محبت کی خوشبو پھیلائیں!

سیدہ خدیجہ صغریٰ

۱- چند دہائی پیشتر بچوں کی ذہنی تربیت اتنی پیچیدہ نہیں تھی جتنی آج ہے۔ پہلی بات تو گھروں کے ماحول میں تبدیلی آئی ہے۔ صبح و شام گھروں میں تلاوت قرآن پاک کی آوازیںگونجا کرتیں، بچوں کو نماز کا پابند بنایا جاتا اور اخلاقی اقدا رکی تعلیم کے ساتھ تربیت ہوا کرتی تھی۔ اب اور آج کے بچوں میں بڑھتا ٹی وی کا رجحان اور فوج کی لت، ماں اور بچہ دونوں کے ہاتھوں میں فون۔ ماں فون دیکھتے دیکھتے میکانکی انداز میں بچہ کو کھانا کھلا رہی ہے اور بچہ کھانا کھا رہا ہے۔ ماں بتا رہی تھی کہ فون نہ ہو تو وہ کھانا نہیں کھاتا۔ ماں اگر ملازمت پیشہ ہوتو اللہ ہی خیر کرے۔
افرادِ خانہ میں ایک دوسرے کے لیے عزت و توقیر، پیار و محبت اور دینی اقدار، رواداری و گرم جوشی کا فقدان نظر آرہا ہے۔ بچوں کو سلام کرنے کے لیے بھی بڑی مشکل سے تیار کرنا پڑتا ہے۔ بڑوں کی تعظیم و تکریم ہے نہ چھوٹوں سے پیار۔
بچوں پر جدید طرز زندگی اثر انداز ہونے کا ایک اور سبب یہ ہے کہ بڑے خاندانی نظام کی جگہ نیوکلیائی خاندانی نے لے لی ہے۔ مخلوط خاندان میں بزرگ ہستیوں کی موجودگی باعث رحمت ہوتی۔ پہلے مائیں بھی کم ملازمت پیشہ ہوتی تھیں، یہ مشفق اور تجربہ کار بزرگ، ناتجربہ کار ماؤں کو بچوں کی تربیت اور امور خانہ داری میں صحیح رہنمائی کرتی تھیں۔ بچوں کو میٹھی میٹھی لوریاں سناتیں۔ بچے پر یوں کے پروں پر اڑتے اڑتے نیند کی آغوش میں پہنچ جاتے۔ موجودہ زمانے میں اندرونی ماحول سے زیادہ بیرونی خانہ کا ماحول بچوں پر اثر انداز ہو رہا ہے اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ماں معمار قوم ہے۔ اس کے لیے خود کو تیار کرنا پڑے گا اور بچوں کے لیے جیتی جاگی مثال بننا ہوگا۔ جب کہیں جاکر مضبوط عمارت کی بنیاد رکھنے میں کامیابی ہوگی۔ حدیث نبوی کا مفہوم ہے۔ ماں کے قدموں تلے جنت ہے اس اعزاز کی ہر کوئی عورت مستحق نہیںہو جاتی۔ اس کے لیے اپنے آپ کو قربانی کا پیکر بنانا ہوتا ہے۔ بچوں کی تربیت میں اپنی صلاحیتوں کو لگا دینا ہوتا ہے۔ ان کی صلاحیتوں اور ذہنی رجحان کا مطالعہ کر کے اسی راہ پر لگانا، صلاحیتوں کو پروان چڑھانا اور بلندیوں تک پہنچانا ایک بہت بڑی ذمے داری ہے۔ بچوں کو Confidance میں لے کر کام کو آگے بڑھائیں اور اس بات پر کڑی نظر رہے کہ ان کی تعلیمی استعداد میں اضافہ ہو رہا ہے یا نہیں اور ان کے دوست کون اور کیسے بچے ہیں۔ روزانہ بعد نماز مغرب یا طے شدہ وقت پر دس یا پندرہ منٹ اہل خانہ جمع ہوں اور قرآن اور حدیث کی گفتگو ہو۔ ہلکا پھلکا مذہبی لٹریچر گھر میں ہو جوان کی ذہنی معلومات میں اضافہ کرے، اردو سکھائیں، ہماری سوچ اور عمل کا محور آخرت ہو اور یہ تصور ایک لمحہ کے لیے بھی اوجھل نہ ہو۔
۲- دنیا کی چھوٹی سی زندگی محبت کے لیے ہی کم ہے تو نفرتوں کے لیے وقت کہاں سے لائیں۔ زندگی کا کیا بھروسہ کب شمع زندگی بجھ جائے۔ ہم محبتوں کی خوشبو پھیلانے والے اور خوشیاں بانٹنے والے ہیں۔
بچہ کی پیدائش ہی سے بنے بنائے رشتہ وجود میںآجاتے ہیں۔ ان رشتوں کو نبھانے اور بنائے رکھنے میں ہماری کامیابی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ قریبی رشتوں کی قدر وقیمت میں کمی آرہی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی جیسی وارفتگی اور گرم جوشی اب نہیں رہی۔ فون یا ٹی وی کی مصروفیات، جدید اقدار کی کارستانیاں، رشتہ داروں سے گلہ شکوہ، دوریاں و فاصلہ، جب بھی کسی محفل سے لوٹے ہیں تو ابھی کار میں ایک قدم ہی رکھا ہوتا ہے کہ شکوہ شکایت کا دفتر کھل جاتا ہے۔ کیا یہی اخلاقیات ہے۔ مختلف انسانوں کے مختلف نظریات ہوتے ہیں، سوچ ہوتی ہے، ٹکراؤ ناگزیر ہے، مگر ٹکراؤ اتنا زور ار نہ ہو کہ لڑائی جھگڑے پر ختم ہو اور دوبارہ استوار کرنا مشکل ہوجائے۔ ہماری شکایات عموما نزدیکی رشتہ داروں اور خصوصا ساس نندوں سے ہوتی ہیں۔ رشتہ بنائے رکھنا اپنے آپ میں فن ہے۔ صلاحیت، مفاہمت و رواداری، صبر و تحمل اور نرم مزاجی ضروری ہے۔ موقع کی نزاکت دیکھ کر اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کے لیے مناسب الفاظ ہونے چاہئیں۔ رشتوں کو توڑنا آسان ہے مگر جوڑنا مشکل ہے۔ زندگی کو سہل بنانے کے لیے صلہ رحمی کو اپنا شعار بنائیں اور رشتوں کو جوڑیں۔ رشتوں میں دراڑ کی صورت میں غلطی نہ ہونے پر بھی پہل کر کے سلام کرلیں۔ معافی مانگ لیں ’’یہ صفت ہر ایک کو نہیں ملتی صرف نصیبوں والوں کو‘‘ قرآن کریم پیارے نبی کی نرم مزاجی و حسن اخلاق کی گواہی دیتا ہے۔ اگر آپؐ رحیم و کریم شفیق و مہربان نہ ہوتے تو یہ وحشی و درشت مزاج آپ سے قریب نہ ہوتے۔
قرآن کی روشنی میں زندگی باوقار گزارنے میں مدد ملتی ہے یہی کامیابی ہے۔ قرآن فرماتا ہے:
ترجمہ:’’تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو تم دیکھوگے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن بیٹھا ہے۔‘‘ (حم سجدہ)
جھگڑے وغیرہ کو حتی الامکان اسی وقت ختم کردو، گلے لگالو، گلے جاتے رہیں گے۔ ناراضگی و رنجش ختم ہوجائیں گی تو تم کو خود پتہ چل جائے گا کہ سارے جہاں کی خوشیاں حاصل ہوگئی ہیں۔ اسی وقت ممکن ہے جب افراد خانہ قرآنی تعلیمات و اسوہ نبوی پر عمل کر رہے ہوں۔
۳- عصر حاضر مادی نقطہ نظر سے درخشاں ہے۔ آسائش و آرائش سے پرتعیش زندگی کا مرکز صرف ہماری ذات ہے۔ ہم اپنے اور اپنے بچوں سے برے کچھ نہیں سوچتے، کچھ نہیں دیکھتے۔ ہم بھول چکے ہیں کہ انسان کی حیثیت سماجی ہے، اکیلا جینا محال ہے۔ لحد تک جانے کے لیے چار کندھے مطلوب ہیں۔ مگر انسان ہے کہ حقیقت سے آنکھیں موندیں چوہے کی دوڑ میں سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ اپنا ذات اور اپنی ذاتی نفع ہی مرکز نگاہ ہے۔ اطراف کی دنیا کی نہ تو خبر رکھتے ہیں اور نہ خبر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے ساتھ دوسروں کی کامیابی کے لیے تبدیلی لانا اشد ضروری ہے۔ رشتوں کو استوار کرنے کے لیے رشتہ نبھانا اور رشتوں کو نبھانے کے لیے پیار ومحبت کی ڈور سے باندھ کر رکھنا پڑتا ہے۔ رشتوں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر دراڑیں پڑنے لگتی ہیں۔ دل میں بدگمانی جڑ پکڑ لیتی ہے تو تلخیاں بڑھنے لگتی ہیں۔ آپس میں مل بیٹھ کر صلاح و مشورہ سے معاملات طے کیے جاسکتے ہیں۔
اسلام سکھاتا ہے ہم اپنے سے زیادہ رشتہ داروں، دوست احباب اور پڑوسیوں کا خیال رکھیںـ۔ دکھ سکھ کے ساتھی بنیں۔ دوسروں کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کریں۔ گرتوں کو اٹھائیں، قناعت پسند کریں، ہل من مزید کو دل سے نکال دیں۔ رشتے داروں کو لے کر چلیں، خاندان کے رشتوں میں محبت و گرم جوشی کی کمی ہے۔
کبھی کبھی یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ والدین و بچوں میں، بھائی بہنوں میں، پھوپھی، خالہ، ماموں وغیرہ میں ان بن نظر آتی ہے۔ ایسے میںگھر کے بڑے بزرگ اپنی صلاحیتوں وتجربہ کی بنیاد پر دور کرنے کی کوشش کریں۔ مسائل کو شروعات میں اکھاڑ پھینکیں۔ عزت دیں تو عزت ملے گی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کاکہنا ہے کہ اگر لوگوں کو عزت دینا اور معاف کرنا تمہاری کمزوری ہے تو تم دنیا کے سب سے زیادہ طاقت ور انسان ہو۔‘‘
زندگی کی تلخ حقائق سے سبق لیں۔ کیوں کہ زندگی استاد سے زیادہ سخت گیر ہے۔ استاد سبق دے کر امتحان لیتا ہے۔ زندگی امتحان لے کر سبق دیتی ہے۔ خوش حال ہوں تو تنگ دستیوں پر خرچ کریں یہ اعلیٰ ظرفی ہے۔ خاندانی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے بڑوں کی عزت اہم ہے۔ عفو و درگزر، رواداری و برداشت کا مادہ رشتوں میں ہونا ضروری ہے۔ دل کینہ و کدورت سے پاک ہو، زبان چغل خوری سے آلودہ نہ ہو، بچوں سے اچھا سلوک ہو۔ ان کو خیالات کے اظہا رکا موقع ملے۔ یہ ہمارے گھر کا کلچر ہونا چاہیے۔ اپنے بچوں کو تخریبی کاموں سے بچائیں تاکہ وہ تعمیری کاموں کا حصہ بنیں۔ lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں