جانتے ہو مفلس کون ہوتا ہے؟ یہ سوال نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا تھا۔
صحابہ کرامؓ نے جواب دیا: ہمارے ہاں تو مفلس وہ ہوتا ہے جس کے پاس روپے پیسے اور (دنیاوی) ساز و سامان نہ ہو۔
آپﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن میری امت کا وہ فرد مفلس ہوا جو نماز،روزے اورزکوٰۃ لیے ہوئے آئے گا۔ (یعنی اس نے دنیا میں اسلام کے فرائض و واجبات ادا کیے ہوں گے) لیکن ساتھ ساتھ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایاہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو ایک ایک متاثرہ فرد کو اس (ظالم) کی نیکیوں سے ادائیگی کی جائے گی۔ اگر اس کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو متاثرین کے گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے اور اسے جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔‘‘ (مسلم)
اسلام کی تعلیمات سے لاعلمی کی وجہ سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نماز اور روزے کی پابندی کرلیں تو زندگی کے باقی معاملات جیسے چاہے انجام دیتے رہیں، کوئی حساب کتاب نہ ہوگا۔ اسلام کے بارے میں یہ بالکل ناقص اور ادھورا تصور ہے۔ اسلام نے حقوق العباد کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کی طرح حقوق العباد کی بھی معافی نہیں ہے۔ اگر کسی نے کسی انسان پر کسی بھی طریقے سے ظلم کیا ہوگا، اس کا حق چھینا ہوگا تو اسے اس ظلم کا بدلہ دینا ہوگا۔ بدلہ دیے بغیر کسی کی بھی جان نہیں چھوٹے گی۔
اس بات کو رسول پاکﷺ نے بڑی تاکید کے ساتھ اس تمثیل سے سمجھایا کہ قیامت کے روز حساب کتاب اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا جب تک ایک سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری پر زیادتی کا بدلہ نہ دلوادیا جائے۔
یہاں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ کوئی بھی انسان دنیا میں تنہا زندگی نہیں گزار سکتا۔ ہر انسان اپنی زندگی کے ہر کام، ہر موڑ اور ہر مرحلے پر دوسرے انسانوں کا محتاج ہوتا ہے، لیکن کوئی بھی کام کرنے اور قدم اٹھانے سے پہلے ہر انسان کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ میرے اس عمل سے کسی دوسرے کا حق متاثر تو نہیں ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ کہیں اپنے مفاد کی خاطر کسی دوسرے کے حقوق کو پامال کرتا پھرے۔
مسلمانوں کو معاشرتی زندگی کے لیے ایک ہدایت تو یہ دی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کے ساتھ مومنانہ کردار کا مظاہرہ کریں۔ اسی طرح دوسری ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اہل ایمان تمام انسانوں سے بھی بہ حیثیت انسان خواہ وہ کوئی بھی اور کچھ بھی ہوں مومنانہ اخلاق کا برتاؤ کریں اور انسانی حیثیت سے کسی کا بھی حق نہ ماریں۔ چناں چہ ایک حدیث میں آپؐ نے واضح طور پر ارشاد فرمایا جب کسی نے سوال کیا کہ ایک عورت نفل نماز اور نفل روزوں اور صدقہ کے لیے مشہور ہے لیکن اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی ہے۔ آپ نے فرمایا وہ جہنم میں جائے گی۔ پوچھنے والے نے کہا کہ ایک عورت ہے جو نفل روزے نماز اور صدقہ میں اس سے کم ہے لیکن کسی کو اپنی زبان سے تکلیف نہیں دیتی۔ آپ نے فرمایا کہ وہ جنت میں ہوگی۔ واضح رہے کہ پڑوسی کوئی بھی ہوسکتا ہے اور ضروری نہیں کہ مسلمان ہی ہو۔
اسلام کے علاوہ دنیا کے کسی بھی مذہب کا دامن ایسی روایت سے خالی ہے کہ وہ انسان کے ساتھ سب سے پہلے بہ حیثیت انسان اچھے سلوک کی تاکید کرتا ہے۔ یہ صرف اسلام ہی ہے جس نے اتنی رحم دلی اور سخاوت دکھائی ہے کہ انسان تو انسان ہیں جانوروں تک کے ساتھ تشدد اور برے سلوک کو ختم کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے مخالفین نے بھی کھلے دل سے اس سچائی اور حقیقت کا اعتراف کیا۔ جناب نبی کریم سید انسانیت حضرت محمدﷺ اور اسلام کے بارے میں معروف عالمی مفکرین نے اپنی زبانوں سے وہ سچ بولا، جس کی گواہی ان کے دلوں نے دی۔ معروف برطانوی مفکر برناڈشا نے کہا: ’’اگر پیغمبر اسلام (ﷺ) کو آج کی دنیا کا حکمراں بنا دیا جائے تو ساری دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے۔‘‘
پہلی حدیث مبارکہ میں معاشرے کے ہر فرد کے لیے سبق موجود ہے کہ وہ ہر وقت اپنی ذات کا محاسبہ کرتا رہے اور حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کے لیے بھی حساس اور بے دار رہے اور محض نماز اور روزے کی پابندی اور تسبیحات ہی کو نجات کا ذریعہ نہ سمجھ بیٹھے۔ فرائض کی پابندی تو اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اس حق کی ادایگی کے بغیر اسلام کا دعویٰ بے معنی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے حق کے ساتھ بندوں کے حقوق کی ادایگی بھی ضروری ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے مجموعے ہی کا نام اسلام ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وہ سرکاری افسران جنہیں حکومت تنخواہ دیتی ہے کہ وہ عوام کے مسائل حل کریں اگر وہ اس میں کوتاہی کرتے ہیں یا رشوت کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ بھی حقوق العباد میں کوتاہی کے مرتکب خیال کیے جائیں گے۔ اسی طرح ایک مزدور جو کسی اجرت پر آیا ہے اگر وہ اجرت کے باوجود کام میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ بھی حق تلفی کا مرتکب ہے۔ اسی طرح وہ انسان جو کسی مزدور کو اس کی پوری مزدوری نہیں دیتا یقینا بندے کا حق مارتا ہے۔
ہمیں یہ بات ذہن نشیں کرلینی چاہیے کہ اگر ہم کسی کا حق مار کر چند روپے بچا لیتے ہیں تو دنیا میں تو شاید دولت جمع کرلیں لیکن قیامت کے روز اپنے تمام نیک اعمال کے باوجود اس وقت مفلس ہوجائیں گے جب وہ لوگ ہمارے خلاف کھڑے ہوں گے جن کا حق مارا یا جنہیں کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچائی ہوگی۔lll