دنیا میں کوئی ملّت ایسی نہیں ہوگی جو تضادات سے پاک ہو، لیکن جدید مغربی دنیا نے تضاد کو اصولِ حیات بنا رکھا ہے۔
جدید مغرب کا آغاز آزادی، مساوات اور عقل کی بالادستی کے تصورات کے ساتھ ہوا تھا، لیکن مغربی دنیا نے 19 ویں، 20 ویں صدی اور 21 ویں صدی کے آغاز کو غلامی، عدم مساوات اور عقل دشمنی کا اشتہار بنا رکھا ہے۔ مغرب جب 19 ویں صدی میں ساری دنیا میں آزادی اور مساوات کا نعرہ لگا رہا تھا ٹھیک اسی وقت وہ دنیا کے مختلف خطوں میں اپنے نوآبادیاتی دور کا آغاز کررہا تھا۔ اہلِ مغرب کہہ رہے تھے: ہم سفید فام ہیں، ہم مہذب ہیں اور ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم غیرمہذب قوموں کو مہذب بنائیں۔ اہلِ مغرب جب یہ کہہ رہے تھے تو اْن کے سامنے دنیا کی بڑی بڑی تہذیبیں تھیں۔ ایسی تہذیبیں جو خود اہلِ مغرب کو تہذیب سکھا سکتی تھیں۔ ایک جانب اسلامی تہذیب تھی جس کے علمی سرمائے کے بغیر مغرب، مغرب نہیں بن سکتا تھا۔ دوسری جانب چینی تہذیب تھی جس کی عمر ڈھائی ہزار سال سے زیادہ تھی اور جس نے علوم و فنون میں کارہائے نمایاں انجام دیے تھے۔ تیسری جانب ہندو تہذیب تھی جس کے پاس الٰہیات، فلسفے اور آرٹ کی بہت بڑی روایت تھی۔ لیکن مغرب کے اہلِ علم کے تکبر کا یہ عالم تھا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے علوم و فنون کی کتابوں کا ایک شیلف باقی تہذیبوں کے مجموعی علم سے زیادہ ہے۔ یہ تکبر کی انتہا تھی اور تکبر کے بارے میں پوری انسانیت کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ متکبر شخص یا قوم مہذب ہو ہی نہیں سکتی۔ لیکن مسئلہ محض تہذیب کے سلسلے میں اہلِ مغرب کے تکبر کا نہیں تھا، مسئلہ یہ بھی تھا کہ ان کا تہذیبی تکبر ان کے نوآبادیاتی دور کی بنیاد بن رہا تھا۔ اہلِ مغرب ایک جانب آزادی کا نعرہ بلند کررہے تھے اور دوسری جانب وہ عسکری اعتبار سے کمزور قوموں کو اپنا غلام بنارہے تھے۔ ایک جانب وہ مساوات کا پرچم بلند کررہے تھے اور دوسری جانب عدم مساوات کو اصولِ حیات بنارہے تھے۔ ایک جانب وہ کہہ رہے تھے کہ وہ دلائل و براہین کےدور یاAge of Reason کے نمائندہ ہیں اور دوسری جانب وہ خلاف ِ عقل کاموں کا انبار لگا رہے تھے۔ ان کی عقل کچھ اور تو کیا، انسانیت، تہذیب اور علوم و فنون میں اظہار کے تنوع کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ ان کی عقل انہیں صرف ایک بات بتا رہی تھی اور وہ یہ کہ ہم طاقتور ہیں اور ہمیں کمزوروں کو اپنا غلام بنانے کا پورا حق ہے۔ لیکن کیا عقل کی اس سے بڑی توہین بھی ہوسکتی ہے کہ اسے دوسروں کو غلام بنانے کا آلہ باور کرلیا جائے! اس سلسلے میں اقبال نے ایک بنیادی بات کہی ہے، انہوں نے کہا ہے:
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ ملاّ ہے نہ زاہد نہ حکیم
عقل اور عشق کے سلسلے میں اقبال کی یہ تحقیق درست ہے۔ عقل وحی کی بالادستی کا انکار کرتی ہے تو وہ انسانوں کے ساتھ کھیل کھیلنے والی قوت بن جاتی ہے۔ لیکن مغرب جس عقل پرستی کا ترجمان بن کر سامنے آیا تھا اس کے دائرے میں عقل انسانوں کے ساتھ کھیلنے والی قوت نہیں تھی بلکہ وہ انسانوں کے ساتھ کھیلے جانے والے کھیلوں کو ختم کرنے والی طاقت تھی۔ لیکن مغرب نے عقل کے تصور کا غلط استعمال کیا اور اسے طاقت کا آلہ کار بناکر چھوڑ دیا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ عقل کو اصولی طور پر جنگوں کو روکنے والی قوت ہونا چاہیے، لیکن مغربی طاقتوں نے 20 ویں صدی میں ایک نہیں دو عالمی جنگیں لڑیں۔ ان جنگوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان جنگوں میں کسی غیر مغربی طاقت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو مغرب کے تصورِ آزادی ، تصورِ مساوات اور تصورِ عقل پرستی سے نمودار ہونے والی دنیا اور نظام کا کھوکھلا پن پوری طرح سے عیاں ہے۔
لیکن مغرب کے پیدا کردہ عالمی نظام کا کھوکھلا پن صرف یہیں تک محدود نہ رہا۔ دو عالمی جنگوں نے لیگ آف نیشن کی جڑیں ہلا دیں اور اس کی جگہ اقوام متحدہ کے نام سے ایک نیا ادارہ وجود میں لایا گیا۔ لیکن یہ ادارہ بھی کہنے کو نیا تھا، ورنہ اس کی ساخت، اس کی تخلیق کی پشت پر موجود نفسیات اور اس ادارے کے اہداف پرانے تھے۔ ایسا نہ ہوتا تو اس ادارے کے دو حصے نہ ہوتے۔ یعنی ایک حصہ جنرل اسمبلی اور دوسرا حصہ سلامتی کونسل۔ اہلِ مغرب نے کمال یہ کیا کہ جنرل اسمبلی کو تقریری مقابلے کا ادارہ بنادیا اور سارے اختیارات سلامتی کونسل کے ہاتھ میں دے دیے۔ مگر سلامتی کونسل پر پانچ بڑوں کا قبضہ ہوگیا۔ ان پانچ بڑوں کی مرضی کے بغیر سلامتی کونسل کچھ نہیں کرسکتی۔ تجزیہ کیا جائے تو مغرب آزادی کا عَلم بردار تھا اور اقوام متحدہ کی تشکیل آزادی کے تصور کی نفی کرتی ہے۔ مغرب جمہوریت کا قائل ہے اور اقوام متحدہ کی تشکیل غیر جمہوری ہے۔ مغرب مساوات کا پرچم بردار ہے اور اقوام متحدہ مساوات کے اصولوں کی دھجیاں اڑانے والا ادارہ ہے۔ مغرب عقل کا پرستار ہے اور اقوام متحدہ کی تشکیل میں عقل کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ مغرب آئے دن اخلاقی اصول، اخلاقی اصول کرتا رہتا ہے مگر اقوام متحدہ کی تشکیل کی پشت پر کوئی اخلاقی اصول بھی موجود نہیں۔ اقوام متحدہ کی پشت پر صرف ایک چیز موجود ہے: طاقت۔ لیکن اگر ایسا ہے تو مغرب کو اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔ لیکن مغربی دنیا اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے بجائے اقوام متحدہ کو ایک جمہوری فورم باور کراتی رہتی ہے۔ مغربی دنیا تاثر دیتی ہے کہ اقوام متحدہ نے اقوام عالم کے تنازعات کے حل کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے بڑے عالمی تنازعات کو حل کرانا تو دور کی بات، ان کے حل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ اس کی دو بڑی مثالیں کشمیر اور فلسطین کے مسائل ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی تعداد میں اضافے کی ضرورت ہے اور اس میں امتِ مسلمہ کی بھی نمائندگی ہونی چاہیے۔ لیکن سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی تعداد میں اضافے سے جمہوریت کی نہیں طاقت کے اصول کی پاسداری ہوگی اور سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی تعداد بڑھنے سے جابر ملکوں کی تعداد بڑھے گی۔ مغرب کو اگر اپنے اصولوں سے ایسی ہی محبت ہے تو وہ اقوام متحدہ کو جمہوری بنائے تاکہ ایک منصفانہ اور مساویانہ عالمی نظام کی راہ ہموار ہوسکے۔
مغربی دنیا آزاد تجارت کا نعرہ لگاتی ہے، لیکن آزادانہ تجارت کا تصور ایک دھوکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب دنیا میں سرمائے اور ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا مرکز ہے اور دوسری طرف وہ اقوام ہیں جو سرمائے اور ٹیکنالوجی سے محروم ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ڈالر کی دنیا 55 ہزار ارب ڈالر کی دنیا ہے۔ یورپی کرنسی یورو دنیا میں 23 ہزار ارب یورو کا سرمایہ اور اثاثے رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مغربی دنیا تقریباً70 ہزار ارب ڈالر کے سرمائے اور اثاثوں کی دنیا ہے۔ اس کے مقابلے پر جاپانی کرنسی ین صرف 17ہزار ارب ڈالر کی دنیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس منظرنامے میں آزادانہ تجارت کس طرح ممکن ہے؟ چین کے پاس اس وقت تقریباً4 ہزار ارب ڈالر مالیت کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں مگر اس کی کرنسی دنیا میں کہیں موجود نہیں۔ یہی حال روس کے روبل کا ہے۔ اس صورت حال نے کسی اور کے لیے کیا چین کے لیے بھی مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ وہ ایک حد سے زیادہ اپنی معیشت اور مالیات کو لبرلائز کرتا ہے تو سرمائے پر اس کی گرفت کمزور پڑتی ہے، اور چین اپنی معیشت اور سرمائے کی آزادانہ نقل و حمل کی اجازت نہیں دیتا تو وہ مغرب سے مقابلے کی پوزیشن میں نہیں آتا۔ لیکن مغرب کا عالمی معاشی بندوبست صرف آزاد تجارت کے حوالے سے ڈھکوسلہ نہیں ہے، بلکہ اس نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے اداروں کے ذریعے کمزور ملکوں کی معیشتوں کو قرضوں کی معیشت بناکر اپاہج بنا رکھا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب مذکورہ دائرے میں بھی ہمیں آزادی، مساوات، عقل پرستی اور منصفانہ مقابلے کا قائل نظر نہیں آتا۔ اور اس کا وضع کردہ عالمی نظام کھوکھلا اور استحصالی ہے۔
مغرب کے عالمی نظام کے عالمی تماشے کا ایک دائرہ ایٹمی صلاحیت ہے، اور ایٹمی صلاحیت کے مجرمانہ استعمال کے سلسلے میں امریکہ کا ریکارڈ سب سے خراب ہے، اس لیے کہ اْس نے جاپان کے خلاف ایک بار نہیں دو بار ایٹم بم استعمال کیا۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ کیا، پوری مغربی دنیا ایٹمی صلاحیت پر سانپ بن کر بیٹھ گئی۔ مغرب میں سب سے پہلے ایٹمی صلاحیت امریکہ کے ہاتھ لگی اور اْس نے یہ صلاحیت خود برطانیہ اور فرانس کو دی۔ ایٹمی صلاحیت خطرناک ہے تو یہ ایٹمی صلاحیت کا خطرناک پھیلائو تھا، لیکن چونکہ برطانیہ اور فرانس امریکہ کے اتحادی اور مغربی دنیا کا حصہ تھے اس لیے انہیں ایٹمی صلاحیت فراہم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا گیا۔ روس نے ایٹمی صلاحیت امریکہ سے چوری کرالی اور چین کو یہ صلاحیت روس سے منتقل ہوئی، مگر کہیں شور برپا نہ ہوا۔ یہاں تک کہ 1974ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکا کر ڈالا، مگر مغرب اس پر چونکا بھی نہیں، اس لیے کہ وہ بھارت کو ایٹمی طاقت بنانے کے عمل میں شریک تھا، لیکن جیسے ہی پاکستان کے ایٹم بم بنانے کی خبر عام ہوئی مغرب میں ایک زلزلہ آگیا۔ امریکہ اور یورپ کے بم کو کسی نے عیسائی بم نہ کہا۔ روس اور چین کے بم کو کسی نے کمیونسٹ بم کا نام نہ دیا۔ بھارت کا ایٹم بم ہندو بم نہ کہلایا، مگر مغرب نے پاکستان کے ایٹم بم کو اسلامی بم کا خطاب عطا کردیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کا ایسا تعاقب شروع کیا جو ہنوز جاری ہے۔ اس دوران اسرائیل ایٹم بم بنا چکا ہے اور وہ مشرق وسطیٰ کی واحد ایٹمی طاقت ہے لیکن امریکہ کو اسرائیل کے ایٹم بموں کے وسیع ذخیر ے پر کوئی تشویش نہیں، لیکن پاکستان کیا اسے ایران، یہاں تک کہ سعودی عرب کے اس ایٹمی پروگرام پر بھی تشویش ہے جو ابھی کہیں موجود ہی نہیں۔ امریکہ نے 2008ء میں بھارت کے ساتھ سول جوہری صلاحیت کے دائرے میں ایک سمجھوتہ کیا تھا۔ پاکستان نے اس سمجھوتے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت اس سمجھوتے کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا۔ لیکن امریکہ نے پاکستان کی اس تشویش کو لائقِ اعتنا نہ سمجھا، تاہم اب اطلاع آئی ہے کہ میسور میں موجود بھارت کا ایٹمی پلانٹ ایک سال میں 160کلو یورینیم افزودہ کرسکتا ہے، اور یہ مقدار اتنی بڑی ہے کہ اس سے نہ صرف یہ کہ بھارت کے طیارہ بردار جنگی جہازوں کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں بلکہ بھارت اس افزودہ یورینیم کو ’’تھرمو نیوکلیئر ہتھیار‘‘ بنانے کے لیے بھی استعمال کرسکتا ہے جو روایتی ایٹم بم سے کہیں زیادہ تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔
جمہوریت اور جمہوری نظام کے سلسلے میں مغرب کی مکاری اور منافقت بھی اب پوری طرح طشت ازبام ہوچکی ہے۔ مغرب خود کو جمہوریت کا عَلم بردار کہتا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ وہ پوری دنیا میں جمہوریت کو عام ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا میں اسلامی تحریکیں جمہوریت کے ذریعے اقتدار میں آنے کے لیے کوشاں ہیں اور مغرب اپنے مقامی آلہ کاروں کے ذریعے اسلامی تحریکوں کا راستہ روک رہا ہے۔ مغرب نے الجزائر میں اسلامی تحریک کا راستہ روکا۔ مغرب نے فلسطین میں حماس کی جمہوری فتح کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ مغرب نے ترکی میں نجم الدین اربکان کو اقتدار سے نکلوایا اور اب وہ رجب طیب اردگان کے خلاف سازشیں کررہا ہے۔ مصر کی مثال سب سے بڑی ہے جہاں صدر مرسی کی حکومت ہی ختم نہیں کی گئی بلکہ اخوان المسلمون کو القاعدہ کی سطح پر لاکھڑا کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسلامی تحریکیں انتہا پسند ہیں، مگر کیا اسرائیل میں بنجامن نیتن یاہو انتہا پسند نہیں؟ اور کیا بھارت میں نریندر مودی انتہا پسندی کی علامت نہیں؟ لیکن مغرب نے نیتن یاہو کی حکومت کو بھی تسلیم کیا ہے اور نریندر مودی کی حکومت کا بھی خیرمقدم کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب اس دائرے میں بھی مکر، فریب، جھوٹ اور پروپیگنڈہ سے کام لے رہا ہے مغرب کی اس مذموم دوہری پالیسی کے پیش نظر واضح طور سے ہا جاسکتا ہے کہ انتہا پسند اسلامی تحریکیں نہیں خود مغرب ہے۔