دربار سجا تھا، جیسے بادشاہوں کے دربار ہوتے ہیں۔ امیر وزیر جمع تھے۔ ماہی مراتب، نقیب، چوبدار سب ہی حاضر تھے۔ محل سرا میں ڈگ ڈگ پر آدمی تھے۔ پہرے دار، چوکیدار، نگران کار ہر ایک انتظامات میں مشغول تھا۔ دربارِ عام منعقد ہو رہا تھا اس لیے ہر کسی کو آنے کی اجازت تھی مگر یہ بھی نہیں کہ منہ اٹھائے جو جہاں چاہے چلا جائے۔ ہر ایک اپنے اپنے مرتبے کے مطابق قطار بنائے ایک طرف کھڑا رہتا تھا۔ حاجب، مصاحبین اور وزرا بادشاہ سے قریب تھے۔ لوگ باگ جو کچھ کہتے یہی لوگ بادشاہ تک ان کی بات پہنچاتے۔ لوگوں سے عرضیاں لے کر بادشاہ کو پیش کرتے۔ فیصلے صادر ہوتے تو اہل غرض کو بتا دیتے۔ اتنے میں ایک شخص دربار میں داخل ہوا۔ اونچا پورا بڑا دیدارو! ایسا کہ اسے دیکھ کر خواہ مخواہ رعب پڑتا۔ وہ دربار میں آیا تو سیدھا بڑھا چلا گیا اور تختِ شاہی تک جاکر رکا۔ دربار کے منتظمین ہر طرف پھیلے ہوئے تھے لیکن بادشاہ تک پہنچنے سے کوئی اُسے روک نہ سکا۔
تخت شاہی تک پہنچا تو وہ خاموش کھڑا ہوگیا۔ نہ آداب بجا لایا نہ مجرا کیا۔ یوں کھڑا ہوگیا جیسے وہ کڑی کمان کا تیر تھا۔ سب کی نظریں نووارد کی طرف اٹھی ہوئی تھیں دربار میں خموشی طاری ہوگئی۔ سب سننا چاہتے تھے یہ کیا کہتا ہے۔
بادشاہ نے خود ہی اس سے سوال کیا۔۔۔ کیا کام ہے؟
جواب ملا ۔۔۔۔۔ ٹھکانے کی تلاش ہے؟
پوچھا گیا۔۔۔۔۔ کیا مطلب ہے؟ جواب ملا ۔۔۔۔۔مطلب صاف ہے مجھے رہنے کے لیے جگہ چاہیے۔ پوچھا گیا۔۔۔۔ کہاں؟ بولا ۔۔۔۔۔ اسی مسافر خانے میں اور کہاں؟ سوال کیا گیا۔۔۔۔ کس مسافر خانے میں؟ جواب ملا ۔۔۔۔ اس مسافر خانے میں جہاں میں کھڑا ہوں، یعنی اس گھر میں جہاں میں اس وقت موجود ہوں۔
بادشاہ کو اس کی بات بری معلوم ہوئی چنانچہ اس نے ڈانٹ کر کہا۔۔۔۔۔ کیا بکتے ہو؟ یہ میرا گھر ہے، شاہی محل! مسافر خانہ نہیں!
جواب ملا۔۔۔۔ شاہی محل ہوا تو کیا ہوا؟ یہ بتاؤ کہ تم سے پہلے یہاں کون رہتا تھا؟۔۔۔۔۔ مدتوں سے شاہی خاندان یہاں رہتا چلا آیا تھا۔
چنانچہ بادشاہ نے اجنبی کے سوال کے جواب میں ارشاد کیا ۔۔۔۔۔ مجھ سے پہلے میرے والد معظم یہاں رہتے تھے۔ سوال ہوا ۔۔۔۔ ان سے پہلے؟ جواب ملا ۔۔۔۔۔ ان کے والد محترم! ان سے پہلے؟ جواب ملا۔۔۔۔ میرے خاندان کے اور بزرگ! نووارد نے بڑے اطمینان سے کہا ۔۔۔۔ جس جگہ اتنے آدمی آتے جاتے رہے ہوں وہ مسافر خانہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اس کی یہ بات سن کر بادشاہ خاموش ہوگیا۔ درباری سکتے میں آگئے۔ جو کہنا تھا کہہ کر وہ اللہ کا بندہ جدھر سے آیا تھا اُدھر کو نکل گیا۔ بادشاہ بہت سمجھ دار تھا ۔۔۔۔ اس نے سمجھ لیا کہ اللہ کی طرف سے تنبیہ ہوئی ہے۔ چنانچہ اسے یہ بات سمجھ میں آگئی کہ ۔۔۔۔ یہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے۔ چند روزہ زندگی عیش و عشرت، لوٹ کھسوٹ، جبر و تعدی میں گزری تو خدا کو کیا منہ دکھائے گا؟ بادشاہ اب تک دنیا ہی دنیا میں لگا رہا تھا اب جو خدا کا خیال آیا تو اس نے تخت و تاج چھوڑ دیا۔۔۔۔ یہ حضرت ابراہیم ادہم کا واقعہ ہے۔ وہ بہت بڑے عارف، بڑے اللہ والے تھے۔ ان کا مرتبہ بہت بڑا تھا۔ اس لیے انھوں نے بڑی قربانی دی!
ہمیں حکم ہے کہ ۔۔۔۔۔ مسلمانو! دنیا میں رہو اور دنیا کو برتو۔ یہاں قدم قدم پر جھوٹ ہے، ظلم ہے، تعصب ہے، کینہ سے چھینا جھپٹی ہے، آپا دھاپی ہے۔ ان سب کی زد میں رہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہو! ہمیں دنیا چھوڑ کر جنگل بسانے یا اندھے کنویں میں لٹک کر عبادت کرنے کا حکم نہیں۔ نہ ہمار ادین دنیا کے بغیر مکمل ہوتا ہے نہ دنیا بغیر دین کے مکمل ہوتی ہے۔ اس لیے مومن کی زندگی یک رخی نہیں ہوتی۔ یہ مناسب اور متوازن طریقے پر گزاری جائے گی۔ سامان سو برس کے ہوںگے لیکن ہر لحظہ موت کا تصور سامنے ہوگا۔ اگر ہمارے دل میں آخرت کا خیال نہ ہوگا تو ہمارا دل کبھی غنی نہ ہوگا۔ دنیا ہمیں کبھی حقیر دکھائی نہ دے گی اور ہم اس کی ہوش ربا جادوگری میں بندھ جائیں گے۔ جو دنیا کمانے نکلتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دنیا دیتا ہے پھر آخرت میں اس کا حصہ نہیں رکھتا۔ اس لیے ہمیں حکم ہے کہ ہم ضرور تسخیر کائنات کے لیے نکلیں لیکن اللہ کی خوش نودی کے لیے۔ اس دنیا میں ہمارا کچھ نہیں سب اللہ کا ہے۔ زندگی ایک مسلسل سفر ہے یہ سفر کسی وقت بھی ختم ہوسکتا ہے۔lll