اللہ جل شانہ نے انسان کو پیدا فرمایا او ر ان میں مرد و عورت بنائے ہر ایک میں نیکی اور برائی کی صلاحیتیں رکھ دیں چنانچہ ارشاد گرامی ہے:’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں۔‘‘اسی طرح اللہ تعالیٰ نہ عورتوں کو صلاحیتوں اور بھلائیوں سے مالا مال فرمایا۔ قرآن کریم میں جہاں باکمال مردوں کا ذکر خیر ملتا ہے وہیں باکمال عورتوں کا بھی تذکرہ ہے۔قرآن میں حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر ہے کہ اگرچہ وہ نبیوں کی بیویاں تھیں مگر ان کی زندگی نبوی تعلیمات کے مطابق نہ تھیں اس لیے قوم کے ساتھ وہ بھی عذابِ الٰہی کا شکار ہوگئیں۔ اسی طرح فرعون کی بیوی کا تذکرہ بھی نہایت ستائش کے انداز میں ملتا ہے کہ وہ انتہائی ظالم و جابر بادشاہ کی بیوی ہونے کے باوجود نیکی پر قائم رہی اور اس راہ کی جملہ تکلیفوں کو برداشت کیا۔
عورتوں کے اندر اگر دین کا علم اور اللہ سے محبت ہو تو وہ ہر قسم کے سخت حالات کو برداشت کر جاتی ہیں۔ ریشم کی طرح نازک ہوتی ہیں۔ مگر لوہے کی طرح یہ اپنے اوپر سب بوجھ اٹھا لیتی ہیں اور سماج و معاشرے کو روشن کر جاتی ہیں۔ دعوت و جہاد اور اصلاح معاشرہ میں ان کی حیثیت سنگ میل کی بن جاتی ہے اور آنے والی نسلیں انہیں ان کے کارناموں اور کردار کی وجہ سے یاد رکھتی ہیں۔
اس وقت میرے ذہن کے دریچوں میں ان چند خواتین کی یادیں ابھر رہی ہیں جنھوں نے موجودہ زمانے میں دعوتی و اصلاحی جدوجہد میں صحابیات کی یاد تازہ کردی۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جنھوں نے اس راہ میں قید و بند کی مشکلات کو بھی جھیلا اور کچھ وہ ہیں جنھوں نے قلم سے بھی باطل نظریات کے خلاف جہاد کا حق ادا کیا اور عملی زندگی میں بھی دعوتی مشن میں فعال رول ادا کرتی رہیں۔ ان عظیم خواتین میں زینب الغزالی کا نام سر فہرست ہے، جن کے حلقے میں بیک وقت لاکھوں خواتین تھیں اور مصری حکومت کی جیلوں میں بھی انھوں نے اپنی زندگی کے قیمتی ایام گزارے۔
زینب الغزالی ۱۹۱۷ میں قاہرہ کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ ان کا لقب نسیبہ تھا۔ نسیبہ بنت کعب مازنی وہ صحابیہ تھیں جنھوں نے جنگ احد میں حضور پاکؐ کا دفاع کیا تھا اور شدید زخم کھائے تھے۔ پھر وہ واقعی نسبیہ بن کر دین کا دفاع بھی کرتی رہیں اور دین کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے زندگی وقف کر دی۔ ۱۹۳۷ یعنی محض ۲۰ سال کی عمر میں انھوں نے خواتین کی ایک تنظیم بنائی اور خواتین کے درمیان اصلاح اور دعوتِ دین کے کام کا آغاز کیا۔ انھوں نے قرآن کریم بچپن ہی میں حفظ کرلیا تھا اور قرآن سے انہیں بڑی محبت تھی۔ قاہرہ کی بڑی بڑی اور معروف مسجدوں میں ان کے درس ہواکرتے تھے، جس میں دین دار خواتین کے ساتھ ساتھ ماڈرن اور بے پردہ خواتین بھی شریک ہوتیں۔ وہ پردہ وغیرہ کے موضوع پر وہاں نہیں بولتی تھیں مگر ان کا درس سن کر ان ماڈرن خواتین کی زندگی بدل جاتی تھی۔ قاہرہ کی مسجد ابن طولون، مسجد امام شافعی، جامع ازہر وغیرہ میں ان کے درس میں کئی کئی ہزار خواتین شریک ہوتیں۔ انھوں نے خواتین کو وعظ و تربیت اور دعوت و اصلاح کے لیے تربیتی ادارے قائم کیے جنھوں نے داعیات کی ایک ٹیم تیار کر ڈالی۔ ان کے اثر و رسوخ اور مشن کو دیکھتے ہوئے اخوان المسلمون کے بانی استاذ حسن البنا نے ان سے رابطہ کیا اور اپنی تنظیم کو اس میں ضم کردینے کی پیشکش کی۔ کافی تردد اور گفت و شنید کے بعد وہ اخوان المسلمین کی خواتین ـکی تنظیم کی ذمہ دار بنیں۔مگر اپنی تنظیم کا الگ وجود بھی باقی رکھا اور بعد میں جب جمال عبد الناصر کے دور میں اخوان سے وابستہ افراد کوقید کیا جانے لگا تو اسی تنظیم نے مصر میں۔ غریبوں، مظلوموں اور بے سہارا خاندان کی خدمت کا کام انجام دیا۔ یہ وہ دور تھا جب ناصر کے ظلم و ستم اور اس کے جاسوسی نظام کا ایسا خوف تھا کہ لوگ مجبوروں اور جیل جانے والے لوگوں کے خاندان سے ملاقات تک سے گھبراتے تھے۔ ایسے میں انھوں نے بے خوف ہوکر یتیموں اور بے سہارا خاندانوں کو ضروریات زندگی فراہم کرنے کا کام کیا۔ وہ ایک بے باک اور بے خوف صحافی بھی تھیں۔ مصر کے ایک معروف اخبار نے ان کی صلاحیت اور مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ان سے مستقل لکھنے کی درخواست کی۔ وہ اس اخبار میں پابندی سے لکھتی رہیں۔ بعد میں انھوں نے اپنا رسالہ ’’السیدات‘‘ جاری کیا۔
وہ انتہائی فعال خاتون تھیں۔یونیورسٹیوں، کالجوں، اسکولوں اور خواتین کے مقامات کو انھوں نے اپنی دعوت کا رکز و ہدف بنایا اور مصر میں ایک اسلام پسند نسل تیا رکر ڈالی۔ ان کے اس خوف سے جمال عبد الناصر نے پہلے تو ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی جسے انھوں نے رد کر دیا اس کے بعد مختلف عہدوں اور پیکج کی پیش کش کی۔ بالآخر اس نے ان کے اخبار کی ایک اسٹوری کو وجہ بنا کر گرفتار کرلیا۔ وہ کئی سال جیل میں رہیں اور ناصری تشدد کا نشانہ بنیں۔ انھوں نے اپنی جیل کی زندگی پر ایک کتاب ’’ایام من حیاتی‘‘ لکھی، جس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔
اس کے علاوہ بھی ان کی کئی کتابوں کی اشاعت ہوچکی ہے۔ ۳؍ اگست ۲۰۰۵ کو ۸۸ سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان کے اثرات کا اندازہ ذیل کے واقعے سے لگائیے:
ایک دن مصری اعلیٰ عدالت کے ایک جج ان کی تنظیم کے دفتر آئے اور شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے بتایا کہ میری اہلیہ سے میرے تعلقات نہایت خراب تھے اور نوبت طلاق کے قریب تھی لیکن اچانک اہلیہ کے اندر میں نے تبدیلیاں محسوس کیں، جو میرے لیے حیرت ناک تھیں۔ میں نے خاموشی سے ان کا پیچھا کیا تو معلوم ہوا کہ وہ آپ کے درس میں شرکت کرتی ہیں۔
فرحت ہاشمی
ڈاکٹرفرحت ہاشمی شوشل میڈیا کے ذریعے دعوتی و اصلاحی جدوجہد اور دینی بیداری کے لیے موجودہ دور کی بہترین مثال ہیں۔ اس وقت وہ برصغیر ہندو پاک ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر کے اردو حلقوں میں کافی مقبول ہیں اور ان کا یوٹیوب چینل اردو داں خواتین بڑے شوق سے سنتی ہیں۔ وہ خواتین سے متعلق موضوعات پر اسلام اور اس کی تعلیمات کو بڑے دل نشین انداز میں پیش کر رہی ہیں۔ ان کا تعلق پاکستان کے شہر سرگودھا سے ہے اور وہ اسلامیات میں پی ایچ ڈی ہیں اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتی ہیں۔ ان کے دروس اور تقاریر سننے والی خواتین کی تعداد لاکھوں میں ہے اور وہ گھر بیٹھے جدید ٹکنا لوجی کا استعمال کر کے دعوت دین اور اصلاحِ معاشرہ کی اچھی خدمت انجام دے رہی ہیں۔ ان کی کوششیں موجودہ دور کی تعلیم یافتہ اور ٹیکنا لوجی سے لیس خواتین کے لیے یقینا جذبہ عمل پیدا کرنے والی ہیں اور بتاتی ہیں کہ ہم اس کا استعمال دعوت دین کے لیے بڑی آسانی سے کرسکتے ہیں۔
عائشہ لیمو
عائشہ لیمو ایک برطانوی نزاد نو مسلمہ ہیں جن کا ابھی چھ جنوری کو انتقال ہوا۔ وہ مشہو رداعی، ماہر علیم اور مصنف تھیں۔ تعلیم، تہذیب و ثقافت، اسلامیات اور دعوت اسلامی کے موضوع پر چار درجن کے قریب کتابیں ہیں۔ انہوں نے لندن یونیورسٹی سے گریجویشن اور ماسٹرس کیا۔ مذاہب کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ ان کا خاص میدان تھا۔ ۱۹۶۱ میں اسلام قبول کرنے کے بعد انھوں نے دعوت و تبلیغ اور سماجی خدمت کو اپنا مشن بنا لیا۔ ۱۹۶۶ میں انھوں نے نائیجیریا کے معروف اسلامی اسکالر شیخ احمد لیمو سے شادی کی اور وہیں مقیم ہوگئیں۔ ان دونوں نے مل کر اسلامک فاؤنڈیشن ٹرسٹ بنایا اور اسی کے تحت اپنی سرگرمیاں انجام دیں، وہ زمینی سطح پر کام کرنے والی داعیہ کے ساتھ نظریاتی مبلغ بھی تھیں اور قلم کی تلوار سے لیس بھی۔ انھوں نے خواتین کے درمیان دعوت و اصلاح کو خاص ہدف بنایا۔ ان کی کوششوں اور محنت سے نائیجیریا کے سیکڑوں خاندانوں کو دین کی نعمت بھی ملی اور انسانوں کی خدمت کرنے کا جذبہ بھی ۔
یہ بطور نمونہ چند خواتین کے دعوتی و اصلاحی رول کی نمائندہ مثالیں ہیں جو عالمی سطح پر معروف ہیں لیکن ان مثالوں کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے ملک میںخواتین داعی موجود نہیں ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی بہت سی خواتین دعوت و اصلاح کے میدان میں کام کر رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کو ملکی یا بین الاقوامی سطح پر شہرت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دعوت و اصلاح کا کام ہے ہی ایسا کہ اس میں شہرت و ناموری مہلک ثابت ہوتی ہے۔
آخر میں خواتین ان نمائندہ مثالوں میں اپنا اصلاحی رول تلاش کریں تاکہ سماج اور معاشرے میں دعوتی جدوجہد کو اسی تن دہی سے انجام دیا جاسکے، جس کا حالات اور وقت تقاضہ کرتے ہیں۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے