مشترک خواہش

غزالہ عزیز

ہر انسان کی ایک خواہش مشترک ہوتی ہے اور وہ یہ کہ زندگی پرسکون انداز میں گزر جائے۔ وہ چاہے سبزی اور ردی کاریڑھا چلانے والا ہو یا کارخانے اور ملیں چلانے والا… گھر کی چار دیواری میں زندگی گزارنے والی کوئی عورت ہو یا کسی دفتر یا اسکول کا انتظام چلانے والی۔ سب ہی کی یہ تمنا ہوتی ہے۔ لیکن یہ تمنا بر آنا مشکل ہوتا ہے۔ سکون و اطمینان ہر ایک کو میسر آنا آسان نہیں۔ سب ہی اس کے لیے کوششیں کرتے ہیں۔ کوئی مال و اسباب کے ذریعے اس تک پہنچنا چاہتا ہے، کوئی آرائش اور خوب صورتی کے درجے بلند کر کے اسے حاصل کرنا چاہتا ہے، کوئی شہرت اور ناموری کو اس کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ اللہ کی طرف رجوع اور اس کا ذکر وہ ذریعہ ہے جو اس تمنا کو پورا کرتا ہے۔ جو لوگ اللہ سے محبت کرتے ہیں، ان کے دل اس کی یاد میں مصروف رہتے ہیں۔ لیکن یہ مصروفیت انہیں دنیا کے کاموں سے روکتی نہیں ہے۔ وہ اپنا دل اپنے خالق کو دے دیتے ہیں اور جسم مخلوق کی خدمت کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔

حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کہتے ہیں: ’’مبارک ہے وہ شخص جس کے دل میں خدا کی محبت کے سوا کسی اور کی محبت نہ ہو اور وہ اس کے سوا کسی اور کا طالب نہ ہو۔ پس ایسا شخص اللہ کے ساتھ ہے اگرچہ ظاہر میں خلق کے ساتھ مشغول ہے۔‘‘

محبت کے حصول کا ذریعہ بھی بتا دیا گیا کہ ہر نیک عمل خالص اللہ کے لیے اور اس کی محبت کے حصول کے لیے کیا جائے۔ ابو ادریس خولانی کا مشہور واقعہ ہے، کہتے ہیں: ’’میں مسجد دمشق میں داخل ہوا، ایک شخص پر نظر پڑی جن کے دانت چمک دار تھے۔ لوگ ان سے اپنے اختلافات میں رجوع کر رہے تھے۔ لوگوں سے پوچھا یہ کون ہیں بتایا گیا صحابی رسولؐ حضرت معاذ بن جبلؓ ہیں۔ میں اگلے دن سویرے مسجد پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا آپ مجھ سے پہلے آچکے ہیں اور نماز ادا کر رہے ہیں۔ میں نے ان کی نماز ختم ہونے کا انتظار کیا۔ پھر ان کو سلام کر کے کہا: خدا کی قسم میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ انہوں نے پوچھا: ’’کیا خدا کے لیے؟‘‘ میں نے کہا ہاں خدا کے لیے۔ انہوں نے دوبارہ پوچھا، میں نے دوبارہ یہی کہا۔ پھر انہوں نے میری چادر کا کنارا پکڑا اور مجھے اپنی طرف کھینچا اور فرمایا: ’’خوش خبری حاصل کرو، بے شک میں نے رسول خداؐ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جو لوگ میرے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور میرے لیے ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں اور میرے لیے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اور میرے لیے مال خرچ کرتے ہیں ان سے محبت کرنا میرے لیے واجب ہے۔‘‘ (موطا)

اللہ سے بڑھ کر اپنے قول میں کون سچا ہوسکتا ہے؟ اپنے دل میں اللہ کی محبت جانچنے کا ذریعہ بھی بتا دیا گیا کہ محب جس قدر ہوگی اطاعت کرنا بھی اسی قدر آسان ہوگا۔ کوئی مشکل رب کی اطاعت کی راہ کی رکاوٹ نہیں بنے گی۔ یہ نہیں کہ آزمائش یا امتحان نہیں لیا جائے گا۔ وہ سب کچھ موجود ہوگا، لیکن اللہ سے محبت کرنے والا انہیں خاطر میں نہیں لائے گا۔ یوں دنیا کی ہر حقیقت، مشکل اور پریشانی کا علاج بھی اللہ کی محبت میں موجود ہے۔

مولانا روم حب الٰہی کو تمام بیماریوں کا علاج بتاتے ہوئے کہتے ہیں:

شاد باش اے عشق خوش سودائے ما

اے طبیبِ جملہ علت ہائے ما

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں