اسپین مسلمانوں کے عظیم ماضی کا امین ہے۔ اپنے دور حکومت میں مسلمانوں نے وہاں کے چپے چپے پر اپنی عظمت اور سطوت کے جھنڈے گاڑے،وہاں کی تہذیب کو بامِ عروج تک پہنچایا، علوم و فنون کو جلا بخشی اور فنونِ لطیفہ کی سرپرستی کی۔ غرض ہر شعبۂ حیات میں وہ وہ کمالات دکھائے کہ آج تک دیکھنے اور سننے والے ان کی عظمت کے سامنے سرنگوں ہوجاتے ہیں۔
اس دور میں فن تعمیر بادشاہوں اور حکمرانوں کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ خاص طور پر مسلمان بادشاہوں نے اپنے ذوقِ جمالیات کی تشکیل کے لیے تعمیرات میں ہمیشہ دلچسپی لی۔ اسپین کے مسلمان حکمراں بھی تعمیرات کے اسی طرح شائق و شیدا تھے۔ وہاں انھوں نے مسجد قرطبہ جیسی عظیم الشان اور حسین ترین مسجد بنوائی۔ الحمرا جیسے خوب صورت، پُر اسرار اور رومانی محلات تعمیر کرائے۔ الزہرا جیسا دلکش اور بیش قیمت شہر بسایا۔ ان عظیم الشان عمارتوں کے اب یا تو نوحہ کناں ڈھانچے رہ گئے ہیں یا کتابوں میں تذکرے۔ الزہرا بھی ان ہی یادگاروں میں سے ایک ہے، جس کا ذکر جمیل بھی ہے اور دل دوز بھی۔ آئیے آج الزہرا کی سیر کریں۔
الزہرا کو مدینۃ الزہرا بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا مگر بڑا ہی حسین اور خوبصورت شہر خلفائے قرطبہ نے اپنے اور اپنے امرا کے لیے بنوایا تھا۔ اس کی تعمیر سب سے پہلے خلیفہ عبدالرحمن الناصر کی زندگی میں شروع ہوئی۔ ۹۳۶ ء میں شہر قرطبہ سے تین چار میل کے فاصلے پر ایک وسیع میدان میں مدینۃ الزہرا کی تعمیر شروع ہوئی اور خلیفہ کی زندگی میں پچیس برس تک جاری رہی۔ اس عرصے میں خلیفہ کا محل جامع مسجد، اور امرا کے لیے محلات اور باغات تیار ہوگئے۔ الناصر کی وفات کے بعد خلیفہ الحکم ثانی کے عہدِ حکومت میں بھی اس کی تعمیر پندرہ سال تک ہوتی رہی اور اس طرح گویا چالیں سال میں اس شہر کی تعمیر مکمل ہوئی۔
تعمیر کا سبب:
مدینۃ الزہرا کی تعمیر کے بارے میں ایک روایت مشہور ہے، جو خاصی دلچسپ ہے۔ کہتے ہیں خلیفہ الناصر کی ایک حسین و جمیل کنیز بہت سی دولت چھوڑ کر فوت ہوگئی۔ اس کا وارث چوں کہ کوئی نہ تھا، اس لیے خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کے مال سے ایسے مسلمان قیدیوں کی رہائی کے لیے فدیہ ادا کیا جائے جو عیسائیوں کی قید میں ہوں۔ حکم ملتے ہی آس پاس کی عیسائی حکومتوں میں ایسے قیدیوں کی تلاش کی گئی، مگر کوئی مسلمان قیدی نہ ملا۔ اس پر خلیفہ کی ایک ملکہ نے جس سے خلیفہ کو بے حد محبت تھی، عرض کیا کہ اس روپئے سے ایک خوبصورت شہر تعمیر کیا جائے اور اسے میرے نام سے منسوب کردیا جائے۔ خلیفہ کو یہ تجویز پسند آئی۔ چنانچہ ملکہ زہرا کے نام پر مدینۃ الزہرا کی تعمیر شروع ہوگئی۔
مدینۃ الزہرا یوں تو سارے کا سارا ہی بڑا بے مثال اور بے نظیر تھا۔ مگر حسن و دلکشی کے لحاظ سے خلیفہ کا محل سب سے بڑھ کر تھا۔ یہ محل بڑا وسیع اور پُر تکلف تھا۔ موّرخوں نے اس کے دو حصوں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے: مجلسِ مونس اور قصرُ الخلفا۔
مجلسِ مونُس:
مجلسِ مونس شاہی محل کا مشرقی ایوان تھا۔ اس ایوان کی خواب گاہ کے قریب سبز رنگ کے سنگِ مرمر کا مشہورِ زمانہ حوض نصب کیا گیا تھا، جسے ایک شخص احمد الیونانی شام سے اندلس میں لایا تھا۔ ایک دوسرا حوض بھی، جو شاہ قسطنطنیہ نے خلیفہ کو بہ طور تحفہ ارسال کیاتھا، یہیں تھا۔ یہ حوض برنجی تھا اور اس پر ہر طرف سونا چڑھا ہوا تھا اور اس پر نقاشی کی ہوئی تھی۔ اس حوض کو جب نصب کیا گیا تو قرطبہ کے کاریگروں نے اس میں اور بھی تکلفات پیدا کردئیے۔ اس کے چاروں طرف خالص سونے کے جانوروں کی مورتیاں نصب کی گئیں۔ ایک طرف ایک شیر تھا، جس کے ایک پہلو میں ہرن اور دوسرے میں نہنگ تھا۔ دوسری جانب، ان کے مقابل ایک ہاتھی، ایک اژدہا اور ایک عقاب تھا۔ باقی دونوں سمتوں میں کبوتر، شکرہ، مور، مرغ، چیل اور کرگس تھے۔ ان سونے کے جانوروں اور پرندوں میں جواہرات جڑے تھے۔ پانی کے پائپ ان کے ا ندر سے گزرتے تھے اور جب پانی چلتا تھا تو دھاریں ان کے منھ سے نکل کر حوض میں گرتی تھیں۔
قصر الخلفا
قصر الخلفا شاہی محل کے ایک اور ایوان کا نام تھا۔ یہ ایوان بھی بڑا پُر تکلف اور خوبصورت تھا۔ اس کی چھت اور دیواریں سونے اور شفاف سنگِ مرمر کی بنی ہوئی تھیں۔ چھت کے عین درمیان میں ایک بیش قیمت اور بہت بڑا جواہر لٹکا ہوا تھا۔ یہ قسطنطنیہ کے بادشاہ لیوؔ نے خلیفہ کو بہ طور تحفہ بھیجا تھا۔ چھت کی اوپر کی پوشش خالص سونے اور چاندی کی تھی۔
اس ایوان کی ہر سمت آٹھ آٹھ محرابوں والے در تھے، جن میں دروازے لگے ہوئے تھے۔ یہ محرابیں رنگین ستونوں پر کھڑی تھیں۔ ان کے کواڑ آبنوس اور ہاتھی دانت کے بنے ہوئے تھے، جن پر سونے اور چاندی کا کام کرکے ہیرے اور جواہرات جڑے گئے تھے، جس وقت دھوپ اس ایوان میں آتی تھی تو چھت اور دیواریں اس طرح چمکنے لگتی تھیں کہ دیکھنے والوں کی نظریں چندھیا جاتی تھیں۔ اس ایوان کے عین درمیان میں ایک عجیب اور حیرت انگیز حوض تھا، جس میں منوں پارا بھرا ہوا تھا۔ جب کبھی خلیفہ الناصر اس ایوان میں تشریف فرما ہوتے اور حاضرین کو حیرت زدہ کرنا چاہتے تو چپکے سے کسی غلام کو اشارہ کردیتے اور وہ حوض کے پارے کو ہلا دیتا۔ پارے کے ہلنے سے دھوپ کی وہ شعاعیں جو پارے سے منعکس ہوکر کمروں میں آتی تھیں، بجلی کی طرح کوندنے اور لپکنے لگتیں۔ حاضرین جب یہ نظارہ دیکھتے تو مارے خوف کے ان کی گگھی بندھ جاتی۔ وہ سمجھتے ، جیسے سارا ایوان گھوم رہا ہے۔ اس وہم کی بنا پر مشہور تھا کہ ایوان الخلفا اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس کا رخ ہمیشہ سورج کی طرف رہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ گردش کرتارہتا۔ خلیفہ کو اپنا یہ ایوان اس قدر عزیز تھا کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری انھوں نے اپنے بیٹے ولی عہد شہزادہ الحکم کو سونپ رکھی تھی۔
جامع مسجد
مدینۃ الزہرا کی جامع مسجد بھی اپنی خوبصورتی میں شاہی محل سے کم نہ تھی۔ یہ صرف اڑتالیس روز میں تیار ہوئی تھی، مگر اس عجلت کے باوجود بالکل بے عیب، بلکہ فن تعمیر کا شاندار نمونہ تھی۔ خلیفہ الناصر نے اس کی تعمیر پر ایک ہزار آدمی لگا رکھے تھے، جنھوں نے بڑی محنت سے تھوڑے سے عرصے میں اس کو مکمل کردیا۔ ان ایک ہزار کاریگروں میں ایک سو صرف معمار تھے اور دو سو بڑھئی، باقی دوسرے کاریگر تھے۔
مسجد کا ہر حصہ بڑی نفاست اور کمال ہنر سے تعمیر کیا گیا تھا، صحن میں گلابی رنگ کا پتھر لگایا گیا تھا۔ صحن کے درمیان میں ایک حوض اور فوارہ تھا۔ اس میں نمازیوں کے لیے صاف شفاف پانی ہر وقت جاری رہتا تھا۔ دیواروں پر بیش قیمت سامان سے نقاشی کی ہوئی تھی۔ مسجد کا منبر خلیفہ کے حکم سے ایک نئی طرز کا بنایا گیا۔ جب مسجد کی تعمیر مکمل ہوگئی تو اس میں جمعرات کے روز مغرب کی نماز خلیفہ الناصر کی معیت میں ادا کی گئی۔ اگلے روز جمعہ بھی یہیں پڑھایا گیا۔
ان عمارات کے علاوہ شہر میں اعلیٰ قسم کے حمام، باغ باغیچے، سیر گاہیں، مدرسے اور عبادت گاہیں تعمیر کی گئیں۔ امرا نے اپنے خرچ پر یہاں اچھے اچھے محل بنوائے۔ الناصر نے لوگوں کو اس شہر کی تعمیر کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اعلان کیا، جو شخص یہاں آکر آباد ہوگا، اسے خلیفہ کی جانب سے چار سو درہم انعام میں دئے جائیں گے۔ اس اعلان کے بعد جلد ہی شہر کی آبادی میں خاصا اضافہ ہوگیا۔
مدینۃ الزہرا کی تعمیر پر صرف خلیفہ الناصر کے عہدِ حکومت میں ہر روز یہاں دس ہزار مزدور اور کاریگر کام کرتے تھے۔ مال مسالہ لانے لے جانے کے لیے دو ہزار خچر اور چار سو اونٹ ہر روز مصروف رہتے تھے۔ مورخین کا بیان ہے کہ خلیفہ الناصر کے عہد میں پچیس سال تک ملک کی پوری آمدنی کا ایک تہائی حصہ اس شہر کی تعمیر پر صرف ہوتا رہا۔ شاہی محل کی تعمیر میں سونے چاندی، جواہرات اور بیش قیمت پتھروں کا بے بہا استعمال ہوا تھا۔ بعض ہمسایہ مملکتوں نے اپنے ہاں سے قیمتی پتھروں کی چیزیں، مثلاً ستون اور حوض وغیرہ تحفے کے طور پر خلیفہ کو بھیجے، جو تعمیر میں استعمال کئے گئے۔
شہر کی تعمیر سے پہلے کی ایک روایت تو آپ سن چکے ہیں اور اب تعمیر کے بعد کی بھی ایک روایت سن لیجیے۔ کہتے ہیں خلیفہ الناصر کے عہد کی تعمیر ختم ہوجانے کے بعد جب پہلی بار ملکہ زہرا، جن کی فرمائش پر یہ شہر بنا تھا، یہاں تشریف لائیں تو ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ شہر اور اس کے تکلفات کا تو جواب ہی نہیں تھا، دیکھ کر بہت خوش ہوئیں، مگر یکایک شہر سے باہر ایک سیاہ اور بدنما پہاڑ پر نظر پڑی تو بڑی بددل ہوئیں۔ مدینۃ الزہرا اس پہاڑ کے دامن میں بسایا گیا تھا۔ خلیفہ سے مخاطب ہوکر بولیں: ’’امیر المومنین! آپ کی یہ خوبصورت اور حسین و جمیل کنیز یوں تو بے مثال ہے، مگر ایک کالے کلوٹے حبشی کی گود میں بیٹھی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ یہ گویا مدینۃ الزہرا کے حسن اور پہاڑ کی بدصورتی پر پھبتی تھی۔
خلیفہ الناصر نے یہ سنتے ہی حکم دیا کہ اس بدنما پہاڑ کو اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ اب پہاڑ تو خیر کیا اکھاڑا جاتا، ہاں یہ کیا گیا کہ اس پر اچھے اچھے خوش نما اور پھول دار درخت لگادئے گئے۔ جس سے بدنمائی جاتی رہی اور وہ ایک دلہن کی طرح سج بن گیا۔ اسی روز سے پہاڑ کا نام جبلِ عروس مشہور ہوگیا۔
مدینۃ الزہرا کی بربادی
خلیفہ الحکم کے بعد ان کا بیٹا ہشام الموید تخت نشین ہوا، مگر اس کو ایک اور شہزادے محمد بن ہشام نے تخت سے اتار دیا اور خود مہدی کے لقب سے خلیفہ بن بیٹھا۔ مہدی کو اس کے خاندان کے ایک فرد سلیمان نے معزول کردیا اور خود المستعین کے لقب سے قرطبہ کا تخت و تاج سنبھال لیا۔ پھر امرا کا زور چلا اور انھوں نے المستعین کو بھی تخت سے اتار کر شہزادہ ہشام الموید کو، جو اس وقت قید میں تھے، دوبارہ خلیفہ بنادیا۔ ہشام الموید خلیفہ تو بن گئے، مگر ان کی شاید تقدیر ہی اچھی نہ تھی۔ سردارانِ بربراُن کے سخت دشمن تھے۔ چنانچہ خلافت ملے چار مہینے بھی نہ گزرے تھے کہ بربری فوجیں قرطبہ پر چڑھ دوڑیں۔ چھے ماہ تک شہر کا محاصرہ جاری رہا۔ اس کے بعد جانے کیا خیال آیا کہ مدینۃ الزہرا کی طرف پلٹیں اور اس پر حملہ کردیا۔ تیسرے روز کسی نمک حرام نے شہر کا دروازہ کھول دیا۔ بربری سپاہی اندر گھس گئے اور شہر کے باشندوں کا قتل عام شروع کردیا۔ شاہی محلات اور دوسری عمارات کو دل کھول کے لوٹا گیا۔ جب قتل عام اور لوٹ کھسوٹ ہوچکی تو شہر کو آگ لگادی اور مدینۃ الزہرا جس کے حسن و جمال کی شہرت چار دانگ عام میں تھی، راکھ اور مٹی کا ڈھیر بن کر رہ گیا۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ وہ شہر جس کی تعمیر پر چالیس برس لگے تھے، صرف پینتیس سال بہار دکھا کر برباد ہوگیا اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اپنوں کے ہاتھوں۔
کہتے ہیں خلفائے قرطبہ کے آخری دور کے ایک وزیر جب ان کھنڈرات کے قریب سے گزرے تو ان کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے اور انھوں نے یہ اشعار پڑھے جن کا ترجمہ ہے: ’’جو لوگ آپس میں لڑبھڑ کر فنا ہوچکے ہیں، ایک دن میں نے ان کے ایوان سے پوچھا: تیرے رہنے والے کہاں گئے؟ وہ مجھ کو عزیز تھے۔ اس نے جواب دیا کہ تھوڑے دنوں تک وہ یہاں رہے، پھر چلے گئے، مجھے معلوم نہیں اب وہ کہاں گئے؟‘‘