مذہب اور عصر جدید کے تقاضے

سید آل احمد بلگرامی

دنیا کا کوئی بھی مذہب جو عہد جدید میں لوگوں میں اپنا نفوذ چاہتا ہے، اس کے لیے لازم ہے کہ انسانوں کے لیے زندگی کے ہر شعبے میں رہ نمائی فراہم کرے اور ایک ایسا رویہ لوگوں کو پیش کرے، جسے اپنا کر وہ دن بدن پیچیدہ ہوتی ہوئی زندگی کے مسائل اس رویے کی مہیا کردہ روشنی میں حل کرسکیں۔ ایک ایسا مذہب جو آج کے انسان کے مسائل حل کرنے میں اس کی رہ نمائی کا فریضہ ادا نہیں کرتا، اسے کوئی حق نہیں کہ وہ لوگوں سے اپنی ایجابیت کا تقاضا کرے۔ دور جدید میں کسی بھی مذہب کے لیے قابل قبول ہونے کا کڑا معیار ان چیلنجز کو قبول کرنا اور ان کا حل پیش کرنا ہے جو آج کے دور کو در پیش ہیں۔ عہد حاضر کے تقاضوں اور انسانی فکر ی روش کو مجملاً اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:

۱- آج کا انسان ہر سوال کا جواب منطق اور سائنس کے حوالے سے چاہتا ہے اور ہر اس چیز کا انکار کرتا ہے، جس کی بنیاد طبیعیات کے بجائے ما بعد الطبیعیات پر ہے۔

۲- آج کا انسان ایک ایسے رویے کا طالب ہے جو ان کی زندگیوں میں رچ بس سکے۔ آج کی فنی ترقی نے ایک طرف انسانوں کو بے شمار سہولتوں اور آسائشوں سے نوازا ہے او رانسان کو زندگی کو فردوس نما بنا دیا ہے تو دوسری طرف اس ترقی نے انسان کو معاشی، اخلاقی، جنسی اور ذہنی طور پر بے شمار صدمات اور مصیبتوں کے جہنم میں جھونک دیا ہے۔ انسان کو جوں جوں علاج کی سہولتیں حاصل ہوئیں، اسی قدر انسانی زندگی مختصر ہوتی گئی۔ جیسے جیسے طبی علوم ترقی کرتے گئے، ویسے ویسے بیماریوں میں اضافہ اور پیچیدگیاں پیدا ہوتی گئیں۔ جس قدر کھاد اور مصنوعی طریقوں سے خوراک کے ذخائر میں اضافہ ہوا، اسی قدر آج کا انسان افلاس، بھوک اور غربت کے جہنم میں جھلس رہا ہے۔ ان چند مسائل پر ہی کیا موقوف، آج کے انسان کی پوری زندگی ایک عجیب مخمصے میں گھر کر رہ گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایسا رویہ ہے جو آج کے انسان کو اس اذیت ناک اور درد ناک صورت حال سے نجات دلا سکے اور اسے ایک چلتی پھرتی مشین سے واپس جیتے جاگتے انسان میں تبدیل کرسکے۔

۳- آج کا انسان ایک ایسے رویے کا متلاشی ہے، جس میں تفکر کا پہلو موجود ہو، جو عقل و شعور کے تقاضوں کو نظر انداز نہ کرے اور جس کی فکر فروغ پذیر ہو، جو قابل فہم اصطلاحوں میں بات کرے اور جو منطق کے تقاضوں کو صرف نظر نہ کرے۔

۴- آج کا انسان ایک ایسے رویے کی تلاش میں ہے جو انسانوں کو نسلی، لسانی، علاقائی اور کسی بھی قسم کے تعصب پر مبنی حد بندیوں میں مقید کرنے کے بجائے عدل و مساوات اور برابری کے اصولوں پر عالم گیر سطح پر منظم کرے کہ باہمی منافرت اور جنگوں سے انسانیت کو نجات مل سکے۔

اسلام کے سوا دنیا کے دیگر مذاہب اپنی محدود فکر کے باعث عصر جدید کے تقاضوں کا ساتھ نہیں دے سکتے اور نہ ہی ان مذاہب نے تمام انسانی مسائل کو حل کرنے کا کبھی دعویٰ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ نے اپنی نئی تہذیب کی اُٹھان رکھتے ہوئے مذہب کو محض کلیسا تک محدود کر دیا، جہاں تک اشتراکیت کا تعلق ہے ، اس نے دور جدید کے ایک نئے فکری رویے کی حیثیت سے مذہبی خلا کو پر کرنے کی کوشش تو کی، مگر اس کے نتائج اتنے قبیح نکلے کہ اشتراکیت کی کشش اور طمع کاری ایک صدی بھی اپنی چمک دمک قائم نہ رکھ سکی۔ جدید عہد کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کوئی دین اگر زندہ رہ سکتا ہے تو وہ اسلام ہے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذہب کیا چند عبادات پر مشتمل انسانوں کا انفرادی مسئلہ ہے یا اس کا دائرہ کار اجتماعی انسانی زندگی پر بھی محیط ہے۔ اسلامی تعلیمات کی ہیئت پر اگر غور کیا جائے تو ہم اسے دو واضح حصوں میں منقسم پائیں گے، ایک حصہ اعتقادی ہے جو اپنے وجود کا انحصار ما بعد الطبیعیات پر رکھتا ہے اور دوسرا حصہ عملی، سماجی اور اخلاقی ہے۔

دین اسلام کے اعتقادی پہلو کی اساس قابل فہم ما بعد الطبیعیات پر ہے جو غیب پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے، ایسا غیب جو حواس کے ذریعے قابل محسوس نہیں، مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ قابل فہم بھی نہیں۔

اسلام کے نزدیک ایمان کا مطلب اندھا اعتقاد نہیں ہے۔ ایمان کا مطلب تعقل اور تفکر کے ذریعے صداقت کا بالقلب اقرار ہے۔ بسا اوقات ذہن صداقت کو قبول کرلیتا ہے مگر جب تک قلب اس کی تصدیق نہ کرے، اس وقت تک انسانی کردار میں تغیر رونما نہیں ہوتا۔ عقل کے ذریعے سمجھنا ایمان کی پہل سطح ہے، البتہ عقل، ادراک اور شعور کے بعد دل سے اس صداقت کی تصدیق ایمان کا جوہر ہے۔ اسلام جب ایمان کا تقاضا کرتا ہے تو وہ شعور و ادراک کی حقیقت سے بڑھ کر تصدیق بالقلب کا طالب ہوتا ہے، تاکہ افراد کے کردار میں تغیر رونما ہوسکے، توحید، معاد اور رسالت وغیرہ کی تصدیق بالقلب سے ہی کردار سازی ہوتی ہے۔

جہاں تک اسلام کے عمرانی پہلو کا تعلق ہے۔ اسلام جس قسم کا نظریاتی سماج تخلیق کرنا چاہتا ہے، دور حاضر کے مروجہ نظام اس کی گرد راہ کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ دورِ جدید کے سائنسی افکار اور ابحاث فلسفہ ایسی محکم اقدار پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ عصر حاضر کے تنقیدی فلسفوں اور علوم طبعیہ میں اختصاص نے انسان کی جو حالت کر رکھی ہے، وہ بڑی ناگفتہ بہ ہے۔ اس کے فلسفۂ نظریات نے تو بے شک اسے یہ صلاحیت بخشی کہ قوائے فطرت کی تسخیر کرے، مگر مستقبل میں اس کے ایمان اور اعتقاد کی دولت چھین کر۔ (تشکیل جدید)

آج کی سائنس و فلسفہ نے انسان کو محض مظہر فطرت سمجھ کر اسی منہاج سے اس کے ساتھ سلوک کیا۔ جارج برگ لکھتا ہے: جب یہ معلوم ہوجائے کہ ڈائنامیٹ کیسے تیار کیا جاتا ہے اور اس کے خواص کیا ہیں تو یہ سوال رہ جاتا ہے کہ کیا ہم اسے ہوائی جہازوں سے گرائیں اور عبادت گاہیں اور شہر تباہ کردیں یا اسے پہاڑوں میں سڑکیں بنانے کے لیے استعمال کریں، ترقی یافتہ کیمیا اور طبعیات میں یقینا کوئی ایسی شق نہیں جو ان سوالوں کا جواب دے سکیـ۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کوئی بھی سائنس ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ اس سے حاصل شدہ علم کا کیا استعمال کیا جائے۔ سائنس تو ہمیں محض ایک موٹر اور ڈرائیور فراہم کرتی ہے، لیکن وہ بہ حیثیت سائنس کے یہ نہیں بتاتی کہ موٹر کو کہاں لے جائیں؟ (مقالاتِ فلسفہ)

سائنس کی مدد سے انسان کائنات کو مسخر کرنے کی کوشش کرتا ہے، اگر سائنس کی مدد سے خود انسان کو مسخر کرنے کی کوشش کی جائے تو سوائے انتشار کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ انسان کے مظہری وجود کو سائنس سے سمجھا جاسکتا ہے، مگر اس کے روحانی ثقافتی اور اخلاقی وجود کو سائنسی منہاج سے سمجھا نہیں جاسکتا۔

اسلام نے پوری دنیا میں انقلابی عمرانی رجحانات کی تخم ریزی کی ہے۔ اسلامی انقلاب نے نہ صرف مشرق بلکہ مغرب کو بھی عظیم الشان عمرانی اور تہذیبی انقلاب سے روشناس کرایا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ مغرب کے عظیم دماغوں نے آستانہ اسلام پر جبہ رسائی کرتے ہوئے اس کے احسانات اور اس کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ چناں چہ برنارڈشا نے یورپ کے مستقبل کو اسلام سے وابستہ کرتے ہوئے کہا: میں نے پیش گوئی کی تھی کہ مستقبل میں محمدﷺ کا دیا ہوا دین یورپ میں مقبول ہوکر رہے گا۔ در حقیقت یہ دین آج بھی یورپ کو پسند آنے لگا ہے۔ قرونِ وسطی میں عیسائی طبقے نے اپنی ناواقفیت یا گھناؤنے تعصب کی بنا پر اسلام کی تصویر کو زیادہ سے زیادہ خوف ناک بنا کر پیش کیا۔ در اصل وہ محمدﷺاور ان کے دین میں حد سے تجاوز کر رہے تھے، وہ انہیں حضرت مسیح علیہ السلام کا دشمن سمجھتے تھے۔ میرے نزدیک یہ فرض ہے کہ محمدﷺ کو انسانیت کا نجات دہندہ قرار دیا جائے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر ان جیسا شخص آج کی دنیا کی قیادت سنبھال لے تو وہ یقینا ساری مشکلات کے حل میں کامیاب ہوسکے گا اور دنیا کو امن و فلاح سے ہم کنار کرسکے گا۔ آج کی دنیا ان دونوں چیزوں کی کتنی محتاج ہے۔ (مقالات فلسفہ)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں