مارچ کا پہلا ہفتہ عالمی یومِ خواتین منانے کے لیے خبروں میں رہا۔ خواتین کے بارے میں بہت سی خبریں اور مضامین آئے۔ اکثر یت ایسے مضامین کی تھی جن میں عورت کی مظلومیت اور ’’مردوں کے قانون‘‘ میں عورت کی غلامی کی درد بھری‘‘ داستان سناتے تھے۔ کچھ جنگوں میں اور کچھ ایڈس کی شکار خواتین کے غم میں آنسو گرائے گئے۔
اسی دوسران دنیا کی طاقت ور ترین خواتین کی رینکنگ کی خبر بھی آئی اور بتایا گیا کہ اس بار جرمنی کی چانسلر انجیلا مارکیل سب سے طاقت ور خاتون ہیں اور ان کے بعد کنڈولیزا رائس، چوتھے نمبر پرہندوستانی نزاد اندرا لوئی ہے جو پیپسی کی سی ای او بنادی گئی ہے۔ سونیا گاندھی تیرہویں، خالدہ ضیا ۳۳ویں، نائجیریا، ترکی، سعودی عربیہ، جارڈن، کویت اور دبئی کی بھی ایک یا اس سے زائد خواتین ہیں۔ یہ سبھی عورتیں یا تو سیاستداں ہیں یا پھر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سی ای او ہیں۔
ایک لسٹ اور بھی بنائی جاسکتی تھی لیکن اس کو بنانے میں اور اس کو معلوم کرنے میں نے تو پیسہ ملتا نہ خوشی۔ یعنی دنیا کی ۱۰۰ مایوس خواتین یا سو ایسی خواتین جو کبھی اس پاور فل لسٹ میں شامل ہوسکتی تھیں لیکن ان کا مایوس کن انجام دنیا نے دیکھ لیا۔ مثلاً مارلن منرو کو دنیا کی مایوس ترین خاتون کا درجہ دیا جاسکتا ہے جس نے ترقی کے انتہائی عروج پر، پہنچ کر خود کش کرلی۔اسی طرح اس لسٹ میں وہ اداکارہ بھی آسکتی ہے جو حالیہ دنوں میں خود کشی کرچکی ہے۔
اگر سونیا گاندھی کو یاد رکھنے کی کوئی وجہ ہے تو پھولن دیوی کو بھی یاد رکھنے کی کچھ وجہ ہے۔ لیکن اگر لسٹ مارکیٹ کی ضرورت کے لحاظ سے تیار کی جائے تو بالکل ایسی ہی بنے گی جیسے کہ فوربس میگزین نے جاری کی ہے جس میں سرمایہ، طاقت، حسن اور گلیمر سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
دراصل یہی وہ چار معیار ہیں جو تہذیب حاضر کی معراج ہیں اور دنیا کے ہر خاتون کو وہ وہیں لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ سرمایہ، طاقت، حسن اور گلیمر بھی بالکل اسی طرح ہیں جیسے ہندو سماج کے چار ’ورن‘ ان میں سب سے اچھا وہ ہے جو سرمایہ دار ہے۔ فوربس کی لسٹ میں اکثریت سرمایہ دار خواتین کی ہے۔ دوسرے نمبر پر طاقت ہے اور تیسرے اور چوتھے ورن میں وہ خواتین ہیں جن کو یہ بتایا گیا ہے کہ حسن ہی ان کا سرمایہ ہے یا گلیمر ہی ان کی طاقت ہے۔ اور ان کا کام ہے کہ دنیا میں حسن کے پرستاروں کی ذہنی وجسمانی تسکین کریں۔ دراصل یہی وہ پیشہ ہے جس کی خواتین میں دنیا کو مایوس ترین خواتین کی تعداد ملتی ہے۔ کیونکہ وہ سرمایہ اور طاقت کے اشاروں پر چلتے چلتے ایسے مقام پر پہنچ جاتی ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچتا۔
البتہ یہ بات افسوس کی ضرور ہے کہ مسلم دنیا میں خواتین کا رول ابھی بھی کمزور ہے۔ حجاب اور شریعت کی پابندی زمانہ نبوت سے زیادہ کہاں ہوگی۔ جہاں ایک خاتون پیغمبر اسلام کو روک کر سوال کرسکتی تھی۔ جہاں خلیفہ عمر ایک خاتون کے آگے جواب دہ ہوتے تھے۔ ام المومنین تعلیم و تدریس فرماتی تھیں۔ اختلاف رائے کرتی تھیں۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ مغرب کی ان نام نہاد طاقت ور خواتین کے برخلاف ہماری صفوں میں بھی نظریہ، کردار، سرگرمی اور خدا پرستی کی بنیاد پر سرگرم خواتین ہوتیں تاکہ عام مسلم خواتین کے لیے اپنے اصلی رول ماڈل سیٹ کرنے میں آسانی ہوتی۔ ملیشیا، کویت، فلسطین، اور مصر میں یہ شروعات ہوئی ہے۔ اسلام پسند خواتین آگے بڑھ رہی ہیں۔ اگرچہ ان کا سفر قدرے دشوار اور طویل ہے لیکن ان کا انجام مایوسی اور افسوس نہیں بلکہ ہرحال میں اللہ رب العزت کا انعام و اکرام ان کے ساتھ ہے۔lll