موبائل، ضرورت یا زندگی؟

غزالہ عزیز

گلی میں جمعدار جھاڑو دے رہا تھا۔ سریلی گھنٹی بجنے لگی۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر موبائل نکالا اور گپ شپ میں مصروف ہوگیا۔ باورچی خانے میں برتن دھوتی ماسی کے پاس سے سریلی گھنٹی کی آواز گونجی۔ ماسی محترمہ نے نل بند کر کے جلدی سے دو پٹے کے پلو سے ہاتھ پوچھے، گریبان سے موبائل نکالا اور خیر و عافیت معلوم کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میاں جی کمرے میں اور بچے اپنی اپنی کتابوں کے بیچ میں موبائل تھامے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کال اگر نہیں آرہی تو مسیج تو آرہا ہے۔ سو سوال جواب اور باتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

ایک زمانے میں کورس کی کتابوں کے درمیان کہانیاں اور رسالے چھپا کر پڑھے جاتے تھے۔ پکڑے جانے پر پیٹے بھی جاتے۔ پابندیاں بھی لگتیں لیکن اب ان کے بجائے موبائل ہیں۔ خاموشی کے ساتھ، پڑھائی کے علاوہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔ مستقبل میں کیا ہوگا؟ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

موبائل نئے دور کی ایک ضرورت ہے۔ یہ کتنا ضروری ہے؟ اس سلسلے میں ایک سروے کیا گیا۔ سروے کے لیے خاص طور پر نوجوان نسل کو سامنے رکھا گیا۔ سروے کے نتائج یہ تھے کہ نوجوانوں کی ۶۵ فیصد تعداد موبائل کو روز مرہ کے معمولات میں شامل رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ اب وہ اس کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ایک زمانہ تھا کہ یہ تعیشات میں شمار ہوتا تھا لیکن اب یہ ایک ایسی ضرورت بن گیا ہے، جس کے بغیر گزارہ مشکل ہے۔

سروے میں اٹھارہ سے تیس سال کے نوجوانوں سے موبائل کی ضرورت اور اہمیت پر سوال کیے گئے جن میں سے دو تہائی نوجوانوں نے کہا کہ وہ موبائل کے بغیر جینے کا تصور نہیں کرسکتے۔ سوال پوچھا گیا کہ اگر انھیں ایک ہفتے کے لیے موبائل رکھنے کی شرط پر اپنی کسی چیز کو چھوڑنا پڑے تو وہ کیا چیز ہوگی؟

اس کے جواب نوجوانوں کے رجحان کو سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ ایک جواب تھا کہ وہ کسی بھی شرط پر ایک ہفتے کے لیے موبائل نہیں دے سکتے۔ ۴۵ فیصد نے کہا کہ وہ بغیر کھائے پئے تو گزارہ کرسکتے ہیں لیکن موبائل کے بغیر نہیں۔ ۷۱ فیصد کے مطابق وہ اپنی پیاری موٹر سائیکل یا کار کو بھی موبائل رکھنے کی شرط پر چھوڑ سکتے ہیں۔ ۸۱ فیصد نے کہا کہ وہ اپنا پسندیدہ ٹی وی چینل چھوڑ سکتے ہیں، ۵۵ فیصد نے اپنا بیڈ روم ایک ہفتے کے لیے چھوڑنا آسان قرار دیا۔

سروے کا دوسرا سوال یہ تھا کہ وہ اپنا موبائل کس قدر استعمال کرتے ہیں؟ ۵۳ فیصد نے بتایا کہ وہ اس کو بے انتہا پسند کرتے ہیں اور ہر وقت اس کے ساتھ مصروف رہتے ہیں۔ ۲۷ فیصد نے بتایا کہ وہ اپنے موبائل کا خوب استعمال کرتے ہیں، لیکن ایک حد سے زیادہ نہیں۔ ایک سوال یہ تھا کہ موبائل ان کے لیے کیا درجہ رکھتا ہے؟

۶۵ فیصد نوجوانوں نے کہا کہ موبائل کا عمل دخل ان کی زندگی میں اس قدر بڑھ گیا ہے کہ وہ اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ۲۲ فیصد نے کہا کہ وہ اپنے موبائل پر حد سے زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ صرف ۱۰ فیصد نوجوانوں نے کہا کہ موبائل ان کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ اسے رکھ بھی سکتے ہیں اور چھوڑ بھی سکتے ہیں۔ ایک فیصد نوجوانوں نے کہا کہ وہ اسے صرف ضرورت کی ایک چیز سمجھتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ ٹیلی کمیونی کیشن ایجنسی نے کہا ہے کہ اگلے برس دنیا بھر میں موبائل فونز کی تعداد انسانی آبادی کے برابر ہوجائے گی۔ یعنی ۷ ارب سے تجاوز کر جائے گی۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ سب سے زیادہ موبائل براعظم ایشیا میں استعمال ہوتے ہیں۔ پڑوسی ملک پاکستان میں تو موبائلوں کی تعداد رجسٹرڈ ووٹروں سے بھی بڑھ گئی ہے۔

موبائل کی اہمیت سے انکار نہیں ۔۔۔۔ اگر اسے ضرورت سمجھ کر استعمال کیا جائے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ جب یہ ایسے کاموں میں استعمال ہو جو باعث شرمندگی بنیں۔ چوری ڈکیتی اور جرائم اب اس کے لیے اور اس کے ذریعے ہوتے ہیں۔

موبائل کے غلط استعمال کے لیے والدین برابر کے ذمہ دار ہیں جو اپنے بچوں بچیوں سے یہ نہیں پوچھتے کہ موبائل پر کس سے باتوں میں مصروف ہو؟ تمھارے موبائل پر کون لوڈ کراتا ہے؟ یا اتنے قیمتی موبائل تم کو کس نے دیے؟ بھاگنے والی کئی لڑکیوں کا کہنا تھا کہ ہماری ماؤں کو پتا ہوتا تھا کہ ہم کس سے باتیں کر رہے ہیں لیکن انھوں نے ہمیں منع نہیں کیا۔۔۔۔۔ یہ اظہار والدین کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔۔۔۔۔ نوجوانوں کے لیے وقت مستقبل ہے، جو وقت کی قدر کرتے ہیں وقت بھی ان ہی کی قدر کرتا ہے۔ lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں