اسلام دین فطرت ہے اور انسان کے دل اور دماغ کو متوجہ کرتا ہے تاکہ انسان غور و فکر کرے، سوچے اور پھر کسی نتیجے پر پہنچے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو چیز جتنی قیمتی ہوتی ہے، اسے سنبھالنے کی فکر اتنی ہی زیادہ کی جاتی ہے اور اس کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح دین اسلام میں ایک مسلمان عورت کا مقام ہے۔ خالق کائنات نے عورت کو صنف نازک بنایا وہ جتنی نازک ہے اتنی ہی قیمتی بھی ہے۔ اس کی دلیل ہمیں رسول اللہﷺ کے اسوۂ حسنہ سے ملتی ہے۔
ایک بار حضورﷺ نے دیکھا کہ ساربان (اونٹ چلانے والا) اونٹوں کو تیز دوڑا رہا تھا جب کہ اونٹوں پر خواتین سوار تھیں تو آپؐ فکر مند ہوئے، اسے اونٹ تیز دوڑانے سے منع کیا اور فرمایا کہ ’’یہ قواریر ہیں‘‘ (یعنی خواتین کو آبگینے کہا) اس خوب صورت مثال سے حضورﷺ نے خواتین کی حفاظت کی طرف متوجہ فرمایا۔ جب کہ قرآن نے عورت کو کھیتی کہہ کر کسان کی سی دیکھ بھال کی طرف توجہ دلائی ہے۔
رب العالمین نے مرد کو ’’قوام‘‘ (سربراہ) بنایا، اسے سرپرست اور نگہبان بنایا۔ مرد کو کمائی کر کے لانے اور گھر والوں پر اپنی کمائی خرچ کرنے کا ذمہ دار بنایا، اسے دماغی اور جسمانی طور پر مضبوط بنایا تاکہ وہ باہر کے معاملات سے بھی نپٹ سکے اور گھر کے معاملات اور انتظام کو بھی چلا سکے جب کہ عورت کو گھرانے اور خاندان کی پرورش، بچوں کی نگہ داشت اور دیگر امور ِ خانہ داری سونپے کیوں کہ وہ صلاحیت، محبت اور شفقت اسی کے پاس ہے۔
ذمہ داریوں اور کاموں کی تقسیم میں اعتدال اور توازن رکھا گیا ہے، انسان ہونے کی حیثیت سے مرد اور عورت برابر ہیں لیکن یکساں نہیں ہیں۔ ان کی جسمانی ساخت، دماغی صلاحیتیں اور دیگر اوصاف ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اسی بنا پر ان کا دائرۂ عمل بھی مختلف رکھا گیا ہے۔
اسلام اور شرفِ نسوانیت
حقوقِ نسواں کا دراصل محافظ صرف اسلام ہی ہے۔ اس نے عورت کو ماں، بیوی، بیٹی، بہن اور پھر معاشرے کی عام عورت، ہر لحاظ سے قابل احترام بنایا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔‘‘ (ابن ماجہ، مسند احمد)
ایک آدمی نے نبی اکرمﷺ سے دریافت کیا کہ اس دنیا میں کون میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق ہے، تو آپؐ نے جواب دیا: تمہاری ماں!
اس نے عرض کیا، اس کے بعد!
فرمایا: تمہاری ماں!
اس نے پھر عرض کیا، اس کے بعد!
ارشاد فرمایا: تمہاری ماں!
اس آدمی نے چوتھی بار پوچھا: اس کے بعد؟
آپؐ نے جواب دیا تمہارا باپ! (صحیح بخاری)
قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: ’’اور اللہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے پیدا کیے، تمہاری جنس سے جوڑے (بیویاں) تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے (یعنی میاں بیوی کے) درمیان محبت اور رحمت پیدا کی، بے شک اس میں غور کرنے والی قوم کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘ (الروم:۲۱)
اللہ کے رسولؐ نے بیوی کا مقام و مرتبہ بیان فرمایا کہ: ’’پوری دنیا متاع ہے اور بہترین متاع نیک عورت ہے۔‘‘ (مسلم)
حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے فرمایا: عورتوں کے بارے میں (اللہ سے) ڈرو۔
ایک اور موقع پر نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے حق میں بہترین ہے اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کے حق میں بہتر ہوں۔‘‘ (ترمذی)
ظہورِ اسلام سے قبل بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کر دیا جاتا تھا۔ ارشاد الٰہی ہے: ’’اور جب دفن کی گئی لڑکیسے پوچھا جائے گا کہ کس گناہ کی وجہ سے وہ قتل کی گئی۔‘‘ (التکویر:۸،۹)
’’جس شخص کے گھر لڑکی نے جنم لیا تو وہ اسے قتل نہ کرے اور اس کی پرورش لڑکوں کی طرح (یعنی اچھی طرح) کرے تو اللہ تعالیٰ یقینا ایسے شخص کو جنت میں داخل کرے گا۔‘‘ (ابوداؤد)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دو بیٹیوں کی بہترین پرورش اور تربیت کرنے والے (باپ) کو جنت کی بشارت دی ہے۔
اسلام نے عورت کو ہر حیثیت میں باعزت مقام اور بلند مرتبہ عطا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو وہ حقوق دے جو پہلے کسی بھی سماج میں حاصل نہ تھے۔
علم حاصل کرنے کا حق
اسلام نے والدین کو حکم دیا ہے کہ وہ بیٹیوں کو بھی تعلیم دلوائیں، جس میں اول ترجیح ’’دین کی سمجھ‘‘ دینا ہے۔ اگر لڑکی کو دین کا شعور نہیں تو پھر یہ اس کے شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی کو سکھائے۔
قرآن جو ہماری زندگی کی رہ نما کتاب ہے، اس کو سمجھے بغیر ہم اپنی زندگی کو درست طریقے سے نہیں گزار سکتے، نہ ہی حلال و حرام کا فرق جان سکتے ہیں اور نہ گناہوں کے عذاب سے بچ سکتے ہیں۔ اسی طرح سنت نبوی جو ہمیں حضورﷺ کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں کام کرنا سکھاتی ہے، ان کا علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔
حضورﷺ نے فرمایا: ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت فرض ہے۔‘‘
چناں چہ یہی وجہ ہے کہ جس دور میں دیگر اقوام میں خواتین کو تعلیم دینے کا رواج نہ تھا، اس وقت بھی مسلمان خواتین علم طب، علم سائنس، فقہ، قانون، ریاضی میں ماہر تھیں۔
مذہبی حقوق
اسلام میں مذہبی فضیلت مرد و عورت دونوں کے لیے ہے۔ قرآن پاک میں ہے:
ترجمہ:’’اور جو کوئی نیک عمل کرے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، ہو وہ صاحب ایمان، تو ایسے لوگ جنتی ہیں اور ان کی (ذرہ) برابر بھی حق تلفی نہ کی جائے گی۔‘‘ (النساء:۱۲۴)
سورۂ آل عمران میں فرمایا گیا: ’’بے شک میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا، وہ (عمل کرنے والا) مرد ہو یا عورت۔‘‘ (آل عمران:۱۹۵)
یعنی فضیلت کا معیار تقویٰ اور نیک اعمال ہیں، مرد ہو یا عورت، دونوں برابر اجر پائیں گے۔ البتہ عبادات میں خواتین کے مخصوص حالات کے مطابق تخفیف (سہولت) بھی رکھی گئی ہے۔
حیا اور حجاب کا حق
اسلام، نجی زندگی کا بھی رہ نما ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: ’’اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، جب تک گھر والوں کی رضا مندی نہ لے لو۔‘‘ (النور:۲۷)
یعنی گھروں کے پردے برقرار رکھنے کے لیے کسی کے گھر داخل ہونے سے قبل اجازت لینی ضروری ہے، چاہے اپنے بھائی کے ہی گھر جانا ہو۔ یہ نہیں ہے کہ ہر شخص دروازے سے بلا دھڑک اندر آن کھڑا ہوا۔
اسی طرح سورہ احزاب آیت نمبر ۵۳ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! نبی کے گھر میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک تمہیں اس کی اجازت نہ دی جائے۔ کھانا کھانے کے لیے نہ کھانے کی تیاری کا انتظار کرتے رہو۔ پھر جب تمہیں بلایا جائے تو داخل ہوجاؤ، پھر جب کھا چکو تو منتشر ہوجاؤ اور بیٹھے باتوں میں نہ لگے رہو۔ یہ بات نبیؐ کے لیے باعث اذیت تھی، مگر وہ تمہار الحاظ کرتے تھے اور اللہ تو حق کے اظہار میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا اور جب تم کو ازواجِ نبیؐ سے کوئی چیز مانگنی ہوتو پردے کی اوٹ سے مانگو، یہ طریقہ تمہارے دلوں کے لیے بھی زیادہ پاکیزہ ہے اور ان کے دلوں کے لیے بھی۔‘‘
اسی طرح خواتین اسلام کے لیے فرمایا گیا: ’’اے نبیؐ! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں۔ اس تدبیر سے توقع یہ ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی (کہ مسلمان عورتیں ہیں) اور انہیں ستایا نہ جائے گا۔‘‘ (الاحزاب:۵۹)
ترجمہ:’’اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ بیٹھی رہو اور زمانۂ جاہلیت کے سے بناؤ سنگھار نہ دکھاتی پھرو۔‘‘ (الاحزاب:۳۳)
ایک بار حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ، حضرت عائشہؓ کے پاس آئیں (وہ ان کی بہن تھیں) جب کہ ان کے کپڑے باریک تھے۔ رسول اللہﷺ نے ان کو دیکھا تو فوراً منہ پھیر لیا اور فرمایا: ’’اے اسماء! جب عورت بالغ ہوجائے تو پھر اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آنا چاہیے۔‘‘ یہ کہہ کر آپؐ نے چہرہ اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ کیا۔‘‘ (ابوداؤ)
مغرب کا پروپیگنڈہ
مغرب نے حقوقِ نسواں، جدیدیت، ماڈرن ازم اور آزادی کے پرفریب نعروں کے ذریعے سے اپنی عورتوں کو بازاروں اور دفتروں میں کھڑا کر کے در اصل ’’سستے مزدور‘‘ تلاش کیے ہیں۔ کیوں کہ عورت کی تنخوای، کم تجربے کی بنا پر مرد سے ہمیشہ کم رکھی جاتی ہے۔ وہاں عورت جو تنخواہ حاصل کرتی ہے وہ مردوں جیسا پرمشقت کام کر کے بھی اس سے کم رہتی ہے۔ جب کہ اس کی اپنی حیثیت بطور عورت شدید متاثر ہوتی ہے۔ بطور ماں جو مشقت برداشت کرنا ہوتی ہے، وہ اس اکیلی کا ہی دردِ سر ہے۔ ان دوہری ذمہ داریوں نے اسے چکی کے دو پاٹوں میں پیس کر رکھ دیا ہے جب کہ وہاں شوہر یا (بوائے فرینڈ) کسی وقت اسے چھوڑ سکتا ہے۔ مغربی معاشرے میں طلاقوں، نفسیاتی امراض اور خود کشیوں کی تعداد اسی لیے حد پار کر گئی ہے۔ آج وہاں اخلاقی و معاشرتی قدریں زوال پذیر ہوچکی ہیں۔
ایک نومسلمہ نے اپنی کیفیت کا اظہار اِن الفاظ میں کیا: ’’میں نے مغربی لباس اور مغربی اطوار پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالی تو احساس ہوا کہ اپنی تمام تر ذاتی آزادی سے لطف اندوز ہونے کے باوجود ہم خوش نہیں۔ ہم سب اداس اور زخمی روحیں ہیں، جنہیں ذرائع ابلاغ نے بے وقوف بنا کر، ڈالر دیوتا کی پوجا کرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ جو عورتیں ٹپ ٹاپ کے سانچے میں فٹ نہیں بیٹھتیں، کیوں کہ وہ بہت خوبصورت اور پرکشش نہیں۔ موٹی یا بہت پتلی ہوتی ہیں تو وہ زندگی کے عذاب سے دو چار ہوکر مریض بن جاتی ہیں۔‘‘ (خدیجہ عبد اللہ، از تحفہ نسواں) اسی وجہ سے یورپ میں عورتیں جوق در جوق اسلام قبول کر رہی ہیں۔
اسلام دین رحمت ہے۔ یہ وراثت میں خواتین کو حصہ دلاتا ہے، انہیں اپنی رائے دینے، اپنی جائداد کو اپنی ملکیت میں رکھنے کا حق دیتا ہے۔
اس وقت عالمی سطح پر اقوامِ متحدہ کے مختلف اداروں ار این جی اوز کے ذریعے ’’خواتین کی طاقت‘‘ کا نظریہ پوری دنیا میں پھیلایا اور منوایا جا رہا ہے، جس کے تحت خواتین کو تمام اداروں میں نصف نمایندگی دینا، مرد و عورت کا شانہ بشانہ کام کرنا، جنسی تعلقات کی ناجائز آزادی، بہبود آبادی کے نام پر نسل کشی، اسقاطِ حمل کو قانونی جواز بنا کر باقاعدہ حکومتوں سے معاہدہ کر کے زبردستی نافذ کروایا جا رہا ہے۔ یہ صریح دھوکا اور فریب ہے۔ یہ خواتین کو طاقت دینے کا نہیں بلکہ اس کا استحصال کرنے کا ایجنڈا ہے۔ یہ شمع حرم کو، چراغِ محفل بنانے کی بات ہے۔
میڈیا نے اس پر رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ بے حیائی اور فحاشی پھیلنے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ آج مغرب میں خاندانی نظام تباہ و برباد ہوگیا ہے۔ معصوم بچے نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا ہیں، جنسی بے رازہ روی نے جسمانی بیماریوں کا دروازہ کھول دیا ہے۔ ماں اور باپ کے مقدس رشتے اپنا وجود کھو بیٹھے ہیں۔ ایسی آزادی اور حقوق نسواں سے ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