مسلم عورت کا سیاسی کردار

سید عبیدالرحمن

اکیسویں صدی میں جب عورتیں ہر میدان میں قائدانہ کردار ادا کررہی ہیں، مسلم معاشرہ میں بہت سے لوگوں کا اب تک ماننا ہے کہ عورتوں کا دائرہ کار گھر تک محدود ہے۔ ان کی نظر میں نہ صرف عورتوں کو مکمل پردہ، بہ شمول چہرہ کے پردے کو یقینی بنانا جائیے، بلکہ اپنی آواز کا بھی پردہ کرنا چاہیے۔ یہ لوگ تعلیم کے معاملہ میں بھی اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ اپنی عورتوں کو یا تو مکمل مذہبی تعلیم دیں یا پھر بنیادی تعلیم، وہ بھی محض اس صورت میں کہ تعلیم گاہ میں مخلوط تعلیم کا نظم نہ ہو اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے محض خواتین اساتذہ ہی مختص ہوں۔ وہ عورتوں کی اعلیٰ تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں اور اپنی شدت پسندی کے لیے قرآن و حدیث سے حوالے لاکر پیش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک عورتوں کا دائرئہ کار محض گھر تک محدود ہے اور ان کی نظر میں عورتوں کا گھر سے باہر جانا، آفیسز میں نوکری کرنا یا دوسری ضروریات کی تکمیل کے لیے گھر سے باہر نکالنا قطعاً غیر اسلامی عمل ہے۔ ان کے نزدیک عورتوں کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں اور یہ کہ خواتین کو اپنے محدود دائرئہ کار میں ہی کام کرنا چاہیے لیکن کیا ان کی یہ سوچ اسلامی ہے؟ کیا اسلام عورتوں پر واقعتا یہ پابندیاں عائد کرتا ہے؟ اور کیا سیاست میں عورتوں کا عمل دخل اسلامی تعلیمات کے مخالف ہے؟

میں عورتوں کا دائرئہ کار

رسالت مآبؐ کے زمانے میں جب عرب پوری دنیا کے بچھڑے ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا تھا، اسلام نے عورتوں کو آزادیِ فکر و عمل مہیا کرائی۔ ان کو معاشرہ میں مردوں کے برابر آزادی مہیا کرائی اور عورتوں کو وہ تحفظات فراہم کیے جو اس وقت تک عرب معاشرہ میں محض مردوں کو حاصل تھے۔ رسالت مآبؐ کی اپنی زندگی میں ہمیں یہ بے شمار مثالیں ملتیں ہیں جب آپؐ نے نہ صرف عورتوں کو جنگوں میں شمولیت کی اجازت دی بلکہ بعد میں ان کی جان نثاری اور بہادری کی تعریف بھی کی۔ جنگ احد میں حضرت ام عمارہ کا تذکرہ بہترین الفاظ میں ملتا ہے۔ انھوںنے نہ صرف جنگ احد میں اپنی بہادری اور فوجی مہارت کے جوہر دکھائے بلکہ بیعت الرضوان، خیبر اور فتح مکہ میں بھی شریک رہیں۔ مسیلمہ کذاب کے خلاف بھی جنگ میں حصہ لیا خود تلوار سے مقابلہ کیا، جس میں بارہ زخم آئے اور ایک ہاتھ بھی شہید ہوگیا۔

رسالت مآبؐ کی زندگی میں ام المؤمنین خدیجہ الکبریٰ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی زیرکی اور دانشمندی کا اس سے بڑا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ آپؐ نہ صرف ہر موقع پر ان سے مشورہ کرتے بلکہ ان کے مشوروں پر عمل بھی کرتے۔

حضرت امِ سلمہؓ امہات المؤمنین میں سے ایسی خاتون تھیں جن کا نام ہمیشہ سنہرے لفظوں میں لیا جائے گا۔ ان کے سیاسی شعور، بیدار مغزی اور علمی تبحر کی وجہ سے رسالت مآبؐ ان سے تمام اہم معاملات میں مشورہ کرتے بلکہ ان کے مشوروں پر عمل بھی کرتے۔ صلح حدیبیہ میں جب مسلمان معاہدوں کی شرطوں کی وجہ سے پریشان تھے، ان کو لگ رہا تھا کہ معاہدوں کی شرطیں کفارِ مکہ کے حق میں اور مسلمانوں کے خلاف ہیں تو ان کے اندر بددلی پھیل گئی۔ جب رسالت مآبؐ نے مسلم فوج کو حلق اور قربانی کرنے کا حکم دیا تو سب اسی بد دلی کی وجہ سے بیٹھے رہے۔ آپؐ کو بہت افسوس ہوا اور بہت پریشان حالت میں حضرت امِ سلمہؓ کے پاس پہنچے اور مشورہ چاہا۔ آپؐ نے ان کے تاریخی مشورہ کو فوراً قبول کرلیا۔ مشورہ کے مطابق جب آپؐ نے حلق کرایا اور اپنے قربانی کے جانوروں کی قربانی کی تو تمام مہاجرین اور انصار نے آپؐ کے کہے بغیر آپؐ کی اتباع کی اور اس طرح ایک بڑے کرائسس سے نجات ملی۔

مسلم خواتین نے تاریخ کے تمام اہم مواقع پر سیاسی اور سماجی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ رسالت مآبؐ کے وصال کے محض چند سال کے بعد جب حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں قرآن کی تدوین کا کام ہوا اور قرآن کو ایک جلد میں جمع کیا گیا تو اس مصحف کو رکھنے کی ذمہ داری کسی بڑے صحابی کو نہیں دی گئی، بلکہ ام المومنین حضرت حفصہؓ کو دی گئی۔ اس کو مصحف حفصہ کا نام دیا گیا اور دو دہائیوں کے بعد حضرت عثمانؓ کے زمانے میں اسی مصحف کو پوری اسلامی مملکت میں پھیلادیا گیا۔ حضرت حفصہؓ کو دی گئی یہ اہم ذمہ داری نہ صرف مذہبی بلکہ سیاسی تھی، کیوں کہ اسلامی سلطنت کی بنیاد ہی قرآن اور حدیث تھی۔

حضرت عائشہؓ نے رسالت مآبؐ کی وفات کے بعد جو سیاسی کردار ادا کیا، اس سے کون ناواقف ہوگا۔ قاتلین عثمانؓ کے خلاف سخت سزا کے بارے میں ان کے اقدامات کو کون نہیں جانتا۔ کس طرح انھوںنے بزرگ صحابیوں کی فوج کی قیادت کی، جنگ جمل میں حصہ لیا اور حضرت علیؓ کے خلاف جنگ میں ایک مسلم فوج کی، جس میں بہت سے بزرگ صحابہ شریک تھے، قیادت کی، یہ تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ اگر اسلام خواتین کی سیاست میں شمولیت کے خلاف ہوتا تو حضرت زبیر بن العوامؓ اور حضرت طلحہؓ جیسے بزرگ صحابی، حضرت عائشہؓ کی قیادت کو کیوں کر تسلیم کرتے۔

مردوں کا عورتوں پر تفوق؟

بہت سے علماء کا ماننا ہے کہ مردوں کو عورتوں پربہر صورت ہر میدان میں تفوق حاصل ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ سیاست عورتوں کے لیے شجر ممنوعہ ہے اور یہ کہ عورتیں عقلی طور پر مردوں سے کم تر ہوتی ہیں۔ ان کی اس فکر کی نہ کوئی اسلامی اساس ہے اور نہ کوئی بنیاد۔ لیکن اس بات کو اس طرح اور اس انداز میں پھیلایا گیا ہے کہ یہ دین اسلام کا ایک حصہ لگنے لگا ہے۔ ایک آیت جس کو یہ علماء اپنی حمایت میں بارہا پیش کرتے ہیں وہ سورہ نساء کی درج ذیل آیت ہے:

’’مرد عورتوں پر اس وجہ سے قوام ہیں کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ پنے مالوں میں سے خرچ کرتے ہیں۔ چنانچہ نیک عورتیں فرمانبردار اور خاوند کی غیر موجودگی میں اللہ کی حفاظت سے (مال وآبرو کی) حفاظت کرتی ہیں۔‘‘ (النساء:۳۴)

لیکن یہ آیت کہیں بھی مسلمان عورتوں کی سیاست یا دوسرے معاملات میں شمولیت کو نہ تو برا ٹھہرتی ہے اور نہ ہی ان کے استحقاق کو کم کرتی ہے۔ اس کے برخلاف قرآن صاف صاف عورتوں اور مردوں کی برابری کا قائل ہے اور سورہ نساء کی آیت ۳۲ اس بابت بغیر کسی لاگ و لپیٹ کے کہتی ہے کہ اگر مردوں کو عورتوں پر تفوق حاصل ہے تو عورتوں کو دوسرے میدانوں میں مردوں پر بھی ہے۔ قرآن کہتا ہے:

’’اور تم اس مقام و مرتبہ کی خواہش نہ کرو جس کے باعث اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ مردوں نے جو کمایا ہے اس میں ان کا حصہ ہے اور عورتوں نے جو کمایا اس میں ان کا حصہ ہے اور تم اللہ کا فضل مانگتے رہو، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔‘‘ (النساء: ۳۲)

قرآن کی ایک دوسری آیت بھی بالکل واضح اندازمیں مردوں اور عورتوں میں مساوات کی بات کرتی ہے۔ قرآن کہتا ہے:

’’بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، فرماں بردار مر د اور فرماں بردار عورتیں، سچے مرد اور سچی عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والی عورتیں ان سب کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجرِ عظیم تیار کررکھا ہے۔ ‘‘

(الاحزاب:۳۵)

قرآن جس بہترین انداز میں ملکہ سبا کا تذکرہ کرتا ہے، اس کی حکومت، حکمت، دانشمندی اور اس کو عوام اور خواص سے ملنے والی عزت کا تذکرہ کرتا ہے، اس کو دیکھ کر اس کا احساس ہوتا ہے کہ قرآن مسلم عورتوں میں بھی وہی خصوصیات دیکھنا چاہتا ہے جو ملکہ سبا میں تھیں۔

مسلمان خواتین اور سیاست

جرمن چانسلر اینچیلا میرکیل اکلوتی ایسی صدر مملکت نہیں جس نے اپنے ملک کی عزت و توقیر میں اضافہ کیا ہو، اس کی معیشت کے استحکام کو یقینی بنایا ہو، تعلیم کے میدان میں انقلابی تبدیلیاں متعارف کرائی ہوں۔ مسلم ممالک میں بھی ایسی خواتین رہنما ہوئی ہیں جنھوں نے اپنے اپنے ممالک کے لیے بیش قیمت خدمات پیش کی ہیں۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے پچھلے دس سالوںمیں بنگلہ معیشت کو بالکل تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ وہ ملک جو اپنی غربت و افلاس اور بچھڑے پن کے لیے مشہور تھا، اب وہ انقلابی معاشی تبدیلیوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش اگلے پانچ سالوں میں ترقی پذیر ممالک کی صف سے آگے بڑھ کر ایک مڈل آمدنی والا ملک بننے جارہا ہے۔ انسانی ترقی کے پیمانہ پر وہ ہندوستان اور برصغیر کے دوسرے ممالک سے کافی آگے جاچکا ہے۔ صرف شیخ حسینہ ہی نہیں برصغیر میں دوسری مسلم خواتین نے بھی میدان سیاست میں اپنے ممالک کی بڑی خدمات انجام دی ہیں۔ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے علاوہ خالدہ ضیا، بھی وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز رہ چکی ہیں۔ پاکستان میں بے نظیر بھٹو نے بھی سیاست کے میدان میں قابلِ ذکر کارنامے انجام دیے اور ملک میں جمہوریت کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی۔ بے نظیر بھٹو جو ۵؍نومبر ۱۹۹۶ء میں ایک دہشت گردانہ حملہ میں ماری گئیں، دوبار پاکستان کی وزیر اعظم بنیں۔ پہلی بار وہ ۱۹۸۸ سے ۱۹۹۰ء تک وزیر اعظم رہیں اور دوسری بار ۱۹۹۳ سے ۱۹۹۶ء تک وزیر اعظم کی کرسی پر جلوہ افروز رہیں۔ حالانکہ ان کے دور میں کرپشن پاکستانی سیاست کا ایک جزو لاینفک بن گیا لیکن بے نظیر کی سیاسی اہمیت کو سب ہی نے محسوس کیا۔

برصغیر ہندو پاک میں ہی مسلم خواتین نے اپنے ممالک کی سیاسی قیادت نہیں کی ہے بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اس کی مثالیں ہیں۔ انڈونیشیا میں میگاوثی سکارنوپتری ملک کی صدر منتخب ہوئیں۔ سکارنوپتری کا انتخاب ۲۰۰۱ء میں عمل میں آیا اور انھوںنے مخالفت کے باوجود مشکل حالات میں اپنی میعاد صدارت پوری کی۔ ترقی میں بھی ایک خاتون سیاسی رہنما تانسوسیلرنے ۱۹۹۳ء سے ۱۹۹۵ء تک وزیر اعظم کی ذمہ داری نبھائی ہے۔ ماریشش جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں بھی مسلم خاتون بی بی امینہ فردوس ۲۰۱۵ء میں صدر منتخب ہوئی ہیں۔ سنگاپور کی صدر بھی ایک مسلم خاتون حلیمہ یعقوب ہیں، جن کو ۲۰۱۷ء میں صدر منتخب کیا گیا۔

مسلم خواتین کا سیاست میں عمل دخل نیا نہیں ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں خیزرانی نے عباسی خلافت کے زمانہ میں ملک کی باگ ڈور تین خلفاء کی مدت کار میں سنبھالی۔ گیارہویں صدی عیسوی میں یمن میں ملکہ اسماء بنت شہاب الصلیحیہ اور ملکہ عروہ بنت احمد الصلیحیہ نے ملک کی باگ ڈور چلائی اور مورخین کا ماننا ہے کہ ان دونوں نے اپنے ملک میں ترقی اور تمدن کو بڑھاوا دیا۔ ست الملک، فاطمی خلافت کے زمانہ میں ایک ملکہ تھی جس نے گیارہویں صدی عیسوی میں مصر پر ایک عرصہ تک حکومت کی۔ رضیہ سلطانہ نے تیرہویں صدی عیسوی میں دہلی سلطنت پر حکومت کی اور کئی جنگوں میں اپنی فوجوں کی قیادت بھی کی۔ اس کے علاوہ بھی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں جب مسلم خواتین نے اپنے ممالک کی باگ ڈور سنبھالی اور ایک مدت تک حسن و خوبی سے نظام مملکت چلایا۔

آج جب مسلم عورتوں میں تعلیم اسی طرح عام ہے جس طرح مردوں میں اور وہ تمام سیاسی، معاشی اور دوسرے میدانوں میں اسی طرح حصہ لیتی ہیں جس طرح مرد، اب یہ کہنا کہ سیاست عورتوں کے لیے شجر ممنوعہ ہے ناقابلِ یقین ہے۔ وہ ترقیاتی پروجیکٹس کا حصہ ہیں، زمینی سطح میں کام کرتی ہیں، صحت اور تعلیمی میدان میں اسی طرح نظر آتی ہیں جس طرح مسلم مرد، اور ان میں سیاسی شعور اور بصیرت کی بھی کمی نہیں ہے۔ آج کی مسلم عورت ہر میدان میں لیڈر شپ رول ادا کرنے کو اسی طرح تیار ہے جس طرح مسلم مرد۔ نہ تو اب ان کے لیے مواقع بند کرنے کا سوال ہے اور نہ موقع دینے کا۔ اپنی صلاحیت کا دوسرے میدانوں کی مانند وہ سیاسی میدان میں بھی لوہا منواتی رہی ہیں اور منواتی رہیں گی۔

خود کو اسلام پسند تصور کرنے والا طبقہ یہ کہہ سکتا ہے کہ جن قوانین سیاسی رہ نماؤں کا ذکر یہاں کیا گیا ہے وہ اسلام کی نمائندگی نہیں کرتیں بلکہ سیکولرزم کی نمائندہ ہیں۔ اس پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیکولر جمہوریت آپ کو بھرپور موقع تو دیتی ہے آپ اسلام پسند خواتین کو سیاست میں بھیجئے۔ وہ بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں۔ ظاہر ہے جو لوگ خواتین کے سیاسی زوال کو ہی ناجائز سمجھتے ہیں وہ خواتین کی سیاسی حصہ داری کا کیسے سوچ سکتے ہیں اور سیاسی تبدیلی میں عورت کو کسی کردار کے لیے کیسے تیار کرسکتے ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں