مناجات

رعنا جاوید (حیدر آباد)

اے اللہ میں تیری بے حد شکر گزار ہوں کہ تْونے مجھے یہ توفیق بخشی کہ میں تیرے سامنے تیرے لیے اپنی محبتوں، چاہتوں، آرزئووں، تمنائوں کا اظہار کرسکوں۔ اے خدا تو سب سے بلند، سب سے عالی شان بہت مہربان اور رحیم ہے اور سب تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں۔ اے اللہ، میرے دل میں تیرے لیے بہت کچھ ہے، مگر جو کچھ بھی ہے، وہ تیرے شایانِ شان نہیں۔ اے خدا میں چاہتی ہوں کہ میں تجھ سے وہ پیار کروں جس کے تو لائق ہے، میں تیری ذات میں گم ہوجانا چاہتی ہوں کہ خود کو بھول جائوں اور تجھے یادرکھوں۔

پہلے پہل تیرا نام کب سنا تھا؟ یاد نہیں، لیکن اتنا یاد ہے کہ اجنبیت کے ساتھ نہیں سنا تھا۔ جب میں چھوٹی تھی، تو تجھے دیکھنے کی بہت آرزو تھی۔ سنا کرتی تھی کہ قیامت کے دن تو نظر آئے گا اور میں خواہش کرتی کہ خدا کرے قیامت جلد برپا ہو اور تْو نظر آئے۔ پھر تیرے لیے میرے ذہن میں خود ہی ایک خاکہ سا بن گیا۔ میرے تصور میں تھا کہ ایک سرخ و سفید بابا جی بہت بڑی سفیدڈاڑھی والے، سفید براّق کپڑے اور ٹوپی پہنے ہوئے، ایک سبز تخت پر نیم دراز ہیں اور بے شمار لوگ ہاتھ باندھے، سرجھکائے سامنے کھڑے ہیں۔ لیکن بچپن کا معصوم سا تصور اْس وقت ریزہ ریزہ ہوگیا جب یہ پتا چلا کہ اللہ تو ایک نور ہے۔ تاہم میں مایوس نہ ہوئی، بلکہ ذہن میں ایک اور تصور آگیا کہ ایک جگہ بہت زیادہ روشنی ہے سنہری اور دودھیا سی اور یہ تصور اب بھی قائم ہے۔

دل میں ایک خیال یہ بھی تھا کہ اللہ میاں عرش پر رہتے ہیں اور وہیں سے زمین کو دیکھا کرتے ہیں، لیکن جب پتا چلا کہ اللہ میاں تو ہر جگہ موجود ہیں اور شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں، تو یہ حقیقت میرے لیے بہت ہی پیاری، مگر بہت ہی خوفناک تھی۔ کیونکہ پیار کے ساتھ ساتھ ڈر بھی تو لگتا تھا۔ جیسے جیسے مجھے قیامت، قبر، دوزخ وغیرہ کے متعلق پتا چلتا گیا۔ ویسے ویسے ڈر لگنے لگا اور سوچنے لگی کہ اس دنیا سے کہیں چلی جائوں، نہ یہاں ہوں گی اور نہ خدا کے سامنے جانا پڑے گا۔ لیکن میں جائوں گی کہاں؟ ہر جگہ تو خدا موجود ہے، کہیں بھی کوئی راستہ نہیں۔ اس لمحے مجھے اپنی بے بسی پر رونا آتا۔ یہ کیسی قید ہے؟ نہ اس دنیا میں چھوٹ ہے اور نہ آخرت میں؟ گویا مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی مجھے یہ خیال آتا کہ اللہ میاں نے مجھے اس دنیا میں اکیلا تو نہیں چھوڑا۔ وہ ہر وقت میرے ساتھ ہے، ہر وقت میری مدد کرنے کو تیار، ہر ضرورت پوری کرنے پر قادر اور اس دنیا اور آخرت میں سزا سے بچنے کے لیے اْس نے قرآن میں تمام طریقے بھی بتا دیے ہیں اور جتنا پیار وہ کرتا ہے کوئی بھی نہیںکرسکتا۔اب اگر خود ہی اپنے پائوں پر کلھاڑی مارنے کا ارادہ ہے، تو اس میں اللہ میاں کا کیا قصور، وہ تو کہتا ہے ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں۔

اے اللہ تیری کائنات کتنی وسیع ہے اور بے شمارمخلوقات ہیں، تو ہر ایک کی ضرورت کا، جذبات کا احساسات کا خیال رکھتا ہے اور دوسرے بے شمار احسانات بھی کرتا ہے اور ان تمام ہنگاموں میں ایک ’’میں‘‘ بھی تجھے یاد رہتی ہوں۔کس قدر خوبصورت حقیقت ہے، یہ تصور کرسکتا ہے کوئی؟

سوچنے کی بات ہے،میں ہوں کیا چیز؟ بے حد گناہ گار ، بے حد کمتر، اس دنیا سے نکال دی جائوں تو’’خس کم جہاں پاک‘‘ والا مقولہ درست ہوجائے، پھر بھی وہ مجھے اس قدر چاہتا ہے، جیسے وہ صرف میرا ہی خداہو! مجھے یاد ہے بہت سال پہلے جب مجھ پر یہ راز فاش ہوا تھا کہ وہ اوروں کا بھی خدا ہے اور دوسروں کے ساتھ بھی ویسا ہی اچھا سلوک کرتا ہے، تو مجھے تیری شانِ ربوبیت کا یقین ہوا۔ اے اللہ، تْونے مجھ پر کیا کیا احسانات نہیں کیے، ہر بڑی سے بڑی نعمت سے نوازا… اے خداآج موقع ہے کہ تیری کرم فرمائیوں کا چرچا کروں اور چیخ چیخ کر لوگوں کو بتائوں کہ تو مجھے بے اِنتہا پیار کرتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری کیا حیثیت ہے اور میں کتنی گناہ گار ہوں! میری معمولی سے معمولی اور بڑی سے بڑی خواہش کو تونے پورا کیا ہے۔ ایک بڑا احسان تو یہ ہے کہ تو نے مجھے اپنے محبوبؐ کا امتی بنایا۔ کیا کوئی اس احسان کی وسعت کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ کبھی نہیں۔ اے اللہ تیری عنایات کو دیکھتے ہوئے میں اپنے آپ کو خوش نصیب ترین انسان سمجھتی ہوں۔ کہاں میں کہاں یہ مقام،اللہ اللہ پھر ایک دن قرآن پاک کی چند آیات پر نظر پڑی: ’’نہ نیکیوں کا صلہ جلد ملتا ہے اور نہ گناہوں کی سزا۔‘‘ ’’میں بڑا سخت انتقام لینے والا ہوں۔‘‘ ’’میں تمھیں ڈھیل دوں گا۔‘‘ ان آیات کا پڑھنا تھا کہ وہ جو ایک معصوم بے پروا سی محبت میرے دل میں تھی چکنا چور ہوگئی…دل ڈوب سا گیا…یااللہ، میں تو اپنے گناہوں کو بالکل ہی بھول بیٹھی تھی! مجھے تو خیال ہی نہیں آیا کہ ان تمام نعمتوں کا حق ادا کرنا ضروری ہے۔ یہ نعمتوں کی برسات کا زمانہ، زمانۂ مہلت کی خزاں بھی، تو ہوسکتا ہے۔

یعنی یہ ساری نعمتیں’’ڈھیل‘‘ بھی تو ہوسکتی ہیں۔ کیا یہ واقعی ’’ڈھیل‘‘ہیں؟ یہ سوال اب مجھے بہت پریشان کرتا ہے۔ یا اللہ، مجھے خیال آتا ہے کہ اگر تو پیار کرسکتا ہے، تو انتقام بھی تولے سکتا ہے۔ اْف!کہیں دوزخ میرے ہی لیے تو نہیں بنی؟ یا اللہ، میں اتنی گناہ گار کیسے ہوگئی؟ کیا تیرا پیار مجھے گناہوں سے باز نہ رکھ سکا؟ کتنی بری ہوں میں!! یا اللہ، مجھے اپنے انتقام سے بچالے۔ یا اللہ، تو مجھ سے ناراض نہ ہونا۔ یا اللہ میری تمام التجائیں تیرے ہی سامنے ہیں… یااللہ اگر تونے معاف نہ کیا، تو اور کون کرے گا؟ اور تبھی مجھے خیال آیا کہ جیسے میں ایک چھوٹی سی بچی ہوں اور میری امیّ جان کسی غلطی پر مجھے سزا دے رہی ہیں اور میں مار کے خوف سے امی جان کے ساتھ چمٹ جانے کی کوشش کررہی ہوں۔ یا اللہ، یہی معاملہ تیرے ساتھ بھی ہے…یا اللہ ہم گناہوں میں تر بتر ہوجاتے ہیں، تو تیری طرف رجوع کرتے ہیں… اور تو ہمیں معاف فرمادیتا ہے۔ قرآن کی یہ آیات گواہ ہیں: ’’اور معاف کیا ہم نے تم کو اس پر بھی شاید تم احسان مانو۔‘‘ ’’میں توبہ قبول کرنے والا رحیم ہوں۔‘‘ ’’اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔‘‘ اور پھر میری نظروں میں قیامت کا دن گھوم گیا…میرا اعمال نامہ اللہ میاں کے سامنے ہے۔

اللہ پاک حکم فرماتے ہیں: ’’پڑھ کر سنایا جائے۔ فرشتے کہتے ہیں۔‘‘

اس پر کچھ نہیں لکھا۔ کیونکہ اس نے کوئی نیکی تو کی ہی نہیں اور گناہ آپ نے معاف فرمادیے ہیں۔‘‘ اللہ میاں مسکراتے ہوئے فرماتے ہیں۔‘‘ جائو اسے جنت میں لے جائو ہم نے اسے بخش دیا۔‘‘ اللہ اللہ، یہ درگزر کی انتہا…یہ بے نیازی کی ادا…

خدایا! تیرے ہی لیے مخصوص ہے۔ یا اللہ تیری رحمتوں سے تو امید ہے، لیکن تیری بے نیازی کا ایک رنگ وہ بھی ہے جو ہوش اڑادینے والا ہے… کیا خبر معمولی نیکی جنت میں یا معمولی گناہ کی وجہ سے دوزخ میں بھیج دی جائوں! لیکن اے خدا! میری سوچ جنت اور دوزخ تک ہی کیوں محدود ہے! کیا میرے اچھے یا بْرے کام جنت یا دوزخ کے واسطے ہیں؟ یعنی اگر یہ انعامات میرے سامنے سے ہٹا دیے جائیں، تو کیا میں پھر بھی اچھے کام کروں گی؟ اگر کروں گی، تو کس کے لیے؟یقینا تیری خوشی کے لیے، تیری رضا کے لیے جو جنت سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ جنت تو صرف ایک انعام ہے۔ یعنی جس نے تیری رضا حاصل کرلی، انعام کے طور پر جنت اس کے لیے ہے، لیکن جب کوئی صرف تیری خوشی کے لیے تیرا حکم مانے، تو وہ ایمان کے بہت بلند درجے پر ہوتا ہے… بس تونے حْکم دیا اور ہم نے مان لیا…بغیر یہ سوچے کہ نفع ہوگا یا نقصان…نہ دل میں جنت کی تمنا اور نہ دوزخ کا خوف…بس یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے میری ماں نے مجھے بلایا ہو کہ مٹھائی لے لو، تو میں لپک کر جائوں، لیکن مٹھائی کے لیے نہیں، ماں کا حکم ماننے کے خیال سے۔ یااللہ، تیری رضا کا خیال آتے ہی میرے دل میں تیرے فرمائے ہوئے وہ الفاظ گونج جاتے ہیں کہ ’’ تمھارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتاجب تک تم مجھے دنیا کی ہرچیز سے بڑھ کر نہ چاہو۔‘‘ یا خدا!کیا میں واقعی تجھے ہر چیز سے بڑھ کر چاہتی ہوں؟

کبھی خیال آتا ہے کہ اگر اللہ میاں یہ کہیں کہ میری خوشی کے لیے اپنے ماں باپ کو چھوڑ دو، توکیا میں چھوڑدوں گی؟یا یہ کہیں کہ اپنی پڑھائی کے اوقات میں سے وقت نکال کرمجھے بھی تھوڑا وقت دیاکرو، توکیا میں ایساکروں گی؟ اسی قسم کے بے شمار خیالات دل میں آتے اور پریشان کرتے ہیں۔ یااللہ! میں چاہتی ہوں کہ ان سب سوالات کا جواب میں مجبوری سے’’ہاں‘‘ کہہ کر نہ دوں بلکہ یہ مجبوری میرا شوق، میرا جنون اور تیری رِضا بن جائے۔ اور والہانہ انداز میں لبیک کہوں اور یہ بھی پوچھوں کہ تیری خوشی اور کس بات میں ہے؟ مجھے جلدی سے بتا دے: میں اپنے آپ کو مکمل طور پر تیرے تابع کرنا چاہتی ہوں، لیکن یہ سب کچھ تو عمل کے ساتھ منسلک ہے اور اپنا حال یہ ہے کہ دل عمل کے لیے ہاں تو کرتا نہیں۔ اس طرح یاد کرنے سے کیا فائدہ! یا اللہ، بچپن سے سنتی آئی ہوں کہ تیری تعریفیں لکھنے بیٹھو تو اگر تمام سمندروں کی سیاہی بن جائے اور تمام درختوں کے قلم بن جائیں، تو پھر بھی تیری تعریف مکمل نہ ہوگی۔ اور اب مجھے بھی یہی محسوس ہو رہا ہے کہ مجھے ہزاروں برس بھی ملیں، تو تیرے لیے اپنے احساسات قلم بند نہ کرسکوں گی۔ کیونکہ تو بہت… ۔۔۔عظیم ہے۔ سب کا رب اور خالق ہے۔ تیری وسعتوں کے محیط میں تجھے پانا کتنامحال ہے تری جستجو کو میں چھوڑ دوں کہاں میری اتنی مجال ہے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں