سپریم کورٹ میں زیر سماعت ایک مقدمہ کے سیاق میں سپریم کورٹ نے تین طلاق، حلالہ اور چار شادیوں پر مسلم پرسنل لاء بورڈ اور حکومت ہند سے اپنا اپنا موقف واضح کرنے والا ایک حلف نامہ طلب کیا تھا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کیوںکہ ہندوستان میں مسلمانوں کا متحدہ ادارہ تصور کیا جاتا ہے اس لیے سپریم کورٹ کا اس کی طرف رجوع ہونا اور دیگر اداروں کے بجائے اسی سے رائے طلب کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت بھی اسی کو معتبر سمجھتی ہے اور یہ توقع رکھتی ہے کہ بورڈ اسلام کی صحیح نمائندگی کرے گا۔ چناں چہ بورڈ نے اپنا حلف نا،مہ داخل کر دیا۔ اس کے بعد حکومت ہند نے بھی اپنا حلف نامہ کورٹ کو پیش کیا، جس میں تین طلاق، حلالہ اور چار شادیوں کو ختم کرنے کی بات کہی ہے۔ اس سے پہلے حکومت کے ذریعے قائم کردہ لاء کمیشن بھی ان امور میں اپنی سفارشات حکومت کو دے چکا تھا جس میں ان چیزوں کو دستور و قانون اور مساوات کے خلاف کہاگیا تھا۔
اس پورے تناظر اور سلسلہ واقعات نے ایک مرتبہ پھر یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ اور پرسنل لاء کے خاتمہ کو لے کر ملک میں پرانی بحث نئے انداز میں اور نئی سیاسی صف بندی شروع کردی ہے۔ حکومت کے حامی افراد اور اس کے زیر اثر کام کرنے والے ادارے یونیفارم سول کوڈ کی حمایت میں میڈیا کے ذریعے ذہن سازی اور پرسنل لاء کے خلاف رائے سازی میں جٹ گئے ہیں۔ یہ رائے اور ذہن سازی حقائق کی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاسی جذبات کی بنیاد پر کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں بے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ مسلمانوں کا تاثر یہ ہے کہ حکومت در اصل اس طرح سے مسلمانوں کو ان کے پرسنل لاء سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ بعض لوگ اسے آئندہ آنے والے ریاستی انتخابات میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ووٹ سمیٹنے اور ملک کے اہم اور بنیادی اشوز سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔
ملک میں پرسنل لاء یا یونیفارم سول کوڈ یہ دونوں ہی باتیں دستور ہند کی اسپرٹ کا حصہ ہیں۔ پرسنل لاء کی موجودگی بھی قانون کی فراہم کردہ اور دستور ہند کی بنیادی روح کا حصہ ہے اسی طرح یونیفارم سول کوڈ بھی دستور ہند میں موجود شق کے سبب ہی زیر بحث آتا ہے۔
دستور اور قانون کا مقصود و مطلوب ملک کے شہریوں کو آزادی کے ساتھ، قانون کے دائرے میں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کی آزادی و ضمانت دینا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حالات و کوائف کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی یا امڈمنٹ بھی ہوتا رہتا ہے۔ اس کی ایک مثال ملک میں موجود کچھ طبقات کے لیے رزرویشن کی خصوصی رخصت ہے جس کا مقصد ہے کہ ملک کے کمزور طبقات کو بھی عام انسانوں کے برابر لایا جائے۔ یہ ملک کے عام شہریوں کا حق ہے اور حکومتیں بھی پوری دنیا میں جہاں فرد کی آزادی کا احترام کرتی ہیں وہیں اپنے شہریوں کو بہتر زندگی فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرتی ہیں خواہ وہ کچھ طبقات کو خصوصی رعایتیں دے کر ہی کیوں نہ ہو۔
ہندوستان میں بھی ایسا ہی ہے۔ لیکن جب بات مسلمانوں کی آتی ہے تو کہیں نہ کہیں انہیں اس بات کا احساس کرایا جاتا ہے کہ ان کی مذہبی آزادی خطرے میں ہے۔ حالاں کہ ملک کے عام شہری اور دوسری ملکی اکائیوں کی طرح انہیں بھی اس بات کا قانونی حق ہے کہ وہ مذہبی آزادی ساتھ زندگی گزاریں خواہ اس کے لیے انہیں دیگر محروم طبقات کی طرح کچھ رعایتیں ہی کیوں نہ دینی پڑیں۔ بدقسمتی سے ملک میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کے برعکس موقع موقع سے مسلم پرسنل لاء اور یونیفارم سول کوڈ کے معاملے کو لے کر ایک قسم کے مذہبی عدم تحفظ کا احساس کرایا جاتا ہے۔ جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ ملک میں بسنے والی تمام مذہبی اکائیوں میں سے کسی کو بھی نہ چھیڑا جائے اور ان کے مذہبی امور سے کوئی تعارض نہ کیا جائے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی مذہبی اکائی کا کوئی بھی فرد اگر چاہے تو عدالت میں جاکر کسی خاص ضابطہ اور مذہبی معاملہ کو عملی طور پر چیلنج کرسکتا ہے اور ایسے میں مذہب، عدالت اور حکومت سب کا یہ فرض ہے کہ وہ اسے مطمئن کریں اور اس بات کا قائل کریں کہ اسے انصاف مل رہا ہے اور اگر مذہبی قانون اسے انصاف نہیں دیتا تو عدالت اسے انصاف دے۔ یہ ہر صورت میں ہوگا چاہے وزیر اعظم راجیو گاندھی ہوں یا نریندر مودی، مولانا فلاں صاحب ہوں یا مفتی فلاں صاحب!
مذہب یعنی پرسنل لاء اور انصاف کے طلب گار کے درمیان ٹکراؤ کی صورت میں پرسنل لاء کے محافظین کو یہ غور کرنا چاہیے کہ انصاف کا طالب کیا واقعی مذہب کے سبب چوٹ کھا رہا ہے یا کسی ایسی چیز کے سبب جو مذہب کے نام پر مذہب میں شامل کردی گئی ہے یا مذہب کی غلط پریکٹس یا مذہب کے ذریعے فراہم کردہ سہولت کے غلط استعمال کے سبب ہوئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو مذہب ہی رہ نماؤں کو ایک طرف تو لوگوں کو مذہب کی تعلیمات کے سلسلے میں اگاہی فراہم کرنی چاہیے۔ دوسری طرف مذہب کو انسانوں کے لیے بیڑیاں نہیں بننے دینا چاہیے ورنہ بغاوت لازم ہے۔ ہمارے دین کی یہود و نصاریٰ کے برخلاف یہی خوبی ہے کہ وہ انسانوں کو سہولت اور وسعت دیتا ہے نہ کہ تنگی اور پریشانی۔ اور اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ الٰہی دین وہی ہے جو جذبات کے ساتھ ساتھ عقل و عمل کسی کسوٹی پر بھی پورا اترے۔
جہاں تک ہندوستان میں مسلمانوں کے پرسنل لا کے سلسلے میں کام کرنے والے ادارے کا معاملہ ہے تو اسے بڑی حد تک ہندوستان کے عام مسلمانوں کا اعتماد حاصل ہے اور اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پرسنل لاء کے سلسلے میں معتدل، اجتماعی اور قرآن و حدیث پر مبنی شرعی اصولوں کی طرف حکومت اور عوام کی رہ نمائی کرے گا۔ اسی طرح ہم اس بات کی بھی توقع کرتے تھے مذکورہ بورڈ عام سیاست دانوں کی سیاسی مفاد پرستی کی روش کے برخلاف مذہبی رہنما کا کردا رادا کرے گا اور کوئی سیاسی کشمکش پیدا کرنے کے بجائے اسلامی نظام کی برتری اور عملیت کے ساتھ ساتھ اس کی ضرورت و اہمیت کو ملک کے ہر طبقہ کے سامنے پیش کرے گا۔
مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور بورڈ نے شریعت اور قرآن و حدیث کی نمائندگی کرنے کے بجائے ایک خاص فقہی مذہب کی نمائندگی کی اور کرتا رہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ عوام کو شریعت اسلامیہ کی عملیت اور اس کے اصول و ضوابط کے سلسلے میں بیداری لانے کی طرف سے غافل رہا ہے۔ اور اب تو عجیب کیفیت معلوم ہوتی ہے کہ بورڈ کی قیادت سیاسی پارٹیوں کی طرح مسلمانوں کے جذبات کو ابھا رکر حکومت کے خلاف مورچہ کھولنے کی دھمکی دے رہی ہے۔ اور وہ بھی ان امور کو لے کر جن میں اللہ تعالیٰ نے وسعت رکھی ہے۔
اسلام کے نام پر اسلام کو ہی پیش کرنا بورڈ کی ذمہ داری ہے اور مسلمانوں کی ضرورت بھی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بورڈ کی قیادت ’’سیاسی پنگے بازی‘‘ کے بجائے اہل وطن کے سامنے اسلام کے عائلی نظام کی برتری ثابت کرنے کے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اسلام اور مسلمانوں کی صحیح تصویر پیش کرتی مگر افسوس کہ وہ تین طلاق جیسی بدعت اور حلالہ جیسی لعنت کے دفاع کے لیے حکومت کو للکار رہی ہے۔ نتیجہ کیا ہوگا یہ بھی واضح ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح شاہ بانو کیس میں بورڈ نے زبردست اور بے مثال تحریک چلائی مگر ہوا وہی جو وہ نہیں چاہتے تھے۔ اس تحریک کا نتیجہ حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کے الفاظ میں ’’کھودا پہاڑ نکلی چوہیا‘‘ جیسا ہوا۔ اور اس وقت بھی بورڈ کی قیادت کا جو انداز نظر آتا ہے وہ اسی طرح کے نتائج کا خدشہ ظاہر کرتا ہے۔ lll