اگر گزشتہ قوموں میں دعوت کے مخاطب صرف مرد تھے تو اسلامی معاشرے میں کارِ دعوت کے ذمے دار اور مخاطب مرد اور عورت دونوں ہیں، جس روز رسول اکرمؐ کو یہ حکم دیا گیا کہ اپنے قریبی رشتے داروں کو دعوت دیجیے تو آپؐ نے اپنے چچا عباسؓ، اپنی پھوپھی حضرت صفیہؓ، اپنی بیٹی فاطمہؓ کو ایک ساتھ مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دعوتِ اسلامی کو اختیار میں مسابقت کرو، اپنی ذمے داریوں کومحسوس کرو اور اپنے لیے اسلام کو پسند کرو ورنہ جان لو کہ کل میں اللہ تعالیٰ کے حضور تمہارے لیے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچاسکتا۔
حضورﷺ کی یہ دعوت انسانیت کا وہ عظیم تمغہ ہے، جو اسلام نے عورت کے گلے میں لٹکا دیا ہے اور دعوتِ اسلامی کا کام صرف مردوں کے کندھوں پر ہی نہیں ہے بلکہ عورت بھی اس میدان میں شریکِ کار ہے اور اسلام کی یہ عمارت دونوں کے باہمی تعاون سے ہی تعمیر ہوسکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’عورتیں تو مردوں کا جزء لاینفک ہیں۔‘‘عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ’’ دورِ جاہلیت میں ہم عورتوں کو کسی شمار میں نہیں لاتے تھے لیکن جب اسلام آیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں ہمیں بتایا تو ہمیں احساس ہوا کہ ان کا بھی ہمارے اوپر حق ہے۔‘‘
عورت کی دعوتی ذمے داریاں مرد کے تابع نہیں ہیں بلکہ دعوتِ اسلامی کا فریضہ ان پر بھی مردوں کی طرح ہی عائد ہوتا ہے۔ بسا اوقات خواتین اس میدان میں سبقت لے جاتی ہیں اور کبھی مرد بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جب کہ بعض خوش قسمت گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں مرد و عورت اور بیٹے بیٹیاں سب مل کر اس کام کو انجا دینے میں لگے ہوتے ہیں۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ’’میں اور میری والدہ کمزور لوگوں میں سے تھے، میں تو بچہ تھا اور میری والدہ عورت تھیں۔‘‘ یہ اس وقت کی بات ہے جب عباس اپنی قوم کے مذہب پر تھے اور عبداللہ اور ان کی والدہ نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ سیرت کی کتابوں میں متعدد ایسی روایات ہیں کہ دعوتِ اسلامی کے میدان میں عورتوں اور مردوں کے درمیان مسابقت رہی۔ ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی کہ وہ دعوت کے میدان میں آگے بڑھ جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوجائے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غارِ حرا سے خوف کے عالم میں کانپتے ہوئے واپس ہوئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کو تسلی دی اور ان کے خوف کو دور کیا۔ پورا واقعہ سننے کے بعد انھوں نے کہا: بخدا اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا آپ مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں، مجبور و بے بس لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور حق بات کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘ پھر وہ آپؐ کو لے کر اپنے چچا ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نہ صرف عورتوںمیں بلکہ تمام انسانوں میں پہلی ایسی خاتون تھیں جنھوں نے اسلام کو قبول کیا اور ایمان لے آئیں۔ رسول اللہؐ کی پریشانیوں اور دعوت کی راہ میں آنے والی مشکلات کو برداشت کیا۔ جب مسلمانوں کو شعب بنی ہاشم میں محصور کردیا گیا تو خدیجہؓ ہی وہ خاتون تھیں جنھوں نے محصور مسلمانوں کے لیے غذا فراہم کرنے کی اسکیم سوچی ۔ حضرت خدیجہؓ کی سیرت میں ہماری بیٹیوں اور بہنوں کے لیے وہ اسوہ موجود ہے جسے اختیار کرکے وہ دعوت کے میدان میں اپنے کردار کو بخوبی انجام دے سکتی ہیں۔
عورتیں دین کے معاملے میں مردوں سے زیادہ فکر مند رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے محبت، شفقت، رحمت، رقت کے جذبات جس طرح سے عورتوں کے اندر ودیعت کردیے ہیں اس کی بدولت وہ مردوں کے مقابلے دین کی فطرت سے زیادہ قریب ہیں، چنانچہ ہم آج بھی دیکھتے ہیں کہ بڑی تعداد میں بے پردہ مغرب زدہ خواتین اپنی مرضی سے دینِ اسلام اور دینی شعائر کو اختیار کررہی ہیں باوجود یہ کہ داخلی اور خارجی طور پر اسلام مخالف طاقتیں ان کو اسلامی تہذیب اختیار کرنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہیں۔ کیا داعی مرد اور داعی خواتین نے سنجیدگی سے اس طرف توجہ دی کہ ان مغرب زدہ بہنوں کو اسلامی تہذیب کے دائرے میں لانے کی کوشش کریں اور ان کو دعوتِ اسلامی کے قریب کریں۔ ہم نے ایسی کوئی مثبت کوشش تو نہیں کی ہاں اپنی سخت کلامی، نادانی اور طنزیہ جملوں سے ان کے جذبات کو مجروح کرکے ان کو تہذیبِ اسلامی سے مزید دور کردیا۔
حضرت عائشہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ کہتی ہیں: ’’ابوبکرؓ نے اپنے گھر کے صحن میں عبادت کے لیے ایک خاص جگہ بنالی اور وہ اس جگہ نماز پڑھا کرتے اور قرآن کی تلاوت کرتے، اور جب آپؓ نماز پڑھتے تو مشرکین کی عورتیں اور ان کے بچے ارد گرد جمع ہوجاتے، وہ آپ کو دیکھا کرتے اور خوش ہوتے۔ اس طرز عمل سے قریش کو اندیشہ لاحق ہوا اور انھوں نے کہا کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں ہمارے بچے اور ہماری عورتیں فتنہ کا شکار نہ ہوجائیں۔
اگر مناسب موقع محل اور صاحبِ حکمت داعی ہو تو عورتیں اسی طرح خیرکی طرف مائل ہوتی ہیں، اگر عورت کی فطرت صالح ہے تو مرد کی سرکشی اور اس کا فساد اس پر اثر انداز نہیں ہوسکتا اس کے برخلاف اگر اس کی فطرت میں ٹیڑھ ہے تو مرد کی شرافت اور اس کا تقویٰ کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچاسکتا۔ عورت اپنے معاملات کے متعلق اللہ تعالیٰ کے حضور مستقل طور پر ذمے دار ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
’’اللہ تعالیٰ کافروں کے معاملے میں حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیویوں کو بطورِ مثال پیش کرتا ہے، وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں مگر ان دونوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی اور وہ اللہ کے مقابلے میں ان کے کچھ بھی کام نہ آسکے، دونوں سے کہہ دیاگیا کہ جاؤ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم بھی چلی جاؤ اور اہلِ ایمان کے معاملے میں اللہ فرعون کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے جب کہ اس نے دعا کی:اے میرے رب! میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچالے اور ظالم قوم سے مجھ کو نجات دے۔‘‘ (التحریم: ۱۱)