی خوش نصیب ہیں جنھیں ایسی مائیں نصیب ہوئیں اور وہ عظیم مائیں بھی خوش نصیب ہیں کہ جنھیں ایسی اولاد ملی جس نے ان کیت تربیت سے فائدہ اٹھایا اور اس درس گاہ سے فیض یاب ہوکر دنیا میں اپنا اور اپنی ماں کا نام روشن کیا۔ یہاں ہم چند ایسی عظیم ماؤں کا ذکر کررہے ہیں جنھوں نے اپنی عظیم تربیت سے اپنی اولاد کو عظیم مقام تک پہنچایا۔
والدئہ بناتِ رسولؐ:
دخترانِ رسول اکرمﷺ یعنی حضرت فاطمہ، حضرت زینب، حضرت ام کلثوم اوررقیہ رضی اللہ عنہن کی والدہ محترمہ کا نام حضرت خدیجۃ الکبریٰ ہے۔ حضرت خدیجہ بنت خویلد جو خدیجۃ الکبریٰ کے نام سے مشہور ہوئیں تاریخ میں ان کامرتبہ ہر اعتبار سے بلند ترین ہے۔ ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ ایک طرف ایک شوہر نام دار کے پہلو میں کھڑی ہوکر ان کے مشن میں بھر پور ساتھ دے رہی تھیں تو دوسری طرف اسی توجہ اور خلوص سے اپنی اولاد کی پرورش بھی کررہی تھیں اور گھر کے دوسرے کاموں کو بھی اسی طرح انجام دے رہی تھیں کہ آپؐ پر کسی طرح کا بوجھ نہیں پڑنے دیتی تھیں۔ آپؓ کی اسی تربیت کے نقوش اور اثرات آپؓ کی اولاد میں صاف نظر آتے تھے۔
والدئہ امام حسنؓ و حسینؓ:
یعنی نبی اکرمﷺ کی سب سے چھوٹی بیٹی اور خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کی زوجۂ مطہرہ حضرت فاطمہؓ کا کردار ایک ماں کی حیثیت سے کیسا ہوگا اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ ان کی پرورش افضل الانبیاء حضرت محمد ﷺ اور خاتون اول حضرت خدیجہؓ نے کی ہے۔ سب سے چھوٹی بیٹی ہونے کی وجہ سے ماں باپ دونوں کو حد درجہ محبوب تھیں اور والدہ کے انتقال کے بعد تو نبیؐ کی شفقت اور محبت میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ وہ اپنے کام کی پکی اور اپنے فرائض سے غفلت نہ برتنے والی خاتون تھیں۔ ایک بار رات میں بخار آگیا، لیکن صبح کو اٹھ کر حسبِ معمول وضو کیا، نماز پڑھی اور چکی پر آکی بیٹھ گئیں۔ حضرت علیؓ نے دیکھا تو روکا کہ کہیں طبیعت مزید خراب نہ ہوجائے۔ لیکن بنتِ نبی اور سیدۃ النساءؓ نے جواب دیا کہ ’’اگر میں اپنے فرائض ادا کرتے کرتے مرجاؤں تو کچھ پرواہ نہیں۔ میںنے وضو کیا اور نماز پڑھی اللہ کی اطاعت کے لیے، اور چکی پیسی تمہاری اطاعت اور بچوں کی خدمت کے لیے۔‘‘
حضرت فاطمہؓ گھر کے تمام کام خود ہی انجام دیتی تھیں اور اس میں کسی کی مدد نہیں لیتی تھیں۔ حضرت فاطمہؓ نے انتہائی تنگ دستی اور فاقہ کشی کی حالت میں بھی کبھی اپنے شوہر سے شکایت نہیں کی اور نہ ہی کبھی ان سے بے جا فرمائش کی۔ اکثر بھوک کی حالت میں کئی روز گزرجاتے لیکن اس کا اثر نہ کام پر پڑتا اور نہ مزاج پر۔ اس حالت میں بھی مزاج میں وہی نرمی اور لطافت ہوتی اور سیرابی کی حالت میں ہوتی تھی۔ حضرت فاطمہؓ بنت رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹوں کی تربیت بھی اسی نہج پر کی تھی اور انھیں یہ سبق سکھایا تھا کہ دین پر اپنی جان قربان کریں، اپنی جان کے لیے دین کو قربان نہ کریں۔
والدئہ عبداللہ بن زبیرؓ:
عبداللہ بن زبیرؓ بن عوام کی والدہ حضرت اسماء خلیفہ اول، ثانی اثنین حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیٹی، اور ام المومنین حضرت عائشہؓ کی بہن، حضرت اسماءؓ ایک عبادت گزار، نیک اور بہادر خاتون تھیں۔ حق گوئی ان کا وصف خاص تھا اور اپنی حق گوئی کے آگے کسی بڑے سے بڑے حکمراں کی جابریت کو بھی آڑے نہیں آنے دیتی تھی۔ انتہائی بہادر تھیں اور یہی بہادری اور حق گوئی انھوں نے بیٹے عبداللہ بن زبیرؓ کو سکھائی تھی۔ انتہائی صبر آزما حالات میں بھی گھبراتی نہ تھیں۔ عمر کے بالکل آخر مرحلے میں جب کہ ان کی عمر سو سال کے قریب پہنچ چکی تھی، ان کے بیٹے عبداللہ نے حال پوچھا تو بولیں ’’بیمار ہوں۔‘‘ وہ بولے: ’’آدمی کو آرام موت کے بعد ہی ملتا ہے۔‘‘ حضرت اسماءؓ نے جواب دیا: ’’شاید تم میرے مرنے کی آرزو کررہے ہو۔ میری تمنا ہے تم لڑ کر قتل ہو اور میں صبر کروں، یا تم کامیاب ہو اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔‘‘ عبداللہ بن زبیرؓ نے حجاب بن یوسف سے جنگ کی اور شہید ہوئے۔ حجاج نے آپؓ کی لاش کو سولی پر لٹکا دیا۔ تین دن کے بعد جب حضرت اسماءؓ نے اپنے بیٹے کی لاش اس حالت میں دیکھی تو نہ گھبرائیں اور نہ واویلا کیا بلکہ بولیں: ’’کیا اس سوار کے گھوڑے سے اترنے کا وقت نہیں آیا؟‘‘
والدۂ انس بن مالکؓ
انس بن مالکؓ کی والدہ اور حضرت ابوطلحہؓ کی زوجہ یعنی ام سلیمؓ۔ نام سہلہ یا رملہ تھا لیکن تاریخ میں ام سلیمؓ کی کنیت سے معروف ہیں۔ اسلام سے انھیں بے پناہ محبت تھی۔ اپنے پہلے شوہر مالک بن عدی سے محض اس لیے علیحدہ ہوگئیں کہ وہ اسلام قبول نہ کرتا تھا اور بیٹے انس کو بھی کافر ہی رکھنا چاہتا تھا۔ بعد میں ابوطلحہؓ جو کہ ایک دولت مند شخص تھے نے اپنی دولت کا لالچ دے کر اپنے نکاح میں لینا چاہا لیکن اس اسلام پسند عورت نے ان کی دولت کو ٹھکراتے ہوئے صرف اسلام قبول کرلینے کی شرط رکھی اور کہا کہ یہی میرا مہر ہوگا ان کے قبولِ اسلام کے بعد ان کے کم سن بیٹے انس بن مالکؓ نے نکاح پڑھایا۔ حضرت ام سلیمؓ نے حضرت انسؓ کو بچپن ہی میں نبیﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔
ایک بار رسول اللہ ﷺ نے حضرت انسؓ کو کسی کام سے بھیجا جس کو انجام دینے میں انھیں وقت لگ گیا اور گھر پہنچنے میں تاخیر ہوگئی۔ ماں نے بیٹے سے پوچھا کہ حضور ﷺ کا کیا کام تھا؟ حضرت انسؓ نے کہا کہ یہ راز کی بات ہے۔ ام سلیمؓ بہت خوش ہوئیں اور بیٹے کو نصیحت کی کہ بیٹا یہ راز کسی پر مت کھولنا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ام سلیمؓ نے یہ سوال اپنے بیٹے کاامتحان لینے کے لیے ہی کیا تھا۔
والدۂ امام سفیان بن عیینہؒ
امام سفیان ؒ تبع تابعین میں سے تھے۔ اما شافعیؒ آپ ہی کے شاگرد تھے۔ امام سفیانؒ کی والدہ علم دوست اور پرہیز گار خاتون تھیں۔ انھیں اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت کی بڑی فکر رہتی تھی۔ ان کے ایک شاگرد وکیع بن جراح کا بیان ہے کہ ان کی والدہ ان سے کہا کرتی تھیں: ’’پیارے بیٹے تم علم حاصل کرو، میں کتائی کرکے تمہاری ضروریات پوری کروں گی۔ بیٹے جب تم دس حدیث لکھ لو تو اپنے بارے میں غور کرو اور دیکھو کہ چال چلن، تحمل اور وقار میں اضافہ ہوا ہے یا نہیں؟ اگر یہ باتیں نہ دیکھو تو سمجھ لو کہ یہ علم تمہارے حق میں مضر ہے، نافع نہیں۔‘‘ بیٹے کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی کے لیے کی گئی اس قربانی کا نتیجہ تھا کہ امام سفیانؒ حجاز کے زبردست عالم ہوئے۔ امام شافعیؒ کا قول ہے کہ اگر امام مالک اور امام سفیانؒ نہ ہوتے تو حجاز سے علم ہی ختم ہوجاتا۔
والدۂ امام شافعیؒ
ائمہ اربعہ میں سے ایک امام شافعیؒ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت عبداللہ تھا۔ ان کا نسب حضرت علیؓ سے ملتا تھا۔ امام شافعیؒ بچپن میں ہی یتیم ہوگئے تھے۔ اس لیے تعلیم و تربیت اور پرورش و پرداخت والدہ ہی نے کی۔ ان کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی کے پچپن کا زمانہ انتہائی تنگ دست اور غربت کا زمانہ تھا۔ لیکن بیٹے کو سیکھنے اور ماں کا سکھانے کا شوق اتنا تھا کہ ماں نے کبھی اپنے بیٹے کو یہ نہیں کہا کہ بیٹے حصولِ علم کا دھندہ چھوڑ، کچھ کما کر لا تاکہ دونوں کا پیٹ بھرسکے۔ معلم کی عدم موجودگی میں بچوں کو سبق پڑھتے جس کے بدلے میں معلم ان کو مفت تعلیم دے دیتے۔ بیٹے کی تعلیم کے لیے ماں نے قرض تک لیا اور اپنا سامان گروی رکھ کر بیٹے کو تعلیم دلائی۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ یمن کے سفر کے لیے ان کی ماں کے پاس رقم نہیں تھی، اس لیے اپنی چادر سولہ دینار میں رہن رکھ کر سفر کا سامان حاصل کیا اور حصول علم کی خاطر سفر پر روانہ کیا۔
والدۂ امام الاوقصؒ
امام الاوقصؒ کی والدہ بہت سمجھدار اور دور اندیشہ خاتون تھیں۔ امام اوقص کے پیدائشی طور پر گردن نہ تھی اور دونوں مونڈھے اوپر کو نکلے ہوئے تھے۔ قد بھی پستہ تھا۔ امامؒ کی والدہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتی رہتی تھیں کہ وہ علم حاصل کرکے بڑا عالم بن جائے تو لوگ تمہارے جسم کی بناوٹ کو نظر انداز کرکے تمہارے علم کے دیوانے ہوجائیں گے۔ ان کی والدہ برابر اس کوشش میں رہتیں کہ ان کے بیٹے کی جسمانی ساخت اور شکل وصورت اس کی ترقی اور مقام و مرتبے کی بلندی میں آڑے نہ بنے۔ امام الاوقص کہتے ہیں : ’’میری ماں سمجھ دار تھی۔ اس نے کہا کہ بیٹے! تمہاری خلقت ایسی ہے کہ جوانوں میں تم بیٹھ نہیں سکتے ہو۔ اس لیے علم دین حاصل کرو، وہ کمی پورے کردے گا اور حقارت ختم کردے گا۔ اللہ نے اس کی بات سے مجھے نفع پہنچایا۔ میں نے فقہ اور دین کا علم حاصل کیا اور قاضی بن گیا۔‘‘
والدۂ امام زین الدین دمشقیؒ
امام زین الدین دمشقی کی والدہ خود بھی عالمہ و فاضلہ خاتون تھیں۔ یہ علم و فضل انھیں اپنے والد سے ملا تھا۔ انھوں نے اپنے والد کی تفسیر الجواہر زبانی یاد کررکھی تھی۔ بیٹے کی تعلیم کا مرحلہ آیا تو اپنے باپ سے پائے ہوئے اس علمی ورثے کو بلا کسی خیانت اور کمی کے پورا کا پورا اپنے بیٹے کی طرف منتقل کردیا۔ ان کا معمول تھا کہ جب ان کا بیٹا زین الدین پڑھ کر گھر آتا تو اس سے معلوم کرتیں کہ کیا پڑھ کر آیا ہے۔ پھر مزید باتیں اس کو بتاتیں ا ور اس کے علم میں اضافہ کرتیں۔
والدۂ امام ربیعہؒ
امام مالک کے استاد اور مدینہ کے بزرگ عالم و فاضل امام ابوعثمان ربیعہ رائی کی والدہ ام ربعیہ کی کنیت سے معروف تھیں۔ امام ربیعہ شکم مادر ہی میں تھے کہ ان کے شوہر ابوعبدالرحمن فروخ کو خراسان کی مہم پر جانا پڑا۔ گھر سے روانہ ہوتے وقت انھوں نے اپنی بیوی ام ربیعہ کو تیس ہزار اشرفیاں دیں اور کہا کہ یہ میری کل پونجی ہے اسے احتیاط سے رکھنا۔ تاکہ میدانِ جہاد سے بسلامت واپسی کی صورت میں اس سے تجارت کرسکوں۔ ابوعبدالرحمن فروخ کو مہم سے واپس آنے میں ستائیس برس لگ گئے۔ اس دوران ام ربیعہ نے اپنے بیٹے کی تربیت و پرورش کی اور شوہر کی دی ہوئی ساری پونجی بیٹے کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لگادی۔ والدہ کی یہ محنت رنگ لائی اور ان کے علمی کمالات کا ڈنکا سارے عرب میں بجنے لگا۔ لمبے عرصے کے بعد گھر واپس آنے پر فروخ نے اپنی رقم کے متعلق سوال کیا تو ام ربیعہ نے اطمینان دلایا کہ آپ کی رقم محفوظ ہے۔ تھوڑی دیر بعد نمام کا وقت ہوا۔ فروخ نماز کے لیے مسجد نبوی چلے گئے۔ نماز کے بعد دیکھا کہ مسجد لوگوں سے بھری ہوئی ہے اور ایک نوجوان بڑی شان سے درس دے رہا ہے۔ لوگوں سے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ کسی نے کہا کہ آپ ان کو نہیںجانتے، یہ امام ربیعہ رائی بن عبدالرحمن فروخ ہیں۔ بہت خوش ہوئے اور گھر آکر خوشی کا اظہار کیا تو ام ربیعہ نے بتایا کہ آپ کی دی ہوئی رقم اس کی تعلیم پر خرچ کردی تھی۔‘‘ فروخ نے جواب دیا کہ اس سے بہتر ان اشرفیوں کااستعمال نہیں ہوسکتا تھا۔
والدۂ محبوب الٰہیؒ
سلطان المشائخ خواجہ محمد نظام الدین اولیاؒ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی سیدہ زلیخا تھا۔ والد کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔ اس لیے تعلیم و تربیت والدہ ہی نے کی۔ حضرت نظام الدین کی والدہ متقی اور پرہیز گار خاتون تھیں۔ ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے وقت کی رابعہ بصری تھیں۔ شوہر کے انتقال کے بعد تنگ دستی و غربت کی زندگی کو صبرو شکر کے ساتھ برداشت کی۔ جس دن گھر میں کچھ نہ ہوتا تو اپنے بیٹے سے کہتیں کہ آج ہم اللہ کے مہمان ہیں، لیکن ان نامساعد حالات میں بھی انھوں نے اپنے بیٹے حضرت نظام الدین کی تعلیم کا انتظام کیا اور اپنے کردار سے ان کو بھی صبر و شکر اور تقویٰ و پرہیز گاری کا پیکر بنادیا۔ سوت فروخت کرکے جو آمدنی ہوتی اس سے گھر کی ضروریات اور بیٹے کی تعلیم کے اخراجات پورے کرتیں۔
والدۂ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی والدہ ماجدہ کانام سیدہ فاطمہ اور کنیت ام الخیر تھی۔ ام الخیرؒ بچپن ہی سے انتہائی نیک اور پاک باز خاتون تھیں۔ ان کے والد نے سید ابوصالح کے کردار سے متاثر ہوکر جب اپنی بیٹی کا پیغام ان کے سامنے رکھا تو کہا کہ میری لنگڑی، لولی، بہری اور اندھی بیٹی سے شادی کرلو۔ کیونکہ انھوں نے یہ بات بطور شرط کہی تھی اس لیے انھوںنے شرط منظور کرتے ہوئے نکاح کی حامی بھرلی۔ شادی ہوجانے کے بعد ان پر یہ راز کھلا کہ اس نے کوئی کام خلافِ شریعت نہیں کیا، اس لیے لنجی، گھر سے باہر قدم نہیں نکالا اس لیے لنگڑی، خلاف حق بات نہیں سنی اس لیے بہری اور آج تک کسی نامحرم پر نظر نہیں ڈالی اس لیے اندھی ہے۔ ام الخیر نے اپنے یہی اوصاف اپنے بیٹے عبدالقادر جیلانیؒ کی گھٹی میں شامل کیے۔ ان کا وہ واقعہ مشہور ہے کہ ڈاکوؤں پر انھوں نے اپنے چالیس دینار کا راز کھول دیا جس پر ڈاکوؤں کو حیرت ہوئی اور جب انھیں بتایا کہ ان کی ماں نے انھیں جھوٹ نہ بولنے کی نصیحت کی ہے تو ان کی حق گوئی سے ڈاکو اتنا متاثر ہوئے کہ انھوں نے ڈاکہ زنی سے توبہ کرلی۔
والدئہ سرسیدؒ
ہندوستان کی معروف شخصیت اور عالمی شہرت یافتہ تعلیمی ادارے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے بانی سرسید احمد خاں کی والدہ صرف قرآن پڑھی ہوئی تھیں، لیکن اس کے باوجود وہ خود بھی عامل دین اور عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں۔ اللہ پر توکل کرنے والی اور غریبوں کی مدد کرنے والی خاتون تھیں۔ سرسید احمد بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص جس نے ان کے ساتھ نہایت برا معاملہ کیا تھا اور اس کے خلاف ثبوت بھی مہیا ہوگئے تھے لیکن ان کی والدہ نے انھیں اس انداز میں نصیحت کی کہ وہ نہ صرف اس سے بلکہ آئندہ بھی کسی سے انتقام لینے کا خیال ہی دل سے نکال دیا۔ ان کی والدہ نے کہا کہ اس کو دنیا کے ضعیف و ناتواں حاکموں سے سزا دلوانا نادانی ہے۔ اس کا معاملہ تم احکم الحاکمین کے حوالے کردو اس سے زیادہ سخت سزا تمہارے دشمن کو کوئی نہیں دے سکتا۔ ایک بار انھوں نے اپنے نوکر کے ساتھ برا سلوک کیا تو ان کی والدہ نے انھیں گھر سے باہر نکال دیا۔ گھر کی جتنی آمدنی ہوتی اس میں کا پانچواں حصہ نکال کر پابندی سے غریبوں، محتاجوں، بیواؤں اور یتیموں پر خرچ کرتی تھیں۔ سرسید کی والدہ ہر ہر قدم پر ان کی تربیت کرتی چلتی تھیں اور ان کی زندگی پر سب سے زیادہ اثرات اپنی والدہ کی ہی تربیت کے تھے۔
والدہ مولانا مودودیؒ
جماعت اسلامی کے بانی اور عالمِ اسلام کے مفکر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی والدہ کا نام رقیہ بیگم تھا جو اپنے بچوں اور دیگر لوگوں کے درمیان اماں بی اور دادی اماں کے نام سے معروف تھیں۔ مولانا کی والدہ فطرتاً نیک اور سادہ مزاج تھیں۔ ان کی سادگی قابلِ رشک تھی۔ عبادت اور تلاوت قرآن کا بے پناہ شوق تھا۔ چلّے بھی کاٹتی تھیں۔ ان کی تین اولاد سوتیلی تھیں لیکن کبھی انھیں سوتیلے پن کا احساس نہیں ہونے دیا۔ توکل اور قناعت کے اوصاف سے مالا مال تھیں۔ گھر میں خرچ کے لیے رقم آتی تو پہلے کوئی پھل یا مٹھائی وغیرہ منگاکر حاجت مندوں میں تقسیم کراتی تھیں۔ صبر و ضبط کا یہ حال تھاکہ جب ۱۹۵۳ء میں مولانا کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو وہ ذرا بھی بے چین نہیں ہوئیں۔ بیٹے کو اخلاق و کردار کا پیکر بنانے کے لیے یہ بچے کو گھر سے باہر کم سے کم نکلنے دیتیں۔ بچپن میں ایک بار مولانا مودودیؒ نے کسی نوکر پر زیادتی کردی تو اس نوکر کو بلا کر کہا کہ ابوالاعلیٰ سے اپنا بدلہ لو۔ اس طرح انھوں نے بیٹے کو سب کا احترام کرنا سکھایا۔
والدہ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ
مشہور عالمِ دین اور عظیم دینی درس گاہ ندوۃ العلماء کے ناظم مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی والدہ کا نام سیدہ خیر النساء بہتر تھا۔ سیدہ کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر اعتبار سے ایک مومنہ اور مثالی عورت تھیں۔ انھوں نے اپنے بچوں کی تربیت اس انداز سے کی کہ دین کی محبت ان کی زندگی میں شامل ہوتی چلی گئی۔ مولانا ندویؒ لکھتے ہیں: ’’گھر میں کسی بڑے مرد کے نہ ہونے کی وجہ سے والدہ صاحبہ ہی میری نگرانی، اخلاقی و دینی تربیت کی ذمہ داری تھیں۔‘‘ وہ اس بات کا بھی خیال رکھتی تھیں کہ بچوں کے اندر کوئی غیر اخلاقی عادت نہ پیدا ہو۔ کوشش کرتیں کہ ان کے اندر انانیت نہ پنپے اس لیے کسی کمزور پر زیادتی کرتے تو سخت سزادیتیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں