مچھلی

فرحت افزا

مچھلی لحمیات، حیاتین اور معدنیات سے بھرپور نعمت خداوندی ہے۔ یہ زود ہضم اور لذیذ غذا جسم کا دفاعی نظام مستحکم کرتی ہے۔ اس میں موجود حیاتین اے اور ڈی اس سلسلے میں موثر کردا رادا کرتے ہیں۔ مچھلی کھانے والوں کی جلد عموما صحت مند ہوتی ہے، خشکی اور کھردرا پن نہیں ہوتا۔ نیز نزلہ زکام اور کھانسی کے خطرے سے تحفظ ملتا ہے اور ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں کیوں کہ مچھلی میں معقول مقدار میں کیلشیم پایا جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کھارے پانی میں رہنے کے باوجود مچھلی میں نمک (سوڈیم) کی مقدا رکم ہوتی ہے۔ اسی لیے ماہرین غذائیات بلند فشار خون کے مریضوں کو بھی مچھلی کھانے کی ہدایت کرتے ہیں۔ ان سب چیزوں کے علاوہ مچھلی میں تانبا، فولاد اور آیوڈین بھی خاطر خواہ مقدار میں پائے جاتے ہیں جو خون کے سرخ ذرات کی صحت کا لازمہ ہیں۔

مچھلی کے گوشت کی سب سے بڑی خوبی چربی سے پاک ہونا ہے جو لوگ صحت مند رہتے ہوئے اپنا وزن کم کرنا چاہیں ان کے لیے یہ عمدہ غذا ہے۔ خواتین کے مسائل مثلا کمر درد اور اعصابی کمزوری دور کرنے یا زچگی کے بعد طاقت و صحت کے حصول میں بھی یہ مفید ہے۔ مچھلی کے گوشت میں حرارے عام غذاؤں سے زیادہ ہوتے ہیں۔

لحمیات کی کثیر مقدا رکے باعث مچھلی بدن کی نشو و نما میں بھرپور کردار ادا کرتی ہے۔ یہ انسان کو کئی امراض سے محفوظ رکھتی ہے۔ مگر یہ سب فوائد حاصل کرنے کے لیے مچھلی کا تازہ اور تندرست ہونا لازم ہے۔ ویسے بھی بیشتر لوگ روز مرہ کے استعمال میںبکرے یا بڑے کے گوشت کو ترجیح دیتے ہیں جس میںغذائیت سے زیادہ مضر اثرات پنہاں ہیں۔ مثلاً حیوانی چربی کولسٹرول کا سبب بنتی نیز گوشت کی بسیار خوری ہاضمے پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ آج کل ہر شے کی طرح سرخ گوشت کی پیداوار بڑھانے کے لیے بھی مصنوعی طریقے اپنائے جا رہے ہیں مثلاً جانورں کو کچھ ایسی خاص غذائیں کھلائی جاتی ہیں جو انھیں کم وقت میں فربہ بنا دیں۔

چربی اور مضر اثرات سے پاک گوشت جسے (سفید گوشت کہا جاتا ہے) مچھلی اور مرغی کا ہے۔ مرغیوں کی افزائش اس طرح کی جا رہی ہے کہ چا رہفتے میں چوزہ، مرغی بن کر بازار پہنچ جاتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو مرغی کا گوشت بھی غذائیت کا مطلوبہ ہدف چھونے میں ناکام رہتا ہے۔

مچھلی پکانا خاص مہنگا عمل سمجھا جاتا ہے مگر فی زمانہ سرخ گوشت یا مرغی کے مقابلے میں یہ فرق بہت کم رہ گیا ہے۔ ا س خیال کی بنیاد یہ نظریہ ہے کہ کم قیمت کی مچھلی عمدہ اور ذائقے دار نہیں ہوتی جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کم قیمت مچھلی کو بھی اگر سلیقے اور عمدگی سے پکایا جائے تو وہی لذت ذائقہ اور غذائیت ملتی ہے جو مہنگے داموں خریدی گئی مچھلی سے میسر آتی ہے۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ صحیح غذا سے ہماری ذہانت کا معیار عمدہ تر ہوتا ہے اور ارتکاز کی صلاحیت جلا پاتی ہے۔ دماغ کو تقویت پہنچانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم کافی مقدار میں اومیگا تین چکنائی کھائیں جو مچھلی میں بطور خاص ملتی ہے۔ در حقیقت ہمارے دماغ کا ساٹھ فیصد حصہ ان ہی چکنائیوں پر مشتمل ہے جو مچھلی اور اس کے تیل میں بدرجہ اتم ملتی ہیں۔ تحقیق کے مطابق اومیگا تین چکنائی مطالعے کی صلاحیت بڑھاتی ہے۔ مچھلی کا تیل اس کا عمدہ ترین ماخذ ہے۔ یہ یاد داشت کے لیے مفید ہے اور مزاج بھی خوشگوار رکھتی ہے اسی لیے بزرگوں کی غذا میں مچھلی لازما ہونی چاہیے۔

