امت مسلمہ پر آج کڑا وقت ہے۔ استعماری طاقتیں اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کے درپے ہیں۔ منگولوں کی طرح مسلم امت پر ایسا آگ و خون برس رہا ہے کہ تاتاری مظالم ہیچ نظر آتے ہیں۔ فرقوں میں بٹ کر ہم خود ہی امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرچکے ہیں۔ فرقہ بندی،مسلک پرستی اور گروہی عصبیت نے ہمارے دین کو جو اتحاد واتفاق کا ذریعہ ہے، انتشار کا سبب بنا دیا ہے۔ اور اس فرقہ وارانہ منافرت نے ایک دن میں جنم نہیں لیا۔
اس کے پیچھے دشمنوں کی صدیوں کی منصوبہ بندی، سازشیں اور ہماری جہالت و بے دینی، ہماری طویل غفلت اور چشم پوشی کو دخل ہے۔ اور آج کیفیت یہ ہے کہ بے شمار مسائل اور چیلنجز کے باوجود ہم ایک اسٹیج پر بیٹھنے اور باہمی گفت و شنید کے ذریعہ کسی مشترکہ ایجنڈے کی تیاری کو بھی انجام نہیں دے سکتے۔ حد یہ ہے کہ مسجدیں جو اہل ایمان کا بلا تفریق مسکن اور معبد ہیں ہم نے انہیں بھی بانٹ دیا اور گروہوں کے لیے ایسا خاص کرلیا کہ دوسرے گروہ یا مسلک کے لوگوں کے لیے داخلہ تک بند ہوگیا اور افسوس یہ ہے کہ یہ سب دین کے نام پر ہو رہا ہے۔
فرقہ واریت کے کئی اسباب ہیں، جن میں بڑا سبب تکبر، عناد، ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔ دوسرے مکتب فکر کو غلط، کمزور ، کم تر اور ہیچ خیال کرنا ایسا طرزِ عمل ہے کہ جس کے زہر سے مسلمانوں کے معاشرتی تار و پود بکھر کر رہ جاتے ہیں۔ دین سے دوری اور جہالت و بے علمی نے ہمیں اور شدید بنا دیا ہے۔
مذہبی فرقہ واریت بے شمار نقصانات کا سبب بنتی ہے۔ اس سے باہمی منافرت پیدا ہوتی ہے۔ وہیں مذہبی، دینی، معاشی، سیاسی، معاشرتی اور فکری انتشار بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس فرقہ واریت کے ہاتھوں سیاسی نقصان تو اظہر من الشمس ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی طاقت اور وزن جاتا رہا اور دشمن طاقتیں اس انتشار کے سیاسی استعمال میں کامیاب ہوتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانفال کی آیت ۴۶ میں فرمایا تھا: ترجمہ:’’آپس میں نہ لڑو کہ تم ناکام ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔‘‘
فرقہ وارانہ خیالات کی بڑے پیمانے پر تشہیر سے فکری انتشار کا طوفان برپا ہوتا ہے۔ اس طرح قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات کی خلاف ورزی ہوتی ہے جب ہم فرقہ بندی اور گروہ بندی کا نظریہ عمل میں لاتے ہیں۔
فرقہ واریت کے سد بات کے لیے اربابِ علم و دانش اور معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ امت کے درمیان فروعات پر تعبیر اور تشریح کے حوالے سے اختلاف کو رحمت کے طور پر دیکھا گیا ہے لیکن جب فروعات پر اصرار کیا جائے اور دین کے اصولوں کی بجائے فروعات کی بنیاد پر حق و باطل کا تعین کیا جائے تو مسائل سر اٹھاتے ہیں اور فرقہ واریت جنم لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم نے دین کے فروعی مسائل کو عقیدے کا مسئلہ بنا دیا ہے اور اس کی بنیاد پر ہم دوسرے لوگوں کو جو توحید، رسالت اور آخرت میں ایمان رکھتے ہیں ہم کافر گرداننے پر لگے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا تھا:
’’اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور گروہوں میں نہ بٹو۔ اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔‘‘
باہمی اتحاد کے حصول اور گروہی عصبیت و فرقہ بندی کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دین کا مطالعہ کریں اور دین کو قرآن و حدیث سے سمجھیں۔ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتاتی ہے کہ اہل ایمان باہم دگر کیسے رہتے ہیں اور انہیں کیسے رہنا چاہیے۔ حبّ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا تقاضہ ہے کہ ہم آپ کی لائی ہوئی ہدایت اور آپ کی گزاری ہوئی زندگی کو اپنی زندگی بنائیں۔
اگر ہم نے رسول پاکؐ کی زندگی کا رنگ اختیار کرلیا تو ہمارے باہمی اختلاف، گروہ بندیاں اور نفرتیں ختم ہوجائیں گی، کیوں کہ رسولِ پاک اس کے خاتمہ کے لیے آئے تھے اور انہوں نے یہ کر دکھایا تھا۔ اس کے علاوہ درج ذیل باتوں پر توجہ دی جانی چاہیے:
٭ تمام مسالک اور اس کے اکابرین کا احترام کیا جائے گا کہ وہ بھی دین کا حصہ اور مسلم معاشرہ کا جز ہیں۔
٭ جلسوں، جلوسوں، مساجد اور عبادت گاہوں میں ایک دوسرے پر تنقیدوں اور نفرت آمیز اور اختلافات کو بڑھاوا دینے والی تقریروں سے پرہیز کیا جائے۔
٭ عوامی اجتماعات اور جمعہ کے خطبات میں ایسی تقاریر کی جائیں جن سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کیا جاسکے۔
٭ عوامی سطح پر ایسے اجتماعات منعقد کیے جائیں کہ جن میں تمام مکاتب فکر کے علماء شریک ہوکر خطاب کریں تاکہ عملی یک جہتی کا مظاہرہ کیا جاسکے۔
٭ ملکی و ملی مسائل کے حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل کے لیے تیاری کی جائے۔
٭ باہمی تنازعات کو افہام و تفہیم، تحمل اور رواداری کی بنیاد پر طے کیا جائے۔
اگر مذکورہ بالا ضابطہ اخلاق پر عمل ہوجائے تو بڑی حد تک فرقہ واریت اور باہمی اختلافات پر قابو پایا جاسکتا ہے امت مسلمہ کی زبوں حالی دور کی جاسکتی ہے اور اتحاد و اتفاق کی شمع روشن ہو سکتی ہے۔
آج ملک سے انتہا پسندی کے خاتمے، فرقہ واریت سے نجات، دینی اور ملی یگانگت کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کے اخوت، مساوات اور اتحاد و یگانگت کے پیغام کو عام کیا جائے۔ صبر و برداشت، عفو و درگزر اور رواداری کے حوالے سے سیرت طیبہ کی پیروی کی جائے کہ یہی در حقیقت فلاح کا راستہ اور نجات کی یقینی ضمانت ہے۔