[ستمبر کے شمارے میں مضمون نگار کا اس مضمون کی پہلی قسط شائع ہوئی تھی۔ اس حصہ کو اسی تسلسل میں پڑھا جائے۔ ایڈیٹر]
دین کی مدافعت، خواتین جس طرح شمشیر وسناں کے ذریعہ کرتی رہی ہیں، اسی طرح زبان وبیان سے بھی انہوں نے فریضہ انجام دیا ہے۔ حق کی نصرت و حمایت میں نیزہ اور تلوار بھی اٹھائے ہیں اور زبان کی قوت بھی صرف کی ہے۔ ان کے جوش خطابت نے بہت سوں کے لیے اللہ کی راہ میں مرنا اور جینا اور اپنی متاعِ حیات کا لٹانا آسان بنا دیا۔
۱- رسول اکرمؐ کی پھوپھی ارویٰ بنت عبدالمطلب کے متعلق ابن عبد البر نے لکھا ہے:
’’وہ اپنی زبان سے نبی ﷺکا دفاع کرتیں اور اپنے بیٹے کو نبی ؐکی مدد اور پیروی پر ابھارا کرتی تھیں۔‘‘
ان کے لڑکے طلیب مکہ کے ابتدائی دَور ہی میں ایمان لاچکے تھے۔ایک مرتبہ رسول اللہﷺچند صحابہ کے ساتھ جن میں طلیب بھی شامل تھے ،نماز ادا کر رہے تھے کہ ابو جہل،ابو لہب، عقبہ اور بعض دوسرے سردار اچانک ہلّہ بول بیٹھے اور زبان درازی شروع کر دی۔صحابہؓ بھی پورے زور سے اظہارِ ایمان اور اپنی مدافعت کرنے لگے۔طلیب نے تو آگے بڑ ھ کر ابو جہل کو بری طرح زخمی کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرکین نے ان کو پکڑ کر باندھ دیا۔بعض لوگ یہ خبر لے کر اَرویٰ بنت عبدالمطلب کے پاس پہنچے اور کہا: ذرا اپنے بیٹے کی ’’حماقت ‘‘تو دیکھو کہ محمدﷺکے چکر میں آکر لوگوں کے جو روستم کا نشانہ بن گیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا :
’’وہ دن کہ جن میں طلیب نے اپنے ماموں زاد کی حمایت کی تھی بہترین دن ہیں،یقینا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق لے کر آیا۔‘‘
عبداللہ بن زید ؓ احد کے دن زخمی ہو گئے تو ان کی والدہ اُم عمارہؓنے مرہم پٹی کی اور بجائے اسکے کہ اپنے لختِ جگر کو تکلیف میں دیکھ کر آرام لینے اور سستانے کا مشورہ دیتیں حکم دیا :
’’میرے بیٹے اٹھو اور دشمن کو مارو۔‘‘(طبقات ابن سعد)
ابو سفیان کی بیوی ہندبنت عتبہ نے شہدائے احد کے خلاف اشعار کہے تو ہندبنت اَثاثہؓ نے ان کا شعر ہی میں ترکی بہ تر کی جواب دیا۔
۳- حضرت خنساءؓ اپنے بچوں کے ساتھ جنگ قادسیہ میں شریک ہوئی تھیں۔ان چاروں کو آغازشب ہی میں جمع کر کے کہا :اے میرے بچو!تم نے برضاور غبت ایمان قبول کیا اور کسی کے دبائو کے بغیر ہجرت کی۔ بخدا،جس طرح تمہاری ماں ایک ہے، اسی طرح تمہارا باپ بھی ایک ہے،کیونکہ تمہاری ماں نے نہ تو تمہارے باپ کے ساتھ کوئی خیانت کی نہ تمہارے ننہال کو رسواکیا، نہ تمہارے حسب کو بٹہ لگایا اور نہ تمہارے نسب کو غبار آلود کیا(یعنی شریف اور باعفت ماں کے بطن سے پیدا ہوئے ہو۔اس لیے تمہارے اعمال بھی شریفوں کے سے اور ارفع واعلیٰ ہونے چاہئیں)تمہیں معلوم ہے کہ خدا نے کفا رسے جنگ کے عوض کس قدر ثواب تیار کر رکھا ہے۔خوب سمجھ لو !اس فنا ہونے والی دنیا سے دارالبقا بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے ایمان والو! ثابت قدم رہو اور ثابت قدمی میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرو۔حق کی راہ میں جمے رہو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
اگر اللہ نے چاہا اور تم نے سلا متی سے صبح کی توپوری بصیرت کے ساتھ اور خدائے تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہوئے دشمن کے مقابلے میں نکل جائو اور جب گھمسان کا رَن پڑے اور جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں تو تم اس کی بھٹی میں (بلا خوف وخطر ) کود پڑو۔جس وقت دشمن کا لشکر پورے جوش اور جذبہ سے لڑائی میں مصروف ہو تو تمہارے حملوں کا نشانہ اس کا سردار رہے اس طرح تم غنیمت او رجنت میں شرف و مرتبہ کے مستحق ہو کر لوٹو گے۔
ماں کی زبان سے یہ پر عزیمت تقریر سن کر چاروں لڑکے رجزپڑھتے ہوئے سر بکف عر صۂ پیکا ر میں آنکلے، پھر ان کو خاک وخون میں غلطاں ہی دیکھا جا سکا۔
۴- جس زمانے میںحجا ج نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کا محاصرہ کر رکھا تھا،ان کے تقریباًدس ہزار ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ کر حجاج کے ساتھ جاملے یہاں تک کہ ان کے دو لڑکے حمزہ اور خبیب بھی پناہ کے طالب ہو کر حجاج کے پاس چلے گئے۔ عبداللہ بن زبیر ؓ نے جاکر اپنی والدہ اسماء بنت ابی بکر ؓ سے اپنی بے بسی کا تذکرہ کیا کہ اور تو اور میری اولاد تک نے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔اب میرے ساتھ گنے چنے افراد رہ گئے ہیں جو حجاج کے مقابلہ میں دیر تک ٹھہر نہیں سکتے۔ اگر میں اب بھی حجاج کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں تو دنیا کی جو نعمت چاہوں مل سکتی ہے بتائیے آپ کی کیا رائے ہے؟ ماں نے جواب دیا:
’’اے میرے بیٹے!تو اپنی نیت خوب جانتاہے، اگر تو سمجھتا ہے کہ تو حق پر ہے اور حق کی طرف بلانے والا ہے تو اس پر صبر کر،تمہارے اصحاب کو قتل کر دیا گیااور تمہاری گردن بھی نہ بچ سکے گی۔بنی امیہ کے لڑکے اس سے کھیلیں گے اور اگر توجانتا ہے کہ توحق پر نہیں ہے صرف دنیا حاصل کرنے کے لیے ہے توتوبہت برا بندہ ہے تو نے اپنے آپ کو ہلاک کر دیااور اپنے اصحاب کو بھی جو تیرے ساتھ قتل ہوں گے اور اگر تو حق پر ہے تو دین کو ہلکا نہ جان تو دنیا میں کتنی دیر زندہ رہے گا؟‘‘
سیدنا عبداللہ بن زبیرؓنے ماں کے جذبات کی تائید کی اور حجاج کی مخالفت میں شہید ہو گئے۔
اظہارِ حق
خواتین نے اپنوں ہی کو حق پر ثابت قدم رکھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ معاشرہ میں جہاں کہیں ان کو بگاڑ نظر آیا، اس کو بدلنے اور اس کی جگہ خیر و صلاح کو قائم کرنے کی جدو جہد کرتی رہی ہیں۔
سیدناعبداللہ بن زبیر ؓ کو سولی دینے کے بعد حجاج ان کی والد ہ اسماء کے پاس گیا اور کہا: آپ کے صاحبزادے نے خدا کے گھرمیں بے دینی اور الحاد پھیلایا جس کی سزا خدا نے اس کو درد ناک عذاب کی شکل میں چکھائی ہے۔ حضرت اسماء نے کہا :
’’ تو جھوٹ بولتا ہے وہ تو اپنے والدین کا فرماں بردار تھا، روزے رکھنے والا اور قیام کرنے والا تھا میں نے نبیﷺ سے سنا کہ ثقیف قبیلے سے دو جھوٹے نکلیں گے دوسرا پہلے سے زیادہ شروالا ہو گا۔‘‘
اَعیانِ حکومت کو نصیحت اور اس کے نتائج
مسلمان خواتین نے جو کچھ کہا اور کیا، ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر خالص دین اور ملت کے مفاد کی لئے کہا اور کیا۔
دین کے نفع و ضرر کا پاس و لحاظ، اس کے لیے ہر طرح کی قربانی اور شدید ترین و جاں گسل مواقع پر استقامت ہی ان کا شیوہ رہی۔ خاتونِ مسلم کی یہ ایسی صفات تھیں جنھوں نے ان کو بلند مرتبت بنا دیا۔
۱- سیدنا معاویہؓ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کولکھا کہ مجھے ایک مختصر سی نصیحت کیجئے(جسے میں ہمیشہ کے لئے اپنے سامنے رکھ سکوں) تو امّ المومنین عائشہ صدیقہ ؓنے انتہائی مؤثر اور ایک حاکم وقت کو رہنمائی کا کام دینے والا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد لکھ کر بھیجا:
’’جس شخص نے لوگوں کو ناراض کرکے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کی، اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کی ناراضی سے کافی ہوجائے گا۔ اور جس نے اللہ کو ناراض کرکے لوگوں کو خوش کرنا چاہا، اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے ہی سپرد کردے گا۔‘‘
۲- ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عمرؓ کہیں جارہے تھے۔راستہ میں خولہ بنت ثعلبہ ؓ سے ملاقات ہوگئی۔وہ وہیں حضرت عمرؓکو نصیحت کرنے لگیں۔ رعایاکے معاملہ میں خدا سے ڈرتے رہو۔یہ بات ذہن نشین کرلو کہ جس شخص کو خدا کے عذاب کا خوف ہوگا وہ قیامت کو دور نہیں سمجھ سکتا اور جس کو موت کا کھٹکا لگا ہو گا۔ اس کو نیکیوں کے ہاتھ سے چھوٹ جانے کا ہر وقت خدشہ رہے گا۔‘‘
۳- ایک مرتبہ عمر ؓنے فرمایا :مہر کی مقدار کم رکھو تو ایک عورت نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اس کی تبلیغ کا حق نہیں ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ’’اگر تم اپنی عورتوں کو مہر میں ایک ڈھیر مال بھی دے دو تو اس سے ایک حبہّ بھی نہ لو۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ مہر کی کوئی حد نہیں ہے حضرت عمر ؓ نے اعتراف کرتے ہوئے فرمایا: ’’ایک عورت نے عمرؓسے بحث کی اور غالب رہی۔‘‘ (فتح الباری)
۵- اسی طرح عکرشہ بنت اَطرش حضرت معاویہ ؓ کے دربار میں ان کے گورنروں کی شکایت لے کر پہنچی اوربے باکانہ کہا کہ ’’ اس سے پہلے ہمارے اغنیا سے زکوۃ لی جاتی اور ہمارے غریبوں میں تقسیم کر دی جاتی، لیکن اب نہ تو شکستہ حال کی شکستگی دور ہوتی ہے اور نہ محتاج کی محتاجی رفع کی جاتی ہے۔ اگر یہ سب کچھ آپ کی ایماء اور مشورے سے ہو رہا ہے تو آپ جیسے شخص تنبیہ ہوتے ہی فوراً چونک اْٹھیں گے اور توبہ کرینگے اور اگر اس میں آپ کی رائے اور مشورہ کو دخل نہیں ہے بلکہ گورنروں کی اپنی طرف سے ظلم و زیادتی ہے تو یہ بھی آپ جیسی ذمہ دار شخصیت کے منافی ہے کہ وہ امانت داروں کوچھوڑ کر خائنوں سے تعاون حاصل کرے اور ظالموں کو خدمات پر مامور کر دے۔‘‘ حضرت معاویہؓ نے معذرت کی کہ کبھی کبھی ایسے خراب حالات سے ہم کو سابقہ پڑتا ہے کہ قانون پر عمل کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس نے کہا: سبحان اللہ! آپ کیسی بات کر رہے ہیں۔ اس دانائے غیب نے ہم پر کوئی ایسا فرض متعین ہی نہیں کیا ہے جس پر عمل سے دوسروں کو نقصان ہو۔ بالآ خر حضرت معاویہ ؓ نے اس قبیلہ کی زکوۃ کو اسی کے افراد کے اندر تقسیم کرنے اور اس کے ساتھ عدل و انصاف کا فرمان جاری کیا۔‘‘
اس جرأت و ہمت کو دیکھئے کہ کس طرح دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت سے بے خوف ہو کر حق کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس دین پر وہ ایمان رکھتی ہے،نا ممکن ہے کہ وہ باطل کی تاریک شب کو اس پر قبضہ جمانے کی اجازت دے۔ اگر وہ اس کی اجازت دیتی ہے تو اپنے دین و ایمان کی موت کا اعلان کرتی ہے۔ اس لئے وہ مجبور ہے کہ سو سائٹی میں باطل کے جراثیم کو پنپنے اور دین و ایمان کی غارت گر قوتوں کو قدم جمانے کا موقع نہ دے۔lll