اگر آپ ہفتے میں تین بار مچھلی کھائیں، تو اس کا دماغی قوت پر مثبت اثر پڑے گا اور ذہنی استعداد کار بڑھے گی۔ اگر ہفتے میں ایک دن مچھلی کھاتے ہیں تو وہ موجودہ ذہنی صلاحیت قائم رکھے گی۔

کچھ عرصہ قبل فرانس میں ۶۸ سال یا اس سے زیادہ عمر رکھنے والے ۲۳۶۰ افراد پر کیے جانے والے تجربات سے ثابت ہوا کہ اس عمر کے جو افراد ہفتے میں کم از کم ایک بار مچھلی کھائیں وہ نہ کھانے والوں کی نسبت نسیان اور الزائمر سے محفوظ رہتے ہیں۔ چوں کہ مچھلی میں موجود روغنی تیزاب شریانوں کو ورم سے محفوط رکھنے کے علاوہ تازہ دم رکھتے ہیں، اس لیے مچھلی کھانے والوں کے عصبی خلیات بھی صحت مند رہتے ہیں۔ وہ شریان میں سکڑاؤ کا امکان کم کر کے کولسٹرول بھی نہیں بڑھنے دیتے۔ اس اعتبار سے مچھلی دماغ اور اعصاب ہی نہیں قلب کے لیے بھی نعمت ہے۔

مچھلی کی خریداری

مچھلی خریدتے وقت اس کی پانچ خصوصیات مدنظر رکھیے:

٭ مچھلی کی مخصوص بوکم ہو، ناگوار بو زیادہ ہونے کا مطلب ہے کہ مچھلی پرانی اور باسی ہے۔

٭ چھونے اور دیکھنے میں نمی کا احساس ہو نہ کہ خشکی کا۔

٭ آنکھیں گول اور کھلی ہوں، تو یہ بھی اس کے تازہ ہونے کی نشانی ہے۔ ادھ کھلی اور سرخ آنکھیں بھی باسی پن کی غماز ہیں۔

٭ ہاتھ میں پکڑنے سے نہ تو نرم محسوس ہو او رنہ ملائم بلکہ ٹھوس ہونی چاہیے۔

٭ مچھلی کے گلپھڑے کا جائزہ لیجیے، ان کی رنگت سرخ ہونی چاہیے نیز پنکھڑیاں الگ الگ ہوں۔ اس طرح ہم مچھلی پکڑے جانے کے عرصے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ باسی اور آلودہ پانی کی مچھلی زہریلے اثرات رکھتی ہے۔ آج کل سمندروں اور دریاؤں میں آلودگی کی شرح ماضی سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی لیے زہریلی مچھلی کھانے سے انسان زہر خورانی کا شکار ہو جاتا ہے۔

مچھلی اور دودھ

یہ خیال عام ہے کہ مچھلی کھانے کے بعد دودھ پینے سے برص ہو جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ایک خاص قسم کی مچھلی یہ مرض پیدا کرتی ہے۔ چوں کہ ابھی تک واضح شناخت نہیں ہو سکی لہٰذا ایسا کرنا صرف احتیاط کا تقاضا ہے۔

مچھلی اور ماحول

مچھلی خریدنے اور صاف کرنے کے بعد اسے فرج میں رکھیے تاکہ تازگی برقرار رہے۔ کھلا رکھنے سے نہ صرف اس کا رنگ تبدیل ہوجاتا ہے بلکہ گوشت میں جراثیم نشوونما پانے لگتے ہیں۔

مچھلی کا تیل

مچھلیوں کی کئی اقسام میں سے نکلنے والا تیل انسانی صحت کے لیے کارآمد ہے۔ ویسے تو تمام مچھلیوں میں اومیگا تین چکنائی ملتی ہے، مگر سالن مچھلی میں یہ دگنی مقدار میں ہوتی ہے۔ اسے اومیگا تین ایس کا نام دیا گیا ہے جو دل کے امراض خصوصا جوڑوں اور پٹھوں کے کھچاؤ کا کرشماتی علاج ہے۔ مچھلی کے جگر سے حاصل کردہ تیل بھی توانائی بخش ہونے کے علاوہ جوڑوں کے لیے مفید ہے۔

المفاصل کے مریض باقاعدگی سے یہ تیل استعمال کریں تو انھیں فائدہ ہوگا۔ مچھلی کا تیل بچوں، جوانوں اور بوڑھوں، سب کے لیے یکساں مفید ہے۔

پکانے کے سلسلے میں مشورے

مچھلی کو مسالہ لگا کر کئی گھنٹے نہ رکھیے، یوں اس میں تیزابیت جنم لے سکتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ مچھلی کو ٹھنڈی جگہ یعنی فریج فریزر میں صرف شیشے یا چینی کے برتن میں رکھیے، کبھی دھاتی برتن استعمال نہ کریں۔ تکے بنانے ہوں، تو سیخیں صاف کر کے تیل سے چپڑ لیں کہ مچھلی چپکنے سے محفوظ رہے۔ کوئلوں کی حدت بھی کم رکھیے، ہلکی آنچ پر بنے تکے کباب زیادہ لذیذ ہوتے ہیں۔

بھاپ پر پکانا

بھاپ پر پکانے کے لیے مخصوص برتن استعمال ہوتے ہیں۔ وہ نہ ہوں تو دیگچی میں ابلتے پانی کے اوپر جالی رکھ کر اس میں مچھلی رکھیں اور ڈھانپ دیں۔ یوں پکانے سے نہ صرف مچھلی کی ظاہری شکل و صورت برقرار رہتی ہے بلکہ معدنیات اور حیاتین بھی ضائع نہیں ہوتے۔

اس طریقے سے زیادہ مسالہ لگائے بغیر عمدہ غذائیت حاصل کی جاسکتی ہے۔

دم پخت کرنا

مسالے والی چھلی کاغذ یا فوائل میں لپیٹ کر درمیانے درجہ حرارت پر گرم شدہ اوون میں رکھیے اور بڑی احتیاط سے اتنا ہی وقت دیں کہ وہ گل جائے۔ اگر درجہ حرارت تیز رکھایا زیادہ وقت دیا گیا، تو مچھلی کی قدرتی نمی خشک ہونے سے ذائقہ خراب ہوسکتا ہے۔

تلنا

یہ سب سے معروف طریقہ ہے۔ اس میں قباحت یہ ہے کہ مچھلی پر لگائے گئے مسالے مثلاً بیسن، مکئی کا آٹا (کارن فلور) وغیرہ گھی کو آلودہ کردیتے ہیں اور مچھلی پر عموما کم ہی چپکتے ہیں۔ یاد رہے کھال اتری مچھلی میں مسالے جذب کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے مگر ا سکے بکھرنے اور ٹوٹنے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔ اسے بچانے کے لیے اس پر لیموں یا کوئی سی کھٹاس چھڑک دیں تو وہ نہ صرف ٹوٹنے سے محفوط رہے گی بلکہ مسالہ بھی اچھا رچے گا۔

مچھلی کی بو دورکرنا

یہ ایک اہم مسئلہ ہے جسے حل کرنے کے لیے جتن کیے جاتے ہیں۔ ایک آزمودہ ٹوٹکا یہ ہے کہ مچھلی کسی ململ کے کپڑے میں بصورت پوٹلی باندھ لیں۔ پھر کیاری یا باغیچے وغیرہ میں چھوٹا ساگڑھا کھود کر پوٹلی اس میں دبادیں۔ آدھ گھنٹے بعد جب آپ اسے نکالیں گی تو بو نہیں آئے گی۔

پکاتے وقت ذہن میں رکھیے

٭ سالن بناتے ہوئے چمچ بالکل استعمال نہ کریں بلکہ دیگچی کو کپڑے سے پکڑ کر ہلائیں۔

٭ مچھلی الگ سے تل کر مسالے میں شامل کریں، تو ٹوٹنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔

٭ مچھلی تلتے ہوئے اگر تیل میں ایک چٹکی اجوائن ڈال دیں تو تلنے کی ناگوار بو نہیں آتی۔

مچھلی کے پکوان

روہو مچھلی کا سالن

مچھلی: ایک کلو

بیسن: ایک چھٹانک

لونگ: تین عدد

ادرک: ایک ٹکڑا

ہلدی: آدھا چمچ

دہی: ایک پاؤ

گھی: ایک پاؤ

دھنیا: چار چمچ

پیاز: ایک پاؤ

لال مرچ: حسب ضرورت

نمک: حسب ذائقہ

ترکیب:کانٹے نکال کر گوشت کے پارچے کرلیں اور ان پر پسا مسالہ مع بیسن لیپ دیں۔ پھر پتیلی میں تھوڑا پانی ڈال کر ان پارچوں کو ابال لیں۔ جب ابل جائیں تو لونگ کا بگھار دے کر دھنیے کے پانی میں پکائیں اور دہی ڈال کر مزید آمیزہ پیدا کریں۔ اگر مچھلی سے کانٹا نکالنا ہو تو دو ماشہ کچا سہاگا، پیٹھے کے عرق میں ملائیں اور مچھلی کے ٹکڑوں کو اس میں ایک دن تک ڈوبا رہنے دیں۔

تلی سنگھاڑا مچھلی

مچھلی: ایک کلو

نمک: حسب ضرورت

ہری مرچ: حسب ضرورت

پسا گرم مسالہ: حسب ضرورت

گھی: ایک چھٹانک

لہسن: آدھا پاؤ

ترکیب:مچھلی کے ٹکڑوں پر نمک لگا کر ایک گھنٹے تک پڑا رہنے دیجیے پھر ایک گھنٹہ بعد نمک مرچ اور گرم مسالہ پیس کر لیپ دیں۔ چار گھنٹے بعد تل لیں۔ مچھلی کو سرخ کریں لیکن یہ خیال رہے کہ جلنے نہ پائے اور نہ ذائقے میں کڑواہٹ آجائے گی۔ گرم گرم لیموں اور مرچوں کی چٹنی کے ساتھ دسترخوان کی زینت بنائیے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں