آرٹ بْک والٹ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا کالم نگار ہے۔ اس کا کالم دنیا کے600 بڑے اخبارات میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔ وہ 1925ء میں نیویارک میں پیدا ہوا۔ ۲ مرتبہ ہائی سکول میں داخلہ لیا لیکن ناکام طالب علم ثابت ہوا۔ نیوی میں بھرتی ہوگیا، ۳ سال نوکری کی، سارجنٹ بنا اور استعفا دے کر واپس آگیا۔ یونیورسٹی آف سائوتھ کیلی فورنیا میں داخلہ لیا۔ 1945ء سے 1948ء تک یونیورسٹی میں پڑھتا رہا لیکن ناکام ہو گیا۔ اور پیرس آکر ورائٹی میگزین سے وابستہ ہوگیا۔ ایک روز اس نے پیرس کی شبانہ زندگی پر ایک ہلکا پھلکا کالم لکھا، کالم پسند کیا گیا۔ یوں آرٹ بْک والٹ کالم نگار بن گیا۔1952ء میں نیویارک ہیرالڈ ٹربیون نے اس کے کالم کو ’’سینڈیکیٹ‘‘ کر دیا جس کے بعد آرٹ بْک والٹ کا کالم امریکا کے 30 اخبارات میں شائع ہونے لگا۔ 1962ء میں وہ واپس امریکا چلا گیا۔ اس کا کالم اس وقت دنیا کے 600 اخبارات میں شائع ہوتا ہے۔
وہ اس وقت بلاشبہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا کالم نگار ہے۔ اس نے 36 لوگ ملازم رکھے ہوئے ہیں۔ یہ 36 لوگ مل کر یہ کالم پلان کرتے ہیں، زبان کے ماہرین زبان کی باریکیاں ٹھیک کرتے ہیں، قانونی ماہرین کالم کی قانونی پیچیدگیوں کا جائزہ لیتے ہیں اور انسانی نفسیات کے ماہر اس کالم کی نفسیاتی جہتوں کا تجزیہ کرتے ہیں جس کے بعد یہ کالم چھپنے کے قابل بنتا ہے۔ یہ کالم ایک مختصر سی مزاحیہ تحریر ہوتی ہے لیکن اس کے اثرات کئی مہینوں تک جاری رہتے ہیں۔
اس نے کسی جگہ ڈاکٹروں کا ذکر کیا، اس نے لکھا ’’میری بیوی ایک بار ٹھوکر لگنے کے باعث گِر گئی۔ اس کی کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ڈاکٹر نے کہا یہ 90 کے زاویے پر گری ہے۔ اگر یہ 45 کے زاویے پر گرتی تو اس کی کلائی بچ سکتی تھی۔ اس دن سے میں نے گرنے کا یہ نسخہ پلے باندھ لیا لہٰذا میں ہمیشہ اپنے دوستوں کو مشورہ دیتا ہوں اگر تم گرنے کا منصوبہ بنائو تو مہربانی فرما کر 45 کے زاویے پر گرنا تاکہ تمھاری کلائی بچ جائے۔‘‘
میں آرٹ بْک والٹ سے بہت متاثر ہوں۔ میں نے اس کے بے شمار کالم پڑھے۔ اس کی چند کتابوں کا مطالعہ بھی کیا۔ میں2002ء میں امریکا گیا تو میں نے اس سے ملاقات کی کوشش کی۔ میرے دوست نے ڈائریکٹری سے آرٹ بک والٹ کا نمبر تلاش کیا۔ میں نے اسے فون کیا۔ اس کی سیکرٹری سے بات ہوئی۔ اس نے میرا سارا تعارف کمپیوٹر میں ٹائپ کیا۔ میرا ٹیلی فون نمبر لیا اور ہمیں شام ۵ بجے کا وقت دے دیا۔ آرٹ بک والٹ ایک خوبصورت گھر میں شاہانہ زندگی گزار رہا تھا۔
اس کی سیکرٹری ہمیں اس کے اسٹڈی روم میں لے گئی۔ بک والٹ کتابوں کے بے شمار ریکس کے درمیان بیٹھا تھا۔ اس کے پیچھے شیشے کی دیوار تھی۔ دیوار کی دوسری طرف نصف درجن لوگ کمپیوٹر پر کام کر رہے تھے۔ ہم نے شیشے سے جھانکا تو بک والٹ نے قہقہہ لگا کر کہا ’’مائی اسٹاف‘‘ میں شرمندہ ہوگیا، اس نے ہاتھ رگڑے اور شرارتی لہجہ میں بولا ’’سو مسٹر شودری تم ڈیلی جنگ میں زیروپوائنٹ کے ٹائٹل سے کالم لکھتے ہو، ہفتے میں ۳ دن تمھارے کالم آتے ہیں، کالموں میں مایوسی اور حقیقت ہوتی ہے لیکن لوگ تمھیں پسند کرتے ہیں۔‘‘ میں نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا، اس نے میز پر پڑی فائل کھولی، اس میں سے میرے چند کالم نکالے اور میرے سامنے رکھ دیے۔ ایک کاغذ خود اٹھایا اور میرا پروفائل پڑھنا شروع کردیا۔ وہ پڑھتا رہا، پڑھتا رہا۔
جب کاغذ ختم ہوگیا تو مزاحیہ انداز میں بولا ’’یہ ساری چیزیں میں نے انٹرنیٹ سے نکالی ہیں۔ جب مجھے پتا چلا میرا ایک پاکستانی ہم پیشہ دوست مجھ سے ملنے آرہا ہے تو میں نے فوراً پاکستان اور تمھارے بارے میں معلومات حاصل کرلیں۔ میں نے یہ ساری چیزیں پڑھیں تاکہ میں تم سے پاکستان اور تمھارے بارے میں پوچھ کر وقت ضائع نہ کروں اور ہم اس ملاقات میں زیادہ بہتر گفتگو کرسکیں۔ لہٰذا ’’ٹیل می سم تھنگ ابائوٹ مشرف۔‘‘ مجھے اس کا اسٹائل بڑا اچھا لگا۔
اس سے گفتگو شروع ہوئی تو معلوم ہوا وہ حقیقتاً ایک دلچسپ انسان ہے، وہ روزانہ ۵ گھنٹے مطالعہ کرتا ہے، کالم لکھتا ہے، شام کو گالف اور ٹینس کھیلتا ہے، اسے شطرنج جمع کرنے اور کھیلنے کا شوق ہے، اس کے پاس سیکڑوں قسم کی شطرنجیں ہیں، وہ ریس ٹریکس پر جاگنگ کرتا ہے اور مزاحیہ فلمیں دیکھتا ہے۔ ۶ بجے ہمارا وقت ختم ہوگیا، اس کی سیکرٹری اندر آئی۔
ہم نے جانے کے لیے اجازت چاہی، وہ اٹھا لیکن کچھ سوچ کر بولا ’’اِٹ اِز مائی پرئیر ٹائم لیکن میں اپنی عبادت آپ لوگوں کے سامنے بھی کر سکتا ہوں، اگر آپ لوگوں کو جلدی نہیں تو آپ میرے پاس مزید آدھا گھنٹہ بیٹھ سکتے ہیں۔‘‘ ہم بیٹھ گئے، اس نے سیکرٹری کو اشارہ کیا، وہ باہر گئی اور چند منٹ بعد ایک فائل لے کر اندر آگئی ’’مسٹربک والٹ! یہ ویتنام کا ایک طالب علم ہے، اس نے یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی، یہ جینز ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہے، اسے اسکالرشپ چاہیے۔‘‘ بک والٹ نے پیپر اٹھا کر پڑھا، واپس میز پر رکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
سیکرٹری نے دوسرا پیپر پڑھنا شروع کردیا ’’یہ سائوتھ افریقہ کی بچی ہے، کینسر کی مریضہ ہے، 25 ہزار ڈالر میں اس کا علاج ہو سکتا ہے، ڈاکٹر آپ کی وجہ سے 50 فیصد رعایت دینے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ اس نے اس پر بھی اثبات میں گردن ہلا دی، سیکرٹری نے دونوں کاغذ اٹھائے اور باہر چلی گئی۔ بک والٹ نے قہقہہ لگایا اور ہاتھ رگڑ کر بولا ’’پرئیر ٹائم فنشڈ‘‘ تم لوگ اب باتیں کرسکتے ہو۔‘‘ ہم نے اس عجیب و غریب عبادت کے بارے میں پوچھا تو وہ ہنس کر بولا ’’انسان ۳ چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے، جسم، ذہن اور روح۔ ہم جسم کو تندرست رکھنے کے لیے ورزش کرتے ہیں، ذہن کو چست و چالاک رکھنے کے لیے مطالعہ کرتے ہیں لیکن اپنی روح کو ہمیشہ بھلا دیتے ہیں۔
ہماری غفلت کا یہ نتیجہ نکلتا ہے، ہماری روح مرنا شروع ہوجاتی ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ہمارے جسم اور ہمارے ذہن کی تمام بیماریوں کی جڑیں ہماری روح میں پیوست ہیں۔ اگر ہماری روح صحت مند ہے تو ہمارا ذہن اور جسم بھی تندرست ہوگا۔ میں ایک غیرمذہبی انسان ہوں اس کے باوجود میں ورزش کو جسمانی عبادت، مطالعے کو ذہنی عبادت اور فلاح عامہ کے کاموں کو روحانی عبادت سمجھتا ہوں۔ میں ساڑھے چار سو اخبارات سے حاصل ہونے والی آمدنی ذاتی زندگی پر خرچ کرتا ہوں جبکہ ڈیڑھ سو اخبارات سے آنے والے چیک اپنے چیریٹی اکائونٹ میں ڈال دیتا ہوں۔
میں روز شام ۶ بجے سے ساڑھے۶ بجے تک چیریٹی کا کام کرتا ہوں، طالب علموں کو وظیفے دیتا ہوں، مریضوں کے علاج کا بندوبست کرتا ہوں۔ ہوم لیس لوگوں کی مدد کرتا ہوں، سیلاب اور زلزلوں کے شکار لوگوں کو امداد دیتا ہوں اور کتابیں اور کپڑے تقسیم کرتا ہوں۔ یہ سب کچھ میری عبادت، میری پرئیر ہے۔ میری یہ پرئیر، میری یہ عبادت میرے دماغ، میرے جسم کو صحت مند رکھتی ہے۔ لہٰذا میں ایک صحت مند اور مسرور زندگی گزار رہا ہوں۔‘‘ میں اپنی نشست سے اٹھا، میں نے آرٹ بک والٹ کو سیلوٹ کیا اور باہر آگیا۔ میرے دل میں اس کی قدر بڑھ گئی، مجھے محسوس ہوا وہ ایک فنکار، ایک کالم نگار سے کہیں بڑا انسان ہے۔lll