موٹاپا اور ذہنی مسائل

خالدہ عمر

2016 میں عالمی ادارۂ صحت نے ایک رپورٹ جاری کی، جس کے مطابق دْنیا بَھر کی تقریباً بیس فی صد آبادی موٹاپے کا شکار ہے اور یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ اگر اس شرح پر قابو نہ پایا گیا، تو اگلے چند عشروں میں اضافی وزن کا مسئلہ وبائی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ آج واقعی، موٹاپا ایک عالمی مسئلہ بن چْکا ہے۔اس حوالے سے جو تحقیقات ہوئیں، وہ بھی باعثِ تشویش ہیں۔ امریکی جریدے(فوربز میگزین )میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 194مْمالک جو موٹاپے سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، اْن میں ہندوستان بھی شامل ہے اور ان میں خواتین اور بچے خاص طور پر شامل ہیں۔

ایک بڑی تعداد فربہی کا شکار ہے اور اس میں اکثریت پندرہ سے چالیس برس کی خواتین کی ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہ دَور ہوتا ہے، جب لڑکیوں میں جسمانی تبدیلیاں واقع ہورہی ہوتی ہیں یا پھر شادی کے بعد وہ ماں بن جاتی ہیں۔تاہم، لڑکوں میں فربہی کی بڑی وجہ بازاری کھانوں کا رجحان اور جنک فوڈزکا استعمال ہے۔

اس کے علاوہ دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے والی آبادی جب شہری طرزِحیات اختیار کرتی ہے، تو فطرت سے دور ہونے لگتی ہے۔شہر کی چٹ پٹی غذائیں،جسمانی مشقّت اور محنت نہ کرنے جیسے عوامل اورا?سائشوں کی عادات انہیں جلد فربہی کی جانب مائل کردیتے ہیں۔

عالمی ادارئہ صحت کا کہنا ہے کہ ذہنی مسائل کا بہت گہرا تعلق وزن میں اضافے سے ہے۔ مثال کے طورپراے ڈی ایچ ڈی(Attention Deficit Hyperactivity Disorder) کے شکاربچّوں میں موٹاپے کے امکانات عام بچّوں کے مقابلے میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ایک سوئیڈش مطالعے کے مطابق ڈیپریشن میں مبتلا فربہ افراد، ڈیپریشن میں مبتلا کم وزن والوں کی نسبت انتہائی تکلیف میں رہتے ہیں۔

اسی طرح ذہنی امراض میں مبتلا افراد میں موٹاپے کا خطرہ زیادہ پایا جاتا ہے،تو فربہی مائل افراد میں نفسیاتی مسائل لاحق ہونے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ ان مختلف تحقیقات کی روشنی میں بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وزن میں اضافے کا انسان کی ذہنی صحت سے کس قدرگہرا تعلق ہے۔اور یہ تعلق دوطرفہ ہوتا ہے، جس کے کئی اسباب ہیں۔

مثلاً فربہ افراد کا اپنے بارے میں تاثر منفی اور کم زور ہوتا ہے، وہ بہت کم حرکت کرتے ہیں، یعنی زیادہ تر بیٹھے رہتے ہیں۔پھر موٹاپے کی وجہ سے ان کے اندر حیاتیاتی انتشار پیدا ہوجاتا ہے، ایسے افراد لوگوں سے گھلنے ملنے اور دوست بنانے سے بھی کتراتے ہیں۔

دبلے اور متناسب وزن کے حامل افراد کے مقابلے میں موٹے افراد میں (چاہے خواتین ہوں یا حضرات) خود توقیری کم ہوجاتی ہے اور ڈیپریشن بڑھ جاتا ہے۔ کئی تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ موٹے افراد بہت زیادہ ڈیپریشن میں رہتے ہیں اور ان میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے، کیوں کہ وہ اپنے جسمانی خد وخال اور ظاہری کیفیات سے متعلق بہت زیادہ حساس ہوتی ہیں۔

اس کے برعکس مَردوں کو عموماً اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ وہ دوسروں کو کیسے دکھائی دیتے ہیں۔ خواتین کی ہمہ وقت یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ محفل میں موجود تمام خواتین میں سب سے اچھی اور پْرکشش دکھائی دیں، مگر عموماً زیادہ وزن اس خواہش کی تکمیل میں ایک بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق ذہنی یا نفسیاتی مسائل میں مبتلا افراد کے باآسانی موٹے ہونے کی ایک وجہ ان کی سستی ہے۔ اسی سستی اور کاہلی کے سبب وہ گھر میں رکھی بیکری پراڈکٹس یا بازار کے تیار کردہ فاسٹ فوڈز یا مرغّن کھانوں کو، جو فوری دست یاب ہوتے ہیں، گھر کے تیارکردہ کھانوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ یوں رفتہ رفتہ ان کا وزن بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اگر نفسیاتی یا ذہنی مریض اپنے مرض سے متعلق مخصوص ادویہ بھی استعمال کررہے ہوں، تو یہ مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں۔

بہرکیف، جدید طبّی تحقیقات و مطالعات سے ثابت ہوا ہے کہ موٹاپے اور ذہنی و نفسیاتی مسائل کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ وزن کی زیادتی نہ صرف جسمانی عوارض کی وجہ بنتی ہے، بلکہ اس سے ذہنی اور نفسیاتی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔

لہٰذا اگر آپ ایک صحت مند اور خوش گوار زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو اپنے وزن میں معمولی اضافے پر بھی فکرمند ہوجانا چاہیے، کیوں کہ اگر بروقت فوری تدابیر اختیار نہ کی جائیں، تو موٹاپا بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ سو، اس معاملے میں تاخیر ہرگز نہ کریں۔ نیز، اس ضمن میں کسی مستند ماہرِ ذہنی صحت یا ماہراغذیہ سے بھی رابطہ ضروری ہے، تاکہ وزن میں اعتدال کے لیے وہ آپ کی ذہنی و جسمانی کیفیات کی مناسبت سے مشورہ دے سکے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں