جدیدیت چند سیاسی، معاشی، سماجی اور فکری تبدیلیوں کا ایک جامع عنوان ہے جو مغربی تہزیب کے زیر اثر دنیا میں رونما ہوئیں۔ مسلم معاشروں کا جدیدیت سے پہلا اور براہ راست تعارف استعمار کے توسط سے ہوا۔ استعمار نے مسلم معاشروں کے اجتماعی شعور پر جو سب سے پہہلا اور سب سے نمایاں تاثر مرتب کیا، وہ سیاسی طاقت اور آزادی سے محرومی کا تھا اور اس صورت حال کا مسلم شعور سے سب سے بنیادی نفسیاتی اور فکری مطالبہ یہ تھا کہ وہ اقتدار سے محرومی اور حاکمیت کی ھالت سے محکومیت کی حالت میں منتقل ہونے کے حوالے سے اپنا ردعمل متعین کرے۔ اقتدار چھینے جانے پر مزاحمت کا جذبہ فطری اور عقلی بھی تھا اور دینی اساسات بھی رکھتا تھا، چنانچہ پورے عالم اسلام میں استعمار کے خلاف مزاحمتی تحریکیں پیدا ہوئیں۔ مقدور بھر وسائل کے ساتھ استعمار کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی، لیکن جیسا کہ معلوم ہے ہر جگہ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ شکست کے بعد فوری اور بظاہر حیرت انگیز منظر یہ دکھائی دیتا ہے کہ کم و بیش ہر جگہ جہاں مزاحمت کا علم دینی علما نے بلند کیا تھا، وہاں بعد از شکست ہمیں ان کے موقف اور حکمت عملی میں ایک سو اسی ڈگری کی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ یہاں مثال کے طور پر صرف الجزائر میں امیر عبد القادر الجزائری، وسط اشیا میں امام شامل اور ہندوستان میں علمائے دیوبند کی قبل از شکست اور بعد از شکست پوزیشنز کو سامنے رکھا جاسکتا ہے۔ تاہم حکمت عملی کی سطح پر مسلمان قیادت کی طرف سے حقیقت پسندی اور عملیت کی روش اختیار کیے جانے کے باوجود مسلم شعور اور اسلامی فکر میں سیاسی اقتدار کے زوال کا سوال ایک بنیادی مسئلے کے طور پر پوری قوت اور شدت کے ساتھ موجود ہے۔
اقتدار سے محرومی کا صدمہ جھیلنا فرد کے لیے بھی جانکاہ ہوتا ہے اور قوموں کے لیے تو کئی گنا بڑھ کر۔ بنی اسرائیل ایک چھوٹی سی سلطنت سے محروم ہوئے تھے، لیکن اس حقیقت کو ذہنی طور پر قبول کرنے میں صدیاں لگ گئیں۔ ہم نے تو خیر ایک دنیا کھوئی ہے اور ابھی کل کی بات ہے وقت تو لگے گا۔ لیکن بات یہ ہے کہ جب تبدیلی آجائے تو مذہب کے نقطہ نظر سے ایسی صورت حال میں کرنے کے کام دو ہوتے ہیں:
ایک وہ جو سیدنا مسیح نے کیا، یعنی اقتدار اور سیادت کی محبت میں ڈوبی ہوئی قوم کو معرفت ربانی کا اصل پیغام سنانا اور عبدیت کے اس جوہر کو زندہ کرنے کی کوشش کرنا، جس کا تعلق کسی فصل گل ولالہ سے نہیں۔ وہ ہر حالت میں انسانوں کو اپنے رب کے قریب کردیتا ہے۔
دوسرا وہ جو مادی صورت حال کے بارے میں ذہنوں کو حقیقت پسند بنانے کے حوالے سے مثال کے طور پر ہمارے ہاں سید احمد خاں نے کیا۔ اس کے انداز اور اسلوب سے اختلاف ہوسکتا ہے اور یہی کام ہمارے ہاں کافی مختلف انداز میں دیوبندی مکتبہ فکر کے بعض اکابر نے بھی کیا، لیکن مرکزی نکتہ ایک ہی ہے۔
ایسا نہیں کہ جدیدیت کی مزاحمت کے رویے کی دینی و اخلاقی یا نفسیاتی لحاظ سے کوئی اہمیت یا افادیت نہیں۔ بالکل ہے اور یہ رویہ بھی بہت قابل قدر ہے ، تاہم ہر گزرنے والی آن کے ساتھ یہ تاریخ کا حصہ بنتا چلا جا رہا ہے۔ جدیدیت سے نبرد آزما ہونے کے مواقع بھی پیدا کیے جاسکتے ہیں، اگرچہ اس کی عملی شرائط بظاہر دستیاب نظر نہیں آرہیں، لیکن اس نبرد آزمائی کے وسائل بھی جدیدیت ہی سے لینے پڑیں گے۔ روایت سے اجزا لینا ممکن ہے، لیکن وہ اس وقت فریم ورک نہیں دے سکتی۔ اسلامزم کا سارا پروجیکٹ اسی فارمولے سے عبارت ہے، یعنی روایت سے مختلف اجزا لے کر ان کو ایک نئی ترتیب سے مرتب کرنا۔ اس کے علاوہ بھی روایت کی بازیابی کا کوئی بیانیہ میرے علم میں نہیں جو اس فارمولے پر انحصار کرتا ہو۔
استعماری تجربے نے ہماری قومی نفسیات اور رویوں پر جو اثرات مرتب کیے ہیں، ان کا ٹھیک ٹھیک جائزہ لینے کی ابھی تک کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی۔ ان اثرات کو شناخت کے بحران کا جامع عنوان دیا جاسکتا ہے۔ اپنی تہذیبی شناخت ختم ہوجانے کے بعد استعمار زدہ معاشرے کرچیوں میں بکھر گئے ہیں اور ہر کرچی اپنی شناخت متعین کرنے کے وجودی سوال سے نبرد آزما ہے۔ مذہبی فرقہ واریت، روایت اور جدیدیت، مشرقیت اور مغربیت، اسلام پسندی او رسیکولرازم، قومیت پرستی اور پان اسلام ازم کے سارے تنازعات اسی بحران کے مختلف مظاہر ہیں۔ ستم یہ ہے کہ یہ ساری کرچیاں باہم اس طرح برسر پیکار ہیں جیسے ان کا اصل حریف ان کی مخالف کرچیاں ہوں، حالاں کہ وہ بھی انھی کی طرح ستم زدہ اور شناخت کی تلاش میں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی اختلاف کو محض فکر و نظر کے اختلاف کے طور پر دیکھنا ہمارے لیے ممکن نہیں رہا، کیوں کہ بظاہر معمولی سے اختلاف کے ساتھ بھی شناخت کی تعیین کا تحت الشعوری احساس جڑا ہوا ہے جسے انسانی شعور زندگی او رموت کے مسئلے کی طرح دیکھتا ہے۔ یوں فکری اختلاف کم و بیش ذاتی اختلاف بن جاتا ہے اور اس جبر کو محسوس کیے بغیر بڑے بڑے سنجیدہ اہل فکر اسی زاویے سے اظہارِ اختلاف پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔
اس رویے کی ایک خاص شکل یہ بھی سامنے آئی کہ اسلامی تاریخ کی مختلف شخصیات کو ساری آفات و بلیات کا ذمہ دار ٹھہرا کر کسی طرح ان کا ذکر اپنی کتاب تاریخ سے محو کردیا جائے یا کم سے کم لوگوں کو باور کرا دیا جائے کہ یہ یہ لوگ نہ ہوتے تو آج بھی ہم دنیا میں سرخ رو و سرفراز ہوتے۔ چنانچہ کسی نے محدثین کے طبقے کو ساری گمراہیوں کا ذمہ دار قرار دیا، کسی نے فقہی جمود کے عنوان سے فقہا کو اور کسی نے کچھ دوسری وجوہ سے بعض دوسرے طبقات کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اساتذہ مغرب سے سن کر بعض سادہ دلوں نے تو سائنسی ترقی کے خاتمے کا واحد ذمہ دار امام غزالی کو متعین کر دیا، جیسے یہ ا یک بندہ نہ ہوتا تو گلیلیو، نیوٹن اور آئن سٹائن مسلمانوں میں ہی پیدا ہوتے۔ جدیدیت کے خلاف سامنے آنے والے رد عمل میں یہی اسلوب بعض فکری حلقوں کی طرف سے برصغیر کی بعض محترم شخصیات نیز عالم اسلام کی کچھ معاصر شخصیات کے حوالے سے اختیار کیا گیا اور ’’انہدام شخصیات‘‘ کی ایک مہم چلائی گئی۔ یہ سمجھے بغیر کہ تاریخ جن شخصیات کا کوئی مقام طے کرتی ہے، بہت سوچ سمجھ کر کرتی ہے اور آسانی سے اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتی۔ سو آپ ایڑی چوٹی کا زور لگالیں اور دسیوں پروپیگنڈہ چلالیں، سرسید، شبلی، اقبال وگیرہ تاریخ مٰن وہیں کھڑے رہیں گے جہاں انھیں تاریخ نے کھڑا کیا ہے۔ یوسف القرضاوی اور مولانا تقی عثمانی کا جو مقام عالم اسلام کی علمی دنیا مانتی ہے، وہی مانتی رہے گی۔ کیوں کہ ایسی شخصیات سے اختلاف کیا جاتا ہے اور تاریخ اسے فراغ دلی سے قبول کرتی ہے، لیکن ’’انہدام شخصیات‘‘ کی کوششوں پر تاریخ ’’اونہہ‘‘ کہنا بھی گوارا نہیں کرتی۔
ہمارے خیال میں امت مسلمہ کی ایک مربوط فکری تاریخ مرتب کرنا بہت ضروری ہے اور اس کے ضمن میں ایسے اہل علم و مفکرین کی Contributions زیر بحث آنی چاہئیں، جنھوں نے در پیش سوالات و مباحث کے حوالے سے قابل توجہ یا قابل بحث نتائج فکر پیش کیے ہوں۔ اس کے بغیر محض انفرادی طور پر کسی بھی صاحب فکر کی فکری کاوشوں کا نہ تو درست تناظر سمجھا جاسکتا ہے اور نہ یہی متعین کیا جاسکتا ہے کہ وہ روایت کے ساتھ کتنا وابستہ ہیں اور کتنا اس میں اضافہ کیا یا اس سے منحرف ہوئے ہیں۔
ہمارے ہاں تنقید کے دو تین عمومی مناہج رائج ہیں۔
ایک منہج مولویانہ و مفتیانہ ہے جس کا بنیادی محرک اور ہدف روایتی حلقے سے باہر علمی و دینی حوالے سے نتائج فکر پیش کرنے والی ہر اس شخص کو مجروح ثابت کرنا ہوتا ہے، جو روایتی فکری حلقوں کا ’’متبادل‘‘ بننے کا خطرہ پیدا کرسکتی ہو۔ اس طبقے کے لیے کسی فکر کی علمی قدر و قیمت یا روایت کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کو سمجھنا یا اس سے استفادے کی محتاط او رمحفوظ صورتوں پر غور کرنا سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا ۔
ایک دوسرا منہج نسبتاً فکری مزاج کا حاصل ہے اور فکری و اصولی حوالے سے نئے افکار کا جائزہ لینے کا رجحان رکھتا ہے، لیکن عموماً اس کے ہاں محرکات تنقید Academic سے زیادہ ’’تحفظاتی‘‘ یا reactionary ہیں۔ ا س کے ہاں کسی مخصوص فکری Streamکو اصل اور مستند مان کر روایت کے باقی تمام رجحانات کو اس انداز سے Deal کرنے کا رجحان نمایاں ہے جیسے وہ راست فکر سے دوری کے مختلف مظاہرہیں۔ اس رجحان کے حامل بعض حلقوں کے نزدیک اسلامی روایت کے بعض ممتاز اہل فکر مثلاً شاطبی اور شاہ ولی اللہ بھی اصلا کسی نہ کسی انداز میں ’’جدیدیت‘‘ سے ہی متاثر ہوئے ہیں۔
ایک تیسرا منہج تنقید وہ ہے جس کا بنیادی مسلمہ یہ ہے کہ جدیدیت اپنی تمام تر شکلوں، مظاہر اور نتائج کے لحاظ سے قابل رد ہے، سو صحیح اور غلط کا بنیادی معیار ’’جدیدیت‘‘ سے موافقت یا مخالفت ہے۔
ان میں سے ہر منہج تنقید اپنی اپنی بنائے استدلال رکھتا ہے اور دنیائے فکر میں ظاہر ہے کہ اس طرح کے تنوع اور رنگارنگی سے ہی حسن پیدا ہوتا ہے۔ تاہم ان تینوں مناہج تنقید میں عموما، الا ماشاء اللہ، توجہ ’’مسئلے‘‘ سے زیادہ ’’صاحب مسئلہ‘‘ پر مرکوز کی جاتی ہے۔ میرے نزدیک ان کے پہلو بہ پہلو ایک متبادل منہج کو وجود میں لانے کی ضرورت ہے، جس میں حتی الامکان توجہ اور بحث کا مرکز ’’سوال‘‘ یا ’’مسئلہ‘‘ کو بنایا جائے اور کسی بھی نقطہ نظر کو روایت سے مربوط کر کے اور مسلم فکر کے اجتماعی ارتقا کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اس منہج کا فائدہ یہ ہے کہ کسی بھی نقطہ نظر سے اختلاف کی پوری گنجائش کے باوجود اس کی فکری Placement اور علمی اساسات کا فہم اور تجزیہ زیادہ بامعنی ہو جاتا ہے۔
