ہمارے ایک بزرگ ہیں مفتی نعیم صاحب۔ سنت نگر میں رہتے ہیں۔ ان کی بیٹی کی شادی تھی۔ میں بھی گیا۔ آپ تو جانتے ہیں ہمارے ہاں شادی بیاہ کے مروجہ رسوم میں کتنا وقت غارت ہوتا ہے۔ میرا بھی وقت ضائع ہوا۔ ننھے ننھے چونچلوں میں دیر ہوگئی۔ خوش پوشاک خواتین اور بچوں کا ہجوم، باراتیوں کی ہلچل، شہنائیوں کی گونج، پٹاخوں کا زور، مبارک سلامت کا شور لمحے لمحے ویڈیو فلم کی تیاری اور طرح طرح کے چونچلے آخر کار ایجاب و قبول کا مرحلہ طے ہوا۔ نکاح ہوگیا… کھانا شروع ہونے والا تھاکہ اچانک مفتی صاحب کے کمرے سے شور اٹھا۔ بھگدڑ مچ گئی۔ عورتیں، بچے، مرد بلائے اور بن بلائے مہمان سب بھاگنے لگے۔ میںایک کونے میں کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ صحن پھلانگ کر آگے بڑھا، مفتی صاحب کے کمرے میں پہنچا تو ہکا بکا رہ گیا۔ اور پھر طبیعت مکدر ہوگئی۔
مفتی صاحب اپنے داماد پر گرج رہے تھے : ’’لالچی، لچے، اٹھائی گیرے، نکل جا میرے گھر سے!! میں اپنی بیٹی! تجھ جیسے پیدائشی بھوکے اور ندیدے کے حوالے نہیں کرسکتا۔‘‘ … مفتی صاحب کا پارہ چڑھا ہوا تھا۔ داماد معافی مانگنے لگا تو وہ حملے کے لیے لپکے۔ بس پھر کیا تھا، سارے باراتی نکل بھاگے۔
میں نے مفتی صاحب سے پوچھا: شادی کے بیچ یہ کیسا دنگا مچ رہا ہے؟
کہنے لگے: میاں! عجیب لُچّے سے پالا پڑا… میں نے داماد اور اس کے سارے خاندان کو بڑھیا جوڑے سلواکر دیے۔ قیمتی گھڑیاں دیں، اصلی گھی کے موتی چور کے ٹوکرے بھیجے، بھر پور جہیز دیا۔ بس ایک ٹیلی ویژن کی کمی رہ گئی تھی۔ داماد بے حیا نکلا۔ جہیز کی ایک ایک چیز گنتا رہا۔ کہنے لگا ، ٹیلی ویژن کیوں نہیں دیا… وہ بھی دو… میں نے پیار سے کہا برخوردار! اس وقت تو انتظام نہیں ہے … دو دن توقف کرو۔ تمہیں ٹیلی ویژن بھی خرید دوں گا… وہ نالائق نہیں مانا … کہنے لگا ٹیلی ویژن آج اور ابھی …… اسی وقت … دو۔ یہ جو آپ کے گھر میں ٹیلی ویژن چل رہا ہے۔ یہی پکڑا دو۔ بس یہ سنتے ہی میری کھوپڑی گھوم گئی۔ اس حریص پر بڑا غصہ آیا۔ خیال گزرا کہ ابھی تو میری بیٹی رخصت بھی نہیں ہوئی۔ ابھی سے یہ چھچھورا کیسا منہ زور تقاضا کررہا ہے۔ بیٹی اس کے گھر چلی گئی تو نہ جانے کیا قیامت ڈھائے گا اور کیسے کیسے مطالبے کرے گا… سو میں نے دھتکار دیا۔‘‘
پھر افسردہ ہوکرخود ہی کہنے لگے: ’’ایسی افسوسناک باتیں ہمارے یہاں عام ہیں اور ہماری ذہنی پستی اور انحطاط کی نشانی ہیں۔ ہم نے اسلام کی راحت رساں ہدایات پس پشت ڈال دیں اور ہندوؤں کی مہمل، منحوس اور مہنگی رسمیں اختیار کرلیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ہر دوسرے تیسرے خاندان میں جوتا چل رہا ہے۔ اور خانگی زندگی کا سکون ماؤف ہوگیا ہے۔ ہم دین کی آسان اور راحت بخش تعلیمات پر توجہ نہیں دیتے۔ من مانی کرتے ہیں اور جب ان کے قدرتی نتائج سامنے آتے ہیں تو بھی اپنے اعمالنامے کا مسودہ نہیں پڑھتے، اپنی اصلاح نہیں کرتے۔ اور زندگی کا رونا رونے لگتے ہیں۔
