شوہر کے انتقال کے بعد زبیدہ کی زندگی میں گمبھیر اندھیرا چھا گیا، جس سے اتنی جلدی نکلنا اس کے لیے ناممکن تھا۔ جوان بیوہ، غربت اور ایک معصوم کم سن بچہ اور دنیا کی ہوس بھری نگاہیں، ان سب سے اس کو مقابلہ کرنا تھا۔ سسرال اور میکہ میں کوئی ایسا نہ تھا کہ ان ماں بیٹے کی ذمہ داری اٹھا سکے۔ بس ایک چھوٹا سا دو کمروں کا مکان غریب آبادی میں اس کا واحد سہارا تھا۔ ایک بھائی اور دیور جو نزدیکی رشتے دار تھے، دونوں اپنے اہل و عیال کی ذمہ داریاں مشکل سے نبھا پارہے تھے، لہٰذا زبیدہ کو سب نے دوسری شادی کا مشورہ دیا۔ اماں نے بھی اسے سمجھایا کہ شادی کرلو، اس ظالم دنیا میں ایک سہار امل جائے گا اور بچے کو باپ بھی۔ جو بھی رشتہ آتا کسی ادھیڑ عمر، رنڈوے اور بال بچوں والوں کا آتا۔ جو مشکل سے اپنے بچوں کے لیے روٹی کا بندوبست کر پاتا وہ اس کے بیٹے کو کیا سکھ دے سکتا تھا! جب کہ مرحوم شوہر نے غربت کے باوجود نہ صرف زبیدہ کو سکھی زندگی دی تھی بلکہ بیٹے کو بھی اعلی تعلیم دینے کے خواب دکھائے تھے۔ آخر سوچ سمجھ کر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ہرگز دوسری شادی نہیں کرے گی۔ اسے اپنے شوہر کا خواب پورا کرنا تھا، جس کے لیے اسے خود کچھ نہ کچھ کرنا تھا۔
اللہ مسبب الاسباب ہے۔ خود ہی راستے کھول دیتا ہے۔ کسی رشتہ دار کے توسط سے اسے ایک گھر میں کام مل گیا، حالاں کہ یہ مستقل کام نہ تھا۔ گھر والوں کی پرانی ماسی چھٹیوں پر گئی ہوئی تھی اس لیے اسے دو مہینے کے لیے کام مل گیا۔ صبح وہ بچے کو اسکول پہنچا کر اپنے کام پر پہنچ جاتی۔ دوپہر میں اسکول کی چھٹی کے وقت وہ مالکن سے ایک گھنٹے کی چھٹی لے کر آجاتی اور بچے کو اسکول سے لے کر آتی، دال دلیہ جو نصیب میں ہوتا دونوں ماں بیٹا کھا لیتے۔ بچے کو بھائی کے گھر چھوڑ کر وہ خود دوبارہ کام پر آجاتی۔
دو مہینے مکمل ہونے والے تھے۔ زبیدہ کو پریشانی تھی کہ پرانی ماسی کے آنے کے بعد میں کیا کروں گی۔ اسی ادھیڑ بن تھی کہ کس طرح دوسرا روزگار تلاش کروں۔ صرف دال روٹی کا مسئلہ نہ تھا بلکہ بیٹے کی پڑھائی کے لیے بھی خرچ درکار تھا۔ اماں نے اسے پھر دوسری شادی کے لیے کہاکہ بہو کے چچا کا رشتہ آیا ہے جس کی بیوی کا پچھلے دنوں انتقال ہوگیا تھا۔ اس کے بچوں کو ماں مل جائے گی اور تمہارے بیٹے کو بھی باپ مل جائے گا۔ زبیدہ اپنی بھابھی کے چچا کے لچھن سے واقف تھی، وہ نشے کا عادی تھا، اوپر سے عمر بھی پچاس سال کے قریب تھی، جب کہ وہ پچیس چھبیس سال کی ایک خوب صورت عورت تھی، لہٰذا اس نے ماں کو سختی سے اس رشتے کے لیے انکار کر دیا۔ بھابھی جو چائے بنا کر کمرے میں داخل ہوئی تو زبیدہ کی بات پر آگ بگولہ ہوگئی، کہنے لگی: ’’کیا تمہارے لیے کوئی شہزادہ آسمان سے اترے گا جو اتنے نخرے دکھا رہی ہو! بڑی مشکلوں سے میں نے اپنے چاچے کو راضی کیا ہے۔‘‘ زبیدہ کو بھابھی کی بات پر بڑا دکھ ہوا۔ وہ آنکھوں میں آئے آنسو ضبط کر کے اٹھی ’’ماں میں چلتی ہوں، صادق کو صبح اسکول بھی جانا ہے۔‘‘ پیچھے سے بھابھی کے ایک اور تیرنے اسے چھلنی کر دیا ’’ہاں ہاں دیکھیں گے کہ ڈرائیور کا بیٹا پڑھ لکھ کر افسری کرے گا، دیکھ لینا یہیں دھکے کھاتا رہے گا۔‘‘ گھر آکر اس نے نماز عشا پڑھی اور رو رو کر اپنے رب سے دعا مانگنے لگی ’’یا اللہ تو ہی میرا واحد سہارا ہے، مجھ بے سہارا کو اپنے امان میں رکھنا، میری عزت و آبرو کی رکھوالی کرنا، میں کوئی گناہ نہیں کر رہی، محنت مشقت کر کے اپنا اور اپنے بچے کا پیٹ پالنا چاہتی ہوں، اس کو معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کی تیاری کر رہی ہوں، تو ہی میری مدد کر۔‘‘ واقعی اللہ رب العزت ستر ماؤں سے بھی زیادہ اپنی مخلوق پر مہربان ہے۔ ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو اس سے بہتر دوسرے دروازہ کھولتا ہے۔
بیگم صاحبہ: زبیدہ خیریت! آج چپ چپ ہو، بیٹے کی طبیعت تو ٹھیک ہے!
زبیدہ: جی بی بی جی، الحمد للہ، صادق تو بالکل ٹھیک ہے لیکن…
بیگم صاحبہ: ارے ہاں یاد آیا، ہماری پرانی ماسی کل آئی تھی۔ اسے دوسری جگہ میں نے کام پر لگا دیا ہے۔ تمہیں تو معلوم ہے کہ میری بہن پچھلے دنوں ہمارے ہی محلے میں شفٹ ہوگئی ہے، اس کو نئی ماسی ی ضرورت تھی لہٰذا زلیخا ماسی اب وہیں کام کرے گی۔
مالکن اپنی ہی دھن میں بولے جا رہی تھی، اس کا منہ دوسری طرف تھا۔ زبیدہ کا جواب نہ پاکر وہ مڑی تو زبیدہ کو روتے دیکھا۔ ارے… ارے… تم رو کیوں رہی ہو، تمہیں کیا ہوگیا۔
زبیدہ: بی بی جی یہ تو خوشی کے آنسو ہیں۔ پھر زبیدہ نے تمام بات بتائی تو بیگم صاحبہ نے اسے تسلی دی کہ زبیدہ دوسری شادی تو کوئی گناہ نہیں، ہمارے دین نے اس کی اجازت دی ہے، کوئی مناسب رشتہ نظر آجائے تو تم ضرور شادی کرلینا۔
زبیدہ: نہیں بی بی جی، میں اپنے بیٹے کے ساتھ بہت خوش ہوں، یہ پڑھ لکھ جائے میری یہی تمنا اور خوشی ہے۔
کیوں: اور ہاں سنو، ایک اور کام دو گھنٹوں کا ہے اگر وقت نکال سکتی ہو، کچھ پیسہ تمہارے ہاتھ آجائے گا۔
زبیدہ: بی بی جی یہ تو آپ کا مجھ پر بڑا کرم ہوگا، میں چھ بجے شام کے بعد فارغ ہو جاتی ہوں۔
کیوں: نہیں شام کا کام نہیں ہے، دوپہر کا ہے۔
زبیدہ: لیکن میرا بیٹا…
کیوں: اس کی تم فکر نہ کرو، اس کی اسکول کی چھٹی ہو جائے تو اس کو لے کر یہاں آجاؤ، یہاں اسے کھانا کھلا کر سرونٹ کوارٹر میں سلا دینا، اس طرح یہ دو گھنٹے تمہیں مل جائیں گے، تم ہماری پڑوسن فریدہ کے یہاں کام کر کے آجانا۔
زبیدہ کو بیگم صاحبہ کی بات بہت پسند آئی۔ اس طرح صادق کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا کیوں کہ وہاں اس کا بچوں کے ساتھ لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا تھا، یہاں رہنے سے اسے صاف ستھرا ماحول بھی مل جائے گا اور وہ خود بھی مطمئن رہے گی۔
اگلے دن سے وہ صادق کو اسکول سے سیدھا بیگم صاحبہ کے گھر لے آتی، وہیں کھانا وغیرہ کھلا کر سلا دیتی اور خود فریدہ کے یہاں کام کرنے چلی جاتی۔
بیگم صاحبہ کے گھر میں ان کے سب بچے جوان تھے جو صادق کی پڑھائی میں بھی مدد کرتے رہتے تھے۔ صادق ان سب سے بڑا مانوس ہوگیا۔ ادب و آداب اور سلیقہ اس کی گفتگو میں آگیا، کچھ ہی عرصے میں اس میں اعتماد پیدا ہوگیا۔ زبیدہ کو اگرچہ اپنے اور بچے کے لیے سخت محنت مشقت کی زندگی گزانی پڑی تھی لیکن وہ اپنے رب کی شکر گزار تھی، جس نے اسے اچھے لوگوں سے ملایا تھا۔ دونوں گھرانے وقتاً فوقتاً زبیدہ اور اس کے بچے کی مدد کرتے رہتے تھے۔
آج زبیدہ کی خوشی کا ٹھکانا نہ تھا، آنسو اس کی آنکھوں سے رواں تھے۔ وہ سب سے پہلے مٹھائی کا ڈبہ لے کر بی بی جی کے پاس آئی کہ صادق نے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا ہے، یہ سب آپ سب کی مدد کی وجہ سے ہوا ہے۔ آپ سب کا احسان ہے۔ بیگم صاحبہ اور بچوں کو صادق کی کامیابی پر بڑی خوشی ہوئی، سب نے اسے نہ صرف مبارک باد دی بلکہ تحفے بھی دیے۔
صادق ڈاکٹر بننا چاہتا تھا، اس نے اپنی والدہ کو بتایا تو وہ حیران رہ گئی کہ کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک مزدور بے سہارا عورت کا بیٹا ڈاکٹر بن سکے! اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
صادق: ہاں ماں، آپ جیسی محنت کش ماں ہو تو یہ سب ممکن ہے۔ میں نے اپنے اساتذہ سے ذکر کیا تھا، انھوں نے مجھے پڑھائی میں مدد دینے کی پیش کش کی ہے۔ سر امتیاز نے مجھے دو امیر گھرانوں کے بچوں کے لیے ٹیوشن کی آفر بھی دی ہے جو مجھے معقول فیس دینے پر راضی ہیں۔
زبیدہ: لیکن میری جان، میں نے تو سنا ہے کہ ڈاکٹری کے لیے بڑی محنت کی ضرورت ہے پھر… پھر تو کیسے وقت نکال پائے گا بچوں کو پڑھانے کے لیے! یوں کرتی ہوں میں بیگم صاحبہ سے کہتی ہوں کہ مجھے ایک کام اور ڈھونڈ کردیں۔
صادق: (ماں کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر چومتے ہوئے) نا! اماں تونے اپنی تمام خوشیاں مجھ پر نچھاور کردی ہیں، اب مجھے بھی تھوڑا کام کرنے دے ماں… میرا بس چلے تو میں تجھے گھر پر آرام سے بٹھادوں، تیری خدمت کروں… صرف چند سال…
اس طرح دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بیتتے گئے۔ زبیدہ کے خوب صورت چہرے پر جھریوں نے قبضہ کرلیا، اور بالوں میں چاندنی چمکنے لگی، وہ وقت سے پہلے ہی بوڑھی نظر آنے لگی۔ جب وہ آئینے میںاپنے سراپے پر نظر ڈالتی تو مسکرا کر کہتی ’’شکر ہے ان جھریوں اور سفید بالوں نے اس بو الہوس دنیا اور میرے درمیان ایک دیوار تو کھڑی کر دی ہے۔ عموماً عورتیں سفید بالوں اور چہرے کی جھریوں سے پریشان ہو جاتی ہیں لیکن وہ اکثر بیگم صاحبہ سے ہنس کر کہتی: یہ تو میرے لیے ڈھال بن گئے ہیں، لوگوں کی نظروں میں میرے لیے اب تقدس اور احترام نظر آنے لگا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ اس کی حیا اور شرم دیکھ کر سب کی زبانیں بند ہوتی گئیں، بلکہ اب سب ان ماں بیٹے کی عزت کرنے لگے۔ جلد ہی وہ وقت بھی آگیا جب صادق ڈاکٹری کی سند لے کر کسی ہسپتال میں ہاؤس جاب کرنے لگا۔ وہ بھابھی جو کل تک صادق اور اس کی ماں کی دشمنی میں سب سے آگے آگے تھی آج اپنی بیٹی کا صادق سے رشتہ طے کرنے کے لیے بے چین تھی۔ زبیدہ نے صادق سے پوچھا تو اس نے ماں سے معذرت کی کہ میں اسے ہمیشہ ایک بہن کی نظر سے دیکھتا رہا ہوں، ہاں اگر آپ کی بھی مرضی ہے تو میں انکار نہیں کروں گا۔ زبیدہ خود بھی نہیں چاہتی تھی کہ یہ رشتہ ہو۔ لہٰذا صادق کی شادی اس کی ایک مڈل کلاس کو لیگ سے ہوگئی۔ نہ صرف صادق بلکہ اس کی بیوی نے بھی زبیدہ کو بڑا مان دیا۔ گھر نوکر چاکر، گاڑی… اس نے زندگی کا ہر سکھ ماں کو مہیا کیا۔ زبیدہ ہر گھڑی اپنے رب کا شکر ادا کرتی کہ خدا نے اسے تکلیف سے زیادہ سکھ دیے ہیں۔ کوئی گھڑی ایسی نہ تھی کہ اس کے ہاتھ اپنے بیٹے، بہو اور پوتے پوتی کے لیے دعا کے لیے نہ اٹھے ہوں۔ زبیدہ جتنا عرصہ زندہ رہی بیٹے نے اس کا حق ادا کیا، بلکہ اکثر اس کے ہاتھ چوم کر کہتا: میں اپنی ماں کی محنت و مشقت کے ایک منٹ کا بھی قرضہ اتار نہ پایا ہوں۔
آج یکم مئی اور اتفاقاً زبیدہ کی برسی کا دن تھا۔ صادق صبح ہی صبح ماں کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے گیا۔ واپسی پر وہ اپنے بچوں اور بیوی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ماں کی وہ تصویر تھی جو حج کے دوران اس نے ماں کے ساتھ کھنچوائی تھی۔ آنکھوں میں آئی نمی کو اس نے اپنی ہتھیلی سے صاف کیا۔
’’بابا آپ کو دادو بہت یاد آتی ہیں؟ آپ سے وہ بہت پیار کرتی تھیں؟‘‘
صادق کی بیوی: بیٹا وہ صرف آپ کے بابا سے ہی نہیں ہم سب سے بہت پیار کرتی تھیں۔
صادق: مائیں تو سب ہی اپنی اولاد سے پیار کرتی ہیں لیکن میری ماں بڑی افضل تھیں جنھوں نے اپنی زندگی کی تمام خوشیوں کو میرے مستقبل پر نچھاور کر دیا، بابا کے مرنے کے بعد ماں اور باپ کے فرائض ادا کیے، دن کا بڑا حصہ وہ محنت و مشقت میں گزار دیتی تھیں۔ میں جب تک زندہ رہا اپنے رب کے احسانات کا تو شکر گزار رہوں گا لیکن اپنی ماں کی عطمت کو سلام کرتا رہوں گا۔
بیٹا: بابا صرف آپ نہیں ہم بھی دادو کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
صادق: ہاں بیٹا، اللہ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ lll