ملازمت پیشہ خواتین: چند مسائل اور مشورے

افروز عنایت

آج کی عورت مرد کے شانہ بشانہ چلنے کی ہمت اور عزم رکھتی ہے۔ نہ صرف گھر کے اندر بلکہ وقت آنے پر گھر کے باہربھی اپنے فرائض کی انجام دہی میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتتی۔ آج کل مہنگائی کا دور ہے جس کی وجہ سے خواتین بھی کسی نہ کسی روزگار سے وابستہ ہوکر اپنے گھر کی گاڑی کو کھینچنے کے لیے اپنے مردوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ اس لحاظ سے تیس سے پینتیس فیصد خواتین ملازمت کرتی نظر آتی ہیں۔ کچھ خواتین شوقیہ، کچھ اپنی تعلیم کو کام میں لانے کے لیے، اور زیادہ تر خواتین اپنے معاشی حالات کو سہارا دینے کے لیے ملازمت کرتی ہیں۔ چاہے کسی بھی غرض سے عورت ملازمت کر رہی ہو، اسے کچھ نہ کچھ مسائل اور پریشانیوں کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔

شوقیہ ملازمت کرنے والی خواتین جن میں سے اکثر کا تعلق ظاہر ہے خوش حال گھرانوں سے ہی ہوتا ہے، انہیں اتنے مسائل در پیش نہیں ہوتے، کیوں کہ اکثر کے پاس کل وقتی گھریلو ملازم ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے گھر سے بالکل بے فکر ہوتی ہیں، لیکن بچے ضرور متاثر ہوتے ہیں، یعنی ان کی تعلیم و تربیت کے لیے ماں کو وقت نکالنا لازم ہے، خصوصا ان خواتین کے لیے جو خود دس گھنٹے کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں۔ یا تو گھر میں نانی، دادی ہوں جو خلوص دل سے بچوں کی تربیت کریں، یا پھر آج کل اکثر ایسی مائیں بچوں کو ڈے کیئر سینٹر میں داخل کراتی ہیں جہاں چھ، سات ماہ تک کے بچوں کی دیکھ بھال صحیح ہو جاتی ہے، لیکن اگلا مرحلہ بچوں کی تربیت کا ہوتا ہے جہاں ضروری نہیں کہ ہر ڈے کیئر سینٹر میں بچوں کی اعلیٰ تربیت کے لیے ماہر خواتین موجود ہوں۔ ایک خاتون جو ملازمت کے سلسلے میں دس گھنٹے باہر گزارتی ہیں ان کے چھ سالہ بچے کو میں نے دیکھا۔ اس کے انداز کو، اس کی سرگرمیوں کو، اس کی شرارتوں کو دیکھ کر مجھے اس میں بہت کمی نظر آئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ڈے کیئر میں اپنا وقت گزارتا ہے۔ میں نے ایک بات نوٹ کی ہے کہ سب سے زیادہ متاثر انہی خواتین کے بچے ہوتے ہیں جو زیادہ وقت اپنی ملازمت میں گزارتی ہیں۔ اس سلسلے میں، میں ایک لڑکی کا حوالہ ضرور پیش کروں گی تاکہ ایسی مائیں خبردار رہیں، یہ نہ ہو کہ انجانے میں کسی بڑے نقصان سے انہیں دو چار ہونا پڑے۔ نویں کلاس کی یہ بچی میری ہی اسکول وین میں آنے لگی۔ اتفاقاً وین والا صبح مجھے پہلے اٹھاتا اور واپسی میں میرے بعد ڈرائیور اسے چھوڑتا۔ ایک دن صبح اسکول پہنچے تو اس ڈرائیور نے مجھے روکا اور کہا ’’میڈم میں آپ سے دو منٹ بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں رک گئی۔ بچے وین سے اتر گئے تو مجھ سے کہنے لگا ’’میڈم کل کو بات بگڑ گئی تو آپ اسکول والے مجھے مورد الزام ٹھیرائیں گے کہ میں نے آپ لوگوں کو اطلاع کیوں نہیں دی۔ آپ کے جانے کے بعد دو جگہ بچے اترتے ہیں، ان بچوں کے اپارٹمنٹ کے گیٹ پر لڑکے کھڑے ہوتے ہیں جو اس بچی کو خط دیتے ہیں، یہ بھی انہیں دیتی ہے۔‘‘

یہ بات تشویش ناک تھی، لہٰذا میں نے HM سے بات کی۔ انھوں نے اس کی والدہ کو بلایا اور ان کو تمام واقعہ گوش گزار کیا۔

لڑکی کی والدہ کہنے لگی ’’میرا پارلر ہے، میں صبح دس سے رات دس بجے تک وہیںہوتی ہوں۔ شوہر بھی شام سات بجے آتے ہیں۔ یہ چار سے سات بجے تک کوچنگ سینٹر میں ہوتی ہے، سات بجے شام کو اس کے والد کوچنگ سینٹر سے اسے لیتے ہوئے آتے ہیں۔‘‘ جب بچی سے HM اور والدہ نے باز پرس کی تو پتا چلا کہ وہ اکثر ان لڑکوں کے ساتھ ملتی جلتی ہے اور وہیں سے چار بجے سینٹر چلی جاتی ہے۔

تب میڈم نے اس کی والدہ کو کہا کہ بچی سے غفلت برتنے کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے، اس عمر کے بچوں کو تو ماں باپ کی خصوصی توجہ اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے نہیں مل رہی۔ آپ کے پارلر سے زیادہ اس کو آپ کی ضرورت ہے۔

…٭…

عام طور پر ہمارے معاشرے میں یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین اپنے گھر بار کو زیادہ وقت اور توجہ نہیں دے پاتیں۔ اس سلسلے میں، میں نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی اور جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ یہ رائے ہر ایک کے لیے دی جائے تو غلط ہے، ہاں چند ایک خواتین کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے اور اس کی بھی کچھ وجوہات ہیں۔ پہلی اہم بات ہے گھر والوں کی معاونت۔ اگر ملازمت کرنے والی خاتون کو اپنے گھر والوں کی معاونت حاصل ہوگی تو اسے کم سے کم مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یعنی غیر شادی شدہ ہے تو ماں باپ اور بہن بھائیوں کا تعاون، اور شادی کے بعد سسرال اور شوہر کا تعاون حاصل ہونا لازمی ہے۔

ایک بچی جو شادی سے پہلے بہت اچھی جگہ ملازمت کر رہی تھی، اس نے شادی کے بعد اس ملازمت کو برقرار رکھنا چاہا لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا اور اسے ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا، کیوں کہ وہ صبح آٹھ بجے گھر سے نکلتی اور بینک کی ملازمت کی وجہ سے رات ساڑھے سات، آٹھ بجے گھر پہنچتی تو اس کے حصے کا بہت سارا کام اس کا انتظار کر رہا ہوتا۔ کچن کے تمام کام اس کے ذمے تھے، شادی سے پہلے تو وہ آرام سے آتی والدہ اسے تیار کھانا پیش کرتیں، لیکن اب حالات یکسر بدل گئے تھے۔ پہلے گھر میں ماں تھی اور اب ساس۔ حمل کی وجہ سے وہ اس قابل نہیں تھی کہ یہ سب کر سکے، لہٰذا اس نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا، کیوں کہ اس بچی کو ایسا کوئی بڑا معاشی مسئلہ نہ تھا، لیکن وہ خواتین جو مجبوراً معاش کی وجہ سے گھر سے نکل رہی ہیں، وہ ایسے گمبھیر حالات میں بھی ملازمت کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں، چاہے ان کی صحت کو نقصان ہو یا کوئی تکلیف۔ لہٰذا اس سلسلے میں ضروری ہے کہ ایسی خواتین کے ساتھ ان کے شوہروں کی طرف سے خصوصی تعاون ہو۔ شوہر کی طرف سے دو لفظ تعریف یا حوصلے کے، اس عورت کے لیے ٹانک کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اس سلسلے میں اپنی ایک بہن کی مثال دوں گی۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے ملازمت ہو یا گھر داری یا بچوں کی تربیت… ہر موقع پر شوہر کی طرف سے حوصلہ افزائی اور تعریف نے نہ صرف تقویت بخشی بلکہ آگے بڑھنے کے لیے راہیںہموار کیں، اس لیے میں فراخ دلی سے اس بات کا اعتراف کرتی ہوں کہ میں نے نہ صرف بڑے آرام دہ ماحول میں ملازمت کی، بلکہ مجھے میرے شوہر کی ہر قدم پر رہ نمائی بھی ملی۔ ایک اور خاص بات کی میری بہن تعریف کرتی ہیں وہ یہ کہ ان کے شوہر ان کی اعلیٰ تعلیم اور عہدے پر کشادہ دلی سے فخر کرتے ہیں۔ یہ بات بہت کم مردوں میں پائی جاتی ہے، بلکہ کچھ مردوں کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کی زوجہ چاہے ان کی مدد کے لیے اور بوجھ کم کرنے کے لیے بخوشی ملازمت کرتی ہو لیکن شوہر صاحب انا کا مسئلہ بنائے پھرتے ہیں کہ ’’اسے تو گھر سے نکلنے کا شوق ہے، مجھے تو اس کی ملازمت کی ضرورت ہی نہیں، ہزاروں لاکھوں خواتین اپنی کفایت شعاری اور سگھڑ پن سے قلیل آمدنی میں گزارہ کرلیتی ہیں لیکن ہماری زوجہ کو بڑے لوگوں سے مقابلے کی عادت ہوگئی ہے۔‘‘

ایک خاتون نے مجھے اپنے شوہر کے بارے میں یہ بات بتائی تو مجھے انتہائی دکھ ہوا۔ اس نے بتایا کہ مجھے اکثر اپنے شوہر کی جلی کٹی باتیں سننا پڑتی ہیں لیکن صرف اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور مستقبل کے لیے ہر حالت میں مجھے ملازمت برقرار رکھنی پڑ رہی ہے۔ ان حالات میں یہ میرا حوصلہ ہے اور رب العزت کی طرف سے دی گئی ہمت ہے کہ میں سب کچھ سہہ رہی ہوں۔ سارے رشتوں کی مخالفت اور بے اعتنائی عورت برداشت کرلیتی ہے لیکن شوہر کا منفی رویہ عورت کو کرچی کرچی کر دیتا ہے۔ سسرال والوں کی لاکھ مخالفت اور طعنے ایک طرف، شوہر کے ہمدردی اور محبت کے دو لفظ ایسے میں زخموں پر پھائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

…٭…

ایک اور بات جو سب سے ضروری اور اہم ہے، جس پر عمل کرنے سے ملازمت پیشہ خواتین کے آدھے مسائل اور مشکلات حل ہو جاتے ہیں وہ ہے عورت کی اپنی حکمت عملی، سمجھ داری اور منصوبہ بندی۔ ان تینوں خوبیوں کو بروئے کار لاکر ملازمت پیشہ خواتین اپنی زندگی میں آسانیاں اور سکون لاسکتی ہیں۔ اپنے وقت کو صحیح طریقے سے تقسیم کریں، کام وقت پر ہوں، ممکن ہو تو اپنے بچوں کو بھی وقت کی پابندی کا عادی بنائیں، خصوصاً رات کو جلد سونا اور صبح کو جلدی اٹھنا۔ اس ایک خوبی کی وجہ سے آپ خود دیکھیں گی کہ آپ کے کتنے کام آسانی سے انجام دیے جاسکتے ہیں۔ فجر کی نماز سے فارغ ہوکر بہ آسانی آپ اپنے لیے، شوہر کے لیے اور بچوں کے لیے نہ صرف ناشتہ بلکہ لنچ میں دینے کے لیے سینڈوچز وغیرہ بھی تیا رکرسکتی ہیں۔ آفس یا دفتر سے آکر بہت سی خواتین سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا گھر بکھرا نظر آتا ہے۔ آپ چستی کا مظاہرہ کریں، دس سے پندرہ منٹ میں صبح کی بکھری اشیاء کو ٹھکانے لگا سکتی ہیں۔ شام کو جب رات کے لیے کھانابنائیں تو اگلے دن دوپہر کے لیے سبزی وغیرہ کاٹ کر رکھ دیں یا رات میں زیادہ سالن بنائیں اور آدھا سالن دوسرے دن دوپہر کے لیے الگ کر دیں۔ اب چاہیں تو اس کا پلاؤ بنائیں یا روٹی کے ساتھ کھائیں۔ جب تک چند روٹیاں بنائیں گی آپ کی گھریلو ملازمہ گھر کی صفائی وغیرہ کے کام انجام دے گی۔ کھانے اور نماز ظہر کے بعد آپ کو اور بچوں کو کم از کم ایک گھنٹہ آرام کے لیے بھی مل جائے گا۔ ایکسٹرا کام، تفریح، رشتے داروں سے ملنا ملانا چھٹی والے دن کے لیے رکھ دیں۔ اس طرح آپ اپنی فیملی کو بھی مکمل وقت دے پائیں گی اور بچوں کی صحیح تربیت بھی ہوپائے گی۔ دوپہر میں بچوں کے ساتھ قیلولہ کرتے ہوئے یا شام کی چائے پیتے ہوئے انہیں ایک آدھ سبق آموز کہانی یا صحابہ کرامؓ یا دینی حالات و واقعات پر کہانی سنائیں۔ آج آپ انہیں وقت دیں گی تو کل وہ آپ کو وقت دینے میں فخر محسوس کریں گے۔

میرے بچوں کے جب ٹیسٹ یا امتحانات ہوتے تھے تو میں اپنی تمام سرگرمیوں کو پسِ پشت ڈال دیتی تھی، چھوٹے بیٹے عبد اللہ کی یہ خصوصیت تھی کہ جتنی دیر وہ پڑھتا اور سبق یاد کرتا مجھے اپنے سامنے ضرور بٹھاتا کہ اس طرح مجھے یاد کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اور واقعی اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا تھا۔ آج وہ اپنی قطر کی زبردست ملازمت چھوڑ کر صرف اس لیے وطن آگیا ہے کہ میں اپنے والدین کو وقت دوں۔ ماشاء اللہ آپ کو اپنوں کا ساتھ، آپ کی حکمت عملی، سمجھ داری، منصوبہ بندی، سمجھوتہ کی عادت، چستی، ہمت یقینا نہ صرف آپ کی ملازمت کو کامیاب و آسان بنائیں گی بلکہ آپ کی اپنی زندگی بھی پرسکون اور آرام دہ رہے گی، ان شاء اللہ۔ lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146