میری ماں

ثمینہ نعمان

ثمینہ اُٹھ جاؤ، فجر کا وقت ہو گیا ہے… وضو کر لو تو چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی باری باری اٹھا دینا، میں ناشتہ بنانے جا رہی ہوں۔‘‘
بڑی بیٹی ہونے کے ناتے میں نے امّی کی کچھ ذمے داریاں سنبھالی ہوئی تھیں۔ چھوٹا بھائی اکثر نماز کے بعد قرآن پڑھنے میں سستی کرتا تھا، مگر امی کو اندازہ تھا، ابھی نماز پڑھ کر وہ لیٹتا ہی تھا کہ امی تیر کی طرح کچن سے نکل کر آتیں اور اسے بٹھا کر خود اس کے آگے قرآن کھول کر رکھ دیتی تھیں ’’چاہے ایک رکوع ہی پڑھو مگر پڑھنا ضروری ہے۔‘‘ وہ قطعیت سے بولتیں۔
نماز قرآن کے ساتھ ہم سب کی خوراک پر بھی ان کی خصوصی توجہ ہوتی، پہلے سیب پھر پراٹھے کا ناشتہ دودھ کے ساتھ، بچپن میں ہم بہن بھائیوں کو چائے بالکل نہ دیتی تھیں۔ اسکول جانے سے پہلے ایک چمچ ان کی بنائی ہوئی خصوصی پھنکی(ایک پاؤڈر) کا بھی کھانا ہوتا تھا، چار مغز، بادام اور دکنی مرچوں کا بنا ہوا یہ سفوف ہمارے ذہنوں کو تیز کرنے کے لیے کھلاتی تھیں۔ ہمارا اسکول گھر سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر تھا، اس لیے یہ ناشتہ ہمیں تازہ دم رکھتا تھا۔
امی نے اپنی زندگی میں بڑے نشیب و فراز دیکھے تھے۔ بابا کاروبار کرتے تھے، ہمارے بچپن میں تو بابا کے کاروباری حالات بہت اچھے تھے۔ گھر کے ہر کام پر ماسی لگی ہوئی تھی، یہاں تک کہ ہانڈی میں ڈالنے کے لیے مسالہ تک وہ سل پر پیس کر امی کو دیتی تھی۔ ہمارے کپڑے اور پھل بھی وافر مقدار میں آتے تھے، سال میں کم از کم ایک دفعہ ہم سب سیر و تفریح کے لیے باہر ضرور جاتے تھے۔ ہمارے بابا کو گھومنے پھرنے اور دوست بنانے کا بہت شوق تھا۔
مگر حالات کبھی بھی ایک جیسے کہاں رہتے ہیں۔ آخر حالات نے پلٹا کھایا، مگر امی کے مزاج میں فرق نہ آیا۔ پہلے کیا جانے والا شکر اب اور بڑھ گیا۔ اپنے شوہر کی خدمت اور بچوں کی پرورش میں ایسی مگن رہتیں کہ انہیں احساس بھی نہ ہوتا کہ ان کے پاس کپڑوں یا گھر کے دوسرے سامان کی کچھ کمی ہو گئی ہے۔ ’’ہمیشہ اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو گے تو خوش رہو گے۔‘‘ ہمیں بھی وہ یہی تاکید کرتیں۔
ہمارے اسکول سے آنے پر گھر کا سارا کام وہ نمٹا چکی ہوتیں۔ کھانا تیار ملتا، ان کی تربیت کے مطابق ہم سب نہا دھو کر پہلے نماز پڑھتے پھر سب مل کر کھانا کھاتے۔ امی کے ہاتھ میں ایسا ذائقہ تھا کہ دال بھی مزا دیتی تھی۔ کھانے کے بعد امی کچھ دیر کے آرام کے بعد ہمیں پڑھانا شروع کر دیتی تھیں۔ وہ زیادہ پڑھی لکھی نہ تھیں، صرف میٹرک ہی کیا تھا مگر بچوں کو اعلیٰ مقام تک پہنچانے کی لگن نے انہیں سکون سے بیٹھنے نہ دیا، ہم پانچ بہن بھائیوں کے ساتھ انہوں نے پانچ دفعہ میٹرک کیا۔ جہاں انہیں اپنے اندر کوئی کمزوری محسوس ہوتی، وہ خاندان کے لائق بچوں کے نوٹس لا کر فوٹو اسٹیٹ کروا کر ان سے مدد لیتیں۔ جس زمانے میں ہمارے امتحانات ہوتے نہ وہ خود خاندان کی کسی تقریب میں جاتیں اور نہ ہی اپنے گھر میں کسی کو مدعو کرتیں۔ سب خاندان والوں کو بھی ان کی اس لگن اور جستجو کا پوری طرح اندازہ تھا اور آج ان کی تعزیت کے آنے والے اکثر لوگ ان کی ان قربانیوں کو یاد کر رہے ہیں۔
اور میں سوچ رہی ہوں کہ امی نے جان توڑ محنت کی مگر بھروسہ ہمیشہ اپنے رب پر کیا۔ بچوں کو امتحان کے لیے بھیجنے کے بعد وہ مصلّہ سنبھال لیتی تھیں، منتیں مانتی تھیں اور ہمارے لوٹنے پر جب تک ہم سے پورے پرچے کا احوال نہ پوچھ لیتیں انہیں چین نہیں آتا تھا۔ آج ہم سب بہن بھائی اللہ کے فضل و کرم سے جس مقام پر ہیں یہ اللہ کے کرم کے ساتھ ساتھ انہیں کی محبت اور محنت کی مرہون منت ہے۔
صلۂ رحمی میں بھی وہ انتہائی آگے تھیں۔ ہم لوگ اپنے تایا چچا کے ساتھ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے تھے۔ برابر میں پھپھو اپنی فیملی کے ساتھ رہتی تھیں۔ امی سب کے ساتھ مل کر چلتی تھیں۔ سب کے دکھ درد میں کام آنا ان کی اوّلین ترجیح ہوا کرتا تھا۔ تایا کے انتقال کے بعد ہماری تائی بیس سال زندہ رہیں، وہ امی سے کافی بڑی اور بے اولاد تھیں، اکثر بیمار رہتی تھیں۔ امی ان کی خدمت اور خیال میں کبھی کوئی فرق نہیں آنے دیتی تھیں۔ ہماری دادی بھی کافی ضعیف تھیں اور تقریباً سو سال کی عمر میں ٹانگ کی ہڈی ٹوٹنے اور کافی دن بستر پر رہنے کے بعد ان کا انتقال ہوا۔ امّی نے ان کی بھی اتنی خدمت کی کہ انتقال سے کچھ پہلے انھوں نے امی کو بلا کر پاس بٹھایا اور ان کے ہاتھ چومے۔ امی اکثر اس بات کا ذکر کرتی تھیں، یہ بات ان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔
شوہر کی خدمت بھی ایسی کی کہ ہارٹ اور اپنڈکس کے آپریشن کے بعد جلد ہی صحت مند ہو گئے، لوگ ہنس کے پوچھتے تھے کہ میاں کس چکی کا آٹا کھا رہے ہو۔ بابا دو وقت ہی کھانا کھاتے تھے، ایک ناشتہ اور پھر رات کو جب دیر سے گھر آتے تھے تب کھانا۔ امی سارا دن کے کاموں سے تھک کر سو جاتی تھیں، مگر بابا کے آتے ہی چاق و چوبند ہو جاتیں۔ ایک روٹی ڈال کر کھا نا دے دیتیں اور دوسری روٹی اس وقت ڈالتیں جب دو نوالے رہ جاتے، کیوں کہ بابا کو گرم روٹی پسند تھی۔ پھر جب تک بابا کھانا ختم کرتے‘ امی پھل چھیل کر صاف کر کے رکھ دیتیں۔ کینو ہوتے تو ایک ایک پھانک صاف کر کے رکھتیں۔ انگور کے دانے دانہ توڑ کے رکھتیں۔
خاندان میں اگر کسی فرد کی کسی سے ناراضی ہو جاتی تو سمجھا بجھا کر دوستی کرا دیتی تھیں۔ سب سسرال والے ان کی عزت اور قدر کرتے تھے وہ بھی سب سے بہت عقیدت رکھتی تھیں۔مہمان نواز تو اتنی تھیں کہ چاہے خود کے لیے نہ بچے مگر مہمان کے آگے ہر چیز حاضر کرتی تھیں۔ بعض دفعہ تو چیز کم ہونے کے باعث اپنے بچوں کو بھی مہمان کے ساتھ نہیں بٹھاتی تھیں۔
ہم تو ان کی اولاد ہیں اس لیے ان کی جدائی ہمیں خون کے آنسو رلا رہی ہے، مگر تمام رشتے دار اور ملنے والے بھی ان کی اچھی عادات کے باعث ان کو اچھے لفظوں سے یاد کر رہے ہیں اور میرے خیال میں یہ ان کی کامیابی کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں آخرت میں بھی کامیابی سے نوازے اور ان کی قبر کو نور سے بھردے۔ آمین!l

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں