اس وقت عالمِ اسلام اور ہندوستان میں امتِ مسلمہ کی جو حالتِ زار ہے وہ گزشتہ پانچ سو سالہ امت کے زوال اور زبوں حالی کی تاریخ میں سب سے بدترین حالت ہے۔ پورا عالمِ اسلام یا مسلم ممالک انتشار وابتری کا شکار ہیں، بالخصوص شام، عراق، مصر، لیبیا، یمن، فلسطین وغزہ، افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی صورتِ حال تو مسلسل جنگ وجدال اور باہمی خانہ جنگی کی وجہ سے مکمل تباہی وبربادی کے آخری کنارے پر پہنچ چکی ہے۔ جو کہ صرف امریکا واسرائیل وروس کی براہِ راست مداخلت یا سازش کا نتیجہ ہے، اور جو ممالک مثلاً سعودی عرب وغیرہ، باہمی خانہ جنگی جیسی صورتِ حال سے پاک نظر آتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی کیفیت وحیثیت میں طوعاً یا کرہاً امریکا واسرائیل کے منصوبوں کے شکار یا آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔
ہم ہندوستانی مسلمان بھی عالمی اسلام دشمن طاقتوں کی سازش کے نتیجے میں ایسے مسائل اور صورتِ حال میں مبتلا کر دیے گئے ہیں کہ ہم دوسرے مسلم ممالک کی اصلاح وامن کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کے علاوہ کوئی عملی اقدام نہیں کر سکتے۔ لیکن ہمارے ملک کے گزشتہ ساٹھ ستّر برس اور خصوصاً مئی ۲۰۱۴ء کے بعد سے جو تشویشناک اور اذیت ناک حالات ہیں، ان سے نجات، یا ان کی اصلاح کے لیے ہم صرف دعا کے مکلف نہیں ہیں۔ اگر ہم عملی اصلاح و علاج کو ترک کرکے صرف دعا وعبادت پر انحصار کریں گے تو ہمارا یہ عمل اللہ کی سنت کے خلاف ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی کوئی مدد ونصرت ہمیں حاصل نہ ہوگی۔
امتِ مسلمہ کی دنیا وآخرت کی فلاح ونجات اور اجتماعی اصلاح کی عملی تدابیر کا اگر ہم تجزیہ کرنا چاہیں تو ان کو مندرجہ ذیل چار بڑے عنوانات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: (۱) اسلام کا حقیقی علم وشعور(۲)اتحادِ ملت (۳) فریضۂ دعوت(۴)مثبت سیاست۔ مثبت سیاست کو کسی اگلے مضمون کے لیے چھوڑتے ہوئے ہم بین نکات پر مختصر گفتگو کریں گے۔
اسلام کا حقیقی علم وشعور
سب سے پہلے ہمیں دینِ اسلام کا حقیقی اور جامع فہم و شعور حاصل ہونا چاہیے، کیونکہ اس کے بعد کے تمام مراحل کی کامیابی وناکامی کا مدار ہی اسلام کے بنیادی عقائد وایمانیات؛ توحید،رسالت اور آخرت پر پختہ اور زندہ ایمان ویقین اور فہم وشعور پر مبنی ہے اور جس کا حقیقی سر چشمہ صرف قرآن اوراللہ کے رسولؐ کی سنت وسیرت ہے۔اگر ہم غور وفکر سے کام لیں تو اس امت پر یہ اللہ کا بہت بڑا احسان وانعام ہے کہ تقریباً پندرہ سو سال گزرنے کے بعد بھی اللہ کی آخری کتاب قرآن اور اس کے آخری رسول حضرت محمد مصطفیﷺ کی سیرتِ طیبہ ہمارے پاس اپنی اصلی شکل میں محفوظ وموجود ہیں اور انشاء اللہ قیامت تک محفوظ ہی رہے گی۔ لیکن یہ کتنی بڑی بد نصیبی ہے کہ ہدایت وفلاح کے یہ دونوں سرچشمے اپنے پاس موجود ہوتے ہوئے بھی ہم غیروں کے محتاج بن کرذلت ونکبت کے شکار ہیں۔پس سب سے پہلے ہمیں اپنی اس محرومی پر افسوس کرکے اپنی اپنی زبانوں میں قرآنِ کریم کے تراجم اور سیرتِ رسولﷺ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔قرآن اور اسوۂ رسولﷺ کے فہم وشعور کے ذریعے ہی ہمارے اندر دنیا میں اپنے منصبِ خیرِ امت اور ’’شہادتِ حق علی الناس‘‘ کا احساس پیدا ہوگا اور زندگی کے تمام معاملات میں اسلام کی رہنمائی حاصل کرنے کے بعد اسلام کا عملی کردار ونمونہ پیش کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔
اتحادِ ملت
اتحادِ ملت ایک ایسا عنوان ہے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ اور ادنیٰ سے ادنیٰ درجے کا مسلمان بھی اس کی اہمیت وضرورت کا منکر نہیں ہے۔بلکہ ہر مسلمان اس کا آرزو مند نظر آتا ہے کہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے درمیان کلمۂ توحید کی بنیاد پر مضبوط اور دائمی اتحاد قائم ہونا چاہیے۔ لیکن افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ اتحادِ امت کی خواہش وآرزو رکھنے کے باوجود انتشارِ امت کے اسباب تلاش کرنے اور ان کے سدِ باب کی تدابیر پر کوئی غوروفکر نہیں کرتا۔آپ دیکھتے اور سنتے ہونگے کہ اتحادِ ملت کے موضوع پر ہر مسلک ومشرب سے وابستہ علمائے کرام خوب تقریریں کرتے ہیں مگر مسلکی فرقہ بندی اور ذات برداری کی تفریق کے اصل ذمے دار بھی یہی ہیں۔ بہت سے حضرات انتشارِ امت کے اسباب میں صرف اغیار کی سازشوں کا ذکر کرتے ہیں، لیکن سچائی یہ ہے کہ اغیار کی سازشوں اور کوششوں کا مرکز و محور صحابۂ کرام کے دور سے آج تک صرف سیاسی طور پر انتشار پیدا کرنا ہے۔ مگر مسلکی بنیاد پر فرقہ بندیوں اور ذات و برادری کی تفریق کے ذمے دار ہر دور میں ہمارے قائدین اور مذہبی شخصیات ہی رہی ہیں۔ہم دور نہ جاکر صرف اپنے ملک کی ملت میں انتشار کی بنیادیں اور اسباب تلاش کر لیں تو یہ بات بہ خوبی واضح ہو سکتی ہے۔
جہاں تک شیعہ سنی،حنفی شافعی مالکی حنبلی اور سلفی مسالک کا تعلق ہے تو یہ مسالک عالمِ عرب ہی سے ہمیں ورثے میں ملے ہیں،لیکن عرب میں ان فقہی مسالک کی بنیاد پر وہ تفریق ومنافرت نہیں ہے جو ہمارے برِ صغیر ہندو پاک میں پائی جاتی ہے اور ذات اور برادری کی وہاں ایسی اعلیٰ وادنیٰ طبقات پر مبنی کوئی تفریق نہیں ہے جو ہمارے یہاں پائی جاتی ہے، کیونکہ یہاں کے علماء و مفتیانِ کرام نے ہندو سماج سے متاثر ہوکر ذات و برادری کو دو مسلمانوں میں نکاح کے لیے کفو کا درجہ دے دیا ہے۔ اس لیے عوام بے چارے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے کسی دوسری مسلم برادری میں نکاح کیا تو یہ دین کے خلاف کوئی عمل ہوگا۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ برادری نے خود ایک بت کی شکل اختیار کر لی ہے اور مسلم برادریوں کے درمیان کفو کے نام پر ایسی آہنی دیواریں کھڑی ہوچکی ہیں جن کو پارپانا، یا سر کرنا ایک بڑے جہاد سے کم نہیں ہے۔ دوسرے مسلک کی وہ حیثیت کہ دوسرے مسلک کو باطل اور اپنے مسلک کو برحق سمجھنے کی بیماری کے ذمے دار عوام نہیں،بلکہ صرف ہمارے مفتیانِ کرام ہیں۔مثال کے طور پر برِ صغیر ہندو پاک میں عوام کی اکثریت حنفی المسلک ہے،لیکن یہاں ایک ہی فقہی مسلک کو ماننے والوں کے درمیان بھی بے بنیاد اور مفروضہ اختلافات پیدا کرکے عوام کے درمیان تفریق ومنافرت پیدا کی گئی ہے۔
بہرحال حاصلِ بحث یہ ہے کہ اس ملّی انتشار کے ذمے دار عوام نہیں،بلکہ ہمارے علمائے کرام ہیں۔ لہٰذا جب تک ہمارے علمائے کرام خود کو مسلکی ومشربی تنگ نظری کے دائروں سے آزاد کرکے اپنے اندر قرآنی وسعتِ قلب ونظر پیدا نہیں کریں گے اور انتشارِ ملت کے ان حقیقی اسباب کا سدِ باب نہیں کریں گے، حقیقی اتحادِ ملت کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔ اگر ہوگا تو اس کی مثال درخت کی جڑوں میں پانی ڈالنے کے بجائے شاخوں پر پانی ڈالنے جیسی ہوگی۔
فریضۂ دعوت
فریضۂ دعوت جو امتِ مسلمہ کا فرضِ منصبی ہے اگر چہ سب سے پہلے نمبر پر کرنے کا کام ہے، لیکن اسلام کا صحیح فہم وشعور اور امت کا باہمی اتحاد یا بنیانِ مرصوص بننا، فریضۂ دعوت یعنی غیر مسلم بندگانِ خدا یا تمام برادرانِ وطن تک اسلام کا پیغام پہنچانا اور ان کو اور ان کو اسلام کی دعوت دینا ہر ہر فردِ مسلم کی ذمے داری ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ ہر مسلمان خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو اور خواہ وہ حصولِ علم کے اعتبار سے کسی بھی منزل میں ہو،اس پر اپنے تمام معاملاتِ زندگی میں اسلام کا عملی کردار پیش کرنا فرضِ عین ہے اور عقلی وعلمی دلائل کے ذریعے حکمت وتدبر کے ساتھ غیر مسلم بندگانِ خدا کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرنا اہلِ علم(خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں)کا کام ہے جو پورے ملک کی ملتِ اسلامیہ کے لیے فرضِ کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ دونوں ذمے داریاں یا فرائض اپنے آپ میں لازم وملزوم ہیں کہ ایک کے بغیر دوسرا کامیاب نہیں ہو سکتا۔مختصر یہ کہ ہمارے برادرانِ وطن جو کچھ ہماری کتابوں میں پڑھیں یا جو کچھ ہمارے خطابات وتقاریر میں سنیں اُس سب کا چلتا پھرتا اور جیتا جاگتا نمونہ ان کو مسلمانوں کے سماج میں نظر آنا چاہیے، اور اس میں ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ جب تک امتِ مسلمہ بہ حیثیتِ مجموعی اپنے اس فرضِ منصبی سے غافل رہے گی ہم اللہ کی مدد ونصرت کے بجائے اس کی ناراضی وعتاب کے مستحق رہیں گے اور اس وقت تک اصلاحِ حال یا ملّی فلاح وترقی کی تمام عقلی وسائنٹفک تدبیریں رائیگاں ثابت ہونگیں۔lll