مختلف ملکوں میں مسلم قوانین ازدواج کا جائزہ

ابو نابغ (حیدر آباد)

مسلم پرسنل لا میں جو لوگ تبدیلیوں کی وکالت کرتے ہیں ان کی جانب سے یہ دلیل بار بار دی جاتی ہے کہ اسلامی ملکوں میں ان میں بڑی ‘‘اصلاحات‘‘کی گئی ہیں۔ مسلمان قائدین اور علماء کا موقف یہ ہے کہ یہ ممالک ہمارے لئے نمونہ نہیں ہیں۔ ہر مسلم ملک کے حالات مختلف ہیں۔ کئی ممالک استبدادی حکومتوں کے زیر سایہ رہے ہیں اور بہت سی تبدیلیاں ڈکٹیٹروں نے اپنے عوام کی مرضی کو کچل کر لائی ہیں۔بعض تبدیلیاں وہاں کے مخصوص حالات اور وہاں کے عدالتی اور انتظامی ڈھانچہ سے جڑی ہوئی ہیں۔کئی ملکوں میں دوسرے مسالک رائج ہیں۔ ہندوستان جیسے سیکولر اور جمہوری ملک کے لئے اور یہاں کے مخصوص تہذیبی و سیاسی ڈھانچہ میں یہ ممالک مثال نہیں بن سکتے ۔ ذیل کی سطروں میں کچھ اہم ممالک کے مسلم ازدواجی قوانین کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ ان قوانین سے ہم واقف ہوں۔ ان میں سے بعض قوانین سے نہ وہاں کے علماء متفق ہیں اور نہ ہم ہوسکتے ہیں ۔

اس مضمون میں مسلم ممالک کے علاوہ کچھ غیر مسلم ممالک کے مسلم پرسنل لا ز کا بھی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔یہ جائزہ خاص طور پر توجہ کا مستحق ہے ۔ اس سے ہمار ے ملک کے لئے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔

مسلم ملکوں میں شرعی عدالتوں کا نظام

اکثر مسلم ملکوں میں متوازی شرعی عدالتوں کا نظام موجود ہے۔ ان عدالتوں میں مستند علماء اور اسلامی قوانین کے ماہرین قضاء ت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ یہ لوگ اسلامی قانون میں یقین رکھتے ہیں اور اس کی اسپرٹ سے واقف ہوتے ہیں۔ بعض قانونی تبدیلیاں جن میں شوہر کے بعض اختیارات کو قاضی کی اجازت کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے، ان پر غور کرتے ہوئے یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ یہ قاضی کو ئی عام سرکاری جج نہیں ہے بلکہ شرعی عدالت کا قاضی ہوتا ہے جسے ملک کا قانونی نظام نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ کئی ملکوں کے دساتیر میں بھی ان کا واضح تذکرہ موجود ہے۔

ملیشیا میں پرسنل لا ریاستوں کے دائرہ میں آتا ہے۔ ہر ریاست میں شرعی عدالتوں کا نظام موجود ہے۔ یہ عدالتیں سول عدالتوں سے بالکل مختلف، آزاد اور ان کے متوازی ہیں اور مسلمانوں کے خاندانی امور کے فیصلے کرتی ہیں۔ ان کی تین سطحیں ہیں۔نچلی شرعی عدالتیں، شرعی ہائی کورٹ اورشرعی اپیل کورٹ۔ ہر ریاست میں علماء کی ایک مجلس ہے جسے کونسل برائے مذہبی و مَلے تہذیبی امورCouncil for Religious and Malay Cultural Affairs کہا جاتا ہے۔ اسلای قانون کی تعبیر و تشریح اسی مجلس کا اختیار ہے۔اور شرعی عدالتیں، اسی مجلس کے فتووں کی روشنی میں فیصلے کرتی ہیں۔نچلی شرعی عدالتوں کے فیصلوں کو شرعی ہائی کورٹ اور شرعی اپیل کورٹ میںچیلنج کیا جاسکتا ہے لیکن کسی عام عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

انڈو نیشیا میں چار طرح کی عدالتیں ہیں۔ عام عدالتوں، فوجی عدالتوں اور انتظامی عدالتوں کے ساتھ مذہبی عدالتیں (Pengadilan Agama) ہیں۔ مذہبی عدالتوں کی دو سطحیں ہیں۔ ہر ضلع میں بنیادی عدالت اور ہر ریاست میں اپیل کورٹ۔ قانون مذہبی عدالتیں 1989کی رو سے عام عدالتوں کو مذہبی عدالتوں کے فیصلوں کو ریویو کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔

نائیجریا میں بھی شرعی عدالتوں کا نیٹ ورک ہی عائلی معاملات کی سنوائی کرتا ہے۔ دستور کی دفعہ 236 (1) میں شرعی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل کا تفصیلی طریقہ بتایا گیا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ اسلامی فقہ کے ماہرین ہی ان کی سنوائی کرسکیں۔

ایران کے دستور کی دفعہ چار کی رو سے صرف عائلی معاملات ہی نہیں بلکہ تمام امور میں ملک کاقانون، اسلامی قانون ہوگا۔ عائلی معاملات کے لئے الگ عدالتیں موجود ہیں۔ ان کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکتی ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے سربراہ اور پراسیکوٹر جنرل کے لئے ضروری ہے کہ وہ‘‘مجتہد’’ہو یعنی شیعہ قانون کا نہایت اعلی درجہ کا ماہر ہو۔

مصر میں جمال عبد الناصر کے زمانہ میں شرعی عدالتوں کو عام عدالتوں میں ضم کردیا گیا تھا لیکن ان عام عدالتوں میں عائلی امور کی الگ بنچ ہوتی ہے۔ قبطی عیسائیوں کے لئے الگ بنچ ہے اور مسلمانوں کے لئے الگ۔ مسلمانوں کے عائلی امور کے لئے الگ جج ہوتے ہیں جو شریعت اور شرعی قانون میں مہارت رکھتے ہیں۔

سوڈان میں بھی شرعی عدالتوں کا الگ نظام موجود تھا۔ لیکن 1983میں جب پورے ملک کے نظام اور عدالتوں کی شرعی بنیادوں پر تشکیل کی گئی اور دستور کی دفعہ 65کے ذریعہ شریعت کو ملک کے قانون کا اصل سرچشمہ قرار دے دیا گیا تو پھر ان علیحدہ عدالتوں کی ضرورت باقی نہیں رہی اور انہیں سول عدالتوں میں ضم کردیا گیا۔

مراقش میں بنیادی عدالتیں سدد عدالتیں کہلاتی ہیں۔ ہر سدد عدالت میں چھ الگ الگ سیکشن ہوتے ہیں۔ دیوانی، فوجداری، انتظامی، تجارتی، سباتی (یہودی پرسنل لا) اور شرعی۔اعلی عدالتوں میں بھی شرعی قانون کے لئے الگ سیکشن ہوتا ہے جو مسلمان قاضیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

سعودی عرب میں چار سطحوں پر شرعی عدالتیں ہیں۔ ان عدالتوں کا دائرہ اختیار صرف عائلی معاملات تک محدود نہیں ہے بلکہ بہت وسیع ہے۔

مسلمان ممالک اور شادی کے قوانین

تقریباً ان تمام ملکوں میں شادی کی کم سے کم عمر متعین ہے۔ لیکن اس عمر سے پہلے بھی شرعی عدالت کی اجازت سے شادی ہوسکتی ہے۔ شریعت کی رو سے نابالغ کی شادی کے لئے ولی کی اجازت ضروری ہے۔ ان ملکوں میں یہ اختیار شرعی عدالت کے قاضی کو منتقل کیا گیا ہے۔ چناںچہ ملیشیا، انڈونیشیا، نائجیریا، الجیریا، مراقش، ان سب ملکوں میں شرعی عدالتوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ نا بالغ کی شادی کی اجازت دیں۔ ایران اور سعودی عرب میں یہ اختیار اصل اسلامی قانون کے مطابق ولی کو ہی حاصل ہے۔

اکثر ملکوں میں شادی کا قاضی کے پاس رجسٹریشن لازمی ہے۔ لیکن اگر رجسٹریشن نہ ہو تو اس سے عقد نکاح کی درستگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ملیشیا جیسے بعض ملکوں میں رجسٹریشن نہ کرانا جرم ہے اور اس پر سزا یا جرمانہ ہوسکتا ہے۔

جن ملکوں میں شافعی یا مالکی فقہ رائج ہے وہاں بالغ لڑکی کے نکاح کے لئے بھی ولی کی اجازت ضروری ہے۔ ملیشیا، انڈونیشیا میں شافعی فقہ رائج ہے جبکہ مراقش، نائیجیریا اور سوڈان میں مالکی فقہ کا رواج ہے، چنانچہ ان ملکوں میں ولی کی اجازت ضروری ہے۔ لیکن اگر ولی بلا کسی معقول وجہ کے روک رہا ہو تو لڑکی شرعی عدالت میں اپیل کرسکتی ہے اور شرعی عدالت کی اجازت سے اس کا نکاح ہوسکتا ہے۔

اکثر ملکوں میں تعدد ازدواج کی اجازت شرعی عدالت کی اجازت کے ساتھ مشروط ہے۔ انڈونیشیا اور ملیشیا میں شرعی عدالتیں یہ دیکھتی ہیں کہ کیا دوسری شادی کرنے والا مالی لحاظ سے اس لائق ہے اور کیا وہ بیویوں اور ان کے بچوں کے درمیان عدل کے تقاضے پورے کرسکتا ہے؟مصر میں ایسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے، البتہ پہلی بیوی کو اطلاع دینا اور دوسری بیوی کے علم میں یہ بات لانا کہ شوہر کے پاس پہلے سے ایک بیوی موجود ہے، ضرروی ہے۔لیکن اگر پہلی بیوی یہ محسوس کرے کہ اس کے ساتھ عدل نہیں ہورہا ہے تو وہ فسخ نکاح کی درخواست دے سکتی ہے۔سوڈان، نائیجیریا، مراقش وغیرہ میں دوسری شادی کے لئے کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن قانون میں باقاعدہ یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ عورت چاہے تو نکاح کے وقت اشتراط فی النکاح کے ذریعہ یہ شرط رکھ سکتی ہے کہ شوہر دوسری شادی نہیں کرے گا۔اِیران میں بھی دوسری شادی کی غیر مشروط اجازت ہے۔

مسلمان ممالک اور قوانین طلاق

ملیشیا میں عدالتی مداخلت کے بغیر طلاق دینا جرم ہے۔ جس کی سز ا ہوسکتی ہے۔ عدالت طلاق کے دوران اثاثوں Matrimonial Property کی تقسیم کا بھی حکم دے سکتی ہے۔بیوی کو صرف عدت کی مدت کا نفقہ مل سکتا ہے۔ البتہ بچے بیوی کے پاس رہتے ہیں اور ان کا نفقہ شوہر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ انڈونیشیا میں بھی پہلے عدالت مصالحت کی کوشش کرتی ہے اور جب مصالحت ناممکن نظر آتی ہے تو طلاق کی اجازت دی جاتی ہے۔اور ایک طلاق رجعی دی جاتی ہے۔ ایران میں شیعہ جعفریہ قانون کے مطابق طلاق کے لئے دو گواہ اور صیغہ طلاق کی خواندگی ضروری ہے۔ مطلقہ کو عدت کے دوران نفقہ ملے گا۔ البتہ 1992کی ترمیم کے تحت شادی کے دوران انجام دی گئی گھریلو خدمات کا معاوضہ عورت طلب کرسکتی ہے۔

مصر میں ایک ساتھ دی جانے والی متعدد طلاقیں ایک ہی طلاق مانی جاتی ہیں۔ لیکن عدالتی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔ طلاق نامہ عدالت میں جمع کرانا کافی ہے۔ مصر کے قانون کے مطابق اگر طلاق بیوی کی مرضی کے بغیر دی گئی تو کم سے کم دو سال کا نفقہ شوہر کے سامنے واجب الادا ہوگا۔ بچوں کی کفالت کے لئے مطلقہ بیوی کو الگ گھر فراہم کرنا بھی طلاق دینے والے کے ذمہ ہوگا۔ سوڈان کے قانون کے مطابق بھی اکثر صورتوں میں زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کا نان نفقہ شوہر کی جانب سے مطلقہ کو دینے کا حکم دیا جاسکتا ہے اور متعدد طلاقوںکے ایک ساتھ اعلان کو ایک ہی طلاق مانا جاتا ہے۔مراقش کے قانون کے مطابق ایک وقت کی متعدد طلاقیں ایک ہی مانی جائیں گی۔

طلاق دوگواہوں اور بیوی کی موجودگی میں دی جانی چاہیے۔ اور اگر حالت حیض میں دی گئی تو قاضی اس سے رجوع کا حکم دے سکتا ہے۔طلاق سے قبل عدالت مصالحت کی ضروری کوشش کرے گی۔متحدہ عرب امارات کے قانون 2005کے مطابق مطلقہ کو عدت کے نان نفقہ کے علاوہ معاوضہ Compensation بھی دیا جائے گا۔ جس کا تعین عدالت کرے گی۔

الجیریا، اردن، شام، یمن، کویت، لبنان، لیبیا اور تیونس وغیرہ ملکوں کے قوانین طلاق میں بھی اس بات کی صراحت موجود ہے کہ ایک ساتھ دی جانے والی متعدد طلاقیں، ایک ہی طلاق قرار پائیں گی اور طلاق رجعی متصور ہوں گی۔

خلع اور فسخ نکاح نیز حضانت وغیرہ کے عام اسلامی قوانین ان سب ملکوں میں رائج ہیں۔ عام طور پر قوانین میں تفصیل سے ان صورتوں کا ذکر ہوتا ہے جن کی بنیاد پر عورت فسخ نکاح کی اپیل کرسکتی ہے۔ یہ کم و بیش وہی صورتیں ہوتی ہیں جن کا ذکر فقہ کی کتابوں میں ملتا ہے۔ مسالک کے اختلاف کی وجہ سے بعض باتوں میں کچھ اختلاف بھی ہوتا ہے۔ لیکن عام طور پر اسلامی فقہ کے معروف قوانین ہی نافذ ہیں۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے قوانین ازدواج

آزادی کے بعد پاکستان میں بھی شریعت اپلی کیشن ایکٹ 1937ہی نافذ تھا (جو ہندوستان میں بھی رائج ہے اور جس کے ذریعہ پرسنل لا کی ضمانت حاصل ہے)۔ پاکستان کے دستور میں ایک اہم شق شامل ہے جس کی رو سے شریعت کے خلاف کوئی قانون سازی وہاں نہیں ہوسکتی۔ دفعہ ۲ کے مطابق اسلام سرکاری مذہب ہے اور دفعہ ۲ (الف)کے مطابق اسلام کے خلاف قانون سازی کی اجازت نہیں ہے اور جو قانون بھی شریعت کے خلاف ہو وہ منسوخ قرار پائے گا۔ دفعہ ۳(الف) کے ذریعہ وفاقی شرعی عدالت بھی قائم کی گئی ہے۔ جو قوانین کا اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ لیتی ہے۔ ایک اسلامی نظریاتی کونسل بھی قائم ہے جو شریعت کے معاملات میں حکومت اور قانون سازوں کو مشورہ دیتی ہے۔

1961مِیں جب فیلڈ مارشل ایوب خان پاکستان کے ڈکٹیٹر تھے اور دستور معطل تھا تو انہوں نے ایک آرڈنینس جاری کیا تھا جو اس وقت مغربی پاکستان مسلم عائلی قوانین آرڈنینس کہلایا۔

اس آرڈنینس کی رو سے نکاح کا رجسٹریشن قانوناً لازمی ہے۔ اور اگر رجسٹریشن نہ کرایاجائے تو یہ قابل سزا جرم ہے۔ دوسری شادی کے لئے حکومت کی یعنی ثالثی کونسل کی تحریری اجازت ضروری ہے۔ اور ایسی اجازت کے بغیر دوسری شادی کی گئی تو یہ بھی قابل سزا جرم ہے۔

طلاق کے لئے بھی عدالت کو نوٹس دینا ضروری ہے۔ نوٹس ملنے کے بعد عدالت ایک ثالثی کونسل کا تقرر کرے گی اور یہ کونسل مصالحت کی کوشش کرے گی۔

اس طرح کی نوٹس کے بغیر اگر طلاق دی گئی تو یہ بھی قابل سزا جرم ہے۔ اسی طرح نابالغ بچوں کی شادی بھی قابل سزا جرم ہے۔

خلع اورفسخ نکاح کے لئے اکثر مسلم ملکوں میں کچھ شرائط ہیں لیکن پاکستان کے قانون کی رو سے کوئی شرط ضروری نہیں ہے۔ اگرعورت، جدائی چاہ رہی ہے اور اپنا مہر وغیرہ چھوڑنے کو تیار ہے تو عدالت اس کو خلع دلاسکتی ہے۔

ان قوانین کی پاکستان میں علما نے ہمیشہ مخالفت کی ہے اور انہیں خلاف اسلام اور خلاف دستور کہا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور عدالتوں میں بھی ان قوانین کے ریویو کی بحثیں اٹھتی رہتی ہیں۔

یہ آرڈنینس صرف مغربی پاکستان کے لئے تھا۔ اس لئے بنگلہ دیش میں یہ نافذ نہیں ہوا۔ بنگلہ دیش میں ہمارے ملک ہی کی طرح شریعت اپلی کیشن ایکٹ 1937 نافذ العمل ہے۔ البتہ 1974میں ایک قانون کے ذریعہ شادیوں کے رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا گیا۔ رجسٹریشن نا ہو تو شادی تو ہوجاتی ہے لیکن اس پر سزا ہوسکتی ہے۔

کچھ غیر مسلم ممالک میں رائج مسلم قوانین ازدواج

اوپر کچھ مسلم ممالک کے قوانین کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ہمارا ملک ایک غیر مسلم اکثریتی ممالک ہے۔ اس لئے یہاں کچھ غیر مسلم اکثریتی ممالک کے قوانین کا بھی مختصر جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔اس جائزہ سے ان بہت سے امکانات کا اندازہ ہوتا ہے جو غیر مسلم ملک میں، مسلمانوں کے لئے اسلام کے شرعی قوانین پر عمل کی خاطر پیدا کئے جاسکتے ہیں۔

سنگاپور

سنگاپور، جنوب مشرقی ایشیا کا ایک چھوٹا سا لیکن نہایت ترقی یافتہ ملک ہے۔فی کس آمدنی کے لحاظ سے اس کا دنیا مین تیسرا رینک ہے اور انسانی ترقی کے لحاظ سے پانچواں۔یہاں کا تعلیمی نظام دنیا کے تین بہترین نظاموں میں شمار کیا جاتا ہے۔یہاں کی ۵۶ لاکھ آبادی میں مسلمان 14فی صد ہیں۔ یعنی وہی تناسب ہے جو ہمارے ملک میں ہے ۔ مسلمانوں کی اکثریت شافعی مسلک کی پیرو ہے۔سنگاپور کے دستور کی دفعہ 153میں یہ بات کہی گئی ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی امور کو دیکھنے کے لئے ایک کونسل بنائی جائے گی۔ مسلمانوں کے خاندانی امور سے متعلق مسائل کے لئے علحدہ شرعی عدالت ہے، جس میں مسلمان علما ء بطور قاضی مقرر کئے جاتے ہیں۔ اس عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں نہیںکی جاسکتی بلکہ اس کے لئے ایک علحدہ اپیل بورڈ تشکیل دیا گیا ہے۔ اس بورڈ کے مسلم ارکان کا تقرر سپریم کورٹ کا رجسٹرار صدر کے نامزد افراد میں سے کرتا ہے۔

شادی کی کم سے کم عمر 16سال (لڑکوں، لڑکیوں دونوں کے لئے) ہے۔ اس سے پہلے شادی کرنی ہو تو قاضی کی اجازت درکار ہے۔ شافعی فقہ کے مطابق بالغ لڑکی کے نکاح کے لئے ولی کی رضامندی ضروری ہے لیکن اگر ولی بلا کسی وجہ کے انکار کررہا ہو تو قاضی اجازت دے سکتا ہے۔

شادی کا رجسٹریشن ضروری ہے لیکن رجسٹریشن نہ ہو تو عقد کی درستگی پر اثر نہیں پڑتا۔ مرد کے لئے دوسری شادی کی اجازت ہے، لیکن اسے قاضی کو مطمئن کرنا ہوگا کہ وہ عدل کرسکتا ہے۔

طلاق کا رجسٹریشن ضروری ہے۔ قاضی ضروری سمجھے تو رجسٹریشن سے پہلے انکوائری کا حکم دے سکتا ہے اور اگر ایک ساتھ تین طلاقیں دی گئی ہوں تو اسے قبول کئے بغیر شرعی کورٹ سے مسئلہ رجوع کرسکتا ہے۔ کورٹ تفصیلی انکوائری کے بعد شریعت کی روشنی میں فیصلہ کرے گی۔

اس طرح اس سیکولر ملک میں مسلمانوں کے لئے ایک آزاد متوازی عائلی عدالتوں کا نظام قائم کیا گیا ہے۔ یہ نظام مسلمان علماء ہی کے کنٹرول میں ہے۔ اس لئے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ بعض اختیارات اور ضروری احتیاطی تدابیر عدالت کے اختیار میں دی جائیں۔

اسرائیل

اسرائیل ایک یہودی ریاست ہے۔۷۵ لاکھ آبادی میں مسلمان ۱۸ فیصد ہیں۔ یہاں کے مسلمان شافعی اور حنبلی مسلک کو مانتے ہیں لیکن فلسطین میں چونکہ سرکاری طور پر حنبلی قانون رائج تھا اس لئے اسرائیل میں بھی مسلمانوں پر یہی قانون نافذ ہوتا ہے۔ اسرائیل کے بنیادی قانون (جس کی حیثیت دستور کی ہے) کے مطابق مسلم، دروز، یہودی اور عیسائی مذہب کے ماننے والوں کے لئے الگ الگ مذہبی عدالتیں ہوں گی۔ مسلمانوں کی مذہبی عدالتوں میں عثمانی قانون برائے عائلی حقوق 1917نافذ ہوتا ہے۔ شادی کی کم سے کم عمر لڑکی کے لئے 17سال اور لڑکے کے لئے 18سال ہے۔ لیکن مذیبی عدالت اس سے کم عمر میں بھی شادی کی اجازت دے سکتی ہے۔ بغیر اجازت کم عمری میں شادی کردی جائے تو شادی ہوجائے گی لیکن سزا ہوگی۔

طلاق کے لئے شریعت کورٹ میں نوٹس دینا ضروری ہے لیکن اگر نوٹس نہ بھی دی جائے اور دونوں فریق راضی ہوں تو عملاً طلاق ہوجاتی ہے البتہ اگر عورت کی مرضی کے بغیر اور شرعی عدالت کی مداخلت کے بغیر طلاق دی جائے تب بھی طلاق ہوجاتی ہے لیکن شوہر کو سزائے قید ہوسکتی ہے۔ یہ سزا شرعی عدالت ہی دے گی۔