ہمارے خیال میں کسی بھی معاصر فکر کا صحیح تجزیہ اس وقت تک نقد و نظر کی محکم اساسات پر استوار نہیں ہوسکتا جب تک کہ امت کی فکری تاریخ کا ارتقا اور مسائل و مباحث کا ربط بحیثیت مجموعی ہمارے سامنے نہ ہو۔ اس کے بعد ہی یہ سمجھنا صحیح معنوں میں ممکن ہوگا کہ دور جدیدیت میں پرانے یا نئے سوالات پر غور و فکر کرنے والے اہل فکر نے کیا راہیں اختیار کی ہیں۔ ان کے نتائج فکر کی کیا قدر و قیمت ہے اور ان میں استفادہ اور مزید ترقی کے امکانات کتنے ہیں۔
جدیدیت کے جواب میں مسلمان اہل فکر نے جو حکمت عملی اختیار کی، کئی پہلوؤں سے اس کی افادیت تسلیم کرتے ہوئے دو سوال بہرحال اٹھائے جاسکتے ہیں:
ایک مزاحمت کے لیے اہداف اور ترجیحات کا غیر حقیقت پسندانہ تعین یا دوسرے لفظوں میں میدان جنگ میں محاذ کا غلط انتخاب۔ جب سرحد پر دشمن کی یلغار شروع ہوتی ہے تو دفاع میں سمجھ دار جرنیل کو یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ حملہ آور طاقت کا کہاں تک آگے بڑھ آنا ناگزیر ہے اور کہاں اس کے خلاف موثر مزاحمت کی جاسکتی ہے۔ اگر اس کے بجائے ایک ایک انچ کے دفاع کی حکمت عملی اپنائی جائے گی تو وہ محاذ بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے جہاں مناسب تیاری سے مزاحمت کامیاب ہوسکتی تھی۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے دریا کے کنارے واقع بستی سیلاب کے خطرے سے دو چار ہو اور سارے اندازے بتا رہے ہوں کہ پانی کا بستی میں داخل ہونا اور ایک خاص سطح تک پہنچ کر رہنا طے ہے۔ اس کے باوجود بستی والے اپنے گھروں کے سامان اور مویشی وغیرہ کو کسی محفوظ جگہ منتقل کرنے کے بجائے پانی کو روکنے کے لیے دریا کے کنارے پر کچی اینٹیں چننا شروع کردیں۔
دوسرا قابل غور پہلو یہ ہے کہ جب بھی کسی سماجی اسٹرکچر میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو کئی مراحل سے گزر کر آتی ہے اور پہلے ہی دن حتمی طور پر یہ طے نہیں ہوتا کہ وہ تال کار فلاں اور فلاں شکل اختیار کرے گی۔ اس تشکیلی مرحلے میں کئی عوامل مل کر اسے کوئی خاص رخ دیتے ہیں اور اس میں ان لوگوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے جو ہاتھ بڑھا کر جام و مینا اتھا لینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ اس کے برخلاف اس مرحلے میں اس سے الگ تھلگ ہوکر یا کلی طور پر اس کے مزاحم بن کر کھڑے رہنے والے مثبت طور پر اس سارے عمل میں کوئی حصہ نہیں ڈال پاتے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نئے اسٹرکچر میں ان کا شمار پچھڑے ہووں اور پس ماندہ رہ جانے والوں میں ہو اور نئے ماحول سے شکایت اور گریز مستقل طور پر ان کی نفسیات کا حصہ بن جائے۔
ان دونوں غلطیوں کا باعث لمحہ موجود کی اسیری ہے، جو ایک طرف تو یہ صلاحیت سلب کرلیتی ہے کہ حالات کے رخ سے اس حقیقت کا پیشگی ادراک کیا جائے کہ کچھ تبدیلیوں کا عملا رونما ہوکر رہنا سلسلہ اسباب و عللہ کی رو سے طے ہے اور دوسری طرف نئی آنے والی تبدیلیوں کے ناپسندیدہ نتائج سے خوف زدہ کر کے ان مواقع اور امکانات سے بھی توجہ ہٹا دیتی ہے جن سے ممکنہ حد تک تبدیلی کا رخ کسی بہتر سمت میں موڑا جاسکتا تھا۔
مسلم معاشروں میں جدیدیت کی Penetration کا عمل ابھی جاری ہے، بہت سی تبدیلیاں آچکی ہیں اور بہت سی آنے والی ہیں۔ اگر ہمارے اہل فکر سابقہ حکمت عملی کے مذکورہ پہلوؤں سے کچھ سیکھ کر آئندہ کی حکمت عملی وضع کریں تو شاید ہم بحیثیت مجموعی کچھ بہتر نتائج حاصل کرسکیں۔lll