اسلام نے شادی کے بارے میں بہت سادہ راحت بخش اور آسان تعلیمات دی ہیں۔ شادی ایک عبادت ہے۔ رسالت مآب ؐ کی سنت ہے۔ غنا کا وسیلہ ہے۔ دو عبادتیں حضرت آدمؑ کے زمانے سے جاری ہیں اور قیامت تک جاری رہیں گی۔ پہلی عبادت دل کو ہر آن نورِ ایمان سے منور رکھنا ہے اور دوسری عبادت نکاح!… مرد کے لیے عورت اور عورت کے لیے مرد کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں محبت کی برکتوں سے سرخرو اور ثابت قدم رکھنا چاہتا ہے۔ جس کا ایک اہم وسیلہ خوشگوار ازدواجی زندگی ہے۔ ازدواجی زندگی کے مقاصد نہایت عظیم الشان ہیں۔ شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے رفاقت کا رشتہ اسی لیے جوڑتے ہیں تاکہ ان کی زندگی میں محبت کا سورج چمکنے لگے۔ ازدواجی زندگی کی بنیاد ہی محبت پر ہے۔ خود غرض شخص صرف اپنی ہستی سامنے رکھتا ہے۔ مگر بے غرض اور کریمانہ محبت کرنے والا دوسرے کو مقدم رکھتا ہے۔ دل سوزی اور ایثار سے کام لیتا ہے۔ کریمانہ محبت کا تقاضا ہوتا ہے کہ دوسرے کی کمزوریوں پر حم کیا جائے، غلطیاں اور خطائیں بخش دی جائیں۔ اور دل پر غصے اور انتقام کی پرچھائیں بھی نہ پڑنے دی جائے۔ ازدواجی زندگی کے بارے میں قرآن کریم کی مقدس تعلیم یہی ہے۔ شادی کے صرف دو فرض ہیں:(۱)… فریقین کی رضا مندی (۲)… دو گواہوں کی شہادت … بس ان دونوں فرائض کی تکمیل سے نکاح ہوجاتا ہے۔ اسلام میں ایسا نکاح بابرکت قرار دیا گیا ہے جس کا مہر اور مصارف ہلکے ہوں۔ اور جس میں کم سے کم وقت لگے۔ صحابہ کرامؓ صرف اتنی دیر میں نکاح کرلیا کرتے تھے جتنی دیر میں دو رکعت نفل پڑھے جاتے ہیں۔
شادی کا افضل طریقہ یہ ہے کہ مسجد میں نکاح پڑھاجائے۔ دائیں بائیں سے مہمانوں کے ہجوم بلانے کی ضرورت نہیں۔ مسجد میں جو نمازی موجود ہوں ان کی شمولیت کافی ہے۔ مہر لڑکی کی خاندانی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ نہ بہت زیادہ نہ بہت کم۔۳ہجری میں غزوۂ احد کے فوراً بعد رسول خدا ﷺ نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ کی شادی کا انتظام فرمایا۔ ضرورت کی درج ذیل چیزیں حضرت علیؓ کی زرہ فروخت کراکے مہیا فرمائیں اور سادگی سے رخصتی کردی:
(۱) جائے نماز (۲) دو چادریں (۳) ایک چارپائی (۴) ایک مصری کپڑے کا بستر جس میں اون بھرا ہوا تھا۔ (۵) ایک چمڑے کا تکیہ جس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے (۶) دو نقرئی بازو بند جو حضرت خدیجہؓ کا ترکہ تھے اور حضرت فاطمہؓ کے حصے میں آئے (۷) ایک چکی (۸) ایک مشکیزہ (۹) دو مٹی کے گھڑے (۱۰) ایک پیالہ۔
مہر چار سو مثقال چاندی مقرر کیا گیا۔
