کس قدر خوش نصیب ہوتی ہے وہ بیوی جس کے دنیا سے گزر جانے پر اْس کے خاوند کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے رہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جو عورت عبادات پر کار بند رہی، کبائر سے بچتی رہی اور مرتے وقت اْس کا خاوند اْس سے خوش تھا تو میں اُسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘
مرد بڑے کٹھور قسم کے ہوتے ہیں اور پھر یوسف خان جیسا وجیہہ اور کڑیل شخص کہ جس کے چہرے پر میں نے ہمیشہ پٹھانوں والی ایک سختی اور مجسم غصہ دیکھا تھا،وہ اس عظیم خاتون کی موت پر بچوں کی طرح رو رہا تھا۔ نیویارک کے ایک سیکولر یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والی یہ خاتون یوسف خان کی دوسری بیوی تھی۔وہ کون سا ایسا جذبہ تھا، کس دین کی تعلیمات کا اثر تھا کہ نیویارک کی پْرآسائش زندگی چھوڑ کر یہ خاتون دو مرلے کے مکان میں اپنے خاوند کی دوسری بیوی کے ہمراہ ایسے رہی کہ پورے گھر کو نہ حقوق نسواں کے نعرے بلند کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی دونوں بیویوں کی اولادوں کو اجنبیت اور محبت میں کمی کا شکوہ۔ بچے پہلی والی بیوی کو امی اور اس خاتون کو آپا کہتے۔ بچے امی کی نگہداشت میں ہوتے اور یہ خاتون مغرب کے دلکش چہرے میں چھپی اخلاقی غلاظتیں اور سیکولر نظامِ زندگی کے کریہہ نتائج سے پوری دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے تصنیف و تالیف کا کام کرتی رہی۔ مریم جمیلہ، جس کا نام والدین نے مارگریٹ مارکیس رکھا تھا۔ 23مئی 1934ء کو نیویارک کے ایک ایسے یہودی گھرانے میں پیدا ہوئی، جو مذہب سے بیگانہ اور سیکولر طرز زندگی گزار رہا تھا۔ اس کی والدہ کے مطابق وہ ایک بہت ہی حساس اور مضطرب بچی تھی جو ہر وقت مختلف تہذیبوں کے بارے میں سوال کرتی اور اپنے مطالعے کو وسیع کرتی۔ اْس نے یہودیت، عیسائیت اور دیگر مذاہب کا مطالعہ تیرہ چودہ سال کی عمر میں ہی کر لیا تھا۔ جب 1953ء میں اْس نے روچسٹر یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو یہودی مذہب کے مطالعے کے دوران وہ صیہونی مظالم کی ناقد بنتی گئی۔ اسی دوران اْس نے یونیورسٹی میں پڑھائے جانے والے ایک کورس ’’یہودیت کے اسلام پر اثرات‘‘ میں داخلہ لیا جسے مشہور یہودی عالم، ابراہم کاٹش پڑھاتا تھا۔ حیرت ہے کہ یہی کورس مارگریٹ کو اسلام کے قریب لے آیا اور پھر اس نے مختلف اسلامی تنظیموں اور مراکز میں جانا شروع کیا۔ یہیں نو مسلم علامہ اسد کی کتاب ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ اس کے ہاتھ آئی۔ علامہ اسد آسٹریا کے معروف یہودی اسکالر تھے۔ وہ اسلام قبول کرنے کے بعد عرب دنیا میں آباد ہو گئے، لیکن علامہ اقبال کے کہنے پر ہندوستان آئے۔ قائداعظم نے انھیں اگست 1947ء میں آئین اور قانون کی تدوین کے لیے قائم ہونے والے ڈپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ نے مارگریٹ کی دنیا ہی بدل دی۔ اْس نے دنیا بھر میں مسلمان عالموں سے خط کتابت شروع کی۔ اسلام کے بارے میں تشنہ سوالوں کا جواب اْسے پاکستان کے عظیم اسکالر مولانا سید ابو اعلیٰ مودودیؒ سے ملا۔ یہ خط کتابت اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد شائع کی اور پھر مولانا مودودیؒ کے تعارف میں ایک کتاب (Who is Maudoodi) بھی لکھی۔ خط کتابت کے بعد وہ اپنا گھر، والدین اور مغربی تہذیب کا دل نیویارک چھوڑ کر لاہور آ گئی جہاں مولانا مودودیؒ کے سامنے اسلام قبول کیا جنھوں نے اس کا نام مریم جمیلہ رکھا۔
وہ کچھ عرصہ ان کے گھر پر ہی رہی۔ پھر مولاناؒ نے ایک انتہائی وجیہہ، دراز قد اور نور ایمانی سے مزین چہرے والے جالندھر کے مہاجر پٹھان یوسف خان سے اس کی شادی کر دی۔ یوسف خان کی شادی کے وقت پہلی بیوی شفیقہ موجود تھیں۔ 31 اکتوبر کو ان کے جنازے پر جب میں اْس 2 مرلے کے گھر میں یوسف خان کے ساتھ بیٹھا تھا تو روتے ہوئے اس غمزدہ پٹھان نے کہا کہ اس نے مرنے سے پہلے ایک وصیت کی کہ مجھے شفیقہ کے ساتھ دفن کرنا۔ محبتوں کا الاؤ، رشتوں کا یہ احترام اور اللہ کے حکم پر سر تسلیم خم کرنے کا یہ عالم صرف اسی کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے جس نے سیکولرازم کی مکروہ شکل کو دیکھ اور پرکھ کر اسلام کی حقانیت کو قبول کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ24مئی 1961ء کے دن اسلام قبول کرنے کے بعد وہ مکمل پردے میں رہیں، ایسا پردہ جس میں آنکھیں بھی نظر نہیں آتیں۔
میرے اوپر اس عظیم عورت کا بہت بڑااحسان ہے۔ اْس کی کتاب (western civilization condemned by itself) مجھے1972ء میں ملی۔ میری عمر15 سال ہو گی اور میں کارل مارکس، والٹیئر اور فرائڈ وغیرہ کو پڑھ کر دہریت کی طرف مائل تھا۔ مغرب کی چکاچوند ویسے ہی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ لیکن اس کتاب کے دونوں حصوں میں مریم جمیلہ نے یونان کے افلاطون، روم کی اخلاق باختہ تہذیب،میکیاولی کا اصولوں سے ماورا سیاسی نظریہ، والٹیئر کی سیکولرازم، فرائڈ کی جنسی نفسیات، سمین ڈی بوار کی حقوق نسواں کی تحریک، مالتھس کی برتھ کنٹرول، مارکس کی اشتراکیت، جیسے موضوعات پر اس قدر علم و عرفان سے تنقید کی ہے کہ آنکھیں حیران اور ذہن روشن ہونے لگتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان نظریات کے مقابلے میں اسلام کے اصولوں کی حقانیت کو دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ اس کتاب کے دونوں حصوں میں مغرب کے خاندانی نظام، جنسی بے راہ روی، عورت کو زینتِ بازار بنانا اور کاروبار سمجھنا، نسلی بنیاد پر تشدد اور قتل و غارت، جمہوریت کے نام پر کارپوریٹ اور سرمایہ دار کی آمریت، کمیونزم کے پردے میں مکروہ ظلم اور انسانی حقوق کے قتل جیسے اہم موضوعات پر قلم اٹھایا گیا۔
اس کتاب میں کوئی صفحہ ایسا نہیں ہے، جسے میں نے بار بار نہ پڑھا ہو اور جس کے علمی ذخیرے سے مجھے ہر دفعہ نئے موتی میسر نہ ہوئے ہوں۔ اگر میں اپنی زندگی میں چند کتابوں کا ذکر کروں جنھوں نے مجھے سیدھا راستہ دکھانے میں مدد کی اور میری دنیا بدلی تو یہ کتاب ان میں سے ایک ہے۔ مریم جمیلہ نے اپنی زندگی میں 30کتابیں تحریر کیں جن میں سے ایک بھی ایسی نہیں جس کا سحر آپ کو اپنی گرفت میں نہ لے لے۔ (Islam versus the west )۔ Modern man & Islam)) اور (western society & Islam)۔ یہ3کتابیں تو ایسی ہیں کہ آج کے نوجوان کے ذہن میں اٹھنے والے ہر سوال کا جواب لیے ہوئے ہیں۔
ہم کس قدر بد نصیب لوگ ہیں کہ مریم جمیلہ کی یہ تمام تصانیف نیویارک کی پبلک لائبریری میں موجود ہیں، بلکہ اس لائبریری نے مریم جمیلہ کے وہ تمام خطوط بھی محفوظ کر رکھے ہیں جو اس نے۷۲ سال کی عمر سے جب اُس نے اسلام قبول کیا، اپنے والدین کے انتقال تک لکھے۔ اس میں سب سے خوبصورت وہ ہے جو اْس نے اپنے والدین کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے لکھا جسے وہ ( Open Letter) کہتی ہے۔ مریم جمیلہ کی سوانح عمری لکھنے والی ڈیبرا بیکر لکھتی ہے کہ وہ ایک دن نیویارک کی لائبریری کے مخطوطات کی لسٹ دیکھ رہی تھی، تو عیسائی اور یہودی ناموں کے درمیان ایک مسلمان نام دیکھ کر حیران رہ گئی۔ مجھے حیرت تھی کہ ایک مسلمان عورت کے خطوط نیویارک میں کیا کر رہے ہیں اور پھر ان خطوط نے مجھے اس خاتون کے سحر میں گرفتار کر لیا۔
مریم جمیلہ کے خطوط نے ڈیبرا کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ 2007ء میں لاہور سنت نگر کے دو مرلے کے گھر میں جا پہنچی اور پھر ساڑھے تین سال کی محنت سے مریم جمیلہ کے خطوط اور اْس کے علمی کام پر ایک کتاب (A fabble of Islam & convent: The America) لے کر سامنے آئی۔ آج ہمارے کالجوں، یونیورسٹیوں، اسکولوں اور دیگر اداروں کی لائبریریاں مغرب میں لکھی ہر اسلام دشمن کتاب سے بھری پڑی ہیں۔ ہر فیشن زدہ کتابوں کی دکان پر یہ کتابیں میسر ہیں۔ لیکن اسلام کی اس مجاہدہ اور سیکولرازم، جمہوریت اور مغرب کے کریہہ چہرے سے نقاب اتارنے والی مریم جمیلہ کی کتابوں سے ان کا دامن خالی ہے۔