سری لنکا

سری لنگا ہمارا پڑوسی ملک ہے اور دو کروڑ بارہ لاکھ کی آبادی میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً دس فیصد ہے۔ یہاں کے مسلمان شافعی مسلک کے پیرو ہیں۔ سری لنگا سرکاری طور پر ایک بدھ ملک ہے اور دستور کی دفعہ ۶۱کے مطابق حکومت بدھ مت کو ترجیح دے گی اور اس کی حفاظت کرے گی۔ لیکن اس کے باوجود دیگر مذاہب کو بھی آزادی حاصل رہے گی۔

مسلمانوں کے عائلی معاملات مسلم قانون نکاح و طلاق۱۹۵۱کے ذریعہ منضبط ہوتے ہیں۔ اس قانون کی نفاذ کی ذمہ داری قاضی کورٹ پر عائد ہوتی ہے۔ مسلم علاقوں میں ان قاضی کورٹوں کا نیٹ ورک حکومت نے قائم کر رکھا ہے۔ ان کورٹوں میں جوڈیشیل سروس کمیشن قاضیوں کا تقرر کرتا ہے۔ شریعت کا علم رکھنے والے، اچھے کردار کے مالک اور سماج میں محترم و معزز مسلمان مرد ،قاضی کے طور پر مقرر کئے جاسکتے ہیں۔ قاضی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف قاضی بورڈ میں اپیل کی جاسکتی ہے، یہ بورڈ بھی مسلمان قاضیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

اگر چہ سری لنکا میں شادی کی کم سے کم عمر کا قانون نافذ ہے لیکن یہ قانون مسلمانوں پر نافذ نہیں ہوتا۔۱۲ سال سے زیادہ عمر کی لڑکی کی قاضی کی اجازت کے بغیر شادی ہوسکتی ہے اور۱۲سال سے کم عمر ہو تو قاضی سے اجازت درکار ہوتی ہے۔ عورت کی شادی کے لئے شافعی قانون کے مطابق ولی کی اجازت درکار ہے اور اگر عورت یہ محسوس کرے کہ ولی غیر ضروری رکاوٹ دال رہا ہے تو وہ قاضی کے پاس اپیل کرسکتی ہے اور قاضی اجازت دے تو شادی ہوسکتی ہے۔ شادی اور طلاق کا رجسٹریشن ضروری ہے۔ رجسٹریشن نہ بھی ہو تو شادی یا طلاق واقع ہوجاتی ہے لیکن متعلقہ افراد پر جرمانہ عائد ہوتا ہے۔ قاضی قید کی سزا بھی دے سکتا ہے۔ طلاق کی درخواست ملنے پر قاضی پہلے مصالحت کی کوششیں کرائے گا۔اور مصالحت کامیاب نہ ہو تو طلاق ہوجائے گی۔

ہم نے یہاں تین غیر مسلم ممالک کی مثالیں پیش کی ہیں۔ ان میں سے ایک یہودی ملک ہے، ایک بدھ ملک ہے اور ایک سیکولر ملک ہے۔ان ملکوں میں مسلمانوں کے مذہبی اور عائلی امور کے لئے مسلمان اہل علم ہی پرمشتمل عدالتی نظام کی سہولت موجود ہے اور اس سہولت کی وجہ سے ان عدالتوں کو کچھ اضافی اختیارات دینا ایک طرح سے ممکن ہوگیا ہے۔ ان عدالتوں میں مسلمان جج اسلامی شریعت کی روح کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان اختیارات کا استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح کے اختیارات اگر ہم اپنے ملک میں عدالتوں کو دینا چاہیں تو ان اختیارات پر بحث سے پہلے یہ ضروری ہوگا کہ ایسے متوازی عدالتی نظام کو قائم کیا جائے۔ اس کے بغیر شریعت سے ناواقف اور غیر متعلق ججوں کو شرعی امور سے متعلق اضافی اختیارات مل جائیں تو قانون کی روح ہی باقی نہیں رہے گی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں