ایسے لوگ بھی دیکھے گئے ہیں جن کی زبانیں ’’معاف کیجئے’’ کہتے نہیں تھکتیں، اور ’’سوری‘‘ جن کا تکیہ کلام ہوتا ہے، مگر جب ماحول گرم ہوتا ہے، اور واقعی معافی مانگنے کا وقت ہوتا ہے تو معافی مانگنے اور معاف کرنے کو اپنی آن اور ناک کا مسئلہ بنالیتے ہیں۔ حالانکہ عفو ودرگزر سے ناک تو کسی کی نہیں کٹتی ہے، ٹوٹے ہوئے دل ضرور جڑ جاتے ہیں۔
اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے بھی اور تعلقات کو بنائے رکھنے کے لئے بھی آدمی کو معافی مانگنے اور معاف کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے، جب انسان کی ’’میں‘‘ بیمار اور متورم ہوجاتی ہے، تو اسے معافی مانگنا بہت دشوار لگتا ہے۔ داراصل یہ تصور جتنا عام ہے اتنا ہی غلط بھی ہے کہ معافی مانگنے کا مطلب جھک جانا، ذلیل ہوجانا اور اپنی ہار مان لینا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ معافی مانگنے والا ہارے ہوئے رشتے کو دوبارہ جیت لینے کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ رشتے داروں کو ہراکر رشتوں کو جیت لینا ناممکن سی بات ہے، البتہ ضرورت پڑنے پر اپنے نفس کو ہراکر رشتوں کو جیت لینا دوہری کامیابی ہوتی ہے۔
یاد رکھنے کی بات ہے کہ زیادتی کرنے والا عام لوگوں کی نگاہ سے بچ جائے تب بھی اس کے نزدیک تو قابل حقارت ہو ہی جاتا ہے جس کے ساتھ اس نے زیادتی کی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ زیادتی کرنے والا خود اپنے ضمیر کے سامنے بھی چھوٹا ہوجاتا ہے، اور کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ خدائے علیم وخبیر سے کسی کا عمل مخفی نہیں رہتا ہے۔ اس لئے ذلت کی اس کیفیت سے نکلنے کا راستہ یہی ہے کہ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو اس سے بہترین طریقے سے معافی مانگ لی جائے، بس اسی طرح کھویا ہوا وقار واپس آسکتا ہے۔
بحث وتکرار کے دوران بارہا ایسا بھی ہوتا ہے، کہ آپ کا موقف بالکل درست ہوتا ہے، لیکن لہجے کی ذرا سی تیزی، آواز کی تھوڑی سی بلندی ، دوسرے شخص کے مقابلے میں آپ کی کم عمری اور بحث میں اس کا لاجواب ہوجانا، یہ سب کچھ دوسرے کے لئے تکلیف کا سبب بن جاتا ہے، سو کتنا اچھا ہو اگر آپ اپنے برحق ہونے پر اللہ کا شکر ادا کریں اور یہ سوچ کر دوسرے فریق سے معافی مانگ لیں کہ اس کے دل کو اس بحث میں ٹھیس پہونچی ہے جس میں آپ شریک تھے، اور اس کی تکلیف کو آپ دور کرسکتے ہیں، اس طرح تعلقات کی خوشگواری لوٹ آئے گی اور آپ کو وہ خوشی حاصل ہوگی جو صرف اور صرف تکلیف دور کردینے والے مسیحا صفت انسانوں کو حاصل ہوا کرتی ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ مصالحت کی کوششوں کے دوران اکثر ایک فریق یہ تسلیم ہی نہیں کرتا ہے کہ اس سے کوئی غلطی ہوئی ہے، اور دوسرا فریق اس وقت تک نرم نہیں پڑتا جب تک اس سے معافی نہیں مانگی جائے۔ اس طرح ریلیف کا کام آگے نہیں بڑھ پاتا اور ایک طرح کا ڈیڈ لاک آجاتا ہے۔ رشتوں کے بگاڑ کو دور کرنے کے لئے اس ڈیڈ لاک سے باہر نکلنے کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس کے لئے اچھے اوصاف کے بجائے بہت زیادہ اچھے اوصاف کو اختیار کرنا ضروری ہوجاتا ہے، اور جو ان اعلی خوبیوں کو اپنالیتا ہے، وہی رشتوں کی دنیا کا فاتح عظیم قرار پاتا ہے۔
غلطی ہونے اور غلطی ثابت ہوجانے پر معافی مانگ لینا خوبی ہے، جو کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ عام طور سے تو لوگ اپنی کھلی ہوئی زیادتیوں اور بے پردہ غلطیوں کو بھی تسلیم کرنا عار سمجھتے ہیں، تاہم غلطی نہیں ہو تب بھی محض رشتوں کو نباہنے اور روٹھوں کو منانے کے لئے بغیر غلطی کے معافی مانگ لینا بہت اعلی وصف اور نہایت کارگر نسخہ ہے۔
معافی مانگنے والے کو معاف کردینا بھی ایک خوبی ہے، بہت سارے لوگ تو ایسے سخت دل اور اڑیل ہوتے ہیں کہ لاکھ معافی مانگو ان کے دل نہیں پسیجتے، لیکن اس سے بھی اعلی درجے کی خوبی یہ ہے کہ غلطی کرنے والا معافی نہ مانگے اور پھر بھی آپ اسے معاف کردیں۔
غلطی کے بغیر معافی مانگ لینا، اور معافی مانگے بغیر معاف کردینا رشتوں کے حوالے سے اس لئے بھی پسندیدہ روش ہے کہ عام طور سے تعلقات کے بگاڑ میں دونوں پارٹیوں کا کچھ نہ کچھ ہاتھ ہوتا ہے، کسی کی غلطی کم ہوتی ہے تو کسی کی زیادہ، اور کسی کی نمایاں ہوتی ہے تو کسی کی پوشیدہ، دوسروں سے ہی نہیں بلکہ کبھی کبھی اپنے آپ سے بھی پوشیدہ، ایسے میں سب کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، اور اگر خود کو معصوم اور دوسرے کو قصور وار ثابت کرنے کی محنت طلب کوشش کے بجائے معافی مانگنے اور معاف کرنے میں دونوں کی طرف سے تیزی دکھائی جائے تو رشتوں کا بگاڑ بہت جلدی دور ہوجاتا ہے۔
اگر کوئی شخص آپ سے معافی مانگتا ہے، تو سمجھئے کہ وہ آپ کے دل کو راحت پہونچانے کے لئے اپنے دل پر بڑا جبر کرتا ہے، اور ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے اندر زخمی زخمی سا ہوجاتا ہے، ایسے میں صرف اسے معاف کردینا کافی نہیں ہے، بلکہ آگے بڑھ کر اسے گلے لگانا اور اس کے دل کو آرام پہونچانا بھی آپ کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اگر ایک فریق معافی مانگنے میں پیش قدمی دکھائے تو دوسرے فریق کو معاف کرنے میں گرم جوشی دکھانا چاہئے۔
ناراض اور دل برداشتہ ہوکر رشتوں کو ختم کردینے میں جلدی دکھانا ایک بزدلانہ روش ہے، بار بار معافی مانگ کر اور ہر بار معاف کرکے رشتوں کے سفر کو خوب صورتی کے ساتھ جاری رکھنا ہمت اور بہادری کی بات ہے۔ خوشگوار زندگی گزارنے کے فاتحانہ انداز کچھ ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔lll