زبیدہ نے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپے سراپے پر نگاہ ڈالی تو اس کے منہ سے بے اختیار سرد آہ نکل گئی۔ اس کا ذہن تیزی سے مایٰ کی جانب سفر کرنے لگا جب کالج کے زمانے میں سہیلیاں اس کی تعریف مین زمین آسمان کے قلابے ملادیتی تھیں۔ حقیقت میں وہ جھوٹ نہیں بولتی تھیں وہ تھی ہی ایسی۔
وہ ہر کھیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی۔ اس نے نصابی اور تعلیمی سرگرمیوں سے کبھی اکتاہٹ کا اظہار نہیں کیا تھا۔ گھر میں امی کا خوب ہاتھ بٹاتی۔ جب وہ ایم اے میں تھی تو لوگ اسے انٹرمیڈیٹ کی طالبہ سمجھتے تھے، لیکن اب وہ اپنی حقیقی عمر سے کئی برس بڑی لگنے لگی تھی۔ دکان دار جب اسے خالہ جی کہہ کر مخاطب کرتے تو اس کے دل پر ایک کٹار سی لگتی۔
یہ ساری مصیبت اس کے موٹاپے کے باعث تھی۔ اس نے خود اپنی صحت سے غفلت برتی تھی۔ اب بھی اس کا دل چاہتا تھا کہ بھاگ بھاگ کر کام نمٹائے مگرچند لمحوں میں سانس پھولنے لگتا، جھک کر کوئی چیز اٹھانے کا سوچتی تو موٹی توند راہ میں حائل ہوجاتی۔ شادی سے پہلے وہ باقاعدگی سے ورزش کرتی تھی، شام کو امی کے ہمراہ پیدل چلتی جہاں دن بھر کی مصروفیات امی کو بتاتی اور مختلف مسائل پر مشورے کرتی۔ جب گھر آتی تو ہشاش بشاش ہوتی، لیکن شادی کے بعد وہ گھر کے کاموں اور بچوں میں ایسی الجھی کہ اپنی صحت پر توجہ دینا بالکل ہی بھول گئی۔
آئینہ دیکھتے ہوئے اسے اپنی بیٹی کی بات یاد آئی جو انگریزی جھاڑتے ہوئے کہہ رہی تھی ’’امی! یہ ڈی (D) نما توند بھی کیا چیز ہے، اچھے خاصے بندے کو نکو بنا دیتی ہے۔‘‘ یہ سوچ کر وہ مسکرانے لگی اور اگلے ہی لمحے موٹاپے سے چھٹکارا پانے کے متعلق سنجیدگی سے سوچنے لگی۔
موٹاپا ہماری اکثر خوایتن کا مسئلہ ہے۔ وہ عام طور پر اپنی صحت پر توجہ نہیں دیتیں، یہ امر ان کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے اور وہ وقت سے پہلے بوڑھی اور بیمار لگنے لگتی ہیں۔ صحت پر توجہ نہ دینے کے باعث نوجوان لڑکیاں بھی نقاہت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ جسم درد کرنے لگتا ہے اور بیزاری اور کوفت ان کی ذہنی صلاحیتوں کو ماند کردیتی ہے۔
ہم اپنی روز مرہ زندگی پر نظر ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہم بہت سا وقت فضول کاموں میں ضائع کرتے ہیں۔ کمپیوٹر اور ٹی وی کے آگے تین چار گھنٹے بیٹھے رہنا معمول بن چکا ہے، لیکن اگر کسی خاتون سے ورزش کا کہا جائے تو ٹکا سا جواب ملتا ہے ’’وقت ہی نہیں ملتا۔‘‘ حالاں کہ وقت نکلتا نہیں بلکہ نکالنا پڑتا ہے، وقت نہ ملنے کی شکایت کرنے والے در اصل اسے صحیح طور پر تقسیم نہیں کرپاتے۔
امیر گھروں کی خواتین گھریلو کام کاج سے آزاد ہوتی ہیں، کام کرنے کے لیے ملازم ہوتے ہیں اس لیے خوب کھانا اور بیٹھے بیٹھے گپیں ہانگنا ان کا واحد کام ہوتا ہے جو بالآخر موٹاپے کا سبب بنتا ہے۔ اس کا آسان علاج ڈائٹنگ یا محدود خوراک میں ڈھونڈا جاتا ہے جو صحت اور تندرستی کے منافی ہے۔
مزا جب ہے کہ خوب کھایا جائے اور اضافی حراروں کو زائل کردیا جائے تاکہ وہ جسم میں فاضل چربی نہ بنائیں۔ بڑھی ہوئی توند کا مالک براہ راست بیماری کی زد میں ہوتا ہے کیوں کہ جسم کی فاضل چربی کئی بیماریوں کو دعوت دیتی ہے۔ یہ چربی زیادہ مقدار میں چکنائی اور تیزابی رطوبتیں براہِ راست جگر میں خارج کرتی ہے جس کے نتیجے میں خون کے گردشی نظام میں کولیسٹرول اور انسولین کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے نیز ہارمونوں کی سطحوں میں تبدیلیاں آنے لگتی ہیں۔
یہ امر ذیابیطس، فالج اور بلند فشار خون جیسے امراض کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ بڑھی ہوئی توند والی خواتین میں سن یاس یعنی چالیس سے ساٹھ سال کی عمر میں جہاں ہارمونوں کا توازن تیزی سے بگڑنے کی وجہ سے مختلف امراض نمودار ہوتے ہیں وہاں چھاتی کے سرطان کی شرح بھی دبلی پتلی خوایتن کے مقالبے میں چالیس فیصد زیادہ ہوجاتی ہے۔
لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں، چند تدابیر اختیار کر کے آپ بیماریوں کو دور رکھ سکتی ہیں۔ خدانخواستہ آپ کسی بیماری کا شکا رہوچکی ہیں تو ا سکے خلاف محاذ کھول لیجیے۔ اس سلسلے میں آپ کی خوراک اور جسمانی ورزش انتہائی اہم ہے۔ وزن کم کرنے کے لیے کھانا چھوڑ دینا قطعاً درست نہیں۔ بھوک ستائے اور آپ خود پر جبر کرتے ہوئے کھانے پینے کی اشیا سے منہ موڑ لیں یہ کفران نعمت ہے۔ خدا تعالیٰ نے انسان کے لیے طرح طرح کی خوش ذائقہ نعمتیں پیدا کی ہیں، ان سے لطف اٹھانا چاہیے۔ اس کے علاوہ طبی نقطہ نگاہ سے بھی محدود خوراک نقصان دہ ہے۔ ہاں ان غذاؤں سے پرہیز ضروری ہے جو چربی میں اضافہ کرتی ہیں۔ ان کے بجائے سبزیاں اور پھل استعمال کیجیے۔
پھلوں کا رس بہت مفید ہوتا ہے لیکن موٹاپا دور کرنے کے لیے کھانے کی ٹھوس اشیا زیادہ بہتر رہتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ پی لینے کے بعد بھی بھوک کا احساس باقی رہتا ہے اور مقصود حاصل نہیں ہوتا۔
پینے کے بجائے کھانے کی مناسب چیزوں کو ترجیح دیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی سبزی مثلاً گھیا، ٹنڈے، پھلی، چنے، مٹر وغیرہ کو پانی میں ابالیں۔ پانی اتنا ہو جس میں چیز گل جائے اور پانی خشک ہوجائے۔ زیادتی پانی پینا صحت کے لیے بہت اچھا ہیے لیکن اگر آپ قلیل خوراک کی خاطر زیادہ پانی پیتی ہیں تو زیادہ پانی پینے سے بھوک ختم نہیں ہوتی۔
سلاد خوب استعمال کریں۔ آج کل کھیرے، ککڑی، ٹماٹر وغیرہ دوپہر کو کھائے جاسکتے ہیں۔ اگر آپ دوپہر میں پراٹھا کھاتی ہیں تو اس کی جگہ سادہ روٹی لیں۔ زیادہ روٹیاں کھاتی ہیں تو روٹی کی مقدار کم کرتی جائیں، پہلے آدھی، پھر سالم روٹی چھوڑ دیں اور دوسری طرف سلاد کی مقدار بڑھا دیں۔
دن میں تین مرتبہ سیر ہوکر کھائیں یعنی صبح، دوپہر اور شام۔ درمیان میں آپ کچھ سادہ بسکٹ، رس وغیرہ لے سکتی ہیں، لیکن یاد رہے کہ موٹاپا ان اشیا کی وجہ ہوتا ہے جن میں اضافی چکنائی ہوتی ہے۔
چینی کا استعمال کم سے کم کریں، میٹھا کھانے کو جی چاہے تو پھل کھایا جاسکتا ہے۔ گوشت والی غذاؤں کا استعمال بھی کم کریں۔ ہفتے میں ایک دو بارگوشت کھانا کافی ہے۔ باقی دنوں میں سبزیوں اور دالوں کو خوراک کا حصہ بنائیں۔
موٹاپے کو بھگانے کے لیے سادہ غذاکے ساتھ ورزش بھی ضروری ہے۔ بدقسمتی سے اکثر خواتین ورزش سے کتراتی ہیں۔ اگر شروع سے ورزش کی عادت اپنائی جائے تو موٹاپے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں موٹاپے کے بعد ورزش کی جاتی ہے، لیکن ایسی خواتین کی تعداد بھی کم ہے۔ عام رجھان ہے کہ اگر بازار جانا ہو تو کوئی سواری ضروری ہے حالاںکہ پیدل جایا جائے تو صحت اور جیب دونوں پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ کوشش کریں کہ سواری مثلاً بس یا رکشے پر جاتے ہوئے اپنے اسٹاپ سے پہلے اتر جائیں اور پیدل چلتے ہوئے منزل تک پہنچیں۔ اس طرح چلنے کی عادت پڑ جائے گی جو عمدہ صحت کی نوید لائے گی۔
اضافی حراروں کو ختم کرنے اور چھی صحت کے لیے ضروری ہے کہ روزانہ دو سے تین کلو میٹر مناسب رفتار سے تیس تا پینتالیس منٹ چلا جائے۔ پیٹ کی چربی اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک آپ حرکت نہیں کریں گی۔ پیدل چلنے سے دل اور پھیپھڑوں کو زیادہ آکسیجن ملتی ہے اور پیدل چلنے والوں سے موٹاپا دور بھاگتا ہے۔ پیدل چلنا موٹاپا ختم کرنے میں بھی کارگر ثابت ہوتا ہے۔
بڑھا ہوا پیٹ کم کرنے کے لیے مندرجہ ذیل ورزشیں معاون ثابت ہوسکتی ہیں، لیکن شرط یہ ہے ہ انہیں باقاعدگی سے اپنایا جائے۔ ہر عمل کو تقریبا آٹھ مرتبہ دہرائیں۔
(۱) کمر کے بل سیدھی لیٹ جائیں اور ہاتھوں کے سہارے سر کندھوں اور کمر کے بالائی حصے کو زمین سے اوپر اٹھائیں۔ اس ہیئت کو برقررکھتے ہوئے دو تک گنیں پھر آہستہ آہستہ نیچے آجائیں اور اس عمل کو دہرائیں۔
(ب) سیدھی لیٹ جائیں۔ دونوں ٹانگوں کو جوڑ لیں اور انہیں اکٹھے اوپر کی جانب اٹھائیں، پھر آہستہ آہستہ نیچے لے جائیں۔ کوشش کریں کہ گھٹنوں میں خم نہ آنے پائے۔
(ج) دونوں پاؤں کی ایڑیاں جوڑیں اور سیدھی کھڑے ہوجائیں۔ اب دونوں ہاتھ کولہوں پر رکھیں۔ بدن کو کس لیں اور زور لگاتے ہوئے، آہستہ آہستہ جتنا ممکن ہو، آگے کو اور پھر پیچھے کو جھکیں۔ اسی طرح دائیں طرف، پھر بائیں طرف جھکیں۔ اس ورزش کے دوران ضروری ہے کہ جسم اکڑا رہے۔
(د) سیدھی کھڑی ہوجائیں۔ دونوں بازو سر کے اوپر لے جائیں، مٹھیاں بند کرلیں اور بازو کس لیں۔ دایاں پاؤں پیچھے ہٹائیں اور بدن کا اوپر والا حصہ پیچھے کی طرف جتنا جھک سکتا ہو جھکائیں۔ اب اصلی حالت میں واپس آئیں، پھر دایاں پاؤں اپنی جگہ پر قائم رکھیں اور بایاں پیچھے لو لے جائیں۔ یہ ورزش کئی بار دہرائیں۔
اب تیراکی کے لیے تیا رہوجائیں لیکن اس کے لیے کسی حوض کی ضرورت نہیں یہ خشکی پر بھی ہوسکتی ہے۔ الٹی لیٹ جائیں۔ اگلا دھڑ اور ٹانگیں اوپر اٹھائیں۔ پیٹ سطح کے ساتھ رہے۔ اب بازوؤں کو تیرنے کے انداز میں پانچ دفعہ حرکت دیں اور پھر ٹانگیں اور سر نیچے لے آئیں۔ یہ عمل ورزش کے دوران سو مرتبہ کریں۔ ابتدائی طور پر یہ ورزش محدود پیمانے پر کریں۔ ورزش کی مقدار آہستہ آہستہ بتدریج بڑھائیں حتی کہ آپ بازوؤں کو سو مرتبہ حرکت دے کر یہ ورزش بخوبی کرنے لگیں۔
ورزش کے دورانئے میں وقت کے ساتھ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ یاد رکھیے حرکت میں برکت ہے، محض گھریلو کام کاج کو ورز نہ سمجھئے بلکہ حقیقی ورزش کے لیے دن میں روزانہ کچھ وقت ضرور نکالیے۔ سب سے بہتر وقت نمازِ فجر کے بعد کا ہے۔lll