بچوں کی ماں، کھیتوں میں کام کرنے والی مزدور اور کیمسٹری کے میدان کی ایک ریسرچ اسکالربھی جو اپنی پی۔ ایچ ڈی کے لیے اپنے گھر سے ۳۰ کلومیٹر دور بس سے کالج جایا کرتی تھی۔ یہ خاتون ہے آندھرا پردیش کی’’ساکے بھارتی‘‘ جو اس وقت سرخیوں میں ہے۔ اس کے سرخیوں میں ہونے کی وجہ اس کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق اور علم کے میدان میں آگے بڑھنے کی لگن اور اس کے لیے جدوجہد ہے جس نے آج اسے نہ صرف اپنے مقصد میں کامیاب کیا بلکہ اسے ملک کی کروڑوں خواتین کے لیے عزم و حوصلے اور جد وجہد کی علامت بنا دیا۔
آندھرا پردیش کے اننتھاپور ضلع کے ایک گاؤں کی رہنے والی’’ساکے بھارتھی‘‘ ایک معمولی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں،جس کے پاس نہ زمین ہے نہ کاروبار، بس کھیتوں مین مزدوری کرکے گزراوقات ہوتی تھی۔ بچپن ہی سے اپنی تعلیم کو لے کر ساکے نے کئی مشکلات کا سامنا کیا۔ ان مسائل میں غربت اور تعلیم تک رسائی کے محدود مواقع ہونے کے ساتھ ساتھ گھر کے بہن بھائیوں میں بڑا ہونے کی ذمہ داری کو نبھانا یعنی کمانے میں والدین کی مدد کرنا بھی شامل تھا جو بچپن سے لے کر شادی ہونے تک وہ کرتی رہی بلکہ شادی ہوجانے کے بعد ان ذمہ داریوں میں بچہ کی ذمہ داری کا مزید اضافہ ہوگیا اور اب وہ گھرداری کی ذمہ دار خاتون، ایک بچے کی ماں، گھر کے لیے کمانے والی فرد اور ایک طالب علم بھی ہوگئی۔ ان تمام ذمہ داریوں کے ساتھ اعلیٰ تعلیم جاری رکھنا اور پی۔ ایچ ڈی تکمیل تک لے جانا یقیناً ایسا کمال ہے جس نے ساکے کوتعلیم کے میدان میں ایک مثالی خاتون بنادیا اور اب ملک بھر کے اخبارات و رسائل میں اس خاتون کے چرچے ہیں۔
ساکے بھارتی نے بارہویں تک کی تعلیم اپنے آس پاس کے کئی سرکاری اسکولوں سے حاصل کی اور بارہویں کے بعد ہی اس کی شادی کردی گئی۔ شادی کے بعد بھی ساکے بھارتی نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی اعلیٰ تعلیم کو آگے بڑھایا، اگرچہ اس میں اس کو پہلے کے مقابلے زیادہ دشواریوں کا سامنا رہا۔ ساکے نے اپنی گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن اننتا پور کے کالجوں سے مکمل کرنے کے بعد اپنے ٹیچرس کی ہمت افزائی سے پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن کرایا۔ اس پورے تعلیمی سفر میں ساکے کے معمولات زندگی انتہائی مصروف رہے۔ وہ صبح سویرے نیند سے بیدار ہوتی،اپنے گھر کے کام کاج کو مکمل کرتی اور پھر کئی کلومیٹر پیدل چل کر اس جگہ جاتی جہاں سے بس اسے شہر پہنچاتی تھی۔
ساکے بھارتی نے ٹائمس آف انڈیا کے ساتھ بات چیت میں اس کے لیے اپنے شوہر شیو پرساد کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس کے جذبہ اور خواہش کو سمجھا اور تعلیم کے اس پورے سفر میں اس کا تعاون کیا۔ حقیقت یہ ہے کی ساکے نے اپنے لیے ایک بڑا ہدف طے کیا اور اس کو حاصل کرکے وہ ملک کی کروڑوں خواتین کے لیے عزم و حوصلے اور جہد و عمل کی مثال بن گئیں۔
ساکے بھارتی نے مزید بتایا کہ’’اس نے اس بات کا ادراک کر لیا تھا کہ تعلیم سماج میں مؤثر رول کے لیے بنیادی چیز ہے چنانچہ بےشمار مشکلات کے باوجود میں نے تہیہ کرلیا کہ مجھے اعلیٰ تعلیم جاری رکھنی ہے۔ میں نے اپنے تعلیمی اخراجات کے لیے مہینے میں کئی کئی دن مزدوری کی اور سرکار کی جانب سے ملنے والی اسکالر شپ نے بھی اس میں مدد کی۔‘‘
ساکے بھارتی کے شوہر شیو پرساد نے جو ایک ’’بھومی ہین‘‘ مزدور ہیں، اپنی بیوی کی اس کامیابی پر خوشی اور فخر کا اظہار کرتے ہوئی کہا کہ اسنے زندگی میں بڑا ہدف رکھا اور اسے حاصل کرکے رہی۔
ساکے بھارتی کی اس جدو جہد میں مسلم سماج ہی کے لیے نہیں، جو تعلیم کے میدان میں پسماندہ ہے، پورے ہندوستانی سماج اور حکومتوں کے لیے بھی بڑا سبق ہے۔
مسلم سماج کو سمجھنا چاہیے کہ تعلیم ترقی کی کنجی ہے اور اس میں آگے بڑھے بنا انفرادی اور اجتماعی ترقی مشکل ہے اور یہ کہ جو جتنا پیچھے ہے اسے عام لوگوں کے مقابلے اتنا ہی آگے اور تیز رفتاری سے جانا ہے۔
سماج کو یہ سمجھنا چاہیے کہ عورت کی تعلیم اور خاص طور پر اعلیٰ تعلیم مرد کی تعلیم سے کم اہم نہیں، بلکہ بعض پہلوؤں سے زیادہ اہم ہے۔ عورت کو اعلیٰ تعلیم مہیا کرکے ہم سماج کی آنے والی نسلوں کی تعلیم کو یقینی بناتے اور سماج کی عورت کی صلاحیتوں کو سماجی بہبود کے لیے استعمال کے لائق بنتے ہیں۔
حکومتوں کو چاہیے کہ وہ خواتین کی اعلیً تعلیم کے لیے خصوصی توجہ دے اور خاص طور پر معاشی اعتبار سے پسماندہ افراد اور علاقوں میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کے ادارے ترجیحی بنیادوں پر قائم کرے اور ساکے بھارتی جیسی حوصلہ مند مگر معاشی اعتبار سے کمزور خواتین کے لیے مالی وسائل فراہم کرے۔
ساکے بھارتی نے اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کرکے پورے ہندوستانی سماج اور یہاں کی خواتین کو یہ بتا دیا ہے کہ اگر عزم و عمل ایک ساتھ مل جائیں تو معذرتیں ختم ہو جاتی ہیں اور کامیابی ان کے قدموں میں آگرتی ہے۔