اگر ہم گزشتہ چند صدیوں کو دیکھیں تو نظر یہ آئے گا کہ خواتین ہمیشہ ہی اور تقریبا تمام ہی معاشروں میں پسماندہ اور مظلوم رہی ہیں لیکن بیسویں صدی میں حالات بدلنے شروع ہوئے اور اب بھی مزید تبدیلی کے رخ پر جا رہے ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانے کی راہ ہموارکی جا رہی ہے۔ اس کے لئے قانون سازی بھی کی جا رہی ہے اور خواتین کی تحریکیں بھی کام کر رہی ہیں جس کے اثرات ترقی پذیر ممالک میں بھی دیکھے جارہے ہیں۔ صنفی عدم مساوات، مساوی تنخواہ اورکام کی جگہوں پرجنسی ہراسانی کے معاملات کو حل کرنے کے لئے اب حکومتیں اور کمپنیاں بھی تیزی سے ان کے مطابق پالیسیاں تشکیل دے رہی ہیں۔ ان پالیسیوں سے خواتین کے مزید افرادی قوت میں شامل ہونے اور مَردوں کی طرح مساوات کے پیمانے پر کارکردگی دکھانے میں مدد گار بننے کی توقع کی جارہی ہے۔
با وجود اس کے کہ خواتین گذشتہ وقتوں کے مقابلے آج زیادہ اہم اور بڑی ذمہ داریاں نبھانے میں کامیاب بھی ہیں اور نمایاں بھی، یہاں تک کہ وہ بعض ممالک میں سیاسی قیادت بھی کر رہی ہیں اور دیگر شعبوں میں وہ مَردوں کےبرابر یا ان سے بھی بہترکارکردگی دکھا رہی ہیں اور اس کے نتیجے میں مردوں کے برابر یا ان سے زیادہ تنخواہ بھی حاصل کر رہی ہیں، لیکن اس سے کیا ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ آج کی دنیا میں جنسی تفریق کا خاتمہ ہوگیا ہے اور ہر عورت کومرد کےبرابر مقام حاصل ہوگیا ہے یا اسے دنیا بھر میں یکساں مواقع حاصل ہو گئے ہیں، خواتین کے معاشرتی، سماجی اور صنفی وقار میں اضافہ ہوا ہے اور ان کی زندگی اور زیادہ محفوظ ہوگئی ہے؟َ
اس وقت دنیا بھر میں خواتین کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے، ان میں نسلی تفریق سے لے کرجنسی زیادتی جیسے مسائل شامل ہیں۔ ان مسائل میں مغرب کی مہذب دنیاں بھی شامل ہے۔ کئی سال قبل جب امریکہ میں سونامی سے تباہی مچی تو اس دوران دیکھنے میں آیا کہ وہاں پرسیاہ فام نسل کے لوگوں کے املاک کو لوٹ مار کا نشانہ بنایا گیا اور اس ضمن کی سب سے تکلیف دہ چیز، جو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی ، یہ تھی کہ ایک سفید فام امریکی نے اپنے گھر کے سامنے ایک بورڈ لگا رکھا تھا جس پر لکھاتھا ـ آئی ایم سلیپنگ ویتھ ان اگلی وومن،اے ڈاگ انڈ اے رائفل۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں میں خواتین کے خلاف نسلی تفریق کا کیا حال ہے۔
اس کے علاوہ جنسی جرائم کی اگر بات کی جائے تو پوری مغربی اور مشرقی دنیا کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کے خواتین کے خلاف جنسی جرائم اپھان پر ہیں۔ اس میں عام سماج بھی ہے اور وہ مقامات بھی ہیں جہاں خواتین کام کرتی ہیں۔ اس کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ یہ سب اس صورت میں ہو رہا ہے جب کہ ان چیزوں سے متعلق قوانین موجود ہیں۔ اس تناظر میں جب ہم ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک کو دیکھتے ہیں تو صورت حال زیادہ واضح نظر آتی ہے، جب کہ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں خواتین کے کچھ اور مسائل بھی ہیں۔ مثلا: انہیں تعلیم حاصل کرنے کے برابر مواقع نہیں ہیں۔ ابھی بھی تعلیم کے معاملے میں لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ وہ لڑکوں کی تعلیم کو ہی فوقیت دیتے ہیں اور لڑکیوں کی تعلیم کو یا تو محض رسمی سمجھتے ہیں یا اسے غیر ضروری تصور کرتے ہیں۔ دوسری طرف حکومتوں کی جانب سے بھی اس سلسلے میں سنجیدہ کوششیں کم ہی نظر آتی ہیں۔ نہ ان کے لئے خصوصی تعلیم گاہوں کا انتظام مطلوبہ سطح پر ہے اور اور نہ اس سلسلے میں عوامی بیداری کی ٹھوس کوششیں نظر آتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ مردوں کے برابر تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں اور اگر وہ اعلی تعلیم حاصل کر لیتی ہیں تو انہیں روزگار کے برابر اور مناسب حال مواقع نہیں ملتے۔ کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی کے واقعات بہت سے والدین کو عدم تحفظ کی فکر میں مبتلا رکھتے ہیں۔
موجودہ دور کی عورت کا ایک بہت بڑا مسئلہ معاشرتی عدم تحفظ ہے۔ اس عدم تحفظ میں، اگر ہندوستانی سماج کے تناظر میں دیکھیں تو،شادی کے بعد کی زندگی کے مسائل ہیں، جہیز کے لئے دلہن کو ستایا جانا یا ان کا قتل،پیدائش کے وقت لڑکے اور لڑکی میں تفریق وغیرہ، جنہیں ہندوستانی سماج خوب اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہے مگر اپنی بے حسی اور جہالت کے سبب ان سے چھٹکارا حاصل کرنا نہیں چاہتا جبکہ اگر ہم کٹھوعہ، (کشمیر) متھرا اور اناؤ کی مظلوم بیٹیوں کے سیاق میں دیکھیں تو ہندوستانی سماج کی عورت کے مسائل کی جہات کا بھی اندازہ ہوتا ہے اوربات زیادہ بہتر طور پر سمجھی جا سکتی ہے۔ اس پورے سلسلہ واقعات کو سامنے رکھا جائے تو ایک اور بات سامنے آتی ہے اور وہ ہے قانون کے تحفظ سے محرومی کا احساس، جو اس سے بھی بڑا اور سنگین مسئلہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی جہاں بہت سی کمزوریاں ہیں ،وہیں ان کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہاں قانون اپنا کام بلا تفریق کرتا ہے مگر پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں یہ خوبی کم ہی نظر آتی ہے، جو موجودہ دور کی عورت کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔
فیمینسٹ موومنٹ اب اپنی جدو جہد کےایک صدی پر محیط عرصہ کو مکمل کرنے والی ہے۔ اس کی کوششوں کے نتیجہ میں یقینا یوروپ کی خواتین کی زندگی کسی حد تک بہتر ہوئی ہے، اس دوران اس کی کامیابیوں میں عورت کو ووٹ کا حق دلانا اور مختلف النوع استحصالی حالات سے نکالنا شامل کیا جا سکتا ہے، مگر جس مساوات کا نعرہ بلند کیا گیا تھا وہ مساوات دنیا کے کسی ملک اور کسی خطہ میں، کیا نظر آتی ہے؟ کیا دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا ہے جہاں خواتین کو ان کی آبادی کے تناسب سے سیاسی، سماجی اور معاشی نمائندگی حاصل ہو؟ ظاہر ہے ایسا بالکل نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب سے اٹھ کر پوری دنیا کو متاثر کرنے والی اس موومنٹ کو بڑی آسانی کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام نے اچک لیا اور اب وہ ان کے ہاتھوں کی محض کٹھ پتلی بن کر رہ گئی ہے۔ عورت کو امپاور کرنے کے سیاسی نعرے نے اسٹیج کی زینت بننے والی خواتین کو کچھ دیا ہو تو دیا ہو، مگر عام سماج کی عورت کو بنیادی انسانی حقوق سے لے کر معاشی حقوق تک کوئی خاص چیز حاصل نہیں ہوپائی۔ اس تحریک کے نتیجہ میں سماج میں عورت بہ مقابلہ مرد کی ایک کیفیت ضرور پیدا ہوئی جس نے اپنی نوعیت کے کچھ الگ مسائل کو جنم دیا اور سماج میں جینڈروار کی صورت حال بن گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک ایسے سماج کا خواب دیکھنے کے حقدار ہیں جس میں مرد و عورت کے درمیان جنس کی بنیاد پر کوئی تفریق نہ ہو اور جس میں عورت اپنے تمام عزت و وقار کے ساتھ محفوظ بھی ہو؟ کم از کم فیمنسٹ موومنٹ کے اس دور میں تو یہ ممکن نظر نہیں آتا مگر کیا یہ واقعی نا ممکن ہے؟
اب سے چودہ صدیاں قبل جب لوگ عرب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت میں صف بستہ تھے اس وقت انہوں نے کہا تھا: ’’ایک دن آئے گا جب ایک بڑھیا صنعا سے حضرموت تک سونا اچھالتی ہوئی چلی جائے گی اور اس کو اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا۔‘‘ـ تاریخ نے وہ وقت دیکھا اور کئی صدی تک دیکھا۔ بالآخر وہ سوچ کمزور ہوتی گئی اور اور وہ نظام کمزور پڑتا گیا جس نے یہ کرشمہ کر دکھایا تھا اور اب صورت حال یہ ہے کہ اس نظام کے ماننے والے خود اس نظام زندگی سے دور ہوچکے ہیں جس نے سماج میں عورت کو یہ مقام عزت و توقیر دیا تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ اب ایک نئی تحریک نسواں کو برپا کرنے کی ضرورت ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل سے موجودہ دور کی عورت کو نکال سکے اور اسے حقیقی عزت و توقیر سے ہم کنار کرسکے۔
موجودہ دور میں بہت سی نامور خواتین اپنی زندگی اور کیریئر میں طاقتور اور قابل احترام مقام پر پہنچی ہیں اس سے یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ عورت اپنی صلاحیت، استطاعت، ذہانت اور محنت سے مَردوں ہی کی طرح سماج، معاشرے اور معیشت و سیاست میں اہم اور تعمیری کردار نبھا سکتی ہے، مگر ساتھ ہی یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ عام سماج کی خاتون کی راہ میں ابھی ایسے بے شمار روڑے ہیں جو اسے بھر پور سماجی رول ادا کرنے سے روکتے ہی نہیں ہیں، بلکہ اسے باوقار زندگی کزارنے سے بھی محروم رکھے ہوئے ہیں۔ عورت کے لئے باوقاراور عزت و تکریم پرمبنی زندگی کی ضمانت فراہم کرنا، اس کے لئے یکساں مواقع فراہم کرنا اور اس کے ہمہ جہت تحفظ کو یقینی بنانا سماج اور حکومت دونوں کی ذمہ داری ہے۔
شمشاد حسین فلاحی