یہ تھی خاتون جنت کی شادی!… مہندی نہ مائیوں، زیورات نہ جوڑے، نہ لمبا چوڑا جہیز نہ بری،نہ کوئی گونج نہ گیت، نہ ڈھولک نہ شہنائی اور نہ کوئی بارات۔ کوئی پرتکلف ضیافت نہیں ہوئی، کوئی پٹاخہ نہیں چھوٹا، کوئی آتش بازی نہیں چلی… یہ سارے روگ ہم نے خود پال لیے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج شادی وبال بن گئی ہے۔
یہ غلط فہمی عام ہوگئی ہے کہ جہیز دینا سنت ہے اور اس کے بغیر شادی نہیں ہوسکتی۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اگر جہیز دینا نکاح کی لازمی شرط ہوتی تو رسالت مآب ﷺ اپنی پہلی تین صاحبزادیوں کو بھی جہیز دیتے مگر ایسا نہیں ہوا۔ سیدہ زینبؒ کا نکاح حضرت ابوالعاصؓ سے ہوا اور سیدہ رقیہؓ اور سیدہ ام کلثومؓ یکے بعد دیگرے حضرت عثمانؓ کے نکاح میں آئیں۔ چونکہ یہ دونوں محترم داماد خود کفیل تھے اس لیے ان کی شادی پر کچھ نہیں دیا گیا۔ ان کے برعکس حضرت علیؓ خود کفیل نہیں تھے۔ وہ آنحضرت ﷺ ہی کے سایۂ عاطفت میں رہتے تھے۔ اس لیے جب ان کا نکاح سید فاطمہؓ سے ہوا تو آنحضرت ﷺ نے اس مقدس جوڑے کے لیے علیحدہ گھر کا اہتمام فرمایا جو ایک انصاری صحابی حضرت حارثہ بن نعمانؓ نے پیش کیا تھا چونکہ نئے گھر کے لیے اشیاء خانہ داری ناگزیر تھیں۔ اس لیے گھریلو سامان کی فراہمی عمل میں آئی… اس سادہ عمل کو آج کل کے مروجہ معنوں میں جہیز قرار دینا اور سنت ٹھہرانا نہایت افسوس ناک غلطی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آنحضرت ﷺ سے حضرت عائشہؓ کا نکاح کیا تو ایک پائی کا بھی جہیز نہیں دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ جہیز لینا دینا نہ سنت ہے، نہ لازمۂ نکاح! جہیز کا لین دین ہمارے اسلاف کا کبھی شعار نہیں رہا۔ جہیز، منگنی، مہندی، بارات، باجا اور تکلف بھرے کھانے، یہ سب وہ ملعون رسمیں ہیں جنھوں نے ہمارے معاشرے کو جہنم بنا رکھا ہے۔
ستم بالائے ستم شادی بیاہ کے نمائشی اخراجات اور لغو رسوم ادا کرنے کے لیے لوگ سود پر قرضہ بھی لے لیتے ہیں۔ اللہ کی پناہ! سود کا لین دین اللہ او ر اس کے رسولؐ سے جنگ ہے۔ جو شادی سود کے نجس پیسے سے کی جائے گی وہ کتنے منحوس اور کیسے نامسعود برگ و بار لائے گی۔ اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ فضول خرچی نہ کرو۔ سادگی سے شادی کرلو۔ سود کی لعنت گھر میں نہ گھسنے دو۔ تو جواب ملتا ہے کہ یہ کیونکر ممکن ہے؟ ہم نے ٹھاٹ باٹھ اور دھوم دھام سے شادی نہیں کی تو زمانہ کیا کہے گا؟ ہماری ناک کٹ جائے گی ، دنیا ہمیں دو کوڑی کا کہے گی…
ہمارا اصل مرض دین سے دوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہالت کی وبا دور تک پھیل ہوگئی ہے اور زندگی کا کوئی گوشہ محفوظ نہیں۔ یہ بالکل صاف اور نظر آنے والی حقیقت ہے کہ عزت، سنت رسولؐ سے وابستہ ہے اور رسوم و رواج، ذلت اور مصیبت کی خندق ہیں۔ ہم حضور رسالت مآبؐ سے محبت کا دم ہر آن بھرتے ہیں مگر یہ کیسی بدبختی ہے کہ ہمارا ہر عمل اور ہر تقریب رسالت مآبؐ کے مبارک طریقوں سے خالی ہے۔ ہم اللہ اور رسولؐ کے حیات آفرین احکام پر عمل نہیں کرتے مگر رسم و رواج پر جان دیتے ہیں اور رسموں ہی کی تکمیل کو ناک کا مسئلہ بنائے بیٹھے ہیں… میں آپ کو ایک بزرگ کی شادی کا قصہ سناتا ہوں۔ شاید یہ قصہ آپ کو عجوبۂ روزگارمعلوم ہوگا۔ مگر جو لوگ رسم پرست نہیں تھے ان کی شادیاں عام طور پر ایسی ہی بابرکت اور سبق آموز ہوتی تھیں۔
مولانا قاسم نانوتویؒ دارالعلوم دیوبند کے بانی ہیں۔ ان کی عظمت میں کیا شک۔ حضرت نانوتویؒ نے قرآن و سنت کے علوم حضرت شاہ ولی اللہؒ کے چھوٹے صاحبزادے شاہ عبدالغنیؒ کی خدمت میں رہ کر پڑھے۔ وہ کتابوں کی تصحیح کرتے تھے۔ دس روپے ماہانہ پاتے تھے۔ اسی میں خوش تھے۔ دولت و ثروت سے دور بھاگتے تھے۔ ادھر حضرت نانوتویؒ کا یہ حال تھا ادھر سسرال والے حضرت علیہ الرحمہ کی ضد تھے۔ بہت مالدار اور بڑی اراضی کے مالک تھے۔ وہ حضرت نانوتویؒ کے علم کی وسعتوں اور سیرت کی درخشندگی پر ریجھ گئے اور اپنی بیٹی کا نکاح حضرت نانوتویؒ سے کر دیا۔ رخصتی اس شان سے ہوئی کہ دلہن سر سے پاؤں تک سونے کے زیورات سے لدی ہوئی تھیں۔ وہ حضرت نانوتویؒ کے گھر آئیں تو شوہر نامدار نے پہلا مطالبہ یہ کیا کہ ’’سارا زیور مجھے دے دو!‘‘ … آج کل کی کوئی دلہن ہوتی تو خدا جانے کتنا ماتم کرتی مگر اس نئی نویلی دلہن کے قالب میں نہ جانے کیسی رابعہ صفت روح کام کررہی تھی کہ انھوں نے بلاتامل سارا زیور اتارا اور دے دیا۔ حضرت نانوتویؒ نے یہ زیور بیچ ڈالا اور جو رقم ملی وہ سب کی سب دارالعلوم دیوبند کے غریب طلبہ کی تعلیم و تربیت اور اقامت پر خرچ کردی۔ ان کی طلب اور تڑپ صرف یہ تھی کہ ملت ِا سلامیہ دینی تعلیمات کا زیو رپہن لے۔
شوہر کے ہاں کچھ دن رہ کر دلہن میکے گئیں تو میکے والے چونک پڑے۔ صاحبزادی سے کہا: ’’بیٹی! تم رخصت ہوئی تھیں تو زیور سے آراستہ ہوکر گئی تھیں۔ اب سسرال سے آئی ہو تو تمہارا بدن ہر زیور سے خالی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟زیور کہاں گیا؟‘‘
عرض کیا ’’شوہر گرامی پر نثار کردیا۔‘‘ … اللہ اللہ! کیا زمانہ تھا اور کیسے عالی ظرف لوگ تھے۔ داماد سے کچھ نہ کہا۔ بیٹی کو دوبارہ سونے سے لاد دیا۔ وہ واپس سسرال آگئیں۔ حضرت نانوتویؒ نے دلہن کو از سر نو زیور کے بوجھ سے لدا پایا تو جبین شکن آلود ہوگئی۔ نرم لہجے میں فرمایا: ’’عزیز دلہن! ہماری کٹیا میں رہنا ہے تو زیور سے ہاتھ اٹھالو۔ یہ پیلے پیلے ٹھیکرے اچھے نہیں لگتے۔ سونے چاندی کی محبت خوفناک روگ ہے۔ سونے چاندی کے انگاروں نے ایمان و یقین کے نشیمن پھونک دیے ہیں۔ دلوں کی بستیاں اجاڑ دی ہیں اور انسان کی روح کو جھلسا ڈالاہے۔ دل بڑی قیمتی چیز ہے۔ اسے خدائے مقدس کی جلوہ گاہ بناؤ۔ اسے سونے چاندی کی محبت سے آلودہ نہ ہونے دو۔ یادرکھو! عورت کا اصل زیور حیا ہے۔ دلہن نے خاموشی سے یہ ارشادات سنے اور ہمیشہ کے لیے سر اطاعت جھکا دیا۔
تبلیغی جماعت کے امیر حضرت مولانا محمد یوسفؒ فرمایا کرتے تھے شادی ضرور کرو مگر اس کے تین نقطے اڑا دو۔ یعنی شادی کو ’’سادی‘‘ بنالو۔ مسلمان کو اپنی جان، مال اور وقت صرف اللہ کے دین کی دعوت پر صرف کرنا چاہیے۔ اور شادی سمیت زندگی کی ساری ضرورتیں کفایت شعاری سے سادگی کے ساتھ پوری کرنی چاہئیں۔ مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور کا سالانہ جلسہ تھا۔ حضرت مولانا محمد الیاسؒ شرکت کے لیے تشریف لائے۔ اسی مدرسے میں ان کے صاحبزادے مولانا محمد یوسفؒ اور دوسرے عزیز مولانا انعام الحسنؒ پڑھتے تھے۔ دونوں کی نسبت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاؒ کی صاحبزادیوں سے طے پائی تھی۔ جلسے کی صدارت کے لیے حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ بھی تشریف لانے والے تھے۔ مولانا الیاس صاحبؒ نے شیخ الحدیث نے فرمایا ’’کل حضرت مدنیؒ آنے والے ہیں۔ چاہتا ہوں کہ یوسف اور انعام کا نکاح حضرت مدنیؒ پڑھادیں …کیا خیال ہے؟
شیخ الحدیث نے کہا ’’بڑے شوق سے‘‘۔ شیخ الحدیث نے اسی وقت اپنی اہلیہ کو پیغام بھجوایا کہ بچیوں کو تیار کردو۔ کل ان کی شادی کرنی ہے۔ عشاء کی نماز کے بعد وہ گھر پہنچے تو اہلیہ کو شاکی پایا۔ کہنے لگیں: ’’شادی کا ارادہ تھا توچند دن پہلے کہا ہوتامیں کم سے کم بچیوں کا ایک ایک جوڑا تو سی دیتی… حضرت شیخ نے فوراًفرمایا: ’’اچھا! میں تو سمجھتا تھا کہ بچیوں کے پاس پہننے کو کپڑے ہیں، اب آپ سے پتہ چلا کہ وہ بے لباس ہیں… اہلیہ محترمہ رسوم کے باغی اور فقر ودرویشی کے دلدادہ شوہر کا اشارہ پاگئیں اور خاموش ہوگئیں۔ اگلے دن معمول کے سادہ لباس میں بچیوں کی شادی ہوگئی۔ کوئی عروسی جوڑا نہیں سلوایا گیا۔ حضرت مدنیؒ نے سادہ مہر پر نکاح پڑھادیا۔
سادگی کی شان سے ہونے والی یہ مسنون شادی رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑی برادری اور دیگر لوگوں پر شاق گزری۔ انھوں نے حضرت شیخ الحدیثؒ کے مقام و منزلت کا بھی کوئی پاس و لحاظ نہیں کیا۔ طرح طرح کی باتیں بنانی شروع کردیں۔ حضرت شیخ نے ان لوگوں کے طنز و تشنیع کی داستان اپنی سوانح میں بیان فرمائی ہے۔ چند جملے ملاحظہ ہوں:
ایک آواز… ارے! باپ رے باپ!! یہ حلوے مانڈے والے مولوی بھی کتنے سیانے ہیں۔ دو خوبصورت لونڈے دیکھے تو آؤ دیکھا نہ تاؤ بیٹیوں سے شادی کرڈالی۔
دوسری آواز: ارے میاں! بمبئی کے سیٹھوں کے بچے آئے ہوئے تھے۔ مولوی صاحب کی رال ٹپک پڑی۔ جھٹ پٹ قابو کیا اور اپنی لڑکیاں بھگتادیں۔‘‘
ایک قریبی رشتہ دار نے حضرت شیخؓ کے روبرو کہا: زکریاؒ: تم نے ہماری ناک کٹوادی۔ بھلا شادیاں اس طرح ہوتی ہیں؟ شیخؒ نے فرمایا : اپنی ناک کا خیال فرمائیے اور چھوکر دیکھ لیجیے کہ میری ناک نہیں کٹی۔ الحمدللہ اپنی جگہ پر قائم ہے۔ مزید فرمایا کہ سنت انسان کو گراں مایہ بنادیتی ہے۔ حضرت عائشہؓ کے پاس ایک عروسی جوڑا تھا۔ مدینہ منورہ میں جس لڑکی کی شادی ہوتی تھی حضرت عائشہؓ اسے اپنا عروسی جوڑا مرحمت فرمادیتی تھیں۔ شادی کے بعد یہ جوڑا واپس آجاتا تھا۔ اور اسی طرح یکے بعد دیگرے دوسری لڑکیوں کی شادی کے کام آتا تھا۔ لڑکیوں کی سادہ اور سہل شادی کے سلسلے میں حضرت عائشہؓ کے اس عمل مبارک پر محدثین کرام نے خصوصی باب باندھا ہے۔
شادی کے انتخاب میں ہمارا رویہ
ان ارشادات کی روشنی میں اپنے ماحول پر نظر ڈالیے تو کیسے کیسے الم ناک مناظر سامنے آتے ہیں۔ لڑکے اور لڑکیاں دونوں کی توجہات اور ترجیحات بگڑ گئی ہیں۔ تعلیم یافتہ لڑکیاں شادی سے دیر تک ہچکچاتی ہیں۔ صرف اس لیے کہ تعلیم پانے کے بعد ان کی نظر میں اوسط درجے کے عام لڑکے نہیں جچتے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اونچے رشتوں کی آس میں بیٹھی رہتی ہیں اور بوڑھی ہوجاتی ہیں۔ ایسی ایک عبرت ناک مثال گذشتہ دنوں سامنے آئی۔ یہ ایک بہت پڑھی لکھی مسلمان خاتون کا ذکر ہے۔ موصوفہ نہایت خوبصورت تھیں، بہت لائق تھیں، اردو ان کے ہاتھ کی چھڑی تھی، انگریزی جیب کی گھڑی تھی، مشاہدہ دھانسو تھا، لکھنے پڑھنے میں اتارو تھیں۔ اعلیٰ درجے کی کوٹھی، کار، بینک بیلنس غرض یہ کہ
سب کچھ اللہ نے دے رکھا تھا شوہر کے سوا!
بس وہ شادی سے شرماتی تھیں۔ انہیں اپنی جوڑ کا کوئی رشتہ نہ ملا۔ ویسے بھی وہ کسی کو بھاؤمیں نہ لاتی تھیں۔ مغلوب الغضب ہوگئیں۔ ہر ایک سے لڑنے لگیں۔ کبھی ڈرائیور کو ڈانٹ رہی ہیں۔ کبھی باورچی پر برس رہی ہیں۔ کبھی سکھی نہ رہیں۔ اک دن چٹ پٹ مرگئیں۔ سرہانے سے ایک وصیت دستیاب ہوئی۔ موصوفہ نے لکھا تھا کہ میری لاش جلا دی جائے۔ دفن نہ کی جائے۔ چنانچہ ان کی میت شعلوں کے حوالے کردی گئی۔ کتنے دلخراش انجام کو پہنچیں۔ کفر کی مشابہت میں ایمان بھی گیا۔ اس الم ناک انجام کی وجہ صرف یہ تھی کہ انھوں نے قانونِ قدرت سے انحراف کیا اور شادی نہیں کی۔
یہی حال لڑکوں کا ہے۔ ان کی اپنی شکل چاہے جیسی ہو مگر وہ بیوی گلفام زادی، پرستان کی شہزادی، ڈھونڈتے ہیں۔ بہت سے لوبھی ایسے بھی ہیں جو بھاری جہیز اور مال ودولت کی تاک لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ انہی چیزوں کی طلب میں کھوسٹ ہوجاتے ہیں۔ یہ وتیرہ غلط ہے۔ عاقل و بالغ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی میں غیر ضروری تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ آمدنی تھوڑی ہو تب بھی شادی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ مالک الملک نے نکاح کرنے والوں کو غنا سے نوازنے کی بڑی پکی بشارت دی ہے۔ افسوس! ہم مادی چیزوں پر تو یقین رکھتے ہیں مگر ایمان اور اعمال صالح کی کارفرمائی پر پورا یقین نہیں رکھتے۔ اسی لیے ہم پر وحدہٗ لاشریک لہ کی چارہ سازیوں کے کرشمے بھی نہیں کھلتے!
کنواری لڑکیوں اور لڑکوں کی شادی میں جو مسرفانہ رسوم اور فکر ونظر کے مفاسد راہ پاگئے ہیں، وہ تو سب پر عیاں ہیں۔ طلاق یافتہ خواتین اور بیواؤں کے بارے میں ہمارا اندازِ فکر اور بھی زیادہ افسوسناک ہے۔ طلاق یافتہ خواتین اور بیواؤں کی اکثریت کی حالت قابل رحم ہے۔ بے چاری مدتوں بیٹھی رہتی ہیں۔ کڑھتی رہتی ہیں مگر ان کا عقد ثانی نہیں ہونے پاتا۔ پاس پڑوس کے لوگ رشتہ کے لیے آنے والے مین میخ نکالتے رہتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں مگربہت سے سماجی معاملات میں ہم پر غیر مسلموں کے رویے اور اثرات کا اثر چھایا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ بیواؤں اور طلاق یافتہ خواتین سے شادی کو عیب سمجھتے ہیں۔ جبکہ رسالت مآب کا عمل ہمارے سامنے ہے۔
شباب کی سرمستیاں کنواری جوانیاں ڈھونڈتی ہیں مگر رسالتِ مآب کا حسنِ عمل بتاتا ہے کہ وہ کنوارے تھے اور انھوں نے عین عالمِ شباب میں اپنے سے بڑی عمر کی نجیب بیوہ سیدہ خدیجہؓ سے بخوشی شادی کرلی۔ حبالۂ عقد میں صرف ایک اہلیہ محترمہ حضرت عائشہؓ کنواری تھیں۔ باقی تمام ازواج مطہراتؓ بیوہ یا طلاق یافتہ تھیں۔ اس اسوئہ مبارک کی روشنی میں بیواؤں اور طلاق یافتہ عورتوں سے نرمی اور نوازش، ہمدردی اور دلسوزی کا برتاؤ ہونا چاہیے۔ مگر ہمارے ہاں اوندھا معاملہ ہے۔ سب سے زیادہ تیر اندازی طلاق یافتہ خواتین ہی پر کی جاتی ہے اور خدا خوفی کو آگ لگا کر انہیں تہمتوں کی باڑھ پر رکھ دیا جاتا ہے۔ تہمت تراشوں کی اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ تہمت سے کون خالی ہے۔ آوارہ زبانوں کو کون روک سکتا ہے۔ اور چاند پر تھوکنے سے کون باز آیا ہے؟ کیسی کیسی جلیل القدر خواتین پر کس کس قبیل کے کیسے کیسے نالائقوں نے جھاڑ باندھا ہے۔ عیسائیوں میں حضرت مریمؑ، مسلمانوں میں حضرت عائشہؓ اور ہندوؤں میں سیتا پر جھوٹے الزام کے پتھر پھینکے گئے تو طلاق یافتہ خواتین کس گنتی میں!… کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر طلاق یافتہ عورت کی جوانی میلی نہیں ہوتی۔ خوفِ خدا سے محروم بعض لوگ معمولی معمولی باتوں پرطیش میں آجاتے ہیں اور بھلی چنگی بیویوں کو آن کی آن میں کھڑے کھڑے طلاق دے دیتے ہیں۔ ایسی مظلوم خواتین پر ہمارا معاشرہ ہمیشہ سنگ باری کرتا ہے۔ یہ کیسی سنگدلی ہے! اگر ایک عورت کا اپنے شوہر سے نبھاؤ نہیں ہوا اور وہ مجبوراً الگ ہوگئی تو کیا وہ گردن زندگی ہوگئی؟ ہمارے ہاں اکثر حالتوں میں یہی کچھ ہورہا ہے۔
سماجی رہنماؤں اور علمائے کرام کو اس اذیت ناک صورتحال کا مؤثر حل ڈھونڈنا چاہیے۔ اسلام نے مطلقہ خواتین اور بیواؤں کی شادی کی راہ کھلی رکھ کر بدعملی کا دروازہ بند کردیا۔ آج ہم ان کی شادیوں کو ناگوار، دشوار یا گراں بار بنا کر کن مفاسد کے پھاٹک کھول رہے ہیں؟
بلاشبہ شادی اچھی طرح چھان پھٹک کے بعد ہونی چاہیے مگر اس سلسلے میں ڈھونڈنے کی اصل چیزحسنِ سیر ت ہے۔ جس لڑکی اور لڑکے میں حسنِ عمل کا نور موجود ہو اس کا رشتہ بلاتاخیر قبول کرلینا چاہیے۔