آج جزا و سزا کا فیصلہ پاجامے پر ہوگیا۔ جس کا پاجامہ ٹخنوں سے نیچے لٹکے گا اللہ رب العزت ایسے شخص کو بغیر حساب کتاب کے جہنم میں اٹھا کر پٹخے گا۔‘‘ منچلے نے نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بعد مولوی صاحب کے بیان کا خلاصہ چہکتے انداز میں اپنے دوستوں سے کیا۔
کچھ دوست اس کی بات سن کر مسکرادیے۔ منچلے کے دوستوں کی محفل میں مولوی صاحب کا ایک معتقد بھی بیٹھا ہوا تھا، وہ سوکھے ایندھن کی طرح بھڑک اٹھا:
’’میاں مولانا صاحب کی بات کا مذاق اڑاتے ہو، کفر پر موت ہوگی، جانتے ہو۔‘‘
وہ شہادت کی انگلی دکھا کر بولا: ’’مولوی صاحب نے وارننگ دی ہے کہ جو بھی شخص ٹخنوں سے اوپر پاجامہ پہننے والوں کے خلاف زبان کھولے گا، اس کی موت کفر پر ہوگی۔ یقینا ہوگی۔ قسم اللہ کی کفر پر ہی موت ہوگی۔‘‘
معتقد کا چہرہ بھٹی میں جلتے ہوئے کوئلے کی طرح سرخ ہوگیا تھا۔ وہ منچلے کا گریباں پکڑنے کے لیے کھڑا ہوگیا۔ معاملہ پاجامے کی لٹکن سے گریبان پر ہاتھ ڈالنے تک پہنچ جائے گا یہ کسی کےگمان میں نہیں تھا۔ فوراً منچلے کے تین چار دوست کھڑے ہوگئے۔ معتقد کی بانہہ پکڑی۔ ایک بولا : ’’ارے یار! اتنا ناراض کیوں ہو رہے ہو، ہم سب تو جینس پینٹ والے ہیں۔‘‘
یہ سنتے ہی معتقد اور بھڑک اٹھا، پھر شہادت کی انگلی دکھا کر مخاطب ہوا: ’’سنو! آج مولانا صاحب نے سب کو وارننگ دے دی ہے جس کا پاجامہ، پینٹ، شلوار، تہمد جو بھی ستر چھپانے کے لیے وہ پہنتا ہے اگر وہ ٹخنوں کے نیچے ہے، سمجھ جاؤ وہ جہنم میں گیا اور میرا ایسے جہنمیوں سے کوئی سرکار نہیں، یہ میرا فیصلہ ہے۔ کان کھول کر سن لو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی شہادت کی انگلی کو مٹھی میں دبایا اور پاؤں پٹختے ہوئے محفل چھوڑ کر چلا گیا۔ منچلے کے دوستوں نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔
مولوی صاحب کے ایسے کئی معتقد تھے جو ان کی بات پر آنکھ ہی نہیں کان بھی بند کرکے بھروسہ کرلیتے اور اس پر ثابت قدم رہتے۔ ثابت قدم رہنے میں چند ایسے بزرگ بھی شامل ہیں جن کے قدم راستے پر ڈگمگاتے ہوئے پڑتے ہیں۔ ہاں، ایک بات صد فی صد سچ ہے کہ مولوی صاحب کے معتقدین میں کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہے۔ کچھ معتقدین تو ایسے بھی ہیں جن سے شریف لوگ بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔
بہرحال مولوی صاحب کی بات پر من و عن عمل کرنے والوں نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ جس کا لباس ٹخنوں کے نیچے دیکھا اس سے قطع تعلق کرلیا۔ پہلے ہی گاؤں کے مسلمان اور شہروں، قصبوں میں بسنے والے مسلمانوں کی طرح مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے تھے۔ اب ٹخنوں کے نیچے ، اوپر پاجامے، پینٹ، شلوار، تہمد کے مسئلہ پر اور تقسیم ہوگئے۔
دوسرا کام معتقدین نے یہ کیا کہ اپنے اپنے پاجامے، پینٹ، شلوار وغیرہ درزی کے پاس لے گئے اور انہیں ٹخنوں کے اوپر کٹوایا۔ ایک معتقد نے تو حد ہی کردی اسے ٹخنوں اور گھٹنوں میں کنفیوژن ہورہا تھا۔ لوگوں نے اسے سمجھایا بھی کہ پنجوں کے اوپر کے پہلے جوڑ کو ٹخنہ کہتے ہیں اور دوسرے جوڑ کو گھٹنا۔ مگر اس نے لوگوں کی بات یہ کہہ کر رد کردی کہ ’’میں مولی صاحب سے پوچھوں گا وہ میرے پاؤں کے جس جوڑ کو ٹکنا (ٹخنہ) کہیں گے میں اسے ہی ٹکنا مانوں گا، تمہاری بات میں کیوں مانوں، میں تو مولی صاب کی بات پر امل (عمل) کرنے والا پکا اور سچا مسلمان ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مولانا کی تلاش میں نکل پڑا، مگر مولوی صاحب سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی۔ اضطرابی کیفیت سے دوچار وہ درزی کے پاس پہنچا اور طیش میں اپنا پاجامہ اتنا کٹوادیا کہ اس کا پاجامہ نیکر بن گیا۔ جسے پہن کر وہ جب مولوی صاحب کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور پوچھا ’’مولی صاب! دیکھئے میرا پاجامہ! اب جنت میں جانے کی میری پھل گارنٹی (فل گیارنٹی) ہے نا!‘‘
مولوی صاحب اس کا حلیہ دیکھ کر مسکرائے اور بولے : ’’بھلے آدمی! میں نے تو ٹخنوں سے اوپر پاجامہ پہننے والوں کے لیے جنت کی بشارت دی تھی، یہ تم نے کیا کرڈالا!گھٹنوں کے اوپر تک پاجامہ کٹوالیا! یہ تو گناہ ہے۔ گناۂ عظیم۔ جاؤ فوراً دوسرا پاجامہ ٹخنوں کے اوپر پہن کر آؤ۔‘‘
مولوی صاحب کی زبان سے ’’گنائہ عظیم‘‘ سن کر معتقد سرتا پا لرز گیا۔ شراب پیتے وقت جیسی اس کی کیفیت ہوتی تھی ویسی ہی تھرتھراہٹ اس کے اندر پیدا ہوگئی تھی۔
کپکپاتی آواز میں وہ کہنے لگا: ’’مولی صاب! میں نے اپنا پاجامہ کٹوانے سے پہلے آپ کو بھوت (بہت) ڈھونڈا ، مے کو (مجھے) گھٹنے اور ٹکنے (ٹخنے) کا پھرک (فرق) نہیں مالوم (معلوم) تھا نا۔ اس لیے گلتی (غلطی) ہوگئی، مولی صاب، گلتی ہوگئی۔‘‘ وہ ہاتھ جوڑ کر گڑگڑاتے ہوئے بولا: ’’اللہ مجھے ماپ (معاف) کردے گا نا!‘‘
مولوی صاحب بےنیازی سے بولے: ’’ہاں— ہاں، جاؤ، اللہ غفور الرحیم ہے۔ وہ غلطیوں کی پکڑ نہیں کرتا۔ معاف کردیتا ہے۔ اللہ تمہیں معاف کردے گا۔‘‘ مولوی صاحب نے اس انداز میں اپنا فیصلہ معتقد کو سنادیا جیسے وہ اللہ کی عدالت کے جج ہیں۔
معتقد فرماں بردار غلام کی طرح سر جھکا کر چلا گیا اور مولوی صاحب کا سربانگ دیتے ہوئے مرغ کی طرح تن گیا۔