یکم مئی ۱۸۸۶ کو امریکی شہر شگاگو میں مزدوروں نے ڈیوٹی ٹائم آٹھ گھنٹے مقرر کیے جانے کی خاطر ہڑتال کر دی۔ہزار ہا مزدور ہے مارکیٹ نامی ایک جگہ اکٹھے ہوئے اور اپنا حق منوانے کے لیے تقاریر و نعرے بازی شروع کر دی۔ پولیس نے مجمع منتشر کرنے کیلیے لاٹھی چارج کیا۔ اس دوران کسی نے آتش گیر مادہ پھینک دیا جس سے ایک پولیس افسر مارا گیا۔ پولیس نے مشتعل ہوکر فائرنگ شروع کردی جس سے چھ مزدور ہلاک ہوگئے۔ دھماکے کا الزام لگا کر چار اہم مزدوروں کو پھانسی کی سزا دی گئی لیکن یہ تحریک ختم نہ ہوسکی۔ نصف صدی کی جدوجہد کے بعد ۱۹۸۳ میں حکومت امریکہ نے مزدوروں کا مطالبہ تسلیم کرلیا۔ اب یہ حق عالمی طور پر تسلیم شدہ ہے۔
نصف صدی تک جاری رہنے والی اس تحریک کے دوران مختلف مفکرین مزدوروں کی اہمیت، سرمایہ داری کی خامیوں، کم معاوصے، ملازمت کے عدم تحفظ اور مزدور کی زبوں حال معاشی زندگی پر بہت کچھ لکھا جن میں چارلس فورہابیو، ہابز، روسو، تھامس مور، کارل مارکس معروف نام ہیں۔ کارل مارکس کی کتاب، داس کیپٹل نے بہت شہرت پائی۔ اس میں مارکس نے قدر زائد (Surplus value) کا نظریہ پیش کیا، یعنی اصل لاگت اور مارکیٹ میں قیمت فروخت کے درمیان جو فرق ہے وہ مزدور کی خدمت کا نتیجہ ہے جو اسے ملنا چاہیے۔ کتاب کا اگلا حصہ یہ تھا کہ سرمایہ دار تمہیں تمہارا یہ حق نہیں دے گا۔ لہٰذا اپنا حق چھیننے کے لیے حکومتوں اور فیکٹریوں پر قبضہ کا سبق حاصل کرنا پڑے گا۔
سویت یونین میں یہ نظام نافذ کرنے کے لیے خفیہ ایجنسی، کے جی بی کا جال پورے ملک میں یوں پھیلایا گیا کہ خاوند بیوی سے ڈرتا تھا کہ وہ ایجنٹ نہ ہو اور بیوی اسی طرح خاوند سے ڈرتی تھی۔ نجی ملکیت کا تصور تو ختم ہوگیا۔ برسر اقتدار پارٹی نے کمیون بنا دیے کہ وہ فیکٹریوں، کھیتوں اور ذرائع پیداوار کی نگرانی کریں۔ قربانیاں دینے اور لاکھوں انسانوں کا خون بہانے کے بعد جو جنت مزدوروں کو ملی وہ یہ تھی کہ پہلے سرمایہ دار اس کا استحصال کرتا تھا، اب وہ کمیون کے پھندے کا شکار ہوگیا۔ مزدور کے شب و روز میں کوئی تبدیلی نہ آسکی۔ چناں چہ یہ نظام سویت یونین میں پچاس سال بھی نہ چل سکا اور اپنے ساتھ مملکت کے بھی ٹکڑے کر گیا۔ وجہ یہ ہے کہ نظام خامیوں سے پاک نہ تھا۔
دوسری طرف محنت کشوں کے رہ نما، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں آنکھ کھولی تو والد کے سائے سے محروم تھے۔ دس سال کی عمر میں ملائم ہاتھوں میں بکریاں چرانے والی لاٹھی تھام لی۔ مکے کے گرد و نواح کی سنگلاخ پہاڑیوں میں جون جولائی کی جھلسا دینے والی لو کے تھپیڑوں سے چاند جیسا چہرہ یقینا کمھلا جاتا ہوگا۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو لوگوں کا مال تجارت لے کر دور دراز کے تھکا دینے والے سفر کیے۔ اس دوران نہ معلوم کتنے دن بھوک میں گزرے ہوں گے۔ یہ غیر معمولی محنت کش جب نبوت کے منصب پر فائز ہو کے مدینہ منورہ کے حکمران بنے تو فاقہ زدہ لوگوں سے محبت کا یہ عالم ہے کہ بارگاہ الٰہی میں دعا فرمائی:
’’اے اللہ مجھے مسکین کی حالت میں زندہ رکھنا اور مسکینی کی حالت میں موت دینا اور قیامت کے دن مسکینوں کی صف میں کھڑا کرنا۔‘‘
اس زمانے میں غلامی کا دور دورہ تھا۔ محنت کشوں کے رہ نمااللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ لوگو! جہنم کی آگ سے بچنا چاہتے ہو تو غلام آزاد کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں غلامی کے خاتمے کا آغاز فرمایا اور مزدوروں سے متعلق قوانین بنا دیے۔ مثلاً حدیث ہے: ’’جو تم کھاتے ہو وہی اپنے غلاموں کو کھلاؤ۔ جو خود پہنتے ہو وہی اپنے خدمت گاروں کو پہناؤ۔‘‘ آج بھی لوگ محنت کشوں کو کوہاری اور کمین کہتے ہیں۔ مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’محنت کش اللہ تعالیٰ کا دوست ہے۔‘‘
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل کے حکمران، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیت المقدس میں اس طرح داخل ہوئے کہ غلام اونٹ پر سوار ہے اور آپ اونٹ کی مہار پکڑے ہوئے پیدل چل رہے تھے۔ دنیا بھر کے محنت کشو! پوری تاریخ انسانیت کھنگال لو، تمہارے حقوق کے لیے لڑنے اور تم کو دنیا میں باعزت مقام دینے والا رحمت للعالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا رہ نما تمہیں کہیں نظر نہیں آئے گا۔lll