مظلوم کون؟؟

شیخ سمیہ تحریم بنت امتیاز احمد

عورت ہر دور میں ایک مظلوم ہستی رہی ہے اور یہ سچ ہی ہے۔ ہر دور میں عورت کا استحصال ہوتا رہا ہے بیوی، بیٹی یا ماں ہر روپ میں پھر بھی اسے وہ احترام و محبت مل ہی جاتی ہے جس کی وہ نفسیاتی جذباتی طور پر مستحق ہوتی ہے لیکن تمام روپ سے ہٹ کر سماج میں ایک لڑکی کو زیادہ مسائل کا شکار اس وقت ہونا پڑتا ہے جب وہ خوابوں کے ایک جہاں سے گذرتی ہے اور ایسے میں اس کے خوابوں کو، عزت نفس کو پامال کیا جاتا ہے۔ اسے خوبصورتی ، جہیز کے معیار میں تولا جاتا ہے اس کی سیرت، اس کی خوبیوںکو پرکھنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ مردوں کے اس گھٹن زدہ معاشرہ میں توصیف عالم اس سے زیادہ پڑھ ہی نہیں پایا، کسی خاتون کا تحریر کردہ مضمون تھا جس میں عورتوں بالخصوص لڑکیوں کے متعلق سماج میں روا رکھے جانے والے سلوک کو اس پر سوز انداز میں تحریر کیا گیا تھا کہ بس آنکھیں نم ہوجائیں لیکن توصیف عالم تو بس صدمے کی کیفیت میں اس مضمون کو دیکھتا رہا۔ آپ کیا سمجھے …؟؟ میں توصیف عالم کئی بیٹیوں کا والد ہوں اور اس تلخ حقیقت سے دلبرداشتہ …!! جی نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں … او ہو … نہیں ‘ نہ ہی میری کوئی تین چار عدد غیر شادی شدہ بہنیں ہیں جو مجھ پر بوجھ ہیں، یا جن کی ذمہ داری مجھ غریب کے ناتواں کاندھوں پر ہے۔ بالکل بھی نہیں… پھر آپ سوچ رہے ہوں گے اس صدمے کی وجہ کیا ہے؟؟ نہ ‘ نہ صاحب میں کوئی سماج سدھارک نہیں اور نہ ہی کسی ایسی تنظیم کا حساس ممبر ہوں جو ان سوشل ایشوز پر آواز اٹھاتی ہے اور نہ ہی کوئی مفکر… او ہو ‘ آپ پھر غلط سمجھے، میں کسی بڑی سی فیملی کا سربراہ بھی نہیں کہ خاندان کی ہر لڑکی کی فکر مجھے ہو اور میں اس قسم کے فکر انگیز مضمون کو پڑھ کر صدمے کا شکار ہوجائوں۔

اب رہنے دیجئے میں ہی بتادیتا ہوں… میں ’توصیف عالم‘ …۲۷ سالہ تعلیم یافتہ ‘ قبول صورت برسرروزگار، اور الحمدللہ ایک دیندار نوجوان ہوں… اب یہ تو مت سمجھئے کہ میں کوئی اشتہار دے رہا ہوں… میں نے آپ کو اپنی وہ خوبیاں بتائی ہیں جو میرے خیال سے لڑکوں میں دیکھی جاتی ہے… ہاں ‘ تو بات ہورہی تھی اس مضمون کی… میں لڑکیوں کی اس درجہ مظلومیت‘ اور ان کے استحصال کا ضرور دل سے قائل ہوتا ‘ لیکن اس وقت جب میں خود اس مظلومیت کا شکار نہ ہوتا۔ ہاں ٹھیک ہے، اب ایسا بھی نہیں ہے کہ مجھے اس سے اختلاف ہے، یہ سچ ہے کہ آج اس اکیسویں صدی میں بھی عورت بے شمار مظالم کا شکار ہے اور یہ ظلم اس پر کئی حیثیتوں سے کئے جاتے ہیں۔ بحر حال یہ ایک الگ موضوع ہے اور میں اس کے تحت بولنے کے موڈ میں نہیں… اس وقت تو بس دکھی دل کے ساتھ ہوں ۔۔۔حیران کیوں ہوتے ہیں!!

اچھا… آپ سوچ رہے ہوں گے ایک برسر روزگار نوجوان کو کیا دکھ؟ ارے نہیں کوئی فیملی پرابلم نہیں…دکھ تو یہ ہے کہ میرے خواب ٹوٹے ہیں‘ عزت ِ نفس کو روندا گیا ہے…

اب آپ کی اس مسکراہٹ پر میں ناراض بھی ہوسکتا ہوں… کیوں …؟ آپ کو کیا لگتا ہے خواب صرف لڑکیاں ہی دیکھتی ہیں، نازک جذبے کیا صرف لڑکیوں کے ہی ہوتے ہیں!! اور ٹھکرائی صرف لڑکیاں ہی جاتی ہیں!!۔۔۔ جی نہیں۔۔۔ ہم لڑکے اور مرد بھی خواب دیکھتے ہیں، حساس، خوش کن جذبات رکھتے ہیں، ردکیے جانے کا دکھ سہتے ہیں۔ صنف قوی ہونے کا یہ مطلب تو ہرگز ہی نہیں کہ بندہ احساسات و جذبات کی دنیا سے بالاتر ہوتا ہے!!

ذرا ایمانداری سے بتائیں کہ کتنی مرتبہ والدین اور یہ مظلوم لڑکیاں، ہمیں مختلف وجوہ کی بناء پر ریجکٹ کردیتی ہیں اور اگرکوئی ایک بار بھی کسی لڑکی کو ریجکٹ کیا جاتا ہے تو ساری مظلومیت اس کے لئے ہوتی ہے، ماں باپ دل برداشتہ ہوتے ہیں کہ اب یہ رسوائی ہمارے لئے ہی ہے کہ ہم لڑکی کے ماں باپ ہیں۔ لڑکی کی حساسیت جاگ اٹھتی ہے کہ ہاں میں تو شوپیس ہوں جس کا جی چاہا ٹھکرادیا… تو جناب پھر ہم کیا تھے؟؟ اپنے اطراف کتنے نوجوانوں کو میں نے دیکھا ہے جو ٹھکرائے گئے، ردکیے گئے … میں توصیف عالم بھی انہی میں سے ہوں…

جی… مسئلہ یہ ہے کہ آپ صرف تصویر کے ایک رخ کو ہی دیکھتے ہیں اور پھر لڑکیوں کی مظلومیت کا ‘ لڑکی کے ماں باپ کے دکھوں کا پرچار کرتے ہیں۔ دوسرا رخ کون دیکھے گا؟ میرا جی چاہتا ہے کہ ان لڑکیوں اور ان کے ماں باپ کی مظلومیت کا نعرہ لگانے والوںکو جھنجھوڑوں کہ دیکھو سچ یہ بھی ہے‘ خوابوں کا ٹوٹا جہان یہاں بھی ہے…

دیکھئے… یوں خود سے قیاس آرائیاں مت کیجئے‘ پہلے مجھے سن لیجئے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مجھے کوئی جہیز کا لالچ تھا! کسی حور پری کی تمنا تھی!! اور یہ مطالبات مکمل نہ ہوسکنے کی بناء پر میں ریجکٹ کردیا گیا… جی نہیں! اب ہر بندہ ایسا نہیں ہوتا… اکثر لڑکے یہ جانتے ہیں کہ وہ جنت میں نہیں بلکہ زمین پر رہتے ہیں جہاں پر بندہ کو حور پری نہیں ملتی… مجھے بھی یہ سب کچھ نہیں چاہئے تھا میں ایسی خواہش نہیں رکھتا۔ سیدھا سادہ بندہ ہوں… بس ایک قبول صورت،معیاری تعلیم، دیندار شریک سفر کا خواہش مند تھا… اور افسوس یہی میرا قصور تھا…

حیران مت ہوئے سچ کہہ رہا ہوں… مجھے ایسی وجوہ پر ریجکٹ کیا گیا کہ میں دنگ رہ گیا۔

اگر کوئی مجھے اس لئے رد کرتا اکہ میں کرپٹ ہوں، میرا کیریکٹر اچھا نہیں، میری تعلیم کچھ خاص نہیں، میری جاب غیر اطمینان بخش ہے، میرا مستقبل تاریک ہے، میں دین سے دور ہوں یا پھر میری فیملی اچھی نہیں تو شاید میں صبر کرلیتا… یہ مان لیتا کہ بہت ممکن ہو کہ یہ کسی حد تک سچ ہو لیکن یقین مانئے ایسا کچھ نہیں… انہیں اس بات کا اعتراف ہوتا ہے کہ میں باکردار ہوں، ویل ایجوکیٹیڈ ، ویل جاب ہوں، فیملی بیک گرائونڈ بھی اچھا ہے، مگر ا نہیں اس پر اعتراض ہے کہ میں نے شادی بیاہ کی بے جا رسوم ادا کرنے سے انکار کردیا تھا اور اسی اعتراض کی بناء پر میں رد کردیا گیا !! بھئی ان کی بھی معاشرہ میں عزت تھی وہ کیسے اپنی بیٹی کو خالی ہاتھ یوں ہی روانہ کردیتے، نمود و نمائش نہ کرتے… ! میں اس بنیاد پر بھی ریجکٹ کیا گیا کہ میری تین بہنیں ہیں۔۔۔ او ہو اب یوں مذاق نہ اڑائے۔۔۔ سچ ہی بتا رہا ہوں۔ لوگ اپنی بیٹی کے لئے تین ظالم نندوںکو نہیں چاہتے تھے۔۔۔یہ کیسے اعتراضات ہوتے ہیں۔۔۔ ’ظالم نندیں‘ جابر ساس‘ خونخوار سسر‘لوگ یہ سب نہیں چاہتے۔۔۔ اور چھوٹی فیملی چاہتے ہیں؟ چھوٹی فیملی سے کیا اخذ کرتے ہیں یہ تو وہ ہی بہتر جانیں۔۔۔ اجی جناب کسی دارالامان یتیم خانے سے اپنی بیٹی کے لئے کوئی پسند کریں نا۔۔۔معاف کیجئے گا۔۔۔غصہ آگیا تھا۔

لیکن آپ ہی بتائیں یہ کہاں کا انصاف ہے؟

اور آپ یہ جن لڑکیو ںکو سارے جہاں کا مظلوم ثابت کرتے ہیں نا… یہ سب ممکن ہے پہلے کبھی ہوتا ہو لیکن آج کی لڑکیوں کا دماغ عرش پر ہے۔ ٹی وی سیریلوں ، ہندوستانی فلموں اور ناولوں نے انہیں ایک ناپائیدار اور سرابوں کے کسی جہاں میں پہنچادیا ہے۔ انہیں ٹی وی سیریلیوں میں دکھایا جانیوالا لائف اسٹائل و کلچر پسند ہے اور وہ کسی ایسے ہی کی تمنا کرتی ہیں جو انہیں ویسا لائف اسٹائل مہیا کرسکے اور یوں میری اچھی خاصی سیلری کی بھی کوئی ویلیونہ رہی ۔ انہوں نے اپنے آئیڈیل تراش رکھے ہیں۔

بندہ اسمارٹ ،ہینڈسم ، چارمنگ ہو کسی بالی ووڈ، ہالی ووڈ کے ہیروکی طرح ۔ ناولو ںکی زبان میں کہوں تو کسی یونانی دیوتا کی طرح اپولو کا مجسمہ …!

مسکرائیے مت۔۔۔ بڑی تلخ حقیقت ہے کہ آج والدین سے لے کر لڑکیوں تک سب کا معیار بدل گیا ہے۔۔۔ ان کے بڑے ہی اعلی ترین معیار ہیں جس کی تلاش میں وہ ہر رشتہ ریجیکٹ کئے جاتے ہیں اور پھر وقت گذرنے کے ساتھ معیار کم ہوتا جاتا ہے لیکن ہر چوائس پوری نہیں ہوتی ہے اور جو مل جائے ان کے معیار بلند ہوتے ہیں، مفاد پرست ہوتے ہیں اور تب ان معصو م و مظلوم لڑکیوں کی حساسیت سر اٹھاتی ہے۔۔۔ انہیں ٹھکرائے جانے کا ، خودکو جہیز میں تولنے کا ، سیرت کے بجائے صورت کو ہی دیکھے جانے کا دکھ ہونے لگتا ہے!! اور وہ اپنے طے کردہ ماضی قریب کے معیار کو بھول جاتی ہیں۔

یوں طنزیہ انداز سے مت دیکھئے… میں نے ایسا کب کہا کہ لڑکے ان سب سے بالاتر ہیں، میں تو بس آپ کو تصویر کا دوسرا رخ بتا رہا ہوں… مانتا ہوں کہ لڑکیوں میں بھی سب اس قسم کی سوچ نہیں رکھتے لیکن مشکل یہ ہے کہ اگر عرصہ پہلے یہ تعداد کم تھی تو اب تیزی سے بڑھ رہی ہے… اسباب …؟؟

اوہ رہنے دیں میں کسی فکری بحث میں نہیں جانا چاہتا۔بس مجھے تو اپنا دکھ بانٹنا تھا۔

اور آپ… آپ تو بس غیر جانبداری سے فیصلہ کریں کہ یوں لڑکیوں کو ہی مظلوم حالات کی ماری، مردوں کے گھٹن زدہ معاشرہ کا شکار ثابت کرنے کی یہ کوشش کہاں تک درست ہے؟؟

کیا ہم مظلوم نہیں…؟!!

فیصلہ آپ کے ہاتھ…lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں