مہذب انسان کی خوبیاں

سلیم احمد

ایک باشعور انسان اکثر سوچتا ہے کہ مہذب فرد کس کو کہا جائے؟ وہ جسے تقریب کے مطابق لباس پہننے کا سلیقہ ہے یا وہ جو کھانا چھری کانٹے سے کھاتا ہے؟ یا ایسا خود پسند جسے اپنے علاوہ کسی کا خیال نہیں سوجھتا۔ ہمارے ہاں درج بالا چلن ہی کو تہذیب یافتہ کہا جاتا ہے۔

لیکن روس کے ممتاز ادیب اور افسانہ نگار، انطون چیخوف کی نظر میں مہذب افراد کچھ مخصوص خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ خوبیاں کیا ہیں، چیخوف نے اپنے بھائی نکولائی کے نام ایک خط میں انھیں خوب صورتی سے بیان کیا تھا۔ وہ خط آپ بھی ملاحظہ فرمائیے:

’’میرے بھائی، تم نے اکثر مجھ سے یہ شکایت کی ہے کہ لوگ تمہیں نہیں سمجھتے۔ مگر گوئٹے اور نیوٹن نے کبھی ایسا نہیں کہا۔ صرف مسیح نے کہا، مگر اپنے درس کے بارے میں اپنی ذات کے لیے نہیں۔ لوگ تمہیں اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اور اگر تم خود کو نہیں سمجھتے تو یہ ان کی غلطی نہیں۔ میں بطور ایک بھائی اور دوست تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں تمہیں اچھی طرح سمجھتا اور وثوق سے جانتا ہوں۔

میں تمہاری اچھی خصوصیات سے آگاہ ہوں جیسے اپنی پانچ انگلیوں سے۔ اگر تم اس کا ثبوت مانگو، تو میں کسی بھی وقت دینے کو تیار ہوں۔ میں سوچتا ہوں تم ایک نرم دل انسان ہو، فراخ دل اور بے لوث۔ جیب میں پڑا آخری سکہ بھی دوسروں کو دینے کو تیار۔ تم حاسد نہیں ہو اور نہ کینہ دل۔ تم معصوم ہو، سب پر ترس کھانے والے، خواہ انسان ہو یا جانور۔ تم قابل اعتبار ہو، بدی سے بے بہرہ۔ تمہیں فطرت سے جو یہ تحفہ عطا ہوا ہے، دوسرے اس سے محروم ہیں۔ تم ہنر مند ہو۔ یہ چیز تمہیں دیگر لوگوںسے بہتر بناتی ہے۔ لاکھوں میں ایک ہونے کو ہنر مندی کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے؟ اگر تم کوئی مینڈک ہوتے یا کوئی مکھی، پھر بھی تم قابل عزت تھے، اس لیے کہ ہنر بہرحال غالب ہوتا ہے۔

تمہارے اندر فقط ایک خامی ہے۔ اور یہی تمہاری تمام پریشانیوں کی بنیاد ہے۔ وہ تمہارا کم تہذیب یافتہ ہونا ہے۔ مجھے معاف کرنا، سچائی کو ہی غلبہ ہے۔ تم نہیں دیکھتے کہ زندگی کی اپنی شرائط ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کے درمیان خود کو مطمئن محسوس کرنے کے لیے حتی کہ گھر میں بھی زندگی گزارنے کی خاطر ایک شخص کو کسی حد تک تہذیب یافتہ ہونا چاہیے۔ ہنر تمہیں وہاں لے آیا ہے جہاں تمہیں ہونا چاہیے۔ لیکن تم خود اس سے کنارہ کشی پر آمادہ نظر آتے ہو۔ تم تہذیب یافتہ اور اجڈ کے مابین لڑکھڑا رہے ہو۔ میرے خیال میں تہذیب یافتہ اشخاص کا درج ذیل شرائط پر پورا اترنا شرط ہے۔

٭ وہ ہر انسان کا احترام کرتے ہیں، ہمیشہ نرم دل، شائستہ اور دوسروں سے بھلائی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ وہ ہتھوڑا یا کنگھی جیسی چیز کے گم ہونے پر نہیں چلاتے۔ اگر وہ کسی کے ساتھ رہتے ہیں تو احسان نہیں جتاتے، نہ بچھڑنے پر یہ کہتے ہیں کہ تمہارے ساتھ رہنا ہی کون چاہتا ہے۔ وہ شور، ٹھنڈا، گرم یا مذاق بھول جاتے ہیں اور مہمان کے گھر آنے پر ناک نہیں سکیڑتے۔

٭ ان کے جذبات محض غریب بھکاری یا بیمار بلی کے لیے نہیں جاگتے بلکہ وہ اس شے کے لیے بھی تکلیف محسوس کرتے ہیں جنہیں آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کا کون سا دوست یونیورسٹی کی فیس ادا نہیں کرسکا اور اس کی ماں کے لیے کپڑے بھی خریدتے ہیں۔

٭ وہ دوسروں کے مال کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کی واجب الادا رقم ادا کرتے ہیں۔

٭ وہ آگ کے مانند مخلص ہوتے ہیں۔ وہ چھوٹی سے چھوٹی بات کے لیے بھی جھوٹ نہیں بولتے۔ جھوٹ سننے والے کے لیے توہین آمیز ہے۔ اور اسے بولنے والے کے آگے چھوٹا کر دیتا ہے۔ وہ دکھاوا نہیں کرتے اور گلی بازار میں بھی لوگوں کے ساتھ ان کا برتاؤ گھر کی طرح کا ہوتا ہے۔ وہ مخلص دوستوں کے سامنے بڑ نہیں ہانکتے، بک بک سے پرہیز کرتے ہیں اور دوسروں کے احترام میں بولنے سے زیادہ سننے کو فوقیت دیتے ہیں۔

٭ وہ ہمدردی سمیٹنے کے لیے اپنے آپ کی ہتک نہیںکرتے۔ وہ جذبات سے نہیں کھیلتے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ مجھے غلط سمجھا گیا یا ثانویت دی گئی۔ کیوں کہ یہ سب نچلے درجے کا کام ہے، گھٹیا، واہیات، لغو۔

٭ ان کے اند رسطحی سا بھی غرور نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی ایسے نقلی جواہرات کی قدر کہ فلاں مشہور شخص میرا دوست ہے یا آرٹ شو میں کسی سے ہاتھ ملانے کی بڑ۔ اگر وہ ٹکے برابر کام کریں تو سوکا نہیں جتلاتے اور نہ اس جگہ داخل ہونے پر اتراتے ہیں جہاں دوسروں کا داخلہ بند ہو۔ وہ ہجوم میں ذاتی شناخت کو پنہاں رکھتے ہیں اور مشہوری نہیں کرواتے۔ جیسے کرلوف نے کہا تھا: ’’تھوتھا جناباجے گھنا۔‘‘

٭ وہ اپنے ہنر کی قدر کرتے ہیں او راسے شراب یا شباب کے عوض نہیں بیچتے۔ انہیں اپنے ہنر پر فخر ہوتا ہے خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہو۔

٭ وہ اپنے جمالیاتی محسوسات کو پختہ کرتے ہیں۔ وہ لباسوں سمیت سونے نہیں جاتے، نہ درازیں دیکھتے ہیں۔ گندی ہوا میں سانس لیتے اور نہ ہی تھوکے فرش پہ چلتے ہیں۔ وہ نفسی حسد پہ قابو پانے کی سعی میں عورت کو کسی سفلی شے نہیں ہم سفر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ جھوٹ بولنے کی بابت کچھ دریافت نہیں کرتے۔ وہ بطور ایک فنکار تازگی، انسانیت اور خوش پوشی کی بات کرنا پسند کرتے ہیں، اور ان کی زندگی اس کا عملی نمونہ ہوتی ہے۔ وہ شراب نہیں پیتے اور الماریوں میں نہیں چھپتے۔ وہ جانتے ہیں وہ انسان ہیں، سور نہیں۔ وہ صحت مند جسم و ذہن کی چاہ رکھتے ہیں۔

سب سے ضروری چیز مسلسل پڑھنا اور کام کرنا ہے۔ دن، رات لگاتار، ایک ایک گھنٹہ قیمتی ہے۔ بچپنا چھوڑ دو۔ تم بچے نہیں رہے، عنقریب تم تیس کے ہوجاؤگے۔ باتہذیب بننے کا یہی وقت ہے۔ مجھے تم پہ کامل اعتبار ہے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں