والدہ محترمہ کی تربیت کے حوالے سے سرسید کی زبانی چند واقعات پیش ہیں۔
میری والدہ (دلی) شہر کی لاوارث بوڑھیوں کی خصوصی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ ان کی وسیع و عریض حویلی مستحق عورتوں کی پناہ گاہ تھی۔ زیبا نام کی ایک ضعیف خاتون انہی مستحق عورتوں میں سے تھیں۔ اتفاق سے میری والدہ اور زیبا ایک نوعیت کی بیماری میں مبتلا تھیں۔ جن حکیم صاحب سے میری والدہ کا علاج ہوا، زیبا بھی ان کے زیر علاج رہیں۔ صحت ہوگئی تو حکیم صاحب کی تجویز پر والدہ کے لیے ایک قیمتی معجون تیار ہوئی۔ یہ معجون صرف ایک مریض کے لائق تھی۔
میں اس زمانے میں دہلی میں منصف تھا۔ میں وہ دوا تیار کرا کے لے گیا اور کہا کہ اتنے دنوں کی خوراک ہے، اس کو استعمال فرمائیے۔ انہوں نے اس خیال سے دوا لے لی کہ یہ معجون زیبا کے لیے بھی ایسی ہی مفید ہوگی جیسی مجھ کو ہے۔ ان کو یقین نہیں تھا کہ زیبا کے لیے بھی ایسی معجون تیار کر دی جائے گی۔ اسی لیے انہوں نے وہ معجون نہیں کھائی اور خفیہ خفیہ زیبا کو کھلا دی۔ اس معجون سے زیبا کی صحت میں کافی ترقی ہوئی۔ چند روز بعد میں نے کہا کہ اس معجون سے آپ کو بہت فائدہ ہوا۔ وہ ہنسیں اور کہا ’’تمہارے نزدیک بغیر دوا خدا صحت نہیں دیتا؟‘‘ میں متعجب ہوا۔ تب معلوم ہوا وہ معجون ان کے عوض زیبا نے کھائی ہے اور خدا نے دونوں کو صحت عطا کردی۔ ایک کو یہ صلہ دوا سے ملا اور دوسرے کو محض اپنے فضل و کرم سے!‘‘
میں دہلی میں منصف تھا تو میری والدہ مجھ کو نصیحت کرتی تھیں کہ جہاں جہاں جانا تم لازم سمجھتے ہو تو وہاں کبھی تم سواری پر جایا کرو اور کبھی پیادہ پا۔ زمانے کا کچھ اعتبار نہیں کبھی کچھ ہے تو کبھی کچھ۔ پس اپنی ایسی حالت رکھو کہ ہر حالت میں اسے نباہ سکو۔ چناں چہ میں نے جامع مسجد اور حضرت شاہ غلام علیؒ کی خانقاہ میں جانے کا یہی طریقہ اختیار کیا تھا کہ اکثر دونوں جگہ پیدل جایا کرتا تھا یا کبھی سواری پر۔
اس زمانے میں، میں منصفی کی کل تنخواہ والدہ کو دیتا تھا۔ وہ اس میں سے صرف پانچ روپے ماہانہ جیب خرچ کے لیے مجھ کو دے دیتی تھیں باقی میرے تمام اخراجات انہی کے ذمہ تھے، جو کپڑا بنا دیتی تھیں، پہن لیتا اور جیسا کھانا وہ کھلا دیتی تھیں، کھا لیتا تھا۔
ایک مرتبہ میں نے بچپن میں ناراض ہوکر اپنے ایک نوکر کو تھپڑ مار دیا۔ والدہ کو پتا چلا تو انہوں نے مجھے گھر سے نکلوا دیا اور کہا کہ یہ گھر میں رکھنے کے قابل نہیں۔ جہاں اس کا دل چاہے، چلا جائے۔ اس کے بعد مجھ سے کہا کہ جب تک تم نوکر سے معافی نہیں مانگ لوگے تب تک میں معاف نہیں کروں گی۔ چناں چہ مجھے نوکر سے معافی مانگنی پڑی۔ بلاشبہ ایک اچھی ماں ہزار استادوں سے بہتر ہے۔
ایک امر جو نہایت ہی صبر و استقلال کا ان سے ظہور میں آیا، وہ نہایت ہی عجیب ہے۔ ان کے بڑے بیٹے، سید محمد خاں کا صرف سینتیس اڑتیس سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ سب لوگ گریہ و زاری کرنے لگے۔ جو رنج و غم ان کو ہوا ہوگا، وہ بیان کرنا مشکل ہے۔ بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو نکلتے تھے۔ لیکن اس حالت میں بھی انہوں نے کہا: ’’خدا کی مرضی‘‘ اور وضو کر کے صبح کی نماز پڑھنے لگیں اور اشراق تک مصلے سے نہیں اٹھیں۔ میں اس زمانے میں فتح پور سیکری میں منصف تھا۔ اس واقعے کے بعد میں نے دہلی میں اپنی تبدیلی کرالی۔
والدہ کی تعلیم اور ان کی نصیحتیں نہایت ہی حکیمانہ اور دل پر اثر کرنے والی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک شخص نے جس کے ساتھ میں نے نیکی کی تھی، میرے ساتھ نہایت بدی کی۔ جلد تمام وجوہات اور ثبوت جن سے اس کو عدالت سے کافی سزا مل سکتی تھی، میرے ہاتھ آگئے۔ میرے نفس نے مجھ کو بہکایا اور انتقام لینے پر آمادہ کر دیا۔
میری والدہ نے یہ خبر سن کر مجھ سے کہا۔ اگر تم اس کو معاف کر دو تو اس سے عمدہ کوئی بات نہیں، اگر تمہیں اس کی بدی کی سزا حاکم سے دلوانی ہے تو نہایت نادانی ہے کہ اس قوی اور زبردست حاکم الحاکمین کے چنگل سے جو ہر ایک کے اعمال کی سزا دینے والا ہے، اپنے دشمن کو چھڑا کر ضعیف اور ناتواں دنیا کے حاکموں کے ہاتھ ڈال دو۔ پس اگر دشمنی اور انتقام ہی منظور ہے تو قوی حاکم کے ہاتھ میں اس کو رہنے دو۔ اس نصیحت کا میرے دل پر ایسا اثر ہوا کہ کبھی دور نہ ہوا۔ جب سے میرے دل میں کسی شخص سے جس نے میرے ساتھ کیسی ہی دشمنی کی ہو، انتقام لینے کا خیال تک نہیں آیا۔ بلکہ ان کی نصیحت پر غور کرنے سے میرے دل میں یہ بات پیدا ہوگئی کہ اب میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ آخرت میں خدا بھی اس سے میرا بدلہ لے۔
وہ مجھ کو نصیحت کرتی تھیں کہ کسی نے اگر ایک دفعہ تمہارے ساتھ نیکی کی ہو اور پھر وہ برائی کرے یا دو دفعہ نیکی کی ہو اور دو دفعہ برائی کرے تو تم کو ناراض نہ ہونا چاہیے کیوں کہ ایک یا دو دفعہ کی نیکی کرنے والا کیسی ہی برائی کرے، اس کی نیکی کے احسان کو بھلایا نہیں جاسکتا۔
اگر لوگ ان باتوں پر غور کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ میری والدہ کیسی عالی خیال اور نیک صفات، خلیق اور دانشمند نیز دور اندیش و فرشتہ صفت بی بی تھیں۔ اور ایک ایسی ماں کا ایک بیٹے پر جس نے اس کی تربیت کی ہو، کیا اثر پڑتا ہے۔lll (ماخوذ)