راکیش ملہوترا کا سارا پروگرام جو اس نے اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ مل کر بنایا تھا چوپٹ ہوتا لگ رہا تھا۔
بیوی کو کیسا لگے گا، بیٹی کیا محسوس کرے گی، بڑے شوق سے دونوں نے مل کر پروگرام کی تیاریاں کی تھیں۔ بیوٹی پارلر جاکر بالوں کو سیٹ کروایا تھا۔ چہرے کو نکھارا تھا، کون سے ڈریس پہنے جائیں گے اس کا بھی انتخاب ماں بیٹی دونوں نے پہلے ہی کرلیا تھا۔ ناشتے میں کیا بنایا جائے گا۔ لنچ کے لیے ٹفن میں کیا کیا لے جایا جائے گا، یہ بات بھی راکیش ملہوترا کو بتا دی گئی تھی۔
ضلع پریشد آفس سے نکلتے وقت راکیش ملہوترا اپنے تصور میں بیوی کے چہرے پر تناؤ اور بیٹی کو افسردہ دیکھ رہا تھا۔
میں کیا کروں؟ بیوی اور بیٹی کی افسردگی محسوس کرتے ہوئے وہ حتمی فیصلہ نہیں کرپا رہا تھا۔ فٹ پاتھ پر اس کے قدم ایسے اٹھ رہے تھے جیسے وہ سر پر منوں بوجھ لے کر چل رہا ہو۔
راکیش ملہوترا ضلع پریشد آفس میں اکاؤنٹینٹ تھا۔ اکاؤنٹ میں زندگی گزر رہی تھی۔ بیوی بھی حساب کی ملی تھی۔ حساب کا آدمی تھا۔ ہر کام حساب سے کرتا تھا۔ ایک بیٹی ہوئی اور فل اسٹاپ۔
آج بیٹی تیرہ سال کی ہوگئی اور اس کی شادی کو چودہ سال بیت چکے ہیں مگر راکیش ملہوترا کو ایسا لگتا ہے جیسے چودہ مہینے ہی ہوئے ہیں۔ یہ احساس صبح دس بجے کا تھا جب وہ آفس جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ بیوی بش شرٹ کے بٹن لگاتے ہوئے چہکی تھی ’’کل کا پروگرام بھول نہ جانا، چھٹی کی عرضی دی آپ نے؟‘‘
’’نہیں، آج دے دوں گا۔‘‘ وہ بیوی کے گال کی چٹکی لے کر بولا تھا۔
مگر آفس پہنچ کر کیش بک اور واؤچر فائل میں وہ ایسا اُلجھا کہ چھٹی کی درخواست دینے کا اسے خیال تک نہیں آیا۔ جب آفس کا چپراسی اس کے کیبن میں آیا اور اپنے سرمئی لبوں کے درمیان سے پان کی پیک میں رنگے ہوئے دانت دکھا کر بولا ’’بابو صاحب! ایک خوش خبری!‘‘
’’کیا؟‘‘ اس نے کیش بک سے نظریں اٹھا کر عینک کی اوٹ سے چپراسی کو دیکھا۔
چپراسی پان کی پیک پی کر لبوں کو دائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی اور انگوٹھے سے پونچھ کر کہنے لگا۔ ’’موسم وبھاگ نے کل بھاری ورشا ہونے کی چیتاؤنی جاری کی ہے اسی کارن سرکار نے سبھی اسکولوں اور آفسوں کو اوکاش رکھنے کی نردیش جاری کردیے۔‘‘
’’سچ!‘‘ لمحہ بھر کے لیے اس کے دل کی دھڑکنیں بدل گئی تھیں۔ لہجے سے خوشی چھلک پڑی تھی۔ ’’میں توکل چھٹی لینے والا تھا۔! بچ گئی چھٹی۔‘‘
راکیش ملہوترا خوش ہوگیا تھا۔ مگر اس کی خوشی چند لمحوں بعد ہی تذبذب کا شکار ہوگئی۔ جس پروگرام کے لیے وہ چھٹی لے رہا تھا وہ موسم وبھاگ کی پیش گوئی سے اسے ملتوی کرنا پڑے گا اور پروگرام ملتوی کرنے کی خبر اول فرصت میں ٹیکسی والے کو دینی ہوگی۔ اگر ایسا نہیں کیا تو وہ دوہزار روپے کرایہ وصول کرلے گا جو راکیش ملہوترا نے ٹیکسی والے سے ہل اسٹیشن کی سیر کے لیے ٹھہرایا تھا۔
’’میں کیا کروں؟ تیز بارش میں ہل اسٹیشن کی سیر کیا معنی؟ پریشانیوں اور خطرات سے بھرا تکلیف دہ سفر ہوگا اور کیا!‘‘
مجھے ٹیکسی والے کو اطلاع دے دینی چاہیے، راکیش ملہوترا نے فیصلہ کرلیا اور پھر اپنی جیب سے موبائل فون نکالا۔ ٹیکسی والے کو ہل اسٹیشن کی سیر کا پروگرام کینسل کرنے کی اطلاع دے کر اطمینان سے گھر کی طرف چل پڑا۔
جب وہ گھر پہنچا تو بیوی نے پانی کا گلاس پیش کرتے ہوئے اس سے پوچھا ’’کیوں، دے دی چھٹی کی عرضی؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’کیوں؟‘‘ بیوی کی تیوری پر بل پڑ گئے۔
’’کل گورنمنٹ نے چھٹی ڈکلیئر کردی!‘‘
’’یہ تو بہت اچھی بات ہوگئی۔ آپ کی چھٹی بچ گئی۔‘‘ بیوی خوش ہوکر بولی۔ ’’چھٹی تو بچ گئی لیکن اپنا پروگرام کینسل ! کیوں کہ موسم وبھاگ نے کل بھاری ورشا ہونے کی چیتاونی جاری کی ہے اس لیے سرکار نے سبھی سرکاری کاریالیوں میں اوکاش گھوشت کر دیا۔‘‘
’’کیا پتا جی؟‘‘ بیٹی جو بازو کے روم میں تھی، دوڑی دوڑی آئی۔
’’آپ بھی موسم وبھاگ کی چیتاونی سے ڈر گئے۔ پروگرام کینسل وینسل نہیں ہم سب کل ہل اسٹیشن جائیں گے!
’’نہیں بیٹی! کیسے جائیں گے؟ کل بھاری ورچا ہونے والی ہے۔ ورشا میں پروگرام کا کیا مزا، میں نے پروگرام کینسل کی اطلاع ٹیکسی والے کو بھی دے دی ہے!‘‘
’’کیا پتاجی! بیٹی پاؤں پٹخ کر ٹھنکی او رپھر کچھ توقف کے بعد پراعتماد لہجے میں بولی ’’پتا جی! دیکھنا کل ورشا بالکل نہیں ہونے والی!
’’ہاں! کل بوندا باندی تک نہیں ہوگی! بیوی نے بھی چیتاؤنی دے ڈالی۔
’’ٹھیک ہے اگر تم دونوں کا انومان درست نکلا تو میں تمہیں دو ہزار روپے دے دوں گا جو میں نے ٹیکسی والے کو دینے کے لیے رکھے تھے۔‘‘
’’وعدہ!‘‘ بیٹی نے باپ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
’’ہاں! وعدہ۔‘‘ اس نے بھی بیٹی سے ہاتھ ملایا۔
بیوی نے پوچھا ’’کون سا وعدہ! نیتا جی کا یا پتا جی کا؟‘‘
’’پتا کا وعدہ!‘‘ راکیش ملہوترا نے مسکراتے ہوئے بیوی کو دیکھا اور بیٹی کے ہاتھ کو خفیف سا جھٹکا دے کر چھوڑ دیا، س یقین کے ساتھ کہ کل بھاری ورشا ہی ہوگی۔
صبح راکیش ملہوترا دیر سے جاگا۔
ویسے تو وہ ہمیشہ علی الصبح بیدار ہوجاتا اور صبح کی سیر کے لیے گھر سے نکل پڑتا۔ سورج کی ملائم روپیلی کرنوں کا لطف اٹھاتا۔ نسیم سحر کے جھونکے اس کے اندر تازگی بھر دیتے۔ وہ لمبی لمبی سانسیں لیتے ہوئے تقریباً آدھا گھنٹہ مارننگ واک کر کے گھر لوٹ آتا۔ لیکن آج جب وہ جاگا تو دیکھا موسم وبھاگ کے انومان کے بالکل خلاف سورج نکلا ہوا تھا۔ حد نظر تک آسمان صاف و شفاف تھا۔
اس کی پتنی واشنگ مشین سے کپڑے نکال نکال کر نچوڑ رہی تھی… راکیش ملہوترا ٹوتھ برش منہ میں گھماتے ہوئے سفید جھاگ تھوک کر بے قراری سے بولا ’’ارے بھئی! بھاری ورشا ہونے والی ہے اور تم نے اتنے سارے کپڑے دھونے کے لیے نکال لیے کہاں سکھاؤگی؟‘‘
فکر نہ کیجیے! بوندا باندی تک نہیں ہوگی، بیوی نچوڑے ہوئے کپڑوں کی بالٹی اٹھاتے ہوئے بولی۔
ہاں پتا جی! کچن سے بیٹی کی ماں کی حمایت میں آواز آئی۔
راکیش ملہوترا جواب میں کچھ نہ بولا۔ فریش ہوکر چائے پی اور پھر ڈرائنگ روم میں صوفہ پر بیٹھ کر اخبار پڑھنے لگا… جیسے ہی اس کی نظر اس خبر پر پڑی جس میں موسم وِبھاگ نے بھاری ورشا ہونے کی چیتاونی دی تھی وہ فوراً اخبار لے کر اٹھا اور اپنی بیٹی کو آواز دی ’’رادھا! دیکھو، اخبار میں بھی خبر چھپ چکی ہے کہ آج بھاری ورشا ہوگی۔ کپڑے دھونا بند کردو پلیز!‘‘
’’سب بکواس ہے، بوندا باندی تک نہیں ہوگی!‘‘ بیوی نے اسی انداز میں کہا جس لہجے میں راکیش ملہوترا نے بیوی سے بولا تھا۔
ڈرائنگ روم کی کھڑکی سے دھوپ آکر فرش پر بکھر گئی تھی۔ راکیش ملہوترا کو لگا جیسے دھوپ اس کا مذاق اڑا رہی ہے۔
وہ فوراً ڈرائنگ روم سے نکلا اور دالان میں آیا۔ بیٹی مونگ دال کی بڑی کا ٹرے آنگن میں رکھنے کے لیے لے جا رہی تھی۔
’’ارے بیٹی! آج بھاری ورشا ہونے والی ہے اور تم نے یہ بڑیاں…‘‘
’’پتا جی…! بیٹی بات کاٹ کر بولی، آپ چنتا مت کیجیے آج دھوپ کافی تیز رہے گی۔ بڑیاں اچھی سوکھ جائیں گی۔‘‘
’’کمال ہے! تم دونوں ماں بیٹی کا موسم وبھاگ کی چیتاونی کی بھی چنتا نہیں!
بیٹی جواب میں مسکرا دی اور ٹرے کو آنگن میں رکھے اسٹول پر رکھ دیا۔
آنگن میں تار پر کپڑے سوکھ رہے تھے۔ پتلون، بوشرٹ، ساڑی، بلاؤز، فراک، شلوار، دوپٹے، چاردر، تکیے کے غلاف سب لہرا لہرا کر جیسے راکیش ملہوترا پر قہقہے لگا رہے تھے اور اسٹول پر رکھی ٹرے کی ہر بڑی پتھر بن کر اس کے ذہن پر برس رہی تھی…
آنگن میں چمکتی دھوپ سے راکیش ملہوترا اندر ہی اندر جل کر کباب ہوا جا رہا تھا۔
وقفے وقفے سے وہ کمرے سے نکل کر دالان میں آتا۔ آسمان کی طرف دیکھتا۔تنے ہوئے تار پر لٹکے کپڑوں کے قہقہوں کا شور اس کے انوں میں بھر جاتا اور ٹرے کی بڑیاں پتھر بن کر اس کے ذہن پر برسنے لگتیں اور چمکتی دھوپ اس کا بدن چھید دیتی۔ وہ اذیت ناک مایوسی لے کر کمرے میں لوٹ آتا۔
صبح سے شام ہوگئی۔ بھاری ورشا تو کیا، بوندا باندی تک نہیں ہوئی۔
راکیش ملہوترا ڈرائنگ روم میں صوفہ پر منہ لٹکائے بیٹھا اخبار میں چھپی اس خبر کو دوبارہ بڑھ رہا تھا جس میں موسم وبھاگ نے بھاری ورشا ہونے کی چیتاؤنی دی تھی۔ اسی وقت بیٹی اور بیوی کمرے میں داخل ہوئیں۔
بیٹی نخوت آمیز لہجے میں بولی ’’پتا جی! نکالیے دو ہزار روپے!
’’نہیں بیٹی، رہنے دے!‘‘ ماں نے کہا: ’’تیرے پتا جی سرکاری آدمی ہیں، حساب سے رہتے ہیں، سرکار پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘
راکیش ملہوترا نے بیوی کی طرف دیکھا۔ مسکرایا اور پھر پاکٹ سے دو ہزاور روپے نکال کر بیٹی کو دے دیا۔
بیٹی نوٹ بندی کے بعد چھپا دو ہزار کا نیا نوٹ لے کر بولی:
’’پتا جی! لاکھ بات کی ایک بات بتاؤں!‘‘
راکیش ملہوترا سوالیہ نگاہوں سے بیٹی کو دیکھنے لگا۔
بیٹی نہایت پراعتماد لہجے میں بولی ’’پتا جی! سرکار جیسی ہوتی ہے اس کے وبھاگ بھی ویسے ہی بن جاتے ہیں۔ لیجیے، یہ اآپ کے دو ہزار روپے!‘‘
راکیش ملہوترا حیرت سے بیٹی کی طرف دیکھتا رہ گیا۔lll