مخفی عبادت

عبد المالک مجاہد

بہار کا موسم تھا۔ ایک خنک رات میں اپنے دوستوں کے ساتھ صحرا میں تھا۔ ہماری ایک گاڑی خراب ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے مجبوراً ہمیں بے آب و گیاہ صحرا میں کھلے آسمان تلے رات گزارنی پڑی۔ مجھے بخوبی یاد ہے ہم نے آگ جلائی تھی جس کے گرد دائرہ بنائے ہم رات گئے تک خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ جب رات خاصی گزر گئی تو ہمارا ایک ساتھی چپکے سے کھسک گیا۔ وہ نیک آدمی تھا اور مخفی عبادت کیا کرتا تھا۔ میں نے بارہا دیکھا تھا کہ وہ سویرے ہی جمعہ پڑھنے نکل کھڑا ہوتا اور اکثر مسجد کا دروازہ کھلنے سے پہلے وہاں موجود ہوتا۔

جاتے ہوئے وہ پانی کا برتن ساتھ لے گیا۔ میں سمجھا شاید پیشاب کرنے گیا ہے۔ خاصی دیر کے بعد جب وہ نہ آیا تو میں اس کے پیچھے گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ ساتھیوں سے دور تنہا رات کے اندھیرے میں جسم پر موٹی چادر لپیٹے ننگی زمین پر سجدہ ریز اپنے رب کی خوشامد کر رہا ہے۔ صاف نظر آتا تھا کہ وہ اللہ سے محبت کرتا ہے اور اللہ بھی یقینا اس سے محبت کرتا ہوگا۔ اس مخفی عبادت کا آخرت میں جو صلہ ہے وہ تو ہے ہی لیکن آخرت سے پہلے دنیا میں بھی اس کا صلہ عزت اور فائز المرامی کی صورت میں ملتا ہے۔

سالہا سال گزر گئے۔ میں آج بھی اپنے اس ساتھی کو جانتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندہ کے لیے زمین میں مقبولیت رکھ دی ہے۔ آج وہ اسلام کا بہت بڑا داعی ہے۔ لوگ اس کے ہاتھوں راہِ راست پر آرہے ہیں۔ وہ بازار یا مسجد جاتا ہے تو چھوٹے بچے بھاگ کر اس سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ بڑے اس سے محبت کرتے ہیں۔ کتنے ہی تاجروں، امراء و رؤسا اور شہرت یافتہ افراد کی خواہش ہے کہ لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے بھی ایسی ہی محبت ہو جیسی اس نوجوان کی ہے۔ لیکن شاید ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکے۔

کسی دانا نے اپنے حریف سے کہا تھا:

’’میں رات جاگ کر گزاروں اور تم سوکر گزارو، پھر تمہیں خواہش ہوتی ہے کہ میرا مقام و مرتبہ حاصل کرو؟ (تعجب انگیز بات ہے!)‘‘

قرآن میں ہے: ’’بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالحہ انجام دیے، جلد ہی رحمن ان کے لیے (لوگوں کے دلوں میں) محبت ڈال دے گا۔‘‘

سچ ہے کہ اللہ جس سے محبت کرے، اس کے لیے زمین میں مقبولیت کے دروازے کھول دیتا ہے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل کو آواز دیتا ہے: ’’میں فلاں سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو۔‘‘ جبریل اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر جبریل علیہ السلام اہل آسمان میں اعلان کرتے ہیں: ’’اللہ فلاں سے محبت کرتا ہے، تم بھی اس سے محبت کرو۔‘‘ اہل ایمان بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔

پھر اس آدمی کے لیے اہل ارض کے درمیان محبت نازل ہوتی ہے۔‘‘

اللہ کی اس بات کا یہی مطلب ہے: ’’بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ انجام دیے، جلد ہی رحمن ان کے لیے (لوگوں کے دلوں میں) محبت ڈال دے گا۔‘‘

’’اور جب اللہ کسی بندے سے نفرت کرتا ہے تو جبریل کو آواز دیتا ہے: ’’میں فلاں سے نفرت کرتا ہوں، تم بھی اس سے نفرت کرو۔‘‘ جبریل اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں، پھر وہ اہل آسمان میں اعلان کرتے ہیں: ’’اللہ فلاں آدمی سے نفرت کرتا ہے، تم بھی اس سے نفرت کرو اور وہ بھی اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ پھر اس آدمی کے لیے زمین میں نفرت اترتی ہے۔‘‘

سبحان اللہ! وہ کیا سماں ہوگا جب اللہ زمین پر چلتے پھرتے، کھاتے پیتے، رہتے سہتے بندے کا نام لے کر آسمان پر اعلان کرتا ہوگا:

’’میں فلاں آدمی سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو۔‘‘

جلیل القدر صحابی زبیر بن عوامؓ کہا کرتے تھے: ’’تم میں سے جو شخص ایسا کرسکے کہ اس کا کوئی صالح عمل پوشیدہ رہے تو وہ ضرور ایسا کرے۔‘‘ مثلاً رات کو پابندی سے نماز پڑھنا، چاہے وہ وتر کی ایک رکعت ہی کیوں نہ ہو جسے آدمی نمازِ عشاء کے متصل بعد یا سونے سے قبل یا فجر کی نماز سے پہلے ادا کرے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ وتر (ایک، یکتا) ہے اوروَتر پسند کرتا ہے، اس لیے اے اہلِ قرآن! (حاملین قرآن!) وِتر پڑھا کرو۔‘‘

لوگوں کی آپس میں صلح کرانے کا عمل بھی عبادتِ خفی کی ایک قسم ہے۔ روٹھے ہوئے ساتھیوں کو منانا، پڑوسیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور ناراض میاں بیوی کی باہمی تلخیاں دور کرنا نیکی کے بڑے عمل ہیں۔

رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:

’’کیا میں تم لوگوں کو ایسا عمل نہ بتاؤں جو نماز، روزے اور صدقے سے افضل ہے؟‘‘ صحابۂ کرام نے عرض کیا: ’’ضرور بتائیں۔‘‘

آپ نے فرمایا:

’’آپس میںصلح کرانا۔‘‘

مزید فرمایا:

’’آپس میں فساد ڈالنا دین کو مونڈ کر صاف کردینے والا کام ہے۔‘‘

اللہ کا کثرت سے ذکر کرنا بھی ایک بڑی اور مخفی عبادت ہے۔ فطری طور پر جو آدمی کسی سے محبت کرتا ہوں اس کا بکثرت ذکر کرتا ہے۔

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’کیا میں تم لوگوں کو بہترین عمل کے بارے میں نہ بتاؤں جو تمہارے رب کے نزدیک بہت پاکیزہ اور تمہارے درجات کو بہت بلند کرنے والا ہے۔ یہ عمل تمہارے لیے سونے اور چاندی کا عطیہ کرنے سے بہتر ہے اور اس امر سے بھی بہتر ہے کہ دشمن سے تمہارا آمنا سامنا ہو، تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں؟‘‘

صحابہ کرام نے پرشوق انداز میں جواب دیا: ’’کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! ہمیں ضرور بتائیں کہ وہ کون سا عمل ہے۔‘‘

آپ نے فرمایا:

’’اللہ عزوجل کا ذکر۔‘‘

مخفی عبادت کا ایک بڑا عمل ہے: ’’چھپا کر صدقہ کرنا۔‘‘

’’چھپا کر صدقہ کرنا‘‘ رب کے غضب کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔

ابوبکرﷺ کا معمول تھا کہ آپ فجر کی نماز کے بعد صحرا کی طرف نکل جاتے۔ وہاں چند ساعتیں گزارتے اور مدینہ واپس آجاتے۔ عمرؓ کو بڑا تعجب ہوا کہ ابوبکر صبح ہی صبح صحرا میں کیا لینے جاتے ہیں۔ ایک دن فجر کی نماز کے بعد انھوں نے چھپ کر ابوبکرؓ کا تعاقب کیا۔ ابوبکرؓ معمول کے مطابق مدینہ سے نکلے اور صحرا میں ایک پرانے خیمے کے اندر گئے۔ عمرؓ ایک چٹان کی اوٹ میں چپکے سے انھیں دیکھنے لگے۔

ابوبکرؓ تھوڑی دیر بعد خیمے سے باہر آئے اور مدینے روانہ ہوگئے۔ عمرؓ چٹان کی اوٹ سے نکلے اور خیمے میں داخل ہوئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک نابینا کمزور عورت اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے بیٹھے ہیں۔ آپ نے اس عورت سے دریافت کیا: ’’یہ کون ہے جو تمہارے پاس آتا ہے؟‘‘

اس نے جواب دیا:

’’میں اسے نہیں جانتی۔ کوئی مسلمان ہے۔ ایک عرصے سے ہر صبح ہمارے پاس آتا ہے۔‘‘ پوچھا: ’’تمہارے پاس آکر کیا کرتا ہے؟‘‘

وہ بولی: ’’گھر میں جھاڑو دیتا ہے، آٹا گوندھتا ہے، ہماری بکری کا دودھ دوہتا ہے اور چلا جاتا ہے۔‘‘

اس کی بات سن کر عمرؓ یہ کہتے ہوئے خیمے سے باہر آگئے: ’’ابوبکر آپ نے اپنے بعد کے خلفاء کو بڑی مشقت میں ڈال دیا ہے۔ آپ نے اپنے بعد کے خلفاء کو بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔‘‘

عمرؓ بھی عبادت اور اخلاص کے معاملے میں ابوبکرؓ سے پیچھے نہ رہے۔

طلحہ بن عبید اللہؓنے انہیں رات کی تاریکی میں اپنے گھر سے نکل کر ایک گھر میں داخل ہوتے اور پھر وہاں سے نکل کر دوسرے گھر میں جاتے دیکھا۔ وہ حیران ہوئے کہ امیر المومنین ان گھروں میں کیا کرتے ہیں۔ صبح ہوتے ہی طلحہ اس بات کا سراغ لگانے کے لیے پہلے گھر گئے۔ ان کی ملاقات چارپائی پر پڑی نابینا بڑھیا سے ہوئی۔ اس سے دریافت کیا:

’’یہ آدمی آپ کے پاس کیوں آتا ہے؟‘‘

بڑھیا بولی: ’’یہ آدمی ایک مدت سے میرا خیال رکھتا ہے۔ گھر کی صفائی کرتا ہے۔ تازہ پانی بھرتا ہے۔ میرا بول و براز صاف کرتا ہے۔‘‘

اس پر طلحہ یہ کہتے ہوئے بڑھیا کے گھر سے باہر آگئے۔‘‘ طلحہ! تمہاری ماں کی بربادی! کیا عمر کی غلطیاں تلاش کرتے ہو؟‘‘

ایک رات امیر المومنین عمر بن خطابؓ مدینہ کے نواح میں نکلے۔ وہاں ان کی ملاقات ایک مسافر سے ہوئی جو راستے میں پھٹا پرانا خیمہ نصب کیے پریشان حال بیٹھا تھا۔

عمرؓ نے استفسار کیا: ’’کون ہو بھئی! کہاں سے آئے ہو؟‘‘

وہ بولا: ’’بادیہ سے آیا ہوں۔ امیر المومنین کے دربار میں حاضر ہوکر ان سے کچھ امداد حاصل کرنے کا ارادہ ہے۔‘‘

آپ کو خیمے کے اندر سے کسی عورت کی آہ و بکا سنائی دی۔ پوچھا کیا ماجرا ہے۔

وہ آدمی کہنے لگا: ’’اللہ تم پر رحم کرے، جاؤاپنا کام کرو۔‘‘

عمر نے کہا: ’’یہ میرا کام ہے۔‘‘

اس پر وہ بولا: ’’میری بیوی دردِ زہ میں مبتلا ہے۔ میرے پاس نہ پیسے ہیں نہ کھانا اور نہ کوئی مدد کرنے کو ہے۔‘‘

عمرؓ جلدی سے گھر واپس آئے۔ اپنی بیوم ام کلثوم بنت علی بن ابی طالبؓ سے کہا: ’’اللہ نے ایک بھلائی تمہارے مقدر میں کی ہے۔‘‘

بیوی نے پوچھا: ’’وہ کیا؟‘‘

عمرؓ نے انہیں ساری بات بتائی۔ ام کلثوم نے کچھ ضروری سامان اپنے ساتھ لیا۔ عمرؓ نے ایک بورے میں کچھ غلہ، ایک ہانڈی اور چند لکڑیاں ڈالیں اور دونوں میاں بیوی مسافر کے خیمے کے طرف چل پڑے۔

ام کلثومؓ خیمے کے اندر اس عورت کے پاس گئیں اور عمرؓ باہر آدمی کے قریب بیٹھے۔

انھوں نے آگ جلائی اور لکڑیوں میں پھونک پھونک کر اسے بھڑکانے لگے۔ آگ جلی تو انھوں نے ہنڈیا چڑھادی۔ دھواں عمرؓ کی داڑھی کے درمیان سے گزر گزر کر اڑ رہا تھا۔ آدمی بیٹھا انہیں حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اس دوران میں اندر سے ام کلثومؓ کی آواز آئی۔‘‘ امیر المومنین! اپنے ساتھی کو بیٹے کی خوش خبری سنائیے۔‘‘

آدمی نے ’’امیر المومنین‘‘ کا لفظ سنا تو چونک اٹھا۔ اس نے گھبرا کر پوچھا: ’’آپ خلیفہ عمر بن خطاب ہیں؟‘‘

’’ہاں!‘‘ عمرؓ نے اثبات میں جواب دیا۔

وہ آدمی پریشان اور مرعوب ہوکر ذرا پرے ہٹنے لگا۔

آپ نے کہا: ’’اپنی جگہ بیٹھے رہو۔‘‘

پھر عمرؓ نے آگ پر سے ہنڈیا اٹھائی، اسے خیمے کے قریب لائے اور ام کلثومؓ کو آواز دی۔‘‘

’’بہن کو کھانا کھلادو۔‘‘

زچہّ نے تھوڑا بہت کھانا کھایا۔ باقی کھانا واپس باہر بھیج دیا گیا۔ عمرؓ اٹھے، کھانا لیا اور اس آدمی کے آگے رکھ کر کہا:

’’کھاؤ، تم بہت دیر سے جاگ رہے ہو۔‘‘

انھوں نے اپنی بیوی کو آواز دی۔ وہ باہر آگئیں۔

جاتے جاتے عمرؓ نے آدمی سے کہا: ’’صبح ہمارے پاس آنا۔ ہم تمہارے کھانے پینے اور رہائش وغیرہ کا بندوبست کریں گے۔‘‘

علی بن حسینؓ رات کو روٹیوں کا بورا کمر پر لادے گھر سے نکلتے اور روٹیوں کا صدقہ کرتے۔ کہا کرتے:

’’چھپا کر صدقہ کرنا رب کے غضب کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔‘‘

انھوں نے وفات پائی تو غسل دیتے ہوئے لوگوں کو اُن کی کمر پر سیاہ نشان نظر آئے۔

لوگوں نے کہا: ’’یہ مزدور کی کمر ہے۔ مگر ہم نہیں جانتے کہ انھوں نے کبھی مزدوری کی ہے۔‘‘

اُن کی وفات پر مدینہ کی بیواؤں اور یتیموں کے سو گھروں میں کھانا پہنچنا بند ہوگیا۔ علی بن حسینؒ روز رات کو ان گھروں میں کھانا تقسیم کیا کرتے تھے۔ گھر والے نہیں جانتے تھے کہ کھانا کون لاتا ہے۔ ان کی وفات پر سب کو معلوم ہوا کہ وہی ان سب گھروں میں کھانا دے کر آیا کرتے تھے۔ قرآن میں ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے:

’’بلاشبہ متقین کے لیے بڑی کامیابی ہے۔ باغات اور انگور۔ اور نوجوان ہم عمر عورتیں۔ اور چھلکتے جام۔ وہ ان (باغات) میں کوئی لغویت اور کذب بیانی نہ سنیں گے۔ تیرے رب کی جزا، کافی عطا ہے۔‘‘

اس لیے آپ خالق کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کریں، مخلوق کے دلوں میں آپ کی محبت کا بیج وہ خود بودے گا